اسکول بنیادی سہولیات سے محروم
میرٹ لسٹ کے باوجود امیدواروں کو آفر لیٹر نہ ملنے کی شکایات
تعلیمی اعتبار سے پاکستان کا شمار انتہائی پس ماندہ ملک میں ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں ہر حکومت اپنے دور اقتدار میں طلبہ و طالبات کو بہتر سے بہتر تعلیمی سہولیات کے حوالے سے سیکڑوں اسکیموں کا اعلان کرتی ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے 18ویں ترمیم کے بعد فروغ تعلیم اور طلبا کو جدید تعلیم کی فراہمی کے لیے صوبوں کو اختیارات تفویض کیے گئے، جس کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ سکھر سمیت بالائی سندھ میں فروغ تعلیم کے حوالے سے صورت حال میں بہتری آئے گی، ضلع سکھر میں مجموعی طور پر پرائمری، مڈل، ایلمینٹری، ہائی اور ہائیر سیکنڈری کی 12 سو 55 درس گاہوں میں ہزاروںبچے زیر تعلیم ہیں۔ وادی مہران کے اہم ضلع میں ایک ہزار 93 اسکول میں سے طالبات کے لیے 176 طلبہ کے لیے 163 اور مخلوط تعلیم کے لیے 754 درس گاہیں موجود ہیں۔
بدقسمتی سے سرکاری اسکولوں کی حالت زار یہاں بھی دیگر علاقوں سے کسی طرح مختلف نہیں۔ حکومتی سطح پر اسکول بنا دینے کا مقصد صرف ایک عمارت اور کمرے بنا دینا نہیں ہوتا، بلکہ یہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ بنیادی ضروریات اور سہولیات کا بھی متقاضی ہوتا ہے، کیوں کہ اگر یہاں طلبا پرسکون اندازمیں تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گے تو اس کا براہ راست اثر ان کی تعلیمی کارکردگی پر پڑے گا، لیکن حکومت تو تعلیم کے شعبے سے ہی غافل معلوم ہوتی ہے تو پھر اسکولوں کی حالت کا کیا شکوہ کیا جائے۔
درس گاہوں میں بنیادی سہولیات سے محرومی کے باوجود طلبا میں تعلیم کی گاڑی چلانے کی اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اکثر تعلیمی اداروں میں بیت الخلا تک نہیں اور جہاں موجود ہے تو قابل استعمال نہیں، محکمہ تعلیم میں ایک عرصے سے فنڈز کی کمی اور افسران کی عدم توجہی کی وجہ سے سکھر سمیت بالائی سندھ کی سیکڑوں درس گاہیں بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ دیہی علاقوں میں موجود درس گاہوں میں بچیاں اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے عارضی طور پر بنائے جانے والے بیت الخلا استعمال کرنے پر مجبور ہیں جب کہ گنجان آبادی والے علاقوں میں درس گاہ سے متصل گھروں میں جانے پر مجبور ہیں۔
دوسری طرف سکھر الیکٹرک پاور کمپنی انتظامیہ کے نادہندہ ہونے کی وجہ سے بہت سے اسکولوں کی بجلی بھی منقطع کردی گئی، جب کہ بہت سے اسکولوں میں آج بھی بغیر میٹروں کے براہ راست بجلی استعمال کی جا رہی ہے، آج بھی سکھر اور گردو نواح کے علاقوں میں ایسی درس گاہیں موجود ہیں جو کہ طویل عرصے سے غیر فعال ہیں اور اس کا فایدہ اٹھاتے ہوئے علاقے میں رہایش پذیر بااثر افراد نے ان پر قبضہ کیا ہوا ہے، یہ تمام صورت حال محکمہ تعلیم کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شعبہ تعلیم صوبوں کے حوالے کیے جانے کے بعد یہ امید تھی کہ لاکھوں بچوں کو مفت درسی کتب، نصاب پر نظر ثانی، التوا کا شکار درس گاہوں کو مکمل کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کیے جائیں گے مگر تاحال ایسا نہ ہوسکا، صورت حال نعروں اور اعلانات کے بالکل برعکس ہے۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت نے درس گاہوں میں اساتذہ کی تعیناتی کے حوالے سے این ٹی ایس، آئی بی اے جیسے نام ور اداروں کی خدمات حاصل کی، جنہوں نے بہتر نظام کے تحت خالی اسامیوں پر بھرتی کے خواہش مند امیدواروں سے انٹرویو لیے اور ایک میرٹ لسٹ مرتب کی، مذکورہ عمل سے قابل اساتذہ کو تعینات کر کے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی سمت قدم اٹھایا، تاہم دوسرے اقدام کی طرح یہ بھی صرف کاغذوں اور اعلانات کی حد تک ہی نظر آتے ہیں، میرٹ لسٹ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے اساتذہ کی بڑی تعداد آفر لیٹر نہ ملنے کے حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں جس کی ایک بڑی مثال خیر پور کا رہایشی عبدالرشید چنہ ہے جو میرٹ لسٹ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود ملازمت نہ ملنے کے خلاف گزشتہ چھ ماہ سے سکھر میں سراپا احتجاج ہے۔
اس دوران اس نے احتجاج کے مختلف طریقے اختیار کیے، کبھی کشکول اٹھایا، تو کبھی بھوک ہڑتال کی تو کبھی خودکشی کی کوشش کی، مگر اس کے باوجود وہ حکام بالا کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ منتخب نمائندوں میں سے اب تک کسی نے بھی عبدالرشید کی داد رسی کی کوشش نہیں کی۔ ضلع سکھر کی آبادی تقریباً 14 لاکھ افراد پر مشتمل ہے، جن میں ہزاروں طلبہ و طالبات کے والدین کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاہم سرکاری درس گاہوں میں بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کو نجی درس گاہوں یا شہر سے باہر تعلیم دلانے پر مجبور ہیں۔
ہمارے یہاں ہر حکومت اپنے دور اقتدار میں طلبہ و طالبات کو بہتر سے بہتر تعلیمی سہولیات کے حوالے سے سیکڑوں اسکیموں کا اعلان کرتی ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے 18ویں ترمیم کے بعد فروغ تعلیم اور طلبا کو جدید تعلیم کی فراہمی کے لیے صوبوں کو اختیارات تفویض کیے گئے، جس کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ سکھر سمیت بالائی سندھ میں فروغ تعلیم کے حوالے سے صورت حال میں بہتری آئے گی، ضلع سکھر میں مجموعی طور پر پرائمری، مڈل، ایلمینٹری، ہائی اور ہائیر سیکنڈری کی 12 سو 55 درس گاہوں میں ہزاروںبچے زیر تعلیم ہیں۔ وادی مہران کے اہم ضلع میں ایک ہزار 93 اسکول میں سے طالبات کے لیے 176 طلبہ کے لیے 163 اور مخلوط تعلیم کے لیے 754 درس گاہیں موجود ہیں۔
بدقسمتی سے سرکاری اسکولوں کی حالت زار یہاں بھی دیگر علاقوں سے کسی طرح مختلف نہیں۔ حکومتی سطح پر اسکول بنا دینے کا مقصد صرف ایک عمارت اور کمرے بنا دینا نہیں ہوتا، بلکہ یہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ بنیادی ضروریات اور سہولیات کا بھی متقاضی ہوتا ہے، کیوں کہ اگر یہاں طلبا پرسکون اندازمیں تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گے تو اس کا براہ راست اثر ان کی تعلیمی کارکردگی پر پڑے گا، لیکن حکومت تو تعلیم کے شعبے سے ہی غافل معلوم ہوتی ہے تو پھر اسکولوں کی حالت کا کیا شکوہ کیا جائے۔
درس گاہوں میں بنیادی سہولیات سے محرومی کے باوجود طلبا میں تعلیم کی گاڑی چلانے کی اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اکثر تعلیمی اداروں میں بیت الخلا تک نہیں اور جہاں موجود ہے تو قابل استعمال نہیں، محکمہ تعلیم میں ایک عرصے سے فنڈز کی کمی اور افسران کی عدم توجہی کی وجہ سے سکھر سمیت بالائی سندھ کی سیکڑوں درس گاہیں بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ دیہی علاقوں میں موجود درس گاہوں میں بچیاں اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے عارضی طور پر بنائے جانے والے بیت الخلا استعمال کرنے پر مجبور ہیں جب کہ گنجان آبادی والے علاقوں میں درس گاہ سے متصل گھروں میں جانے پر مجبور ہیں۔
دوسری طرف سکھر الیکٹرک پاور کمپنی انتظامیہ کے نادہندہ ہونے کی وجہ سے بہت سے اسکولوں کی بجلی بھی منقطع کردی گئی، جب کہ بہت سے اسکولوں میں آج بھی بغیر میٹروں کے براہ راست بجلی استعمال کی جا رہی ہے، آج بھی سکھر اور گردو نواح کے علاقوں میں ایسی درس گاہیں موجود ہیں جو کہ طویل عرصے سے غیر فعال ہیں اور اس کا فایدہ اٹھاتے ہوئے علاقے میں رہایش پذیر بااثر افراد نے ان پر قبضہ کیا ہوا ہے، یہ تمام صورت حال محکمہ تعلیم کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شعبہ تعلیم صوبوں کے حوالے کیے جانے کے بعد یہ امید تھی کہ لاکھوں بچوں کو مفت درسی کتب، نصاب پر نظر ثانی، التوا کا شکار درس گاہوں کو مکمل کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کیے جائیں گے مگر تاحال ایسا نہ ہوسکا، صورت حال نعروں اور اعلانات کے بالکل برعکس ہے۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت نے درس گاہوں میں اساتذہ کی تعیناتی کے حوالے سے این ٹی ایس، آئی بی اے جیسے نام ور اداروں کی خدمات حاصل کی، جنہوں نے بہتر نظام کے تحت خالی اسامیوں پر بھرتی کے خواہش مند امیدواروں سے انٹرویو لیے اور ایک میرٹ لسٹ مرتب کی، مذکورہ عمل سے قابل اساتذہ کو تعینات کر کے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی سمت قدم اٹھایا، تاہم دوسرے اقدام کی طرح یہ بھی صرف کاغذوں اور اعلانات کی حد تک ہی نظر آتے ہیں، میرٹ لسٹ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے اساتذہ کی بڑی تعداد آفر لیٹر نہ ملنے کے حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں جس کی ایک بڑی مثال خیر پور کا رہایشی عبدالرشید چنہ ہے جو میرٹ لسٹ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود ملازمت نہ ملنے کے خلاف گزشتہ چھ ماہ سے سکھر میں سراپا احتجاج ہے۔
اس دوران اس نے احتجاج کے مختلف طریقے اختیار کیے، کبھی کشکول اٹھایا، تو کبھی بھوک ہڑتال کی تو کبھی خودکشی کی کوشش کی، مگر اس کے باوجود وہ حکام بالا کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ منتخب نمائندوں میں سے اب تک کسی نے بھی عبدالرشید کی داد رسی کی کوشش نہیں کی۔ ضلع سکھر کی آبادی تقریباً 14 لاکھ افراد پر مشتمل ہے، جن میں ہزاروں طلبہ و طالبات کے والدین کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاہم سرکاری درس گاہوں میں بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کو نجی درس گاہوں یا شہر سے باہر تعلیم دلانے پر مجبور ہیں۔