طلبا یونین قانونی رکاوٹ کا خاتمہ

طلبا یونین پر پابندی کے بعد جو قیادت سامنے آئی ہے وہ مذہبی اور لسانی جنونیت کا شکار ہے۔

tauceeph@gmail.com

قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد ایک قومی یونیورسٹی ہے، جو 70 کی دہائی میں قائم ہوئی۔ اس یونیورسٹی میں ملک بھر کے طالب علم داخلہ لیتے ہیں، یوں یہ پاکستان کی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔ ڈاکٹر نیر، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، پروفیسر جمیل عمر اور ڈاکٹر خورشید حسین جیسے اساتذہ نے اپنے اپنے شعبوں میں تحقیق میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور تک ایک منتخب طلبا یونین طلبا کی نمایندگی کرتی تھی، مگر طلبا یونین کے ادارے پر قدغن کے بعد قائداعظم یونیورسٹی کے طلبا لسانی گروہوں میں تقسیم ہیں۔ طلبا نے پنجابی، پختون، مہران، بلوچ، سرائیکی اور گلگتی کونسل قائم کی ہیں۔

گزشتہ مئی کے مہینے میں طلبا تفریحی دورے پر شمالی علاقہ جات گئے، جہاں بلوچ اور سندھی کونسل کے طلبا میں ذاتی معاملات پر تکرار ہوئی۔ یہ جھگڑا یونیورسٹی کیمپس میں لایا گیا۔ بلوچ اور سندھی طلبا میں خونریز تصادم ہوا۔ یونیورسٹی بند کردی گئی اور یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے 25 طلبا کو معطل کیا پھر 6 بلوچ طلبا کے داخلے منسوخ کردیے گئے۔

بلوچ کونسل نے انتظامیہ کے اس فیصلے کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے ماننے سے انکار کیا۔ اساتذہ نے وائس چانسلر پر زور دیا کہ نظم و ضبط کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ہنگاموں کے باعث اکتوبر میں یونیورسٹی بند کردی گئی۔ انتظامیہ نے فیسوں میں اضافہ کردیا۔ قومی اسمبلی کی تعلیم کی کمیٹی کے اراکین کے سامنے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف پیش ہوئے۔

انھوں نے وفاقی حکومت سے یونیورسٹی کے لیے 248 بلین روپے فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ منتخب اراکین کی رائے تھی کہ وائس چانسلر صاحب مستعفی ہوجائیں۔ 20 اکتوبر کو یونیورسٹی کھل گئی۔ بلوچ طلبا نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ بعض طلبا یونیورسٹی میں داخل ہونے والی بسوںکے سامنے لیٹ گئے۔ پتھراؤ ہوا، پولیس کو ایکشن کے احکامات جاری ہوئے، پولیس افسران نے مسئلے کے فوری حل کے لیے آنسو گیس استعمال کی اور ڈنڈے برسائے گئے۔ بعض طالب علم گرفتار ہوئے۔ یونیورسٹی کھل گئی۔ بلوچ طلبا کونسل نے احتجاج جاری رکھا۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی خاص طور پر قائداعظم یونیورسٹی آئے اور طلبا سے احتجاج ختم کرنے کو کہا اور مسائل حل کرنے کی یقین دہائی کرائی، یوں بحران وقتی طور پر ٹل گیا۔

انگریزوں کے دور میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں تو برصغیر میں یونیورسٹی کی خودمختاری کا تصور آیا اور پھر طلبا کو اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہوا۔ کانگریس، کمیونسٹ پارٹی اور مسلم لیگ نے اپنی اپنی طلبا یونینوں کے انتخابات میں حصہ لیا۔ سرسید احمد خان کی قائم کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبا یونین قائم ہوئی۔ اس کے ہر سال انتخابات ہوتے تھے۔

علی گڑھ یونیورسٹی کی اس طلبا یونین کے عہدیداروں نے پاکستان کے قیام کے لیے ہندوستان بھر میں مسلمانوں میں رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر پاکستان بننے کے بعد سے طلبا یونین کا ادارہ قائم رہا۔ طلبا کو بالواسطہ طور پر اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق تھا۔ کراچی یونیورسٹی میں 60 کی دہائی میں جب بائیں بازو کی طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (N.S.F) نے طلبا کی براہِ راست اپنے نمایندوں کو منتخب کرنے کی مہم چلائی، جس پر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق قریشی کے دور میں طلبا کو براہِ راست نمایندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہوا۔


سینئر صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن حسین نقی پہلی دفعہ طلبا کے ووٹوں سے کراچی یونیورسٹی طلبا یونین کے صدر منتخب ہوئے، یوں طلبا یونین کے ذریعے طلبا کی تربیت کا عمل شروع ہوا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا یونین کے عہدیداروں کے انتخاب ایک قانون کے تحت ہوتے تھے۔

صدر سے لے کر کونسل کے رکن کے عہدے کے لیے باقاعدہ شرائط تحریر تھیں۔ عہدیداروں کا ہرسال امتحان پاس کرنا لازمی تھا۔ طلبا یونین اپنا بجٹ منتخب کونسل سے منظور کرانے کی پابند تھی جس کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا تھا۔ منتخب صدریونیورسٹی کے اداروں سنڈیکیٹ اور ڈسیپلین کمیٹی وغیرہ میں نمایندگی دی جاتی تھی جس کی بناء پر منتخب نمایندے یونیورسٹی کی پالیسی بنانے اور انتظامی فیصلوں میں شریک ہوتے تھے۔ ملک کی یونیورسٹیوںاور کالجوں میں عمومی طور پر نظریاتی بنیادوں پر انتخابات ہوتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ سینیٹ نے طلبا یونین کو بحالی کے لیے ایک قرارداد منظور کی تھی۔ سابق طالب علم رہنما بصیر نوید آج کل ہانگ کانگ میں قائم ایشین ہیومن رائٹس کمیشن (A.H.R.C) کے روح رواں ہیں، انھوں نے صدر پاکستان کو ایک پٹیشن بھیجی جس میں طلبا یونین کے نہ ہونے کے نقصانات بیان کیے گئے تھے اور صدر پاکستان سے استدعا کی گئی تھی کہ طلبا یونین کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

بصیر نوید کی تحریر کردہ پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ مہذب ممالک میں طلبا یونین ملک کے سیاسی مستقبل کے رہنما پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ طلبا یونین متوسط طبقے کے نوجوانوں کے ایک ایسے سیاسی نظام میں آنے کا دروازہ ثابت ہوتی ہے جو بصورت دیگر زمینداروں، صنعت کاروں اور اشرافیہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ اس طرح کے پلیٹ فارم کو ختم کرنے سے ملک ایسے باصلاحیت افرام سے محروم ہو جاتا ہے۔ بصیر نوید نے مزید لکھا تھا کہ طلبا یونین ختم ہونے سے طلبا میں غیر سیاسی رجحانات کو تقویت ہوتی ہے۔

صدر نے پٹیشن وزارت قانون کو بھجوادی تھی۔ وزارت قانون نے جواب میں لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 8 کی رو سے طلبا یونین بحال ہوچکی ہے۔ وزارت قانون کے سینئر افسر نے یہ تحریر کیا کہ مارشل لاء کے نقش قدم پر چلنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ ملک کا سب سے بڑا قانون آئین سے کوئی بھی دوسرا قانون جو آئین میں وضع کردہ بنیادی قوانین سے بے ربط ہو جائے تو وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 8 کی رو سے کالعدم ہے۔ وزارت قانون کی اس ایڈوائس کی بناء پر اب طلبا یونین کے انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

بائیں بازو کے دانشور ایوب ملک کا کہنا ہے کہ اگر قائداعظم یونیورسٹی میں طلبا یونین متحرک ہوتی تو پھر طلبا لسانی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہوتے۔ گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں ایک غیر رسمی محفل میں کہا تھا کہ 60 اور 70 کی دہائی میں ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں طلبا یونین کے جو عہدیدار منتخب ہوئے تھے وہ موجودہ جمہوری نظام میں اہم کردار ادا کررہے ہیں مگر طلبا یونین پر پابندی کے بعد جو قیادت سامنے آئی ہے وہ مذہبی اور لسانی جنونیت کا شکار ہے۔

وفاق اور صوبائی حکومتوں کو اس بارے میں قانون سازی کرنی چاہیے، طلبا یونین کے قانون کو جامع بنانے کے لیے اساتذہ اور طلبا کے رائے کو اہمیت دینا ضروری ہے تاکہ تمام طلبا اس ادارہ کے ذریعے جمہوری رویہ سے آشنا ہوں اور مشترکہ جدوجہد کے ذریعے تعلیم کو عام اور سستا کرنے اور تعلیمی میار کو بلند کرنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں۔
Load Next Story