جامعہ کراچی شعبہ بصری علوم میں ضروری اوزار ہی موجود نہیں عبدالہادی شیخ

طلبااسائمنٹ کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، جامعہ کراچی کے طالب علم کے طور پر تین پہیوں کی گاڑی ’’کولاچی‘‘ ڈیزائن۔۔۔

طلبااسائمنٹ کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، جامعہ کراچی کے طالب علم کے طور پر تین پہیوں کی گاڑی ’’کولاچی‘‘ ڈیزائن کرنے والے نوجوان کی گفتگو ۔ فوٹو : فائل

یوں تو تبدیلی کا عمل ابتدائے آفزینش سے جاری ہے لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں بیتنے والی تبدیلیاں، اس دوران حاصل ہونے والی جدید سہولیات کے باعث کئی گنا زیادہ بڑھ گئیں۔

اس تبدیلی کو جب اس ہی لمحے شعور کی منازل طے کرنے والے عبدالہادی شیخ نے دیکھا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، تیزی سے بدلتی چیزوں نے ان کے اندر چھپی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز لگائی اور نت نئی ایجادات سے باخبر رہنا اور ڈیزائننگ کرنا ان کا محبوب مشغلہ بن گیا۔

عبدالہادی شیخ کی پیدایش کراچی کی ہے، لیکن اپنے والد کی مصروفیات کے سبب وہ کم سنی میں ہی سعودی عرب چلے گئے، جہاں سے 2002ء میں واپسی ہوئی، ڈی ایچ اے پبلک اسکول سے او لیول کے بعد بحریہ فائونڈیشن کالج سے انٹر (پری میڈیکل) کیا۔ والد پروفیسر نثار احمد شیخ، عباسی شہید اسپتال میں آنکھوں کے سرجن ہیں، تو بڑے بھائی بھی شعبہ طب سے وابستہ ہیں، لہٰذا عبدالہادی پر بھی ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لیے دبائو تھا، مگر قدرت شاید انہیں ان کے فطری شعبے کی جانب لے جانا چاہتی تھی، جب کہ انہوں نے اس صلاحیت کو صرف شوق ہی سمجھا تھا اور انہیں خیال ہی نہ تھا کہ ان کی صلاحیتوں سے میل کھاتا ایک شعبہ بصری علوم کے نام سے جامعہ کراچی میں موجود ہے۔

ہوا یوں کہ انٹر کے بعد وہ اپنے تعلیمی شعبے کے چنائو میں تذبذب کا شکار تھے، اور جب ایک ایک کرکے تمام اہم شعبوں میں داخلے کی تاریخیں نکلتی چلی گئیں تو انڈس ویلی اسکول کی ایک طالبہ کے توسط سے معلوم چلا کہ شعبہ بصری علوم تو واقعی ان کے رجحان کے عین مطابق ہے، لہٰذا انہوں نے اس کا رخ کیا، ابتداً بصری علوم کے شعبے گرافک ڈیزائننگ کی طرف دل چسپی رکھتے تھے، لیکن جب انڈسٹریل ڈیزائننگ کا پتا چلا کہ اس میں گرافکس کے برعکس چیزوں کو باقاعدہ عملی شکل دی جاتی ہے، کچھ تکینکی معاملات اور ڈیزائن لینگویج بھی ہوتی ہے تو اس شعبے کا انتخاب کیا اور انڈسٹریل ڈیزائننگ کے چار سالہ گریجویشن پروگرام سے 2012ء میں فارغ ہوئے۔

انڈسٹریل ڈیزائننگ میں انہوں نے اپنی توجہ لوگوں کی ذاتی سواری پر مرکوز کی، اور تین پہیوں کی ایک نئی گاڑی ''کولاچی'' ڈیزائن کی، جامعہ کراچی میں اس پراجیکٹ پر انہیں ''اے'' گریڈ ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ ''ہمارے یہاں ذاتی سواریوں کے لیے دو پہیوں والی موٹر سائیکل ہے یا پھر چار پہیوں کی گاڑیاں۔ موٹر سائیکل اگر چہ کارآمد اور سستی سمجھی جاتی ہے، لیکن دو پہیوں کی یہ سواری کسی طرح بھی خطرات سے خالی نہیں۔ اس کے بعد رکشا کچھ بہتر سواری ہے، لیکن ہمارے یہاں اسے بائیک اور گاڑی کی طرح ذاتی سواری نہیں بنایا جاتا۔

اس لیے صرف موٹر سائیکل یا گاڑی ہی ذاتی سواریوں کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں، جب کہ گاڑی ہر ایک کی دسترس میں بھی نہیں۔ بس اس ہی متبادل راستہ نکالنے کی کوشش کا نتیجہ تین پہیوں کی گاڑی ''کولاچی'' کی صورت میں سامنے آیا۔ انٹرنیٹ پر ہمیں اس کے لیے ڈیزائن تو بہت مل جاتے ہیں لیکن قابل عمل بہت کم لگتے ہیں۔ ''کولاچی'' میں بائیک اور گاڑی، دونوں کی ٹیکنالوجی کو ملا کر ایک نئی چیز بنائی گئی، تاکہ سہولت، تحفظ اور آرام کے ساتھ آمدورفت کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ ہم نے حقیقتاً ایک موٹر سائیکل کو گاڑی کے قریب کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ کم سے کم گنجایش میں آرام دہ سفر ممکن ہو، اس ہی مناسبت سے ہم نے اسٹیئرنگ اور نشستوں کی تنصیب کی ہے۔ 200 سی سی انجن کی حامل ''کولاچی'' میں چار افراد کے بیٹھنے کی گنجایش ہے۔''


لوگوں کی ذاتی سواری کو سستا اور آسان بنانے کی خاطر عبدالہادی شیخ نے عملاً متعدد بار رکشا چلا کر دیکھا، تاکہ تین پہیوں کی اس سواری کی مشکلات کو اپنی گاڑی میں دور کیا جا سکے، اس حوالے سے انہوں نے بتایا ''اس کے لیے مناسب قیمت اور عام دست یاب پرزے تجویز کیے ہیں اور اس کا ڈیزائن ایسا رکھا ہے کہ دیکھنے میں عجوبہ معلوم نہ ہو، رکشے کے دو پہیے پیچھے اور ایک آگے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات موڑ کاٹنا خطرناک ہو جاتا ہے، اس لیے ہم نے ایک پہیا پیچھے اور دو پہیے آگے رکھے ہیں، تاکہ گاڑی کا اگلا حصہ کشادہ رہے اور اسے مڑنے میں مشکل نہ ہو، نیز رکشے کی طرح اس کی اگلی نشست تنگ نہ ہو۔ حادثے کی صورت میں گاڑی کے الٹنے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اس کی اونچائی بھی کم کی ہے۔

اس کے ساتھ رکشے کے بارہ انچ کے پہیوں کے مقابلے میں اٹھارہ انچ کے پہیے لگائے ہیں۔ انجن کا بوجھ ہلکا رکھنے کے لیے گاڑی کی باڈی دھات کے بہ جائے فائبر گلاس کی بنائی ہے، ساتھ ہی اسے مزید محفوظ بنانے کے لیے اندرونی ڈھانچا مضبوط پائپوں کی مدد سے جوڑا گیا ہے۔ گاڑی میں ٹھنڈک کے لیے اس میں ''ونڈ ٹربائن سسٹم'' لگایا گیا ہے، جس کے تحت باہر سے آنے والی ہوا پانی کے ذریعے ٹھنڈی ہو کر گزر جائے گی، جب کہ ہوا سے چلنے والی اس چرخی کے گھومنے سے گاڑی کی ڈی سی موٹر بھی چارج ہوگی، جو پیٹرول ختم ہونے کی صورت میں انجن کو متبادل کے طور پر مدد فراہم کرے گی۔ اسے خود کار نظام کے تحت پیٹرول کے ساتھ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے پیٹرول کا خرچ بھی کم ہوگا، کیوں کہ پھر صرف بلندی پر چڑھنے کے لیے ہی گاڑی پیٹرول پر آئے گی اور پھر اس بیٹری پر منتقل ہو جائے گی۔

صرف بیٹری کے بل بوتے پر چوں کہ طویل سفر ممکن نہیں، اس لیے دونوں چیزوں کو نہ صرف ساتھ ملایا ہے بلکہ خود کار طریقے سے اس کی چارجنگ کا انتظام بھی کیا ہے، اگرچہ چارجنگ کی رفتار قدرے سست ہے لیکن گاڑی جتنا چلے گی، اتنا یہ چارج ہوتی رہے گی، پیٹرول سے اگر ایک لیٹر پر تیس کلو میٹر چلیں گے تو پھر اس بیٹری کی مدد سے مزید دس کلو میٹر تک کا سفر ممکن ہوگا۔ اس ہی طرح ایندھن کی مد میں بڑی بچت ممکن ہے۔ اس کے علاوہ بیٹری پیٹرول ختم ہونے کی صورت میں متبادل یا اس کے ساتھ ساتھ معاون کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس بیٹری کی مدد سے گاڑی کی بتیاں جلائی جا سکتی ہیں، ریڈیو یا کیسٹ پلیئر چل سکتا ہے اور موبائل بھی چارج ہو سکتا ہے۔ اگر صرف پیٹرول پر گاڑی چلائی جائے تو پھر صرف بیٹری کی مدد سے دس سے پندرہ کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا جا سکتا ہے۔''

جامعہ کراچی کے شعبہ بصری علوم کے حوالے سے عبدالہادی شیخ نے انکشاف کیا کہ ''یہاں ضروری اوزار ہی موجود نہیں اور طلبا اپنے اسائمنٹ کے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ ایک کام کے لیے ایک جگہ جانا ہے تو دوسرے کام کے لیے دوسری جگہ کی دوڑ لگانی ہے۔ مجھے جہاں اب بڑے صنعت کار اداروں سے مایوسی ملی ہے وہاں مجھے اپنے اس کام کی تکمیل کے لیے چھوٹے مکینکوں کی بہت مدد اور تعاون حاصل رہا۔''

گاڑی کی لاگت کے حوالے سے انہوں نے بتایا ''تھوک کے حساب سے تیاری میں ہماری گاڑی کی لاگت سوا دو لاکھ روپے تک ہوگی، البتہ انفرادی طور پر اگر کوئی بنوانا چاہے تو اس کی لاگت تین سوا تین لاکھ تک ہوگی۔''

تین پہیوں کی یہ گاڑی وسائل کی مشکلات کے باعث ابھی تک عملی شکل میں نہیں آسکی، اس حوالے سے عبدالہادی شیخ بتاتے ہیں ''اس کے لیے مقامی گاڑی سازاداروں سے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے مایوس کیا، ہمارے یہاں ہر چیز کی لابی بنی ہوئی ہے۔ اب مجھے اس کے لیے ذاتی طور پر پیسہ لگانے والوں کی تلاش ہے، تاکہ اس کا عملی نمونہ (پروٹو ٹائپ) بنایا جا سکے، اور معاملہ آگے بڑھے۔ ابتدائی سطح پر ہم کم سے کم دس نمونے بنا لیں تو یہ ایک اچھا قدم ہوگا۔ اس وقت اس کام کی سرپرستی مسئلہ ہے، اس کے بعد آگے کے مراحل طے ہوں گے۔ اگر تمام ضروری وسائل موجود ہوں تو ہم اس کا عملی نمونہ دو ماہ میں تیار کر سکتے ہیں۔ ایک دو لوگوں سے اس حوالے سے بات چیت جاری ہے، امید ہے رواں سال کے آخر تک اس گاڑی کو عملی شکل دینے میں کام یاب ہوجائیں گے۔''

اپنے کام کے لیے مشکلات کے باوجود پُر عزم عبدالہادی شیخ کا کہنا ہے کہ میں اپنے مقصد کے حصول میں مصروف ہوں اور ہمت نہیں ہاری۔ فیس بک پر بھی انہوں نے کولاچی کا صفحہ بنا رکھا ہے، جسے اب تک تین سو لوگوں نے پسند کیا ہے۔
Load Next Story