میری بہن میں شرمندہ ہوں

کسی کو مظلوم کی داستان پر فلم بنا کر آسکر جیتنا ہے تو فورا یہاں چلا جائے


انیس منصوری November 02, 2017
[email protected]

میری بہن، میں شرمندہ ہوں ، بہن مجھے معاف کردو۔ میں کچھ بھی نہ کرسکا، جب تمہیں گلیوں میں برہنہ گھمایا جارہا تھا۔ میری بے بسی اورلاچاری کا یہ عالم ہے کہ میں کسی کا دروازہ نہیں کھلوا سکا، میر ی بہن۔ میں شرمندہ ہوں کہ تم مجھ جیسے غریب کے گھر میں پیدا ہوئی کہ تمھیں بدمعاش ،گاؤں کی گلیوں میں برہنہ گھما رہے تھے اور میری بے بسی نے مجھے مجرم بنا دیا ہے۔کاش! کاش تم میرے گھر میں پیدا ہونے کی بجائے کسی طاقتور کی بہن ہوتیں،کوئی تمھاری طرف نظر بھی کرتا تو اُس کی آنکھیں نکال لی جاتیں، لیکن میں کچھ نہ کر سکا۔ یہ وہ احساس جرم ہے جو اس مجبور بہن کے بھائی کوکھائے جا رہا ہے۔ یہ اُس کمزور بھائی کا دکھ ہے جس کی بہن کو ڈیرہ اسماعیل خان کی گلیوں میں گھمایا گیا۔

دریا سندھ کے مغرب میں واقع ڈیرہ اسماعیل خان سے 60 کلومیٹر دور ایک گاؤں آباد ہے،اگرکسی کو مظلوم کی داستان پر فلم بنا کر آسکر جیتنا ہے تو فورا یہاں چلا جائے۔ اس کہانی میں غربت، ناانصافی، محبت، نفرت،کلچر، جہالت، ظلم، ہیرو، ولن اور بھرپورمصالحہ ملے گا۔ جس پر پاکستان میں تو کوئی آنسو نہیں بہا سکتا لیکن ''گورے'' ضرور انعامات کی بارش کردیں گے۔ ہمیں پتھروں کے زمانے کا انسان ثابت کرکے آپ کا محل ''ڈیجیٹل'' ضرور ہو سکتا ہے اوراگر آپ کی لابی بہت مضبوط ہے تو یہاں کا کچرا بھی وہاں بیچ سکتے ہیں۔آواز لگانا شروع کردیجیے ... آؤ ... آؤ ... میری پیاری ''شریفہ بی بی'' تمھارے ساتھ جو زیادتی ہوئی اُس کی قیمت لگاتے ہیں۔ آؤ ...آؤ۔ تمھارے آنسووں کو دنیا کی مہذب مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ آؤ ... تمھارے پھٹے ہوئے کپڑوں سے ہم اپنے نیم برہنہ کپڑوں کو سی لیتے ہیں اور فیشن کی دنیا میں تہلکہ مچانے کے لیے کیا تم اُسی طرح بھاگ سکتی ہو، جیسے ان ظالموں نے تمھیں برہنہ بھگایا تھا۔

آپ کہانی کو پانچ سو سال پہلے سے شروع کیجیے گا جب سردار اسماعیل خان بلوچ نے شہر آباد کیا تھا، تاکہ آپ بتا سکیں کہ ہم آج تک پانچ سو سال پیچھے ہیں اور لوگ بھرپور تالیاں بجا کر آپ کی واہ واہ کریں۔ تالیوں کا سلسلہ رکنے نہ پائے اس لیے آپ اپنی گاڑی کو فورا اُس کچے راستے پر ڈال دیجیے گا جو وہاں سے 60کلو میٹر دور ہے۔ یہاں آپ کو ریت ہی ریت نظر آئے گی۔ آپ دنیا کو بتایے گا کہ اگر آپ کوئی مریخ وغیرہ پر فلم بنانا چاہیں تو ہماری زمین استعمال کر سکتے ہیں، جہاں پانی دور دور تک نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں عورتیں صبح صبح اُٹھ کر پہلا کام یہ کرتی ہے کہ کسی کنویں،کسی گندے تالاب سے پانی لے کر آتی ہے اور یہیں سے بدنصیب شریفہ کی کہانی شروع ہوتی ہے۔

شریفہ بی بی کی عمر 14 سال ہے۔ عمرکے اُس حصے میں ہے جہاں حسین خیالوں کا راج ہوتا ہے۔ ایک شہزادہ انھیں سب مشکلات سے نکال کر لے جائے گا ۔ اُسے پھر صبح صبح اس طرح پانی بھرنے کے لیے سفر نہیں کرنا پڑے گا۔ پاؤں میں ٹوٹی ہوئی چپل، ماتھے پر پانی کے برتن،اڑتی ہوئی دھول، صبح کی کرنوں میں نہاتی ہوئی سہیلیاں اورخیالوں میں ایک شہزادے کی آمد۔ اُس کا سفر چپل، برتن، سورج، دھول اور خیالوں کے ساتھ پانی کے تالاب کی طرف جاری تھا کہ ایک دم سارا منظر بدل گیا۔

اُسے محسوس ہوا کہ بہت سی نظریں اُس کے جسم کا گھیراؤکررہی ہے۔اُس کے ساتھ چلتی ہوئی ماں اور سہیلیوں نے بھی دیکھ لیا کہ بہت سے قدم تیزی سے اُن کی طرف بڑھ رہے ہیں،انھوں نے اپنی رفتار بڑھالی۔ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کچھ لوگ بھاگتے ہوئے ان کے سامنے آگئے اور راستہ روک لیا۔ایک بدمعاش نے شریفہ بی بی کا ہاتھ زبردستی پکڑا تو پانی کا برتن نیچے گرگیا۔ ماں بیچ میں آئی تو ظالموں نے اُسے مارنا شروع کردیا۔ لڑکیوں نے چیخیں ماریں تو صحرا میں کوئی سُننے والا نہیں تھا یہ لوگ گاؤں سے بہت دور تھے۔ وہ ظالم لوگ شریفہ بی بی کو اٹھا کر اپنے گاؤں لے گئے۔ ماں چیختی رہی، لیکن کوئی سُننے والا نہیں تھا۔ ایک طرف ماں چلا رہی تھی، بیٹی کو ظالم اُٹھا لے گئے تھے اور ہم نے کانوں کو بند کیا ہوا تھا۔

وہ لوگ شریفہ بی بی کو اپنے گاؤں لے گئے، اُسے بے لباس کیا، وہ چیختی رہی، لیکن کوئی سُننے والا نہیں تھا۔ اُسے کہا گیا کہ اب گاؤں کی گلیوں میں گھومتی رہو۔ وہ ایک دروازہ کھٹکھٹاتی۔ جیسے ہی دروازہ کھلتا۔وہ مدد کی درخواست کرتی۔ لیکن لوگ پیچھے کھڑے ہوئے بدمعاش دیکھ کر دروازہ بندکردیتے، وہ دوسرا دروازہ بجاتی، وہ لوگوں سے کہتی مجھے ایک چادر دے دو۔ لیکن خوف کا یہ عالم تھا کہ کوئی شریفہ کو چادر نہیں دے رہا تھا۔ ظالم لوگ اس لڑکی کی ویڈیو بناتے رہے۔اس وقت تک ماں اپنے گاؤں پہنچ چکی تھی۔ اُس نے سب کو بتایا اور لوگ بھاگتے ہوئے جب دوسرے گاؤں پہنچے تو دیکھ کر حیرت میں رہ گئے کہ ان کی بیٹی گاؤں کی سنسان گلیوں میں پاگلوں کی طرح گھوم رہی ہے۔ بدمعاش قہقہے لگارہے ہیں اور ہرگھرکا دروازہ بند ہے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو چادر دی۔ تو بدمعاشوں نے کہا کہ یہ تمھارے جیسے لوگوں کے لیے سبق ہے۔ آج کے بعد ہماری بات نہیں مانی تو ابھی اس برہنہ گھمایا ہے۔ بعد میں سب کے سامنے اس کی عزت بھی محفوظ نہیں رکھیں گے۔ کمزور باپ اپنی بیٹی کو چھپائے وہاں سے چلا گیا۔

کمزور تھا۔وہ طاقتور تو نہیں جس کی ایک ٹویٹ پر اُسی دن ڈاکٹرکو نوکری سے نکال دیا گیا جب شریفہ بی بی تھانے کے باہر درخواست کر رہی تھی کہ اُس کے ساتھ انصاف کیا جائے، مگر مقدمہ تک درج نہیں ہو سکا۔ پولیس نے شریفہ بی بی اور اُس کے گھر والوں کو تھانے سے نکال دیا،کوئی نہیں جاگا۔ خیبر پختوانخوا کی زبردست پولیس نے مثالی کام کردیا۔ دوسرے دن یہ با ت ڈیرہ کے ایک صحافی کو معلوم ہوئی اُس نے اپنے ٹی وی چینل کو دی اور پھر دو دن بعد اس کیس کا مقدمہ درج ہو سکا، لیکن شریفہ بی بی کی ویڈیو اب تک ہر جگہ منتقل ہو چکی ہے۔

ہمارے بڑے بڑے ہدایتکاروں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے پاس کتنا زبردست اسکرپٹ آچکا ہے۔ جس میں کہانی ہی کہانی ہے۔ شریفہ بی بی کا قصور بھی تو سُن لیں۔ جس سے آپ کی کہانی ''گورے'' ہاتھ کے ہاتھ لے لیں گے۔ الزام یہ تھا کہ شریفہ بی بی کے بھائی کا کسی دوسرے گاؤں کے طاقتور آدمی کی بیٹی کے ساتھ ''افئیر'' ہے۔ جس پر ایک جرگہ بلایا گیا ۔ جرگے میں فیصلہ ہوگیا، لیکن کیونکہ ہمارے غیرت مند، امیر اور طاقتور لوگوں کا مسئلہ تھا۔ اس لیے وہ غریب کو سبق سکھانا چاہتے تھے۔

انھوں نے ایک بار پھر عورت کی عزت سے کھیلنے کو اپنی ناموس اورطاقت سمجھا۔ انھوں نے اپنی عظمت کا جھنڈا گاڑھنے کے لیے یہ سوچا کہ ایک لڑکی کو اُٹھایا جائے ۔انھوں نے اپنا نام تاریخ میں رقم کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اُس لڑکی کو پھر برہنہ پورے گاؤں میں گھمایا جائے۔ انھوں نے اپنی شان قائم رکھنے کے لیے گاؤں والوں سے کہا کہ کوئی اسے چادر نہ دے۔ انھوں نے تاریخ کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ ویڈیو بنائی۔ ایک بار پھر انھوں نے خاص لوگوں کو ''گورا'' مواد دے دیا ۔ مگر وہ بھائی کیسے جیے گا۔ و ہ ماں کیسے اب گاؤں میں پانی بھرنے جائے گی، وہ باپ اپنی جھُکی ہوئی کمرکے بعد نظر اُٹھا سکے گا۔ شریفہ بی بی کا شہزادہ کیا اب آئے گا۔ شریفہ بی بی کس سے پوچھے کہ پولیس نے اُسے تھانے سے کیوں نکالا۔نئے پاکستان کے علمبردار کہاں ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔