شام کے بعد عراق بغاوت کا اگلا نشانہ آخری حصہ
عراق میں جاری موجودہ صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ خلیجی ریاستوں اور ترکی کو پہنچ رہا ہے.
کالم کے دوسرے حصے میں عراق میں بیرونی اور اندرونی سازشوں کا تذکرہ کیاگیا ۔
تیسرے اور آخری حصے میں حکومت مخالف مظاہروںکی حقیقت پر روشنی ڈالیں گے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عراق کے مغربی اور مرکزی علاقوں میں حکومت مخالف تحریک کوئی اتفاق نہیں ہے کیونکہ عراق حکومت کے خلاف شروع ہونے والی اس تحریک کا آغاز ایک وزیر کے باڈی گارڈ کو گرفتار کرنے سے شروع ہوا جو کہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔دراصل عراقی وزیر مالیات کے باڈی گارڈ کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا ۔یہ امر اس بات کا متقاضی نہیں تھا کہ حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو جائیں ۔
یقینا اس امر میں غیر ملکی اور خطے میں پڑوسی ریاستوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ عراقی سیاسی تجزیہ نگار الجواہری کاکہنا ہے کہ خطے میں شام کے مسئلے اور عراق کے حوالے سے جاری سرد جنگ میں کئی ایک ممالک ملوث ہیں۔ اس تمام کارروائی کا مقصد عراق کو غیر مستحکم کرنا اور خطے پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اسی طرح خطے میں ایران کی طاقت کوکمزور کرنے کے لیے امریکا اور اسرائیل کی جانب سے شروع کی جانیوالی سازشوں میں ترکی،قطر اور سعودی عرب بڑے اتحادی کے طور پر موجود ہیں جو خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ایران کی ترقی سے خوفزدہ ہیں۔
عراق میں جاری موجودہ صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ خلیجی ریاستوں اور ترکی کو پہنچ رہا ہے جو پہلے سے ہی عراق کے تیل کے ذخائر پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔یہ سارے اتحادی عراقی کردوں کی مدد سے ایک ایسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں جس کا عراقی مرکزی حکومت سے دور دور تک لینا دینا نہ ہو۔وہ چاہتے ہیں کہ عراق کے کچھ سیاستدانوں اور بعث پارٹی سمیت القاعدہ کے ساتھ مل کر عراق میں فرقہ واریت کا کھیل کھیلا جائے اور عراق کو تقسیم کے دہانے پر لا کھڑا کیا جائے۔جواہری کے مطابق عراق مخالف اتحادیوں کی اکثریت عراق میں فرقہ وارانہ فسادات کی زیادہ حامی ہے۔
عراقی سیاست کے ایک اور ماہر اورتجزیہ نگار عباس الموسوی کہتے ہیں کہ ،عراقی صوبہ الانبار میں شروع ہونیوالے مظاہرے حکومت کے خلاف رد عمل نہیں بلکہ یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ باڈی گارڈ کی گرفتاری ایک قانونی مسئلہ ہے اور اس حوالے سے عراقی اعلیٰ عدلیہ نے احکامات بھی جاری کیے ہیںلیکن عراقی وزیر مالیات رافع العساوی نے اپنی پریس کانفرنس میں اس مسئلے کو فرقہ واریت کا رنگ دے کر عراق میں سنی اور سلفی عقائد کے لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ مظاہرین کے مطالبے بھی غیر واضح ہیں کیونکہ جو مطالبات سامنے آ رہے ہیں وہ فرقہ واریت پر مبنی ہیں۔
مظاہرین کا ایک مطالبہ ان کی تحریک کی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جس میں وہ وزیر کے باڈی گارڈ کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ باڈی گارڈ پر عدالت میں مقدمہ چل رہاہے جس کی گرفتاری کے احکامات حکومت نے نہیں بلکہ عدلیہ نے دیے ہیں۔ عراق کی صورتحال اور مرکزی حکومت اور کردوں کے درمیان اختلافات عراق کے لیے موزوں نہیں ہیں، کیونکہ حکومت اور کردوں کے درمیان پہلے ہی کئی معاملات میں خلا پایا جاتا ہے۔عراق کو سب سے بڑا خطرہ سیکیورٹی کا ہے۔الانبار میں شروع ہونیوالے مظاہروں میں فرقہ واریت اور عراق کی تقسیم کا ایجنڈا شامل ہے جو عراق کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔ محمد نور الدین کہتے ہیں کہ خطے میں انتہائی سنجیدہ کھیل جاری ہے۔
ایک طرف مغرب اور خطے کی عرب ریاستیں شام کو غیر مستحکم کرنے میں ناکام رہی ہیں،اوراب عراق کو بھی نشانہ بنایا جا رہاہے ،تا کہ کسی طرح عراق کو بھی غیرمستحکم کیا جائے اور شام میں مقاصد حاصل کر لیے جائیں۔ اسی عنوان سے تہران میںسینٹر فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اور بین الاقوامی تعلقات کے انچارج عامر الموسوی نے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ جو عراق میں کیا جا رہا ہے درا صل شام کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے ہے۔دشمن نے شمالی لبنان میں بھی کوشش کی مگر وہ ناکام ہوئے۔حتیٰ کہ دشمن کو گزشتہ دو سال سے عالمی ذرایع ابلاغ اور مسلح دہشت گردوںکی حمایت حاصل ہے لیکن اس کے باوجو دبھی شام کو غیر مستحکم کرنے میں ناکام رہے۔ہر بات ان کے خلاف جا رہی ہے اور ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔
الجواہری کہتے ہیں کہ کیونکہ ان کا مقصد مسئلہ کو پیدا کرنا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ شام کو غیر مستحکم کیا جائے جب کہ وہ کسی حل کی جانب جانا ہی نہیں چاہتے ہیں،خصوصاً کچھ ایسے مسائل ہیں جو آئینی ترامیم سے درست ہو سکتے ہیں تاہم شام دشمن قوتیں نہیں چاہتی ہیں کہ وہاں پر کسی قسم کی اصطلاحات نافذ ہوں بلکہ ان کا مطالبہ دہشتگردوں کی حمایت کے ساتھ مربوط ہے البتہ ہم عراق کی موجودہ صورتحال کے تحت چند معاملات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:۱۔عراقی عوا م کے درمیان قومیتی اور فرقہ واریت کی بنیاد پر اختلافات کو جنم دینا۔۲۔عراق کی تقسیم۔۳۔مرکزی حکومت کو کمزور کرنا۔۴۔خون ریزی ۔۵۔ حکومت کو غیر مستحکم کرنا۔۶۔عراق کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روکنا اور تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنا
اس موجودہ صورتحال میں اہم ترین سوال یہ جنم لیتاہے کہ عراقی حکومت ان حالات میں بیماری کو کیسے اخذ کریگی اور اس کا کیا علاج دریافت کریگی اور کس طرح کریگی؟الجواہری کہتے ہیں کہ حکومت اس سازش کے بارے میں بخوبی واقف ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت چند سو قیدیوں کو مظاہرین کے مطالبات پر رہا کر دے اور آرٹیکل 4کے مطابق دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے قانون پر نظر ثانی بھی کرے۔احتجاج کرنیوالے جانتے ہیں کہ حکومت سنجیدہ ہے اور مسائل کے حل کے لیے توجہ دیتی ہے حکومت مخالف مظاہرین یہ جانتے ہیں کہ ان کے مطالبے ایماندارانہ نہیں بلکہ خیانت پر مبنی ہیں۔
عامر الموسوی کاکہنا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کے لیے اس صورتحال سے نمٹنا مشکل کام ہے کیونکہ مظاہرین کے مطالبے غیر قانونی ہیں جو حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی قبول نہیں کر سکتے ۔ عامر الموسوی کے مطابق کچھ مطالبات جائز ہیں جن پر حکومت نظر ثانی کر کے ان کو سمجھ سکتی ہے جب کہ کچھ مطالبات ایسے ہیں جو حکومت کی دسترس سے باہر ہیں اس لیے وہ قابل قبول نہیں ہیں۔پارلیمنٹ کو چاہیے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ قانون کے حوالے سے نظر ثانی کی جائے یا نہ کی جائے جس قانون سے مخالفین اعتراض کر رہے ہیں۔
انسداد دہشت گردی کے خلاف قانون سیاسی حکم نامے سے نہیں بدلا جاسکتا ہے کیونکہ انسداد دہشت گردی کے قانون کو ختم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دہشت گرد آزادانہ کارروائیاں کریں اور جب چاہیں قتل،اغوا اور دیگر دہشت گردی کی وارداتیں کرتے رہیںاور ان کو پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔اس صورتحال میں عوام کے حقوق کو نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہو گا۔قوم اور قوم کے شہداء کے ساتھ دھوکا دہی ہو گی۔ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جاسکتاہے جو عراق کے صوبہ انبار میں جا کر مذاکرات اور گفت و شنید کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکال سکتی ہے۔کمیٹی کو چاہئیے کہ وہ مسئلے کی جڑ تک پہنچے اور اس کے حل کا تدارک کرے تا کہ عراق کے معاشی ذخائر کو لوٹنے سے بچایا جا سکے۔ ہر چیز قابل قبول ہے،بغاوت کو معاف کیا جا سکتا ہے لیکن فرقہ واریت ہرگز نہیں۔
عراق کی خاموش اکثریت اگر ان حکومت مخالفین کے سامنے ہو گئی تو عراق تباہی کے دہانے پر جا پہنچے گا۔کیونکہ عراق میں جاری مظاہرے عرب بیداری کے تناظر میں نہیں بلکہ چند عراق دشمن قوتوں کی جانب سے عراق میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کے سبب ہیں۔مالکی حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ عراق میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں غیر ملکی اور علاقائی قوتیں ملوث ہیں جو عراق کو غیر مستحکم اور کمزور کرکے تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ تزویراتی ماہر حبیب فیاض کے مطابق عراق حکومت کے خلاف سازشوں کا منبع اس لیے ہے کہ۱۔عراق کی طرف سے شام کی حمایت ختم کی جائے اور عراق حکومت کو ایران سے دور کیا جائے۔۲۔کردوں کے ساتھ عراقی حکومت کے اختلافات کو مزید بڑھایا جائے (جس کے سبب ترکی کے ساتھ عراق نے کئی معاہدے منسوخ کر دیے ہیں کیونکہ ترکی کردوں کے ساتھ مل کر عراق کی مرکزی حکومت کے خلاف سازشیں کر رہا ہے)
مغربی اور علاقائی مداخلت کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ عراق کو غیر مستحکم کیا جاسکتا ہے۔اور یہ بھی ہر گز ممکن نظر نہیں آ رہا ہے کہ عراق شام اور ایران کے ساتھ تعلقات ترک کر دے گا۔لہذٰا مسائل کا حل اسی میں ہے کہ عراق میں جاری معاملات کو گفت و شنید کے ذریعے جلد از جلد حل کر لیا جائے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والے عناصر کی سرکوبی کردی جائے تا کہ شام کے بعد عراق دشمن کا اگلا ہدف ناکام ہو جائے۔
تیسرے اور آخری حصے میں حکومت مخالف مظاہروںکی حقیقت پر روشنی ڈالیں گے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عراق کے مغربی اور مرکزی علاقوں میں حکومت مخالف تحریک کوئی اتفاق نہیں ہے کیونکہ عراق حکومت کے خلاف شروع ہونے والی اس تحریک کا آغاز ایک وزیر کے باڈی گارڈ کو گرفتار کرنے سے شروع ہوا جو کہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔دراصل عراقی وزیر مالیات کے باڈی گارڈ کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا ۔یہ امر اس بات کا متقاضی نہیں تھا کہ حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو جائیں ۔
یقینا اس امر میں غیر ملکی اور خطے میں پڑوسی ریاستوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ عراقی سیاسی تجزیہ نگار الجواہری کاکہنا ہے کہ خطے میں شام کے مسئلے اور عراق کے حوالے سے جاری سرد جنگ میں کئی ایک ممالک ملوث ہیں۔ اس تمام کارروائی کا مقصد عراق کو غیر مستحکم کرنا اور خطے پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اسی طرح خطے میں ایران کی طاقت کوکمزور کرنے کے لیے امریکا اور اسرائیل کی جانب سے شروع کی جانیوالی سازشوں میں ترکی،قطر اور سعودی عرب بڑے اتحادی کے طور پر موجود ہیں جو خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ایران کی ترقی سے خوفزدہ ہیں۔
عراق میں جاری موجودہ صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ خلیجی ریاستوں اور ترکی کو پہنچ رہا ہے جو پہلے سے ہی عراق کے تیل کے ذخائر پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔یہ سارے اتحادی عراقی کردوں کی مدد سے ایک ایسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں جس کا عراقی مرکزی حکومت سے دور دور تک لینا دینا نہ ہو۔وہ چاہتے ہیں کہ عراق کے کچھ سیاستدانوں اور بعث پارٹی سمیت القاعدہ کے ساتھ مل کر عراق میں فرقہ واریت کا کھیل کھیلا جائے اور عراق کو تقسیم کے دہانے پر لا کھڑا کیا جائے۔جواہری کے مطابق عراق مخالف اتحادیوں کی اکثریت عراق میں فرقہ وارانہ فسادات کی زیادہ حامی ہے۔
عراقی سیاست کے ایک اور ماہر اورتجزیہ نگار عباس الموسوی کہتے ہیں کہ ،عراقی صوبہ الانبار میں شروع ہونیوالے مظاہرے حکومت کے خلاف رد عمل نہیں بلکہ یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ باڈی گارڈ کی گرفتاری ایک قانونی مسئلہ ہے اور اس حوالے سے عراقی اعلیٰ عدلیہ نے احکامات بھی جاری کیے ہیںلیکن عراقی وزیر مالیات رافع العساوی نے اپنی پریس کانفرنس میں اس مسئلے کو فرقہ واریت کا رنگ دے کر عراق میں سنی اور سلفی عقائد کے لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ مظاہرین کے مطالبے بھی غیر واضح ہیں کیونکہ جو مطالبات سامنے آ رہے ہیں وہ فرقہ واریت پر مبنی ہیں۔
مظاہرین کا ایک مطالبہ ان کی تحریک کی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جس میں وہ وزیر کے باڈی گارڈ کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ باڈی گارڈ پر عدالت میں مقدمہ چل رہاہے جس کی گرفتاری کے احکامات حکومت نے نہیں بلکہ عدلیہ نے دیے ہیں۔ عراق کی صورتحال اور مرکزی حکومت اور کردوں کے درمیان اختلافات عراق کے لیے موزوں نہیں ہیں، کیونکہ حکومت اور کردوں کے درمیان پہلے ہی کئی معاملات میں خلا پایا جاتا ہے۔عراق کو سب سے بڑا خطرہ سیکیورٹی کا ہے۔الانبار میں شروع ہونیوالے مظاہروں میں فرقہ واریت اور عراق کی تقسیم کا ایجنڈا شامل ہے جو عراق کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔ محمد نور الدین کہتے ہیں کہ خطے میں انتہائی سنجیدہ کھیل جاری ہے۔
ایک طرف مغرب اور خطے کی عرب ریاستیں شام کو غیر مستحکم کرنے میں ناکام رہی ہیں،اوراب عراق کو بھی نشانہ بنایا جا رہاہے ،تا کہ کسی طرح عراق کو بھی غیرمستحکم کیا جائے اور شام میں مقاصد حاصل کر لیے جائیں۔ اسی عنوان سے تہران میںسینٹر فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اور بین الاقوامی تعلقات کے انچارج عامر الموسوی نے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ جو عراق میں کیا جا رہا ہے درا صل شام کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے ہے۔دشمن نے شمالی لبنان میں بھی کوشش کی مگر وہ ناکام ہوئے۔حتیٰ کہ دشمن کو گزشتہ دو سال سے عالمی ذرایع ابلاغ اور مسلح دہشت گردوںکی حمایت حاصل ہے لیکن اس کے باوجو دبھی شام کو غیر مستحکم کرنے میں ناکام رہے۔ہر بات ان کے خلاف جا رہی ہے اور ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔
الجواہری کہتے ہیں کہ کیونکہ ان کا مقصد مسئلہ کو پیدا کرنا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ شام کو غیر مستحکم کیا جائے جب کہ وہ کسی حل کی جانب جانا ہی نہیں چاہتے ہیں،خصوصاً کچھ ایسے مسائل ہیں جو آئینی ترامیم سے درست ہو سکتے ہیں تاہم شام دشمن قوتیں نہیں چاہتی ہیں کہ وہاں پر کسی قسم کی اصطلاحات نافذ ہوں بلکہ ان کا مطالبہ دہشتگردوں کی حمایت کے ساتھ مربوط ہے البتہ ہم عراق کی موجودہ صورتحال کے تحت چند معاملات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:۱۔عراقی عوا م کے درمیان قومیتی اور فرقہ واریت کی بنیاد پر اختلافات کو جنم دینا۔۲۔عراق کی تقسیم۔۳۔مرکزی حکومت کو کمزور کرنا۔۴۔خون ریزی ۔۵۔ حکومت کو غیر مستحکم کرنا۔۶۔عراق کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روکنا اور تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنا
اس موجودہ صورتحال میں اہم ترین سوال یہ جنم لیتاہے کہ عراقی حکومت ان حالات میں بیماری کو کیسے اخذ کریگی اور اس کا کیا علاج دریافت کریگی اور کس طرح کریگی؟الجواہری کہتے ہیں کہ حکومت اس سازش کے بارے میں بخوبی واقف ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت چند سو قیدیوں کو مظاہرین کے مطالبات پر رہا کر دے اور آرٹیکل 4کے مطابق دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے قانون پر نظر ثانی بھی کرے۔احتجاج کرنیوالے جانتے ہیں کہ حکومت سنجیدہ ہے اور مسائل کے حل کے لیے توجہ دیتی ہے حکومت مخالف مظاہرین یہ جانتے ہیں کہ ان کے مطالبے ایماندارانہ نہیں بلکہ خیانت پر مبنی ہیں۔
عامر الموسوی کاکہنا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کے لیے اس صورتحال سے نمٹنا مشکل کام ہے کیونکہ مظاہرین کے مطالبے غیر قانونی ہیں جو حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی قبول نہیں کر سکتے ۔ عامر الموسوی کے مطابق کچھ مطالبات جائز ہیں جن پر حکومت نظر ثانی کر کے ان کو سمجھ سکتی ہے جب کہ کچھ مطالبات ایسے ہیں جو حکومت کی دسترس سے باہر ہیں اس لیے وہ قابل قبول نہیں ہیں۔پارلیمنٹ کو چاہیے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ قانون کے حوالے سے نظر ثانی کی جائے یا نہ کی جائے جس قانون سے مخالفین اعتراض کر رہے ہیں۔
انسداد دہشت گردی کے خلاف قانون سیاسی حکم نامے سے نہیں بدلا جاسکتا ہے کیونکہ انسداد دہشت گردی کے قانون کو ختم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دہشت گرد آزادانہ کارروائیاں کریں اور جب چاہیں قتل،اغوا اور دیگر دہشت گردی کی وارداتیں کرتے رہیںاور ان کو پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔اس صورتحال میں عوام کے حقوق کو نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہو گا۔قوم اور قوم کے شہداء کے ساتھ دھوکا دہی ہو گی۔ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جاسکتاہے جو عراق کے صوبہ انبار میں جا کر مذاکرات اور گفت و شنید کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکال سکتی ہے۔کمیٹی کو چاہئیے کہ وہ مسئلے کی جڑ تک پہنچے اور اس کے حل کا تدارک کرے تا کہ عراق کے معاشی ذخائر کو لوٹنے سے بچایا جا سکے۔ ہر چیز قابل قبول ہے،بغاوت کو معاف کیا جا سکتا ہے لیکن فرقہ واریت ہرگز نہیں۔
عراق کی خاموش اکثریت اگر ان حکومت مخالفین کے سامنے ہو گئی تو عراق تباہی کے دہانے پر جا پہنچے گا۔کیونکہ عراق میں جاری مظاہرے عرب بیداری کے تناظر میں نہیں بلکہ چند عراق دشمن قوتوں کی جانب سے عراق میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کے سبب ہیں۔مالکی حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ عراق میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں غیر ملکی اور علاقائی قوتیں ملوث ہیں جو عراق کو غیر مستحکم اور کمزور کرکے تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ تزویراتی ماہر حبیب فیاض کے مطابق عراق حکومت کے خلاف سازشوں کا منبع اس لیے ہے کہ۱۔عراق کی طرف سے شام کی حمایت ختم کی جائے اور عراق حکومت کو ایران سے دور کیا جائے۔۲۔کردوں کے ساتھ عراقی حکومت کے اختلافات کو مزید بڑھایا جائے (جس کے سبب ترکی کے ساتھ عراق نے کئی معاہدے منسوخ کر دیے ہیں کیونکہ ترکی کردوں کے ساتھ مل کر عراق کی مرکزی حکومت کے خلاف سازشیں کر رہا ہے)
مغربی اور علاقائی مداخلت کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ عراق کو غیر مستحکم کیا جاسکتا ہے۔اور یہ بھی ہر گز ممکن نظر نہیں آ رہا ہے کہ عراق شام اور ایران کے ساتھ تعلقات ترک کر دے گا۔لہذٰا مسائل کا حل اسی میں ہے کہ عراق میں جاری معاملات کو گفت و شنید کے ذریعے جلد از جلد حل کر لیا جائے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والے عناصر کی سرکوبی کردی جائے تا کہ شام کے بعد عراق دشمن کا اگلا ہدف ناکام ہو جائے۔