کچھ اپنے لئے بھی جی لو یار
اس زندگی پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا آپ کی زندگی پر۔
بہت عرصے بعد میں اپنی عزیز ترین سہیلی سے ملنے اس کے گھر جارہی تھی۔ راستے پر جیسے جیسے گاڑی آگے بڑھ رہی تھی، ویسے ویسے میری سوچ پرانی یادوں کو تلاشنے میں لگی ہوئی تھی۔ اس کی پسند ناپسند، اسکی شرارتیں، عید پر دونوں کے ایک جیسے کپڑے، ایک پلیٹ میں ساتھ کھانا، ایک دوسرے کو اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات بتانا اور دوسرے کی بات کو توجہ سے سننا جیسے دنیا میں اس سے اہم بات تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔
عید پر ایک دوسرے کو کارڈ اور تحائف دینا اور عید کارڈ کو ڈھیر سارے اشعار اور بیل بوٹوں سے سجا کر پیش کرنا۔ ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ کب ہمارا بچپن رخصت ہوا اور ہم نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔ ہماری پسند ناپسند، آپس کی باتوں کے موضوعات، ایک دوسرے سے رازداری والی باتیں تو وقت کے ساتھ تبدیل ہوئیں، لیکن جو چیز مستقل رہی وہ تھی ہماری دوستی۔ سو آج میں اپنی اسی پیاری دوست سے ملنے جارہی تھی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ اسے لال بادام بہت پسند تھے۔ بچپن میں ہم دونوں پڑوس کے پیڑ سے لال بادام توڑ کر بھری دوپہری میں تمام گھر والوں سے چھپ کر، نمک مرچ لگا کر خوب مزے سے کھایا کرتے تھے۔ دوسری چیز جو اس کی من پسند تھی، وہ تھے بیلا موتیا کے گجرے۔ اگرچہ ہمارے گھروں میں کنواری لڑکیوں کو گجرے پہننے کی اجازت نہیں تھی لیکن اسے وہ بہت پسند تھے۔ اس لیے آج میں نے خاص طور پر دیگر تحائف کے ساتھ اس کےلیے موتیے کے گجرے اور لال بادام بھی خریدے تھے۔
میں اپنی خوشی اور یادوں کی بارات میں مگن اس کے گھر پہنچی اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلا اور جو عورت میرے سامنے کھڑی تھی وہ میری دوست جیسی تو لگ رہی تھی مگر وہ میری دوست ہر گز نہ تھی۔ الجھے اور بے ترتیب بال، شکن آلود کپڑے اور حلقہ زدہ آنکھیں۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا کہ آپ فہمیدہ ہی ہیں؟ مگر وہ مجھے پہچان چکی تھی اور خوشی کے مارے میرے گلے لگ چکی تھی۔ ملنے ملانے کے بعد جب ہم سکون سے بیٹھے تو میں نے اسے وہ تحائف دیئے جو میں لے کر گئی تھی۔ موتیے کے گجرے دیکھ کر پہلے وہ چونکی پھر بولی، ''تمھیں آج بھی یاد ہے کہ مجھے کیا پسند ہے؟''
میں نے کہا، ''لو یہ بھی کوئی بھولنے والی بات ہے۔ اور پھر یہ گجرے تو تمھارے فیورٹ ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ شادی کے بعد تم راحیل بھائی سے اپنے لیے خاص طور پر گجرے منگوایا کرتی تھیں۔ تو کیا آج بھی راحیل بھائی تمھارے لیے گجرے لاتے ہیں؟'' میں نے شرارت بھری ادا سے اس کو چھیڑا۔ وہ مسکرائی اور بولی، ''بقول ان کے ہمارا ہنی مون پیریڈ 'اوور' ہوچکا ہے۔ اب ہم بڑے ہوگئے ہیں۔ بچوں کے والدین بن چکے ہیں۔ اب ہمیں یہ چھچھور بازیاں زیب نہیں دیتیں۔ اب ہمیں اپنی خوشی اور پسندیدگی سے زیادہ بچوں اور گھر پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔''
میں نے موضوع بدلنے کےلحے پوچھا، ''اور سناؤ؟ کیا مصروفیات و مشاغل ہیں آج کل؟'' تو وہ بولی کہ مصروفیات تو یہ ہیں کہ اب یہ چار دیواری ہی میری دنیا ہے، ''اور رہ گئے مشاغل، تو وہ کس چڑیا کا نام ہے؟'' میں نے کہا یہ کیا حال بنا رکھا ہے اپنا؟ تو جواب ملا: جو ہے، جیسا ہے، اب تو یہی حال ہے اپنا۔ مگر سچ کہوں بہت اچھا لگا جو تم ملنے آئیں۔ آج تمھارے لائے ہوئے گجرےاور لال بادام دیکھ کر اور تم سے گزرے زمانے کی باتیں کرکے بہت اچھا لگا۔
میری دوست کو تو پتا نہیں واقعی یہ سب اچھا لگا یا نہیں مگر اس سے مل کر میرے ذہن میں ایک سوال ضرور آیا کہ ہم خواتین شادی اور پھر بچے ہوجانے کے بعد اپنے لیے جینا کیوں چھوڑ دیتی ہیں؟ اپنے دل، اپنی خواہشات اور اپنی سوچ کا گلا کیوں گھونٹ دیتی ہیں؟
میں یہ نہیں کہوں گی کہ آپ خود غرض ہو جائیں۔ گھر کی، گھروالوں کی اور بچوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں۔ لیکن خدارا اپنی ذات پر بھی دھیان دیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی یہ ایک ہی زندگی دی ہے۔ اس زندگی پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا آپ کی زندگی پر۔
پورے دن میں زیادہ نہ سہی صرف ایک گھنٹہ آپ اپنی ذات کےلیے جئیں۔ اس ایک گھنٹے میں وہ کیجیے جو آپکا دل چاہتا ہے... کچھ ایسا جسے کرنے سے آپ کو خوشی ملتی ہو۔ چاہیں تو کوئی میگزین/ کتاب پڑھیے، میوزک سنیے، کوئی ٹی وی پروگرام دیکھیے، کوکنگ میں کوئی نئی ڈش ٹرائی کیجیے یا پارلر چلی جائیے۔ بس وہ کیجیے جو آپ کرنا چاہتی ہیں۔
آپ اس مشورے پر عمل کرکے دیکھیے، آپ اپنے اندر ایک مثبت تبدیلی محسوس کریں گی۔ جب آپ اس طرح آیک گھنٹہ ریلیکس کریں گی تو آپ میں روزمرہ کے باقی کام انجام دینے کےلیے نئی توانائی، نئی امنگ اور نیا جذبہ پیدا ہوگا۔
آخر میں بس یہی کہوں گی کہ اے میری پیاری بہنو! برائے مہربانی صرف اس لیے زندہ نہ رہو کہ بعد از وفات تمہیں ''مرحومہ بڑی اچھی بہو، بیوی یا ماں تھیں'' جیسے جملوں سے یاد کیا جائے یا تمہاری قبر پر گلاب کے چند پھولوں کی چادر چڑھا دی جائے۔ کچھ وقت، کچھ ساعتیں اپنے لئے بھی نکالیے۔ اپنے آپ کو، اپنے کام کو خود بھی سراہیے۔ کوئی نہیں دیتا تو نہ دے، اپنے آپ کو خود تحائف دیجیے۔ تھوڑی دیر کو سہی، وہ کیجیے جو آپ کو من کی سچی خوشی دے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
عید پر ایک دوسرے کو کارڈ اور تحائف دینا اور عید کارڈ کو ڈھیر سارے اشعار اور بیل بوٹوں سے سجا کر پیش کرنا۔ ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ کب ہمارا بچپن رخصت ہوا اور ہم نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔ ہماری پسند ناپسند، آپس کی باتوں کے موضوعات، ایک دوسرے سے رازداری والی باتیں تو وقت کے ساتھ تبدیل ہوئیں، لیکن جو چیز مستقل رہی وہ تھی ہماری دوستی۔ سو آج میں اپنی اسی پیاری دوست سے ملنے جارہی تھی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ اسے لال بادام بہت پسند تھے۔ بچپن میں ہم دونوں پڑوس کے پیڑ سے لال بادام توڑ کر بھری دوپہری میں تمام گھر والوں سے چھپ کر، نمک مرچ لگا کر خوب مزے سے کھایا کرتے تھے۔ دوسری چیز جو اس کی من پسند تھی، وہ تھے بیلا موتیا کے گجرے۔ اگرچہ ہمارے گھروں میں کنواری لڑکیوں کو گجرے پہننے کی اجازت نہیں تھی لیکن اسے وہ بہت پسند تھے۔ اس لیے آج میں نے خاص طور پر دیگر تحائف کے ساتھ اس کےلیے موتیے کے گجرے اور لال بادام بھی خریدے تھے۔
میں اپنی خوشی اور یادوں کی بارات میں مگن اس کے گھر پہنچی اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلا اور جو عورت میرے سامنے کھڑی تھی وہ میری دوست جیسی تو لگ رہی تھی مگر وہ میری دوست ہر گز نہ تھی۔ الجھے اور بے ترتیب بال، شکن آلود کپڑے اور حلقہ زدہ آنکھیں۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا کہ آپ فہمیدہ ہی ہیں؟ مگر وہ مجھے پہچان چکی تھی اور خوشی کے مارے میرے گلے لگ چکی تھی۔ ملنے ملانے کے بعد جب ہم سکون سے بیٹھے تو میں نے اسے وہ تحائف دیئے جو میں لے کر گئی تھی۔ موتیے کے گجرے دیکھ کر پہلے وہ چونکی پھر بولی، ''تمھیں آج بھی یاد ہے کہ مجھے کیا پسند ہے؟''
میں نے کہا، ''لو یہ بھی کوئی بھولنے والی بات ہے۔ اور پھر یہ گجرے تو تمھارے فیورٹ ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ شادی کے بعد تم راحیل بھائی سے اپنے لیے خاص طور پر گجرے منگوایا کرتی تھیں۔ تو کیا آج بھی راحیل بھائی تمھارے لیے گجرے لاتے ہیں؟'' میں نے شرارت بھری ادا سے اس کو چھیڑا۔ وہ مسکرائی اور بولی، ''بقول ان کے ہمارا ہنی مون پیریڈ 'اوور' ہوچکا ہے۔ اب ہم بڑے ہوگئے ہیں۔ بچوں کے والدین بن چکے ہیں۔ اب ہمیں یہ چھچھور بازیاں زیب نہیں دیتیں۔ اب ہمیں اپنی خوشی اور پسندیدگی سے زیادہ بچوں اور گھر پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔''
میں نے موضوع بدلنے کےلحے پوچھا، ''اور سناؤ؟ کیا مصروفیات و مشاغل ہیں آج کل؟'' تو وہ بولی کہ مصروفیات تو یہ ہیں کہ اب یہ چار دیواری ہی میری دنیا ہے، ''اور رہ گئے مشاغل، تو وہ کس چڑیا کا نام ہے؟'' میں نے کہا یہ کیا حال بنا رکھا ہے اپنا؟ تو جواب ملا: جو ہے، جیسا ہے، اب تو یہی حال ہے اپنا۔ مگر سچ کہوں بہت اچھا لگا جو تم ملنے آئیں۔ آج تمھارے لائے ہوئے گجرےاور لال بادام دیکھ کر اور تم سے گزرے زمانے کی باتیں کرکے بہت اچھا لگا۔
میری دوست کو تو پتا نہیں واقعی یہ سب اچھا لگا یا نہیں مگر اس سے مل کر میرے ذہن میں ایک سوال ضرور آیا کہ ہم خواتین شادی اور پھر بچے ہوجانے کے بعد اپنے لیے جینا کیوں چھوڑ دیتی ہیں؟ اپنے دل، اپنی خواہشات اور اپنی سوچ کا گلا کیوں گھونٹ دیتی ہیں؟
میں یہ نہیں کہوں گی کہ آپ خود غرض ہو جائیں۔ گھر کی، گھروالوں کی اور بچوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں۔ لیکن خدارا اپنی ذات پر بھی دھیان دیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی یہ ایک ہی زندگی دی ہے۔ اس زندگی پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا آپ کی زندگی پر۔
پورے دن میں زیادہ نہ سہی صرف ایک گھنٹہ آپ اپنی ذات کےلیے جئیں۔ اس ایک گھنٹے میں وہ کیجیے جو آپکا دل چاہتا ہے... کچھ ایسا جسے کرنے سے آپ کو خوشی ملتی ہو۔ چاہیں تو کوئی میگزین/ کتاب پڑھیے، میوزک سنیے، کوئی ٹی وی پروگرام دیکھیے، کوکنگ میں کوئی نئی ڈش ٹرائی کیجیے یا پارلر چلی جائیے۔ بس وہ کیجیے جو آپ کرنا چاہتی ہیں۔
آپ اس مشورے پر عمل کرکے دیکھیے، آپ اپنے اندر ایک مثبت تبدیلی محسوس کریں گی۔ جب آپ اس طرح آیک گھنٹہ ریلیکس کریں گی تو آپ میں روزمرہ کے باقی کام انجام دینے کےلیے نئی توانائی، نئی امنگ اور نیا جذبہ پیدا ہوگا۔
آخر میں بس یہی کہوں گی کہ اے میری پیاری بہنو! برائے مہربانی صرف اس لیے زندہ نہ رہو کہ بعد از وفات تمہیں ''مرحومہ بڑی اچھی بہو، بیوی یا ماں تھیں'' جیسے جملوں سے یاد کیا جائے یا تمہاری قبر پر گلاب کے چند پھولوں کی چادر چڑھا دی جائے۔ کچھ وقت، کچھ ساعتیں اپنے لئے بھی نکالیے۔ اپنے آپ کو، اپنے کام کو خود بھی سراہیے۔ کوئی نہیں دیتا تو نہ دے، اپنے آپ کو خود تحائف دیجیے۔ تھوڑی دیر کو سہی، وہ کیجیے جو آپ کو من کی سچی خوشی دے۔
''سب کےلیے بہت جی لئے، کچھ اپنے لئے بھی جی لو یار!''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔