کیا مہذب قوم کی یہی علامت ہے…

مسئلہ تو تب ہوتا ہے جب کسی فوری حاجت کے وقت بھی سواری کسی اور جگہ پر نہ روکی جائے۔

کچھ عرصے پہلے ہمیں بذریعہ کوچ، سپر ہائی وے کے راستے اندرون سندھ سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔

واپسی میں ٹنڈوآدم سے نکلنے کے تین گھنٹے کے بعد ایک پٹرول پمپ بمعہ ہوٹل پرگاڑی رکی۔ ہمیں نہیں پتا کہ گاڑی کو ایندھن کی ضرورت تھی کہ نہیں، لیکن ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو ضرور ایندھن کی ضرورت تھی، شاید پیٹ بھرنے سے زیادہ جیب کے بھرنے کی کیونکہ مشہور ہے تقریباً ہر کوچ سروس کا اپنے روٹ پر موجود کسی مخصوص ہوٹل سے ایک طرح کا زبانی کلامی معاہدہ ہوتا ہے کہ اس کوچ کے ڈرائیور وہاں ضرورت ہو یا نہ ہو، دس پندرہ منٹ کے لیے گاڑی ضرور روکتے ہیں اور بدلے میں نہ صرف پیٹ پوجا کی مفت سہولیات سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ کمیشن کے نام پر تھوڑا بہت خرچہ پانی بھی وصول کر لیتے ہیں۔

بہرحال مسافروں کو اس سے کیا غرض... زیادہ تر تو خوش ہی ہوتے ہیں۔ مسئلہ تو تب ہوتا ہے جب کسی فوری حاجت کے وقت بھی سواری کسی اور جگہ پر نہ روکی جائے۔ اس وقت بھی ''فطرت کی پکار'' والا مسئلہ کئی مسافروں کو درپیش تھا۔ اپنے مخصوص ہوٹل کی آمد پر ڈرائیور نے گاڑی روکی تو متاثرہ مسافروں نے چھلانگ لگائی۔ ایک دو گاڑیاں پہلے ہی ہوٹل پر کھڑی تھیں جس کی وجہ سے رش بہت زیادہ تھا۔ جب کافی دیر بعد اپنی باری آنے پر بیت الخلا میں داخل ہوئے تو انتہائی ہولناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ سخت تعفن کی وجہ سے سانس روکنا پڑی، اور وہ دو منٹ جو مجبوری میں گزرے، انتہائی کرب کی حالت میںگزرے۔

گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے ہم نے ساری صورتحال کو ہوٹل والوں سے جوڑتے ہوئے انھیں دل ہی دل میں کئی صلواتیں سنادیں جنھیں اپنے کاروبار کی تو فکر ہے لیکن پبلک کے آرام کی نہیں... کچھ بیت الخلا ہی زیادہ بنا دیتے اور انھیں صاف رکھنے کی کچھ کوشش کرلیتے لیکن کچھ دیر بعد ہی ہماری سوچ میں انقلابی تبدیلی آ گئی اور یکے بعد دیگرے ہوٹل مالکان کے ساتھ، گورنمنٹ اور خود اپنا آپ بھی بطور ایک عام فرد کے اس گندگی کا ذمے دار محسوس ہونے لگا۔ جی ہاں اگرچہ اکثرمقامات پر موجود عوامی بیت الخلا کا حال لکھنے کے قابل نہیں کہ اکثر تو پانی ہی نہیں ہوتا لیکن جہاں پانی ہوتا ہے، وہاں بھی بیت الخلا استعمال کرنیوالے شاید پانی کے استعمال کو پانی اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔

مذکورہ بیت الخلاء میں بھی پانی نہایت پریشر کے ساتھ آ رہا تھا لیکن شروع میں اسے بہانے کی کسی نے ضرورت نہیں سمجھی ، جو بعد والوں کے لیے سخت ذہنی اذیت کا باعث بن گئی۔ اتفاق دیکھیے کہ پچھلے چار پانچ مہینوںمیں ہمیں کبھی اکیلے تو کبھی بچوں کے ساتھ مختلف جگہ کے عوامی بیت الخلا جانے کی اذیت برداشت کرنی پڑی اور ہر بارنہ صرف نانی یاد آجاتی بلکہ نانی اماں کی بات بھی یاد آ جاتی، جو وہ بہو تلاش مہم سے پہلے کہا کرتی تھیں کہ کسی لڑکی کے سلیقے اور صفائی ستھرائی کا معیار جانچنے کے لیے اس کا گھر، اور گھر کا ڈرائنگ روم نہ دیکھو، بلکہ اس کا کچن اور بیت الخلا دیکھو۔


یہ دو جگہیں جتنی صاف ہوں گی، سمجھ لو، لڑکی اتنی ہی سلیقہ شعار اور مہذب ہوگی۔ یہ بات ایک قوم کے لیے بھی کہی جا سکتی ہے۔ کسی قوم کی تہذیب جانچنے کے لیے بھی شاید سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ ان کے عوامی بیت الخلا کا ایک سروے کرلیا جائے۔ اگر پاکستان میں اس طرح کا سروے کرلیا جائے تو ثابت ہوجائے کہ پاکیزگی کو نصف ایمان کہنے والی یہ قوم شاید اجتماعی طور پر نصف ایمان سے محروم ہے۔ یاد رکھیے کہ پاکیزگی کا خیال رکھنا صرف اپنی ذات کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ معاشرتی زندگی گزارتے ہوئے دوسروں کو ذہنی و روحانی تکلیف سے بچانا بھی شریعت کو مطلوب ہے۔

یہ مجلسی اور معاشرتی آداب کے تحت آتا ہے۔ اس لیے گھرسے بھی زیادہ پبلک بیت الخلا کو صاف رکھنا استعمال کنندہ کی قومی اور دینی ذمے داری ہے۔ یہ ذمے داری پوری کرنا بہت آسان ہے، ضرورت پوری کرکے اہتمام سے فلش کیا جائے اور باہر بیٹھے پیسے لینے والے صفائی کے ذمے داروں کو تنبیہ کر دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کسی شخص کو ایسی ذہنی اذیت اٹھانی پڑے کہ وہ پھر کئی دنوں تک کسی جمالیاتی احساس سے ہی محروم ہو جائے۔ اس معاملے میں گورنمنٹ کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ ہر سال ورلڈ ٹوائلٹ ڈے کے موقعے پر بیانات جاری کرنے کے بجائے کچھ عملی قدم بھی اٹھائے۔

تمام پبلک مقامات پر سہولتوں سے مزین بیت الخلا بنانا اور پھر ان کی مستقل صفائی اور دیکھ بھال کے لیے مناسب انتظام کرنا گورنمنٹ کی ذمے داری ہے۔ گورنمنٹ کو چاہیے کہ اس ضمن میں دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی مثال دیکھے کہ وہاں انسان کی اس بنیادی ضرورت کا کتنا موثر انتظام ہے۔ آسٹریلیا میںہائی ویز پر ہر پچاس کلومیٹر پر ریسٹ روم موجود ہوتے ہیں اور ہر گیس اسٹیشن والے کے لیے لازمی ہے کہ وہاں بالکل صاف ستھرے واش روم ہوں، امریکا اور یورپ میں بھی پبلک مقامات پر پبلک ٹوائلٹ اور ان کی دیکھ ریکھ بہت ہی اعلیٰ ہوتی ہے، حتیٰ کہ مشرق بعید اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بھی صورت حال برصغیر سے بہت بہتر ہے۔

حکومت کی ذمے داری تو خیر اپنی جگہ مگر ہمارے خیال میں عوامی جگہوں پر صفائی ستھرائی کے معاملے میں پبلک پر کئی گنا زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ گورنمنٹ آپ کو ایک چیز بنا کر تو دے سکتی ہے لیکن وہ لوگوں کو اس چیز کے استعمال کے بعد صاف رکھنے پر مجبور نہیں کرسکتی اور ایسا بھی نہیں کہ عوام جانتے نہیں، یہ تعلیم و آگہی کی کمی کی بات نہیں یہ تو سراسر تربیت کی بات ہے۔ اس حوالے سے ایک دوسرا پہلو بھی قابل غور ہے، وہ یہ کہ صفائی اور پاکیزگی کا خیال صرف مادی طور پر ہی ضروری نہیںکہ گلیوں، سڑکوں، پارکوں اور عوامی واش رومز کو صرف ظاہری طور پر صاف ستھرا رکھا جائے بلکہ معاشرے کو اپنے ذہن و دل کی آلائشوں سے محفوظ رکھنا بھی نہایت ضروری ہے۔

یہ تمہید اس لیے باندھی کیوں کہ ہمارے پبلک ٹوائلٹس دوسرے حوالے سے بھی نہایت بدنام ہیں۔ انتہائی فحش اشعار، اپنے مخالف سیاستدانوں کو ننگی گالیاں، مکروہ باتیں اور گندے مذاق ہماری پبلک کی اجتماعی ذہنی گراوٹ کی علامت ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ذہنی کج روی کے شکار افراد اپنی جسمانی گندگی ہی پھیلا کر نہیں جاتے بلکہ باطنی غلاظتیں بھی گویا در و دیوار پر انڈیل جاتے ہیں۔

بہرحال جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا کہ اصل مسئلہ تعلیم نہیں بلکہ تربیت کا فقدان ہے اور آدمی کی تربیت ہوتی ہے گھر سے، اس لیے اس کی شروعات ہمیں سب سے پہلے اپنے گھروں سے کرنی چاہیے۔ اپنے بچوں کو صفائی کی اہمیت اور ان پر عائد ہونے والی معاشرتی پابندیاں بتانی چاہئیں اور بوقت ضرورت مناسب تنبیہ بھی کرنی چاہیے تاکہ کم ازکم اگلی نسل تو بحیثیت قوم ہمیں مہذب ہونے کا سرٹیفیکٹ دلا سکے۔
Load Next Story