جنابِ صدر سے ملاقات
یہ ایک نہایت شاندار، چشم کشا اور یادگار ملاقات تھی جس کے مواقع اخبار نویسوں کو کم کم دستیاب ہوتے ہیں۔
صدرِ مملکت جنابِ آصف علی زرداری سے لاہور میں نئے تعمیر شدہ ''بلاول ہائوس'' میں ملاقات ہوئی۔ دل تو یہی چاہتا تھا کہ اِس پر تفصیلی تجزیہ لکھا جائے لیکن گزشتہ روز دہشت گردوں نے کراچی میں ایک بار پھر خون کی جو ہولی کھیلی ہے، دل و دماغ پر رنج اور افسوس کی گہری دھند چھا گئی ہے۔کوئٹہ کی ہزارہ مسلمان برادری کے قتلِ عام کے مجرموں کوا بھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔
جو قوتیں مسلکی بنیادوں پر مملکتِ خداداد کو جلا دینا چاہتی ہیں، ان کے سامنے ہمارے بعض امن پسند علمائے کرائم کے صبر اور دانش کو داد دینی چاہیے کہ وہ ان شر پسند اور مفسد قوتوں کے سامنے مضبوط دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے اِس خونریز سانحہ کے پس منظر میں یہ گلہ بھی سامنے آیا ہے کہ جس وقت دہشت گرد خون کے دریا بہا رہے تھے، اس وقت کراچی کی زیادہ تر پولیس ایک معروف منگنی کی تقریب میں اعلیٰ پائے کی شرکت کنندگان ہستیوں کی حفاظت پر مامور تھی۔
کراچی میں ہونے والا یہ اشکبار سانحہ اُس روز ہوا جب صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری اخبار نویسوں سے ملاقات کر چکے تھے۔ لاہور کے بلاول ہائوس، جس کے طرزِ تعمیر اور حجم کی بڑی شہرت سنی تھی، میں صدر صاحب سے ملاقات کے دوران یہ سرگوشیاں بھی سنائی دی گئیں کہ فروری مارچ تو حکومت کے بڑوں کے لیے ''موسمِ ملاقات'' ثابت ہو رہا ہے۔ گزشتہ اتوار، 24 فروری کو افواجِ پاکستان کے سپہ سالار جنرل پرویز کیانی نے اپنے ہاں دو درجن سے زائد سینئر اخبار نویسوں کو مدعو کرکے شرفِ ملاقات بخشا۔
یہ ایک نہایت شاندار، چشم کشا اور یادگار ملاقات تھی جس کے مواقع اخبار نویسوں کو کم کم دستیاب ہوتے ہیں۔ اِس پر تبصرے اور کالم بھی چھپے اور خبریں بھی شایع ہوئیں لیکن ذرا گھونگھٹ کے ساتھ۔ شاید ملاقات کی حساسیت کا یہی تقاضا تھا جسے ملاقاتیوں نے اپنی تحریروں اور گفتگوئوں میں خوب ملحوظ خاطر رکھا۔ یہ اعتبار اور اعتماد کا معاملہ بھی تو تھا لیکن افسوس ہوا ایک تجزیہ لکھنے والے پر جنہوں نے اپنی تحریر میں بعض لوگوں کو ''گوربا چوف'' کے مشابہ قرار دینے کی ناقابلِ رشک کوشش کی۔
اگر گزشتہ اتوار جنرل کیانی صاحب نے اخبار نویسوں کو اپنے ہاں مدعو کرکے اعزاز بخشا تو اِس ہفتہ کی شام (2 مارچ 2013ء) صدر صاحب نے صحافیوں کو یاد فرمایا۔ لاہور کے بلاول ہائوس میں جسے بعض لوگوں نے کسی کا تحفہ بھی قرار دیا لیکن صدر صاحب سے ملاقات کے دوران کھلا کہ یہ مکان اُن کی ایک پرانی آرزو کی عملی شکل ہے۔ یہ کسی کا تحفہ ہے نہ عنایت لیکن لاہور کے بہت ہی بیرونی مضافات میں بننے والا یہ گھر لاہور ہی میں فروکش بعض سیاسی شخصیات کے لیے خاصا بڑا پرابلم بن گیا ہے۔
بلاول ہائوس کے خلاف جو بَھد اور گرد اُڑائی گئی (اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے) غالباً یہ اِسی ''پرابلم'' کا حصہ اور شاخسانہ ہے۔ اگر ہم اپنی اپنی منجی کے نیچے خود ہی ڈانگ پھیرنے کی عادت اپنا لیں توہمارے بہت سے پرابلمز از خود حل ہو سکتے ہیں۔ حسد کے مرض سے بھی نجات مل سکتی ہے اور چغلی کھانے کے گناہ سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ ویسے یہ اچھا ہی ہوا ہے کہ جناب آصف زرداری نے بھی لاہور میں مستقل ڈیرے جما لیے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے لیے یہ مستقل پڑائو خاصا ثمر آور ثابت ہو گا اور سیاسی حریفان میں چشمک بھی خوب رہے گی۔
مسلم لیگ ن کا ہیڈ کوارٹر بھی پہلے سے لاہور میں ہے اور عمران خان کا بھی یہیں اڈا ہے۔ منصورہ میں بسنے والی جماعتِ اسلامی بھی اِسی شہر بے مثال میں بروئے کار ہے۔ جناب محمد نواز شریف، جناب آصف علی زرداری، جناب عمران خان اور جناب سید منور حسن کا ایک ہی شہر میں فروکش ہونا، خدا کرے، پاکستان کے لیے مثبت اورمستحکم سیاسی روایات کا باعث بن جائے۔ ایسے میں برادرم ایاز خان صاحب کا یہ جملہ میرے کانوں میں مسلسل گوج رہا ہے: سب لوگ تو لاہور میں آ گئے ہیں، اب اسلام آباد والو! تمہارے پاس کیا رہ گیا ہے؟
بلاول ہائوس میں صدرِ مملکت کا بلاوا اِس لحاظ سے بھی ثمر آور ثابت ہوا کہ صدر صاحب نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ اُن کے حالیہ دو بڑے فیصلے پاکستان کے لیے کس قدر مفید ثابت ہوں گے بلکہ یہ بھی کہ اِن فیصلوں سے نہ تو دستکش ہوں گے اور نہ ہی کوئی عالمی قوت ان پر منفی انداز میں اثر انداز ہو سکے گی۔ گوادر کی بندرگاہ کو چین کے حوالے کرنا اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے کو حتمی شکل دینا۔ یہ ایسے فیصلے ہیں جن پر امریکا اور بھارت کی نظریں بھی لگی ہوئی تھیں اور یہ دونوں ممالک صدرِ مملکت کے تازہ جرأت مندانہ فیصلوں سے نالاں اور ناخوش بھی ہیں۔
صدر صاحب نے اخبار نویسوں سے ملاقات کے دوران جب غیر مبہم الفاظ میں یہ کہا کہ ہم کوئی صومالیہ نہیں ہیں تو واضح پیغام پہنچا دیا گیا کہ اب ملک کے وسیع تر مفادات میں جو قدم اُٹھے ہیں، وہ واپس نہیں جائیں گے۔ امریکی ناراضگی تو یقیناً ہے۔ غالباً اسی پس منظر میں بعض تجزیہ نگار یہ استفسار کرتے ہوئے پائے گئے کہ آیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان نہایت جرأت کے ساتھ امریکی ناراضی کے علیہ ماعلیہ برداشت کر سکتا ہے؟ صدر صاحب کی باڈی لینگوئج بتا رہی تھی کہ وہ سب کچھ بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔ امریکا نے گزشتہ بارہ تیرہ برسوں کے دوران اپنے مفادات کے تحفظ میں پاکستانی مفادات کو جس چالاکی سے تباہ اور سبوتاژ کیا ہے، اب اِن سب کی پروا کیے بغیر صدر صاحب نے دونوں مذکورہ معاملات کے بارے میں جو فیصلہ کیا ہے اسے عین منطقی اور مستحسن ہی گردانا جائے گا۔ ہمارا خیال ہے کہ صدرِ مملکت کے اِن فیصلوں میں ہمارے خاموش طبع اور کم گو سپہ سالار کی اشیر واد اور اُن کا مشورہ بھی شامل ہو گا۔
لاہور کے بلاول ہائوس میں نہایت ذمے دار معاملات پر مامور برادرم اکرم شہیدی صاحب نے جس طرح سینئر اخبار نویس برادری سے فرداً فرداً رابطہ کرکے اِس اجتماع کو کامیاب کرایا ہے، ہمارا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی آیندہ بھی اُن کے تجربات سے مستفید ہوتی رہے گی کہ اکرم شہیدی صاحب نہ صرف پرانے بیورو کریٹ ہیں بل کہ سابق وفاقی سیکریٹری اطلاعات ہونے کے ناتے وہ اخبار نویسوں میں ایک خوش خلق اور خوش گفتار شخص کی حیثیت میں اچھے الفاظ سے یاد کیے جاتے ہیں۔ صحافیوں سے ہونے والی اِس ملاقات میں صدر صاحب خاصے ریلیکس پائے گئے۔
ایک سینئر صحافی نے اِس طرف اشارہ بھی کیا جس پر صدرِ مملکت کا یہ کہنا گہری مسکراہٹوں کا باعث بن گیا کہ وہ تو جیل کے ایام میں بھی خود کو اسی طرح رکھنے کی کوششیں کرتے رہے۔ صدر صاحب اِس ملاقات میں بھی اُن لوگوں کو نہ بھول پائے جو زنداں کے دنوں میں اُن سے ملنے آتے رہے۔ اور اب جناب آصف علی زرداری نے اپنی کچھار سے نکل کر سیالکوٹ، گوجرانوالہ، لدھیوالا اور ملتان کے جس طرح دورے کرنے شروع کیے ہیں، یقین کر لینا چاہیے کہ انتخابات کا رَن ضرور پڑے گا۔
جنرل کیانی صاحب تو پہلے ہی اخبار نویسوں کے توسط سے قوم کو یقین دلا چکے ہیں کہ انتخابات ہو کر رہیں گے۔ مولانا طاہر القادری صاحب ایسے عناصر نے بعض اشاروں پر ناچتے ہوئے درمیان میں کھنڈت ڈالنے کی کوشش تو یقیناً کی ہے لیکن ایسے عناصر شکست کھا کر اب ٹکور کرانے واپس اپنے ''وطنِ مالوف'' فرار ہو چکے ہیں۔