استعماریت اور پاکستان دسواں حصہ
ارض حجاز سے اٹھا ایک قافلہ مصر کے مقام سے اس تکون لکیر سے کٹ کر یورپ کے اسپین پہنچا
استعماری ڈگڈگی: تہذیبوں کی قدیم ترین سر زمین بابل پرکی گئی تحقیقات جب لگ بھگ 26/27 صدیوں کے تاریخی مادی ثبوتوں سمیت جناب حسین ؓ ابن علیؓ کی قیادت میںاسی خطہ زمین بابل پر تکمیل پذیر ہوئیں جہاں سے ان کی ابتداء کو بیان کیا گیا تھا۔ جس میں واضح طور دیکھا جانا ممکن ہوا کہ جناب ابراہیم ؑنے نمرود سے، موسیٰ ؑنے فرعون سے، ارض فلسطین پر بنی اسرائیل سے ان کے انبیائے کرام علیہ والسلام نے اور جناب حسین ؓ ابن علی ؓ نے یزید سے کسی جمہوری قدروں کے رائج کرنے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔عوام کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے جانے،اسکول ومدارس تعمیر کیے جانے، یتیم خانے بنائے جانے کے مطالبے نہیں کیے تھے، بلکہ انھوں نے لاینال عہدالظالمین کے نکتے پر جناب ابراہیم ؑکے پروردگارکے بنائے اور بتائے گئے آئین کے مکمل طور اطلاق یا پھر اپنے لاتعلق ہوجانے کے مطالبے کیے تھے۔
نمرود نے لاتعلقی اختیارکی۔ فرعون من فناح نے کھلی نشانیوں سے خائف ہوکر لاتعلقی کا اعلان توکیا تھا لیکن بعد میں اس کے مکر جانے پر جناب ابرہیم ؑکے پروردگار نے اسے نشان عبرت بنا ڈالا ۔ڈاکٹر مورس بوکائی کی جانب سے فرعون من فناح کے جسم پر نمک کے ذرات کی موجودگی سے اس کی طبعی موت کی بجائے اس کے پانی میں ڈوب کر ہلاک ہونے کی تصدیق کرنے کے بعدکیا۔ اقوام عالم کے لیے جناب ابراہیم ؑکے پروردگار پر ایمان لانے اور آئین ابرہیمؑ کے عملی اطلاق کے علاوہ بھی کوئی راستہ بچتا دکھائی دیا جاتا ہے؟اس کے باوجود اگر اقوام عالم تکون کو اپنی پیشانی پر سجائے رکھنے والے ڈالرکے پیچھے دیوانہ وار بھاگنے میں مگن رہتی آرہی ہیں تو کیا آج ان کی حالت زارکسی نشان عبرت بن جانے سے کم معلوم ہوتی دکھائی دی جاتی ہے؟جس میں آپ استعماریت کی ڈگڈگی پر یورپی ممالک اور امریکا بہادر کوکسی بندرکی طرح اپنے کرتب دکھاکر اقوام عالم سے''انعامات''وصول کرتے رہنے پر مجبور ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
راہ گم کردہ: جناب ابراہیم ؑ کی تحقیقات وتعلیمات کی اتنی کھلی نشانیوں کو سچ ثابت ہوتے دیکھ کر حقیقت کے متلاشی کو جناب ابرہیم ؑ سے قبل کی تاریخ کو اس کے تمام تر مادی ثبوتوں کے ساتھ تسلیم کرنا ناگزیر دکھائی دیاجاتا ہے۔ جس میں حضرت انسان کو بتایا گیا ہے کہ اگر انسان کے رائج مادی نظام تمدن کی برکات سے ماحولیاتی تبدیلیاں حیات کائنات کے لیے خطرہ بن جائیں، تو وہ جناب ابرہیم ؑکے پروردگارکی جانب سے جناب نوح ؑ کی نصرت کو ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ جس میں انسانی بقاء کی راہ میں رکاوٹ بننے والے تمام تر دنیاوی و مادی رشتے وتعلق کو ختم کرنے کادرس ملتا ہے۔
جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسان جناب ابراہیم ؑکے پروردگارکے آئین پر عمل پیرا ہوا تو کرہ ارض پر موجود ہر جاندارکا صرف ایک جوڑا ہی اس کی نسل کے تسلسل کو بچانے کے لیے کافی ہے تو پھر کیوں کر انسان آج اپنی بقاء کے لیے پریشان وسرگرداںانسانی آبادی کے لائق فلکی اجسام کی تلاش میں، شیروں بھالوؤں،گیدڑوں، بھیڑیوں، ہاتھیوں، مچھلیوں سمیت خشکی وپانی پر رہنے والی مخلوقات کے نام نہاد تحفظ کے نام پر لاکھوں ڈالرکے بے جاء اسراف میں مصروف دکھائی دیا جاتا ہے؟کیا ان کو اندھوں سے بھی زیادہ راہ گم کردہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ جن کو کرہ ارض پر زندگی کے اتنے سارے لوازمات بغیر کسی معاوضے ومحنت کے دستیاب ملے ہوئے ہیں، لیکن اس کے باوجود جو انسانوں سمیت یہاں بسنے والی''زندگی''کو عذاب بناکر فلکی اجسام پر''صرف اپنا بسیرا'' بسائے جانے کے خواب خرگوش میں مست ہیں؟
برملہ تصدیق:جناب نوح ؑسے لاکھوں کروڑوں صدیاں قبل جناب آدم ؑکے بیٹوں نے بھی انسان کے جبلی وسفلی جذبات سے مغلوب گروہ سے اپنی لاتعلقی کے اظہارکو اپنایا ہوا تھا، اگر اقوام عالم کی شکل میں موجودہ عالم انسانیت کے مختلف گروہوں پر ایک نظر ڈال لی جائے تو اس میں ہمیں صرف چائنہ کاخطہ ہی ایسانظر آتا ہے کہ جہاں خونریز جبلت وسفلت سے اپنی لاتعلقی کے اظہار کا تسلسل عملی طور دکھائی دیاجاتا ہے جس کی سب سے بڑی سچائی دیوار چین ہے۔ تاریخ کے طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام انسانی گروہوں کی تاریخ کو کرہ ارض پر کسی سمندر میں اٹھنے والی بڑی بڑی لہروں کی مانند آگے پیچھے پلٹے الٹتے دیکھنے کی کوشش کرے،کیونکہ جناب ابراہیم ؑکے بعد ایک طرف فارس سے یونان ومصر تک اور مصر سے یونان وفارس تک دیوتائی تسلط میں سفلی وجبلی جذبات سے مغلوب انسانوں نے ایک تکون لکیربنالی ہوئی ہے۔ اس میں ایک قافلہ جناب ابراہیم ؑکی قیادت میں ایک طرف بابل سے قدیم کنعان (فلسطین ومصر تک اور مصر وفلسطین سے ارض حجاز تک اپنے نظریے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے اپنا سفر طے کرتا ہوا ملتا ہے۔ جس کا تسلسل جناب حسین ؓ ابن علی ؓ کی قیادت میں ارض حجاز سے واپس قدیم ارض بابل (کربلا /عراق) تک آتے ہوئے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ جس نے اس تکون میں دیوتائی تسلط کی بجائے لاینال عہدالظالمین کے قابل عمل مساوات کی روح پھونکی۔
ارض حجاز سے اٹھا ایک قافلہ مصر کے مقام سے اس تکون لکیر سے کٹ کر یورپ کے اسپین پہنچا۔ جہاں کیسٹل کی ازابیلہ اور اراغوں کے فرڈیننڈ کی مدد سے کرسٹوفرکولمبس نے استعماریت کے موجودہ ہر اول دستے یعنی امریکا کو دریافت کیا۔جب کہ ان صدیوں میں دیوتائی تسلط کے مارے یورپی انسان کسی سیلاب کی مانند سینوں پر صلیب سجائے پورے یورپ کو دیوتائی تسلط کی آگ میں جلاتے قسطنطنیہ (موجودہ استنبول/ ترکی) پہنچے۔ جس میں صرف اور صرف خون کی ندیاں بہتی ملتی ہوئی ملتی ہیں۔
جب کہ اس کے بالکل مدمقابل چائنہ کی جانب سے منگولوں کی شکل میں ٹڈی دل کی طرح انسانی گروہ خون کی ندیاں بہاتے اسی قدیم ارض بابل (بغداد)تک پہنچتے ہوئے ملتے ہیں۔ جہاں تحقیقات ابراہیم ؑکی شروعات وتکمیل ہوئی تھی۔جب کہ اس کے ساتھ ارض حجاز سے آئین ابراہیم ؑکے مراکزبھی مدینہ سے شام،کوفہ ،مصر، بغداد سے ہوتے ہوئے اسی قسطنطنیہ میں اپنے اختتامی ارتقائی مرحلے کو پہنچا۔ جسے تاریخ خلافت عثمانیہ کے نام سے بیان کرتی ہوئی ملتی ہے۔انھی صدیوں کی غیر تحریف شدہ تاریخ قیام پاکستان کے اغراض ومقاصد کو بیان کرتے ہوئے اس کی آفاقی تخلیق واستحکام کو واضح کرنے اور چائنہ سے اس کے نظریاتی وروحانی تعلق کو سمجھانے کا بہت سارا سامان اپنے اندر سموئے ہوئے ملتی ہے۔ موجودہ عالمی معروضی حالات بھی جس کی تصدیق وتوثیق کرتے ہوئے دستیاب ملتے ہیں۔ (جاری ہے)