سندھ کی رنگا رنگ ثقافت
سندھ کا گزشتہ 70 برس میں اور اس سے بھی پہلے برصغیر کی سیاست میں جو کردار رہا ہے، وہ بہت نمایاں اور متحرک رہا ہے۔
سندھ لٹریچر فیسٹول شان سے منایا گیا اور اب اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ اس میں سندھ کے اکابرین نے شرکت کی۔ ادیب، دانشور، شاعر سب ہی اس میں شریک تھے۔ سندھ کا گزشتہ 70 برس میں اور اس سے بھی پہلے برصغیر کی سیاست میں جو کردار رہا ہے، وہ بہت نمایاں اور متحرک رہا ہے۔ کوئی کیسے بھول سکتا ہے کہ تقسیم سے کئی برس پہلے یہ سندھ اسمبلی تھی جس نے تحریک پاکستان میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ اس روایت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے آخری دن ایک سیشن اس موضوع پر ہوا کہ پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں سندھ نے کس طرح بھرپور حصہ ڈالا ہے۔
عوامی حقوق، رواداری اور انصاف کی بات کرتے ہوئے صدیوں پہلے شاہ عنایت کولہو میں پیل دیے گئے تھے اور شاہ لطیف نے اپنی شاعری میں اس سماج کا خواب دیکھا تھا، جس کی تعبیر آج بھی سندھ کو نہیں مل سکی ہے۔ اس ادبی جشن میں شاہ کو اور ان کے کلام کو بار بار یاد کیا گیا۔
بھٹائی سندھ کی اس قدیم روایت کا حصہ اور تسلسل ہیں جو آج سے ہزاروں برس پہلے سانس لیتی تھی۔ سندھ جس طرح بھٹائی اور 'شاہ جو رسالو' پر ناز کرتا ہے، اسی طرح سندھ کو اس بات پر بھی ناز ہے کہ اس کی سرزمین پر دنیا کی قدیم ترین شہری تہذیبوں میں سے ایک نے سانس لی۔ یہ تہذیب جو لگ بھگ پانچ ہزار برس پہلے وجود میں آئی، اس کے آثار 1920 میں پہلی مرتبہ ماہرین آثار قدیمہ کی کھدائی کے نتیجے میں برآمد ہوئے۔ وادیٔ سندھ کی اس تہذیب کے روابط وادیٔ نیل اور دوآبہ دجلہ و فرات کی تہذیبوں سے تھے، جزیرہ نما عرب، مغربی اور وسطی ایشیا میں آثار قدیمہ کی کھدائیوں کے دوران ان علاقوں کے وادیٔ سندھ سے تجارتی تعلقات کے بہت سے شواہد ملے ہیں۔
کھدائی کے دوران موئنجوڈرو سے برآمد ہونے والی اشیا میں پجاری اور رقاصہ کے مجسمے، بیل کی مہریں، گندے پانی کی نکاسی کا انتظام، غلہ ذخیرہ کرنے کے گودام، حمام، زیورات، مٹی کے برتن اور پھولدان شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موئنجوڈرو کی کھدائی کے دوران دنیا کی وہ قدیم ترین بستی تو برآمد ہوئی جسے ماہرین تعمیرات شہری منصوبہ بندی کا شاہکار کہتے ہیں لیکن اس بستی سے کسی قسم کے ہتھیار نہیں نکلے۔
یہ بات سندھ کے قدیم باشندوں کے امن پسند ہونے کی شہادت دیتی ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جب وادیٔ دجلہ و فرات اور وادیٔ نیل کے لوگ بڑی بڑی جنگیں لڑرہے تھے، کسی تہذیب کا ان سے تجارتی روابط رکھنا لیکن ہتھیار بنانے یا خریدنے سے انکار وادیٔ سندھ کے باشندوں کا ایک کمال امتیاز ہے۔ یہی وہ روایت ہے جو تاریخ میں سفر کرتی ہوئی شاہ تک آتی ہے اور ان ہی کو امن کا پیامبر بنا دیتی ہے۔
شاہ لطیف، مغل بادشاہ اورنگ زیب کے آخری زمانے میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان ایک بہت بڑے انقلاب سے گزر رہا تھا۔ ایک طرف مغل سلطنت اپنے زوال کی طرف گامزن تھی، دوسری طرف سات سمندر پار سے آنے والے انگریزوں نے اپنی تجارتی کوٹھیاں مستحکم کرنے کے ساتھ ہی ہندوستان کے تاج و تخت کی طرف بھی نگاہیں ڈالنی شروع کردی تھیں۔
ایک ایسے عالم میں یہ کیسے ممکن تھا کہ سندھ ان واقعات و معاملات سے متاثر نہ ہوتا۔ نادر شاہ درانی کا ہندوستان پر حملہ آور اس کے بعد احمد شاہ ابدالی کی لشکر کشی، بیرونی حملہ آوروں کی ان افواج نے جو لوٹ مار مچائی اور جس طرح بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا اس نے شمالی ہند کے ہر علاقے کو متاثر کیا۔ سندھ نے بھی سیاسی اور سماجی طور پر اس کے اثرات قبول کیے اور یہ زمین جو ہمیشہ سے امن پسند لوگوں کا گہوارہ تھی تصوف کے رنگ میں کچھ اور گہری رنگی گئی۔
شیخ ایاز نے شاہ کی شاعری کی تصویر کشی یوں کی ہے کہ ان کے کلام میں ہرے بھرے لہلہاتے کھیتوں، سرسبزو شاداب چراگاہوں، اونچے نیچے پہاڑوں ، سنسان گھنے جنگلوں ، رواں دواں دریاؤں، ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشموں،خوبصورت جھیلوں اور تالابوں، تپتے ہوئے ریگزاروں، چٹیل میدانوں، بھانت بھانت کے چرندوں پرندوں، درندوں اور قسم قسم کے پھلوں پھولوں اور جڑی بوٹیوں، کشتیوں اور گھوڑوں، ہنستے کھیلتے گنگناتے کسانوں، مچھلیوں کی طرح پانی میں غوطہ لگانے والے مچھیروں ، چھوٹی بڑی کشتیاں کھینے والے ملاحوں، دھونی رمائے ہوئے سادھوؤں، حجرہ نشین صوفیوں اور راج محلوں میں زندگی بسر کرنے والے تاجداروں کی محاکاتی خوبیاں جہاںایک طرف سرزمین سندھ کی ثقافتی اقدار کو حیات جاوداں عطا کرتی ہیں، وہاں دوسری طرف وہ ایک ایسی روحانی ماورائیت کے لیے تشبیہات، استعارات اور کنائے فراہم کرتی ہیں جو ان کے متصوفانہ نظریۂ حیات کو چار چاند لگادیتے ہیں۔
شاہ کے کلام پر ڈاکٹر گربخشانی اور ڈاکٹر ایچ ٹی سورلے کے نام اہم ترین ہیں۔سورلے نے شاہ کے کلام کو انگریزی میں منتقل کیا اور یوں سندھ کی امن پسند اور تصوف کے رنگ میں رنگی ہوئی شاعری کی گونج دور دور تک پہنچی۔
شاہ کو اپنی زمین سے عشق تھا، اس عشق کو انھوں نے لوک داستانوں سے جوڑدیا، یوں ایک ایسی شاعری وجود میں آئی جس سے وطن کی مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ وہ سچائی کو انسان کی بنیاد خیال کرتے تھے اس لیے انھوں نے لکھا کہ ''لوگوں نے سچائی کو مٹا اور دھندلا دیا ہے۔ اب انسان، انسان کا گوشت کھاتا ہے۔ اے دوست ایسی دنیا میں صرف نیکی کی خوشبو رہ جائے گی۔''
شیخ ایاز نے بجا لکھا ہے کہ دنیا کے عظیم ترین شاعروں کی طرح شاہ نے بھی المیہ کیفیات کو روحانی بالیدگی کے لیے ضروری سمجھا ہے۔ انھوں نے مشہور عشقیہ داستانوں کو اس طرح نظم نہیں کیا کہ آغاز سے انجام تک تسلسل باقی رہے، وہ فرض کرلیتے ہیں کہ ان داستانوں کے تمام پہلوؤں سے ہر کس وناکس اچھی طرح واقف ہے اور وہ عوام و خواص کے دلوں میں پہلے سے گھر کرچکی ہیں، اس لیے وہ ان داستانوں کے صرف ایسے پہلوؤں کو اپنے کلام میں پیش کرتے ہیں، جو ان کے بنیادی نصب العین اور مرکزی خیال کے لیے ماورائی اور متصوفانہ استعارات و محاکات کا کام دیں۔ مثلاً سر سوہنی میں جب وہ کچا گھڑا ٹوٹنے اور سوہنی کے ڈوبنے کا ذکر کرتے ہیں تو اس حادثے کی نوعیت ان کی نظر میں کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے:
گھڑا ٹوٹا تو یہ آواز آئی
''نہیں دونوں میں اب کوئی جدائی... شکستِ جسمِ خاکی سے ہے پیدا... ربابِ روح کی نغمہ سرائی... وصالِ یار کی راحت پہ قرباں... طریقِ زہد و رسمِ پارسائی''
سندھی سماج میں جہاں آج عورت ہزاروں برس پرانی روایات کے تحت زندگی بسر کررہی ہے، اس میں شاہ کی شاعری عورتوں کو خود آگہی کی طرف مائل کرتی ہے۔ فرسودہ روایات سے بغاوت پر اُکساتی ہے۔ انھوں نے اب سے سیکڑوں برس پہلے کی لوک داستانوں میں سانس لیتی ہوئی عورت کو اس کے عشق اور محسوسات و کیفیات کو اپنی شاعری کا مرکز و محور بنایا۔
یہ وہ عورت ہے جو اپنی زندگی اور ذات کے فیصلے کرتی ہے اور اس کی قیمت اپنی جان سے ادا کرتی ہے۔ نوری، سسی، سوہنی، ماروی اور مومل ایسی بہادر اور سچی عورتیں ان کی شاعری میں سانس لیتی ہیں۔ ان کے یہ طاقتور نسائی کردار اس بات کا اشارہ ہیں کہ شاہ آنے والے زمانوں کے نقیب تھے اور عورت کو مرد کا دوست اور ہمراز و دمساز جانتے تھے۔ پانچ ہزار برس پہلے کی موئنجوڈور کی رقاصہ 1920 میں کھدائی کے دوران برآمد ہوئی لیکن ہزاروں برس سے سیکڑوں من مٹی کی گہرائی میں سوتی ہوئی اس رقاصہ کے گھنگھروؤں کی آواز شاہ نے سندھ کے ریگستانوں میں سن لی تھی، اس رقاصہ کا رشتہ انھوں نے لوک داستانوں سے جوڑا اور یہ نادیدہ تعلق آج کی عورت سے بھی جڑا ہوا ہے۔
شاہ لطیف کو دربار سے کوئی تعلق نہ تھا۔ انھوں نے اپنا رشتہ عوام سے جوڑا اور آج بھی ان کو دل سے یاد کرنے والے ہزاروں لاکھوں زائرین کا تعلق اسی طبقے سے ہے جسے عوام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ شاہ کی شاعری کا اصل رشتہ ان ہی لوگوں سے ہے جن کے تن پر کپڑے سلامت نہیںہوتے اور جن کے پیر جوتوں کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں لیکن جن کے اندر سچ کا چراغ جلتا ہے۔
آج ہمیں اور ساری دنیا کو جس تشدد، دہشت گردی اور تعصب و نفرت کا سامنا ہے، جتنی بدامنی، قتل و غارت گری اور نا انصافی کے عذاب لوگ جھیل رہے ہیں، اس میں روشن خیالی اور انسان دوستی کے رنگ میں رنگا ہوا شاہ لطیف ، سچل سرمست اور بابا فرید ایسے صوفی شاعروں کا کلام ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ عدم تشدد جو سندھ کی ہزاروں برس قدیم روایت ہے، جس کی شہادت موئنجوڈرو سے کسی ہتھیار کا برآمد نہ ہونا ہے، آج اسے وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے ہم ادب، شاعری، موسیقی اور مصوری کا سہارا لیتے ہیں۔ سندھ لٹریچر فیسٹول منعقد کرنے والوں کو مبارکباد۔
عوامی حقوق، رواداری اور انصاف کی بات کرتے ہوئے صدیوں پہلے شاہ عنایت کولہو میں پیل دیے گئے تھے اور شاہ لطیف نے اپنی شاعری میں اس سماج کا خواب دیکھا تھا، جس کی تعبیر آج بھی سندھ کو نہیں مل سکی ہے۔ اس ادبی جشن میں شاہ کو اور ان کے کلام کو بار بار یاد کیا گیا۔
بھٹائی سندھ کی اس قدیم روایت کا حصہ اور تسلسل ہیں جو آج سے ہزاروں برس پہلے سانس لیتی تھی۔ سندھ جس طرح بھٹائی اور 'شاہ جو رسالو' پر ناز کرتا ہے، اسی طرح سندھ کو اس بات پر بھی ناز ہے کہ اس کی سرزمین پر دنیا کی قدیم ترین شہری تہذیبوں میں سے ایک نے سانس لی۔ یہ تہذیب جو لگ بھگ پانچ ہزار برس پہلے وجود میں آئی، اس کے آثار 1920 میں پہلی مرتبہ ماہرین آثار قدیمہ کی کھدائی کے نتیجے میں برآمد ہوئے۔ وادیٔ سندھ کی اس تہذیب کے روابط وادیٔ نیل اور دوآبہ دجلہ و فرات کی تہذیبوں سے تھے، جزیرہ نما عرب، مغربی اور وسطی ایشیا میں آثار قدیمہ کی کھدائیوں کے دوران ان علاقوں کے وادیٔ سندھ سے تجارتی تعلقات کے بہت سے شواہد ملے ہیں۔
کھدائی کے دوران موئنجوڈرو سے برآمد ہونے والی اشیا میں پجاری اور رقاصہ کے مجسمے، بیل کی مہریں، گندے پانی کی نکاسی کا انتظام، غلہ ذخیرہ کرنے کے گودام، حمام، زیورات، مٹی کے برتن اور پھولدان شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موئنجوڈرو کی کھدائی کے دوران دنیا کی وہ قدیم ترین بستی تو برآمد ہوئی جسے ماہرین تعمیرات شہری منصوبہ بندی کا شاہکار کہتے ہیں لیکن اس بستی سے کسی قسم کے ہتھیار نہیں نکلے۔
یہ بات سندھ کے قدیم باشندوں کے امن پسند ہونے کی شہادت دیتی ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جب وادیٔ دجلہ و فرات اور وادیٔ نیل کے لوگ بڑی بڑی جنگیں لڑرہے تھے، کسی تہذیب کا ان سے تجارتی روابط رکھنا لیکن ہتھیار بنانے یا خریدنے سے انکار وادیٔ سندھ کے باشندوں کا ایک کمال امتیاز ہے۔ یہی وہ روایت ہے جو تاریخ میں سفر کرتی ہوئی شاہ تک آتی ہے اور ان ہی کو امن کا پیامبر بنا دیتی ہے۔
شاہ لطیف، مغل بادشاہ اورنگ زیب کے آخری زمانے میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان ایک بہت بڑے انقلاب سے گزر رہا تھا۔ ایک طرف مغل سلطنت اپنے زوال کی طرف گامزن تھی، دوسری طرف سات سمندر پار سے آنے والے انگریزوں نے اپنی تجارتی کوٹھیاں مستحکم کرنے کے ساتھ ہی ہندوستان کے تاج و تخت کی طرف بھی نگاہیں ڈالنی شروع کردی تھیں۔
ایک ایسے عالم میں یہ کیسے ممکن تھا کہ سندھ ان واقعات و معاملات سے متاثر نہ ہوتا۔ نادر شاہ درانی کا ہندوستان پر حملہ آور اس کے بعد احمد شاہ ابدالی کی لشکر کشی، بیرونی حملہ آوروں کی ان افواج نے جو لوٹ مار مچائی اور جس طرح بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا اس نے شمالی ہند کے ہر علاقے کو متاثر کیا۔ سندھ نے بھی سیاسی اور سماجی طور پر اس کے اثرات قبول کیے اور یہ زمین جو ہمیشہ سے امن پسند لوگوں کا گہوارہ تھی تصوف کے رنگ میں کچھ اور گہری رنگی گئی۔
شیخ ایاز نے شاہ کی شاعری کی تصویر کشی یوں کی ہے کہ ان کے کلام میں ہرے بھرے لہلہاتے کھیتوں، سرسبزو شاداب چراگاہوں، اونچے نیچے پہاڑوں ، سنسان گھنے جنگلوں ، رواں دواں دریاؤں، ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشموں،خوبصورت جھیلوں اور تالابوں، تپتے ہوئے ریگزاروں، چٹیل میدانوں، بھانت بھانت کے چرندوں پرندوں، درندوں اور قسم قسم کے پھلوں پھولوں اور جڑی بوٹیوں، کشتیوں اور گھوڑوں، ہنستے کھیلتے گنگناتے کسانوں، مچھلیوں کی طرح پانی میں غوطہ لگانے والے مچھیروں ، چھوٹی بڑی کشتیاں کھینے والے ملاحوں، دھونی رمائے ہوئے سادھوؤں، حجرہ نشین صوفیوں اور راج محلوں میں زندگی بسر کرنے والے تاجداروں کی محاکاتی خوبیاں جہاںایک طرف سرزمین سندھ کی ثقافتی اقدار کو حیات جاوداں عطا کرتی ہیں، وہاں دوسری طرف وہ ایک ایسی روحانی ماورائیت کے لیے تشبیہات، استعارات اور کنائے فراہم کرتی ہیں جو ان کے متصوفانہ نظریۂ حیات کو چار چاند لگادیتے ہیں۔
شاہ کے کلام پر ڈاکٹر گربخشانی اور ڈاکٹر ایچ ٹی سورلے کے نام اہم ترین ہیں۔سورلے نے شاہ کے کلام کو انگریزی میں منتقل کیا اور یوں سندھ کی امن پسند اور تصوف کے رنگ میں رنگی ہوئی شاعری کی گونج دور دور تک پہنچی۔
شاہ کو اپنی زمین سے عشق تھا، اس عشق کو انھوں نے لوک داستانوں سے جوڑدیا، یوں ایک ایسی شاعری وجود میں آئی جس سے وطن کی مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ وہ سچائی کو انسان کی بنیاد خیال کرتے تھے اس لیے انھوں نے لکھا کہ ''لوگوں نے سچائی کو مٹا اور دھندلا دیا ہے۔ اب انسان، انسان کا گوشت کھاتا ہے۔ اے دوست ایسی دنیا میں صرف نیکی کی خوشبو رہ جائے گی۔''
شیخ ایاز نے بجا لکھا ہے کہ دنیا کے عظیم ترین شاعروں کی طرح شاہ نے بھی المیہ کیفیات کو روحانی بالیدگی کے لیے ضروری سمجھا ہے۔ انھوں نے مشہور عشقیہ داستانوں کو اس طرح نظم نہیں کیا کہ آغاز سے انجام تک تسلسل باقی رہے، وہ فرض کرلیتے ہیں کہ ان داستانوں کے تمام پہلوؤں سے ہر کس وناکس اچھی طرح واقف ہے اور وہ عوام و خواص کے دلوں میں پہلے سے گھر کرچکی ہیں، اس لیے وہ ان داستانوں کے صرف ایسے پہلوؤں کو اپنے کلام میں پیش کرتے ہیں، جو ان کے بنیادی نصب العین اور مرکزی خیال کے لیے ماورائی اور متصوفانہ استعارات و محاکات کا کام دیں۔ مثلاً سر سوہنی میں جب وہ کچا گھڑا ٹوٹنے اور سوہنی کے ڈوبنے کا ذکر کرتے ہیں تو اس حادثے کی نوعیت ان کی نظر میں کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے:
گھڑا ٹوٹا تو یہ آواز آئی
''نہیں دونوں میں اب کوئی جدائی... شکستِ جسمِ خاکی سے ہے پیدا... ربابِ روح کی نغمہ سرائی... وصالِ یار کی راحت پہ قرباں... طریقِ زہد و رسمِ پارسائی''
سندھی سماج میں جہاں آج عورت ہزاروں برس پرانی روایات کے تحت زندگی بسر کررہی ہے، اس میں شاہ کی شاعری عورتوں کو خود آگہی کی طرف مائل کرتی ہے۔ فرسودہ روایات سے بغاوت پر اُکساتی ہے۔ انھوں نے اب سے سیکڑوں برس پہلے کی لوک داستانوں میں سانس لیتی ہوئی عورت کو اس کے عشق اور محسوسات و کیفیات کو اپنی شاعری کا مرکز و محور بنایا۔
یہ وہ عورت ہے جو اپنی زندگی اور ذات کے فیصلے کرتی ہے اور اس کی قیمت اپنی جان سے ادا کرتی ہے۔ نوری، سسی، سوہنی، ماروی اور مومل ایسی بہادر اور سچی عورتیں ان کی شاعری میں سانس لیتی ہیں۔ ان کے یہ طاقتور نسائی کردار اس بات کا اشارہ ہیں کہ شاہ آنے والے زمانوں کے نقیب تھے اور عورت کو مرد کا دوست اور ہمراز و دمساز جانتے تھے۔ پانچ ہزار برس پہلے کی موئنجوڈور کی رقاصہ 1920 میں کھدائی کے دوران برآمد ہوئی لیکن ہزاروں برس سے سیکڑوں من مٹی کی گہرائی میں سوتی ہوئی اس رقاصہ کے گھنگھروؤں کی آواز شاہ نے سندھ کے ریگستانوں میں سن لی تھی، اس رقاصہ کا رشتہ انھوں نے لوک داستانوں سے جوڑا اور یہ نادیدہ تعلق آج کی عورت سے بھی جڑا ہوا ہے۔
شاہ لطیف کو دربار سے کوئی تعلق نہ تھا۔ انھوں نے اپنا رشتہ عوام سے جوڑا اور آج بھی ان کو دل سے یاد کرنے والے ہزاروں لاکھوں زائرین کا تعلق اسی طبقے سے ہے جسے عوام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ شاہ کی شاعری کا اصل رشتہ ان ہی لوگوں سے ہے جن کے تن پر کپڑے سلامت نہیںہوتے اور جن کے پیر جوتوں کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں لیکن جن کے اندر سچ کا چراغ جلتا ہے۔
آج ہمیں اور ساری دنیا کو جس تشدد، دہشت گردی اور تعصب و نفرت کا سامنا ہے، جتنی بدامنی، قتل و غارت گری اور نا انصافی کے عذاب لوگ جھیل رہے ہیں، اس میں روشن خیالی اور انسان دوستی کے رنگ میں رنگا ہوا شاہ لطیف ، سچل سرمست اور بابا فرید ایسے صوفی شاعروں کا کلام ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ عدم تشدد جو سندھ کی ہزاروں برس قدیم روایت ہے، جس کی شہادت موئنجوڈرو سے کسی ہتھیار کا برآمد نہ ہونا ہے، آج اسے وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے ہم ادب، شاعری، موسیقی اور مصوری کا سہارا لیتے ہیں۔ سندھ لٹریچر فیسٹول منعقد کرنے والوں کو مبارکباد۔