اسموگ کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرات
اسموگ آنکھوں میں شدید چبھن کے ساتھ سانس اور پھیپھڑے بھی متاثرکر رہی ہے
پنجاب کے متعدد شہر اس وقت شدید اسموگ(دھندلاہٹ) کی زد میں ہیں جس کے باعث معمولات زندگی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، گوکہ محکمہ ماحولیات نے ماحول کو آلودہ کرنیوالی ڈیڑھ سو سے زائد فیکٹریاں سیل کرنے، اورنج لائن ٹرین اور سیف سٹی پراجیکٹ سمیت 14تعمیراتی منصوبوں پرکام روکنے کا نوٹس بھی جاری کردیا ہے، جب کہ پنجاب کی صوبائی وزیر ماحولیات نے اسکول بندکرنے کا عندیہ بھی دیا ہے تاہم ہمارے سرکاری ادارے جس شاہانہ طرز تغافل کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی، یعنی پہلے تو تمام ایسے غیرقانونی کام ہونے دیے جاتے ہیں، محکمہ ماحولیات سمیت دیگر محکمے اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں، جب سر پہ آن پڑتی ہے، تو پھر اس کا حل بھی شاہانہ نکالا جاتا ہے ۔
یعنی فیکٹریاں ، ترقیاتی منصوبے اوراب اسکول بھی بند ۔ اس طرح عوام گھروں میں محصور ہوجائیں گے ، لیجیے نکل آیا حل اسموگ کا، سرکاری سطح پر ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہائیڈروجن سلفائیڈ، فضاء میں آلودگی اورگلوبل وارمنگ دھندکی بڑی وجہ ہیں ۔ جو محرکات اسموگ بننے کے ہیں، ان کے خاتمے کے بجائے عوام کا جینا دوبھرکردیا جاتاہے ۔جو فیکٹریاں سال بھر دھواں چھوڑتی ہیں وہ محکموں کے اہلکاروں کے '' تعاون'' سے اپنا کام جاری رکھتی ہیں ۔ اسموگ آنکھوں میں شدید چبھن کے ساتھ سانس اور پھیپھڑے بھی متاثرکر رہی ہے۔
محکمہ موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسموگ کے خاتمے کا حل صرف بارش ہے اس کے بعد صورتحال بہتر ہوجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں اور لکڑیوں کی ضروریات پورا کرنے کی خاطر درخت کاٹ دیے جاتے ہیں ، شجرکاری نہیں کی جاتی یعنی ہر وہ عمل کیا جاتا ہے جو ماحول کوتباہ وبربادکرنے کا سبب بنے تو بارشیں کہاں سے ہوں گی؟ محکموں کی غفلت سے ماحول میں اتنی آلودگی پھیل چکی ہے کہ عام آدمی کے معمولات زندگی مفلوج ہوگئے ہیں اور ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ فضا میںکاربن کے اخراج سے پیدا ہونے والی اسموگ سے بچنے کے لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ایسے منصوبے بنانے ہوں گے، جو ماحول کے تحفظ کو یقینی بنائیں، ایسے اقدامات اگر جنگی بنیادوں پرکیے جائیں تو تب ہی مسئلے کا دیرپا حل نکلے گا، ورنہ قوم کا مستقبل تباہ وبرباد کرنے میں اسموگ کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔
یعنی فیکٹریاں ، ترقیاتی منصوبے اوراب اسکول بھی بند ۔ اس طرح عوام گھروں میں محصور ہوجائیں گے ، لیجیے نکل آیا حل اسموگ کا، سرکاری سطح پر ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہائیڈروجن سلفائیڈ، فضاء میں آلودگی اورگلوبل وارمنگ دھندکی بڑی وجہ ہیں ۔ جو محرکات اسموگ بننے کے ہیں، ان کے خاتمے کے بجائے عوام کا جینا دوبھرکردیا جاتاہے ۔جو فیکٹریاں سال بھر دھواں چھوڑتی ہیں وہ محکموں کے اہلکاروں کے '' تعاون'' سے اپنا کام جاری رکھتی ہیں ۔ اسموگ آنکھوں میں شدید چبھن کے ساتھ سانس اور پھیپھڑے بھی متاثرکر رہی ہے۔
محکمہ موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسموگ کے خاتمے کا حل صرف بارش ہے اس کے بعد صورتحال بہتر ہوجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں اور لکڑیوں کی ضروریات پورا کرنے کی خاطر درخت کاٹ دیے جاتے ہیں ، شجرکاری نہیں کی جاتی یعنی ہر وہ عمل کیا جاتا ہے جو ماحول کوتباہ وبربادکرنے کا سبب بنے تو بارشیں کہاں سے ہوں گی؟ محکموں کی غفلت سے ماحول میں اتنی آلودگی پھیل چکی ہے کہ عام آدمی کے معمولات زندگی مفلوج ہوگئے ہیں اور ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ فضا میںکاربن کے اخراج سے پیدا ہونے والی اسموگ سے بچنے کے لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ایسے منصوبے بنانے ہوں گے، جو ماحول کے تحفظ کو یقینی بنائیں، ایسے اقدامات اگر جنگی بنیادوں پرکیے جائیں تو تب ہی مسئلے کا دیرپا حل نکلے گا، ورنہ قوم کا مستقبل تباہ وبرباد کرنے میں اسموگ کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔