جامعہ اردو ماضی سے حال تک کا سفر
اس مادر علمی کے کتنے ہی مسائل آج بھی حل طلب ہیں
قیام پاکستان کے بعد بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ہماری قومی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے 1949ء میں ''اردو کالج'' قائم کیا، تاکہ طلبہ اپنی قومی زبان میں مختلف علوم کی اعلا تعلیم حاصل کر سکیں۔
کچھ ہی عرصے میں کالج میں فنون کے ساتھ سائنسی علوم کی تدریس کا بھی آغاز ہوا۔ بابائے اردو اور ان کے پُرخلوص رفقا اور محبان اردو کی بے لوث کاوشوں کے سبب ادارۂ ترقیات کراچی نے 6 اپریل 1966ء میں یونی ورسٹی روڈ کراچی میں 20 ایکڑ زمین مہیا کردی اور پھر شعبۂ سائنس بابائے اردو روڈ سے یہاں منتقل کر دیا گیا، یہ نئی عمارت اردو سائنس کالج کے نام سے موسوم ہوئی، جس کے پہلے مشترکہ پرنسپل میجر آفتاب حسن رہے۔
ستر کی دہائی میں دیگر تعلیمی اداروں کی طرح اردو کالج کو بھی صوبائی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا، بعدازاں صدائے احتجاج بلند ہوئی تو 1975ء میں یہ مرکزی حکومت کے زیرانتظام آگیا اور معاملات کی نگرانی کے لیے اردو آرٹس اور سائنس کالج کے علیحدہ علیحدہ بورڈ آف گورنرز تشکیل دیے گئے، جن میں صدر نشین وفاقی وزیر تعلیم، نائب صدر نشین وفاقی سیکریٹری تعلیم، جب کہ معتمد پرنسپل اور نام زد ماہرین تعلیم، سائنس دان اور نمائندہ افراد کو بطور رکن شامل کیا گیا۔
سائنس کی تدریس شروع ہونے کے بعد اگلا مرحلہ اس تعلیمی ادارے کو جامعہ کا درجہ دلانا تھا، جو بابائے اردو کا وہ خواب تھا، جسے آنکھوں میں لیے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے رفقا نے اس کی جدوجہد جاری رکھی، جس کے نتیجے میں ایم اے اور ایم ایس سی کی تدریس کا آغاز ہوا، لیکن اردو کالج کو باقاعدہ جامعہ کا درجہ نہ دیا جا سکا۔
اس دوران گلشن اقبال میں جامعہ اردو کے قیام کے لیے حاصل کیے جانے والے قطعۂ اراضی ایس ٹی ٹو (St-2) دیگر مقاصد میں استعمال کیا جانے لگا، جس پر اس وقت کے پرنسپل سید محمد ہارون رشید نجمی اور سپرنٹنڈنٹ کالج سید خورشید علی نے صدائے احتجاج بلند کی، جو اس وقت کسی قدر بارآور بھی ثابت ہوئی لیکن وقت کی گرَد پڑنے کے بعد یہ معاملہ بھی سرد خانے کی نذر ہو گیا، لیکن اردو کالج کو جامعہ کا درجہ دلانے کی جدوجہد جاری رہی۔ بالآخر 13 نومبر 2002ء کو اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اردو کالج کو جامعہ کا درجہ دے کراس طویل تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کیا۔
جمیل الدین عالی کی قیادت میں چلنے والی اس تحریک میں ڈاکٹر عطاالرحمان اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ آج وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون سائنس و ٹیکنالوجی کے تین کیمپسز عبدالحق کیمپس (فنون وقانون) اور گلشن کیمپس (سائنس و ٹیکنالوجی) کے علاوہ ایک کیمپس اسلام آباد میں بھی قائم ہے۔
جامعہ اردو میں اس وقت چھے کلیات (فیکلٹیز) کے تحت چھتیس شعبہ جات میں ساڑھے تیرہ ہزار سے زاید طلبہ وطالبات زیرتعلیم ہیں، جس کے لیے اساتذہ کی کل تعداد ساڑھے تین سو ہے۔ اس کے ساتھ جامعہ اردو کو ایک اور انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کے شعبہ نباتیات میں پروفیسر ڈاکٹر معین الدین کے زیر نگرانی "Dendrochronology" پر تحقیقی کام جاری ہے، جس میں مخصوص طریقے کو استعمال کرتے ہوئے درخت کے تنے کے اندر سے لکڑی کے نمونے حاصل کیے جاتے ہیں، جس کی بنیاد پر ماضی میں علاقے کے موسمی حالات اور تغیرات وغیرہ کا علم حاصل کیا جاتا ہے۔
یہ علم جغرافیائی اور موسمی حالات کے ماضی، حال اور مستقبل کے امکانات کا احاطہ کرتا ہے اور مکمل معاشی، ماحولیاتی اور کسی حد تک دفاعی ترقی اور ضروریات کی منصوبہ بندی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ اس موضوع پر دنیا میں صرف 14 ممالک میں اس پر تحقیق کی جا رہی ہے اور جامعہ اردو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان میں اس کا واحد شعبہ یہاں قائم ہے۔
جامعہ اردو کے گلشن اقبال کیمپس میں قائم بابائے اردو مولوی عبدالحق، مرکزی کتب خانے میں مختلف موضوعات کی 44 ہزار سے زاید کتب موجود ہیں، جب کہ ریسرچ اور علمی و ادبی رسائل و اخبارات کا ذخیرہ اس کے علاوہ ہے۔ جامعہ کے عبدالحق کیمپس میں اگرچہ ایک مرکزی کتب خانہ موجود ہے، تاہم شعبہ جاتی سطح پر کتب خانوں کے قیام کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ مختلف سماجی علوم کے طلبا کو اپنے شعبوں سے متعلق مزید کتب مل سکیں۔
جامعہ اردو کے شعبہ تصنیف وتالیف کے تحت2004ء سے 2010ء تک 66 علمی و سائنسی کتب شایع ہوئیں، اس شعبے کے تحت ''ترجمان'' کے نام سے اطلاعاتی پرچہ بھی باقاعدگی سے شایع کیا جا رہا ہے، جس میں جامعہ کی تازہ ترین تحقیقی، سائنسی، علمی اور سماجی سرگرمیوں کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ اس شعبے کے نگرانِ اعلیٰ جمیل الدین عالی، پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی، پروفیسر ڈاکٹر حسن وقار گل بھی رہے ہیں۔
جامعہ اردو کے معاملات کو اصول و ضوابط کے تحت رکھنے کے لیے اس کے سینیٹ کا کردار مرکزی نوعیت کا ہے۔ جامعہ اردو کی سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ جمیل الدین عالی اور آفتاب احمد خان کے بعد اب مشتاق احمد یوسفی کے سپرد کیا گیا ہے۔ جامعہ اردو کی سینیٹ میں انجمن ترقی اردو کی نمائندگی بھی موجود ہے، جو سید اظفر رضوی کے بعد پروفیسر انیس زیدی کر رہے ہیں۔
جامعہ اردو قومی انبساط اور آزادی فکر و خیال کی ایک تحریک ہے اور اس میں وہ جوہر پوشیدہ ہے کہ جسے پالینے والی قومیں آج علم و فضل کے نقطۂ عروج پر ہیں۔ جامعہ اردو کے شیخ الجامعہ کی تقرری کے حوالے سے اس بار بھی خاصا طویل انتظار کرنا پڑا۔ ڈاکٹر محمد قیصر کی جامعہ کراچی میں تقرری کے بعد جامعہ اردو کے شیخ الجامعہ کا معاملہ کافی دنوں سے حل طلب تھا، جسے بالآخر ڈاکٹر ظفر اقبال کی تعیناتی سے حل کیا گیا۔
ڈاکٹر ظفر اقبال سابق اردو سائنس کالج سے بہ حیثیت لیکچرر منسلک رہے۔ بیرون ملک درس و تدریس، 21 طلبہ کو پی ایچ ڈی کرانے کے علاوہ 15 کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انتظامی امور کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر اقبال کی قیادت میں جامعہ اردو کی ترقی کی نئی منازل طے کرنے کی امید ہے۔
جامعہ اردو کی سینیٹ میں اساتذہ کی منتخب رکن، نگراں شعبہ تصنیف و تالیف وترجمہ، اور ارضیات کی پروفیسر سیما ناز صدیقی نے نئے شیخ الجامعہ سے اپنی توقعات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر ظفر اقبال جامعہ اردو کے قیام کی جدوجہد میں بھی خود ایک کارکن کے طور پر شامل رہے ہیں اس لیے امید ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جامعہ اردو کو ہر سطح پر اعلا تدریسی و تحقیقی مقام دلائیں گے اور اہلیت پر کار ہائے فرائض کو انجام دیتے ہوئے جلدازجلد ملازمین کے بچوں کے لیے اسامیوں میں کوٹے، رہائشی اسکیم، طلبہ وطالبات کے لیے شٹل سروس اور اقامت گاہوں کے قیام جیسے مسائل کے حل کے لیے اقدام کریں گے۔ جامعہ اردو کے تحقیقی کام کی اشاعت کے حوالے سے انہوں نے پرنٹنگ پریس کے منصوبے کی تکمیل کی توقع بھی ظاہر کی۔ پروفیسر سیما ناز صدیقی نے کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ اردو ڈکشنری بورڈ، جو اب تقریباً غیر فعال ہے اس کا پریس جامعہ اردو کے تصرف میں آجائے، اس طرح جامعہ اردو، قومی زبان میں خوب صورت اور معیاری کتب ارزاں قیمتوں پر شایع کر سکے گی۔
اس کے ساتھ جامعہ اردو کے لیے ایجوکیشنل سٹی کا معاملہ بھی ہنوز حل طلب ہے۔ اس ضمن میں دیگر اداروں پر تو جگہ دے دی گئی ہے، تاہم جامعہ ابھی تک اپنے اس حق سے محروم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے شیخ الجامعہ اور اس کے ساتھ بہ حیثیت رئیس الجامعہ صدر آصف علی زرداری اپنی سیاسی مصروفیات سے وقت نکال کر جامعہ اردو کی توسیعی منصوبے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ وطن عزیز کے تعلیمی مستقبل کی کرن، جامعہ اردو کے استحکام کے لیے اگر اب بھی سنجیدگی اختیار نہ کی گئی تو پھر قومی تشخص کے حوالے سے سارے دعوے آنے والی نسل کو جھوٹے ہی لگیں گے۔
کچھ ہی عرصے میں کالج میں فنون کے ساتھ سائنسی علوم کی تدریس کا بھی آغاز ہوا۔ بابائے اردو اور ان کے پُرخلوص رفقا اور محبان اردو کی بے لوث کاوشوں کے سبب ادارۂ ترقیات کراچی نے 6 اپریل 1966ء میں یونی ورسٹی روڈ کراچی میں 20 ایکڑ زمین مہیا کردی اور پھر شعبۂ سائنس بابائے اردو روڈ سے یہاں منتقل کر دیا گیا، یہ نئی عمارت اردو سائنس کالج کے نام سے موسوم ہوئی، جس کے پہلے مشترکہ پرنسپل میجر آفتاب حسن رہے۔
ستر کی دہائی میں دیگر تعلیمی اداروں کی طرح اردو کالج کو بھی صوبائی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا، بعدازاں صدائے احتجاج بلند ہوئی تو 1975ء میں یہ مرکزی حکومت کے زیرانتظام آگیا اور معاملات کی نگرانی کے لیے اردو آرٹس اور سائنس کالج کے علیحدہ علیحدہ بورڈ آف گورنرز تشکیل دیے گئے، جن میں صدر نشین وفاقی وزیر تعلیم، نائب صدر نشین وفاقی سیکریٹری تعلیم، جب کہ معتمد پرنسپل اور نام زد ماہرین تعلیم، سائنس دان اور نمائندہ افراد کو بطور رکن شامل کیا گیا۔
سائنس کی تدریس شروع ہونے کے بعد اگلا مرحلہ اس تعلیمی ادارے کو جامعہ کا درجہ دلانا تھا، جو بابائے اردو کا وہ خواب تھا، جسے آنکھوں میں لیے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے رفقا نے اس کی جدوجہد جاری رکھی، جس کے نتیجے میں ایم اے اور ایم ایس سی کی تدریس کا آغاز ہوا، لیکن اردو کالج کو باقاعدہ جامعہ کا درجہ نہ دیا جا سکا۔
اس دوران گلشن اقبال میں جامعہ اردو کے قیام کے لیے حاصل کیے جانے والے قطعۂ اراضی ایس ٹی ٹو (St-2) دیگر مقاصد میں استعمال کیا جانے لگا، جس پر اس وقت کے پرنسپل سید محمد ہارون رشید نجمی اور سپرنٹنڈنٹ کالج سید خورشید علی نے صدائے احتجاج بلند کی، جو اس وقت کسی قدر بارآور بھی ثابت ہوئی لیکن وقت کی گرَد پڑنے کے بعد یہ معاملہ بھی سرد خانے کی نذر ہو گیا، لیکن اردو کالج کو جامعہ کا درجہ دلانے کی جدوجہد جاری رہی۔ بالآخر 13 نومبر 2002ء کو اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اردو کالج کو جامعہ کا درجہ دے کراس طویل تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کیا۔
جمیل الدین عالی کی قیادت میں چلنے والی اس تحریک میں ڈاکٹر عطاالرحمان اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ آج وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون سائنس و ٹیکنالوجی کے تین کیمپسز عبدالحق کیمپس (فنون وقانون) اور گلشن کیمپس (سائنس و ٹیکنالوجی) کے علاوہ ایک کیمپس اسلام آباد میں بھی قائم ہے۔
جامعہ اردو میں اس وقت چھے کلیات (فیکلٹیز) کے تحت چھتیس شعبہ جات میں ساڑھے تیرہ ہزار سے زاید طلبہ وطالبات زیرتعلیم ہیں، جس کے لیے اساتذہ کی کل تعداد ساڑھے تین سو ہے۔ اس کے ساتھ جامعہ اردو کو ایک اور انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کے شعبہ نباتیات میں پروفیسر ڈاکٹر معین الدین کے زیر نگرانی "Dendrochronology" پر تحقیقی کام جاری ہے، جس میں مخصوص طریقے کو استعمال کرتے ہوئے درخت کے تنے کے اندر سے لکڑی کے نمونے حاصل کیے جاتے ہیں، جس کی بنیاد پر ماضی میں علاقے کے موسمی حالات اور تغیرات وغیرہ کا علم حاصل کیا جاتا ہے۔
یہ علم جغرافیائی اور موسمی حالات کے ماضی، حال اور مستقبل کے امکانات کا احاطہ کرتا ہے اور مکمل معاشی، ماحولیاتی اور کسی حد تک دفاعی ترقی اور ضروریات کی منصوبہ بندی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ اس موضوع پر دنیا میں صرف 14 ممالک میں اس پر تحقیق کی جا رہی ہے اور جامعہ اردو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان میں اس کا واحد شعبہ یہاں قائم ہے۔
جامعہ اردو کے گلشن اقبال کیمپس میں قائم بابائے اردو مولوی عبدالحق، مرکزی کتب خانے میں مختلف موضوعات کی 44 ہزار سے زاید کتب موجود ہیں، جب کہ ریسرچ اور علمی و ادبی رسائل و اخبارات کا ذخیرہ اس کے علاوہ ہے۔ جامعہ کے عبدالحق کیمپس میں اگرچہ ایک مرکزی کتب خانہ موجود ہے، تاہم شعبہ جاتی سطح پر کتب خانوں کے قیام کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ مختلف سماجی علوم کے طلبا کو اپنے شعبوں سے متعلق مزید کتب مل سکیں۔
جامعہ اردو کے شعبہ تصنیف وتالیف کے تحت2004ء سے 2010ء تک 66 علمی و سائنسی کتب شایع ہوئیں، اس شعبے کے تحت ''ترجمان'' کے نام سے اطلاعاتی پرچہ بھی باقاعدگی سے شایع کیا جا رہا ہے، جس میں جامعہ کی تازہ ترین تحقیقی، سائنسی، علمی اور سماجی سرگرمیوں کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ اس شعبے کے نگرانِ اعلیٰ جمیل الدین عالی، پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی، پروفیسر ڈاکٹر حسن وقار گل بھی رہے ہیں۔
جامعہ اردو کے معاملات کو اصول و ضوابط کے تحت رکھنے کے لیے اس کے سینیٹ کا کردار مرکزی نوعیت کا ہے۔ جامعہ اردو کی سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ جمیل الدین عالی اور آفتاب احمد خان کے بعد اب مشتاق احمد یوسفی کے سپرد کیا گیا ہے۔ جامعہ اردو کی سینیٹ میں انجمن ترقی اردو کی نمائندگی بھی موجود ہے، جو سید اظفر رضوی کے بعد پروفیسر انیس زیدی کر رہے ہیں۔
جامعہ اردو قومی انبساط اور آزادی فکر و خیال کی ایک تحریک ہے اور اس میں وہ جوہر پوشیدہ ہے کہ جسے پالینے والی قومیں آج علم و فضل کے نقطۂ عروج پر ہیں۔ جامعہ اردو کے شیخ الجامعہ کی تقرری کے حوالے سے اس بار بھی خاصا طویل انتظار کرنا پڑا۔ ڈاکٹر محمد قیصر کی جامعہ کراچی میں تقرری کے بعد جامعہ اردو کے شیخ الجامعہ کا معاملہ کافی دنوں سے حل طلب تھا، جسے بالآخر ڈاکٹر ظفر اقبال کی تعیناتی سے حل کیا گیا۔
ڈاکٹر ظفر اقبال سابق اردو سائنس کالج سے بہ حیثیت لیکچرر منسلک رہے۔ بیرون ملک درس و تدریس، 21 طلبہ کو پی ایچ ڈی کرانے کے علاوہ 15 کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انتظامی امور کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر اقبال کی قیادت میں جامعہ اردو کی ترقی کی نئی منازل طے کرنے کی امید ہے۔
جامعہ اردو کی سینیٹ میں اساتذہ کی منتخب رکن، نگراں شعبہ تصنیف و تالیف وترجمہ، اور ارضیات کی پروفیسر سیما ناز صدیقی نے نئے شیخ الجامعہ سے اپنی توقعات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر ظفر اقبال جامعہ اردو کے قیام کی جدوجہد میں بھی خود ایک کارکن کے طور پر شامل رہے ہیں اس لیے امید ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جامعہ اردو کو ہر سطح پر اعلا تدریسی و تحقیقی مقام دلائیں گے اور اہلیت پر کار ہائے فرائض کو انجام دیتے ہوئے جلدازجلد ملازمین کے بچوں کے لیے اسامیوں میں کوٹے، رہائشی اسکیم، طلبہ وطالبات کے لیے شٹل سروس اور اقامت گاہوں کے قیام جیسے مسائل کے حل کے لیے اقدام کریں گے۔ جامعہ اردو کے تحقیقی کام کی اشاعت کے حوالے سے انہوں نے پرنٹنگ پریس کے منصوبے کی تکمیل کی توقع بھی ظاہر کی۔ پروفیسر سیما ناز صدیقی نے کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ اردو ڈکشنری بورڈ، جو اب تقریباً غیر فعال ہے اس کا پریس جامعہ اردو کے تصرف میں آجائے، اس طرح جامعہ اردو، قومی زبان میں خوب صورت اور معیاری کتب ارزاں قیمتوں پر شایع کر سکے گی۔
اس کے ساتھ جامعہ اردو کے لیے ایجوکیشنل سٹی کا معاملہ بھی ہنوز حل طلب ہے۔ اس ضمن میں دیگر اداروں پر تو جگہ دے دی گئی ہے، تاہم جامعہ ابھی تک اپنے اس حق سے محروم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے شیخ الجامعہ اور اس کے ساتھ بہ حیثیت رئیس الجامعہ صدر آصف علی زرداری اپنی سیاسی مصروفیات سے وقت نکال کر جامعہ اردو کی توسیعی منصوبے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ وطن عزیز کے تعلیمی مستقبل کی کرن، جامعہ اردو کے استحکام کے لیے اگر اب بھی سنجیدگی اختیار نہ کی گئی تو پھر قومی تشخص کے حوالے سے سارے دعوے آنے والی نسل کو جھوٹے ہی لگیں گے۔