قبلہ اور لقمہ
نوازشریف کے مقابل اس نوازنے کے کلچر نے سیاست کو بدل دیا اور سیاسی ورکرز کو مادیت پرست بنادیا۔
الیکشن کی بہار آیا چاہتی ہے، پہلی جمہوری حکومت بغیر کسی بیساکھی کے اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔
اگر الیکشن خیریت سے ہوگئے اور اقتدار حقدار کو مل گیا تو یہ ایک اور اچھی بات ہوگی۔ پاکستان کی سیاست کی اچھی بات۔ وہ سیاست جس کے آٹھ بڑے کھلاڑی ہیں۔ آصف زرداری، نوازشریف، چوہدری شجاعت، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، سید منور حسن، الطاف حسین اور اسفند یار ولی۔ دو مسلم لیگیں، تین سیکولر پارٹیاں، دو مذہبی پارٹیاں تو ایک نئی نویلی پارٹی۔ آٹھ شخصیات ایک طرف ہیں جنھیں آٹھ کروڑ ووٹروں سے ووٹ لینے ہیں۔ ان آٹھ لیڈروں اور آٹھ کروڑ ووٹروں کے درمیان پل کون ہے؟ یہ پل سب سے زیادہ اہم ہے جو آج ہمارے موضوع گفتگو ہے۔ یہ سیاسی کارکنان ہیں جو عوام اور قائدین کو ایک دوسرے سے ملاتے ہیں، ان کا قبلہ کس جانب ہوتا ہے؟ سیاست نے ان کے لقمے کا کیا بندوبست کیا ہے؟ یہ آج کی سیاست کا دلچسپ سوال ہے۔
پوسٹر لگانے، دریاں بچھانے، ہینڈ بل تقسیم کرنے، نعرے لگانے، آوے آوے اور جاوے جاوے کرنے والوں کا قبلہ کس طرح کا ہوتا ہے؟ جلسوں میں کرسیاں و مائیک لگانے والے، بینر لٹکانے والوں کی معاشی صورت حال کیا ہوتی ہے، ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لانے والوں کی نفسیات کیا ہوتی ہے اور تربیت کا کیا انتظام ہوتا ہے؟ سرکاری نوکری پر ان کا کتنا حق ہوتا ہے؟ میرٹ کو دیکھا جائے یا سیاسی کارکنوں کو نوازا جائے؟ یہ نازک سوالات ہمارے ملک کی سیاست میں طویل عرصے سے گونج رہے ہیں۔ انتخابات کی آنے والی گہما گہمی کے موقع پر ہم پاکستان کی آٹھ بڑی سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو قریب سے دیکھیں گے۔ ہم ان کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، تعلیم و تربیت ، کچھ مانگنے اور قربانی دینے کو پرکھیں گے۔ آئیے! اس کی ابتداء جیالوں سے کرتے ہیں۔
بھٹو نے غریب کارکنوں کا نعرہ لگاکر سیاسی کارکنوں کو اپنے سے قریب کرلیا۔ لیڈر کی شخصیت، پارٹی کے نظریے اور ظلم کے خلاف لڑنے والا پی پی کا ورکر قربانی کا مجسمہ تھا۔ بھٹو کے دور میں اس نے کبھی مالی فائدے اور سرکاری نوکری کا خواب نہ دیکھا تھا۔ مل گیا تو ٹھیک اور نہ ملا تو کچھ نہیں۔ بھٹو کی پھانسی اور گیارہ سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار نے بہت کچھ بدل دیا۔ بے نظیر نے قربانیاں دینے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انھیں نوازنا چاہا۔
نوازشریف کے مقابل اس نوازنے کے کلچر نے سیاست کو بدل دیا اور سیاسی ورکرز کو مادیت پرست بنادیا۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہجوم میں چند غریب غربا کا آگے بڑھ جانا خوشی کے ساتھ حسد کا باعث بنا۔ نوکری اور وسائل کی چھینا جھپٹی انھیں سالگرہ کے کیک کی لوٹ مار تک لے آئی۔ آصف علی زرداری نے کارکنوں کی قربانیوں کو مزید سراہا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں لگائے اور شریف و مشرف کے دور میں نکالے جانے والوں کو پھر لگایا گیا۔ پارٹی کی قیادت کارکنوں کے معاشی مسائل کے حل کی پالیسی پر فخر کرتی ہے۔
نواز شریف اور چوہدری شجاعت کی لیگ کے کارکنوں کے کلچر کو ایک سمجھ کر گفتگو ہورہی ہے۔ بڑے بڑے صنعت کاروں کی سیاست ذرا مختلف ہوتی ہے، پوسٹرز، ہینڈ بل، بینرز اور جلسوں کے تمام انتظامات رقوم دے کر ٹھیکوں پر کروائے جاتے ہیں۔ تاجروں سے ووٹ اور نوٹ تک محدود ہونے والی لیگ کے کارکنان پر کام کا بوجھ نسبتاً کم ہوتا ہے۔ وہ جیالوں کی طرح نوکریوں کے کم ہی طلبگار ہوتے ہیں۔ نواز شریف کے متوالوں کا بریانی کی دیگ پر ہڑبونگ مچانا تربیت کی کمی کا سبب ہے۔
سرمایہ دار سیاستدان کو اپنے کارکنان کو اپنی فیکٹریوں میں نوکری دینے کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔عمران خان کی تحریک انصاف بھی ان تین پارٹیوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ کارکنان اگر تربیت سے عاری ہوں اور قبلے کی سمت چلنے میں پاؤں زخمی کیے بغیر لقمے کے طلبگار ہوں تو؟ چونکہ تحریک انصاف ایک نئی پارٹی ہے اور اقتدار میں نہیں آئی لہٰذا اس کے کارکنان کے مزاج کی اصل آزمائش آنے والے دنوں میں ہوگی۔ پارٹی انتخابات کے موقع پر دھینگا مشتی اچھی بات نہیں۔ اگر آنے والے دنوں میں عمران نے کارکنان کی تربیت کا اہتمام کیا تو تحریک انصاف پاکستان میں ''انڈین نیشنل کانگریس'' کی مانند ہوسکتی ہے۔
نظریاتی کارکنان، عمدہ لیڈرشپ اور ملک بھر میں مقبول و منتخب تنظیم۔ کارکنان کے قبلے اور لقمے پر گفتگو کرتا یہ کالم ملک کی چار بڑی پارٹیوں پر اپنی گفتگو مکمل کرچکا ہے۔ دولت مندی اور ہنرمندی کے گرد گھومتی پارٹیوں کے بعد ہم دیگر چار پارٹیوں پر گفتگو کریں گے۔ اے این پی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے کارکنان کی نفسیات اور قیادت سے ان کی فرمائشوں کی تکمیل پر۔ اب دو مذہبی اور دو سیکولر پارٹیوں کے کارکنان ہمارا موضوع گفتگو ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کی بہت بڑی اکثریت دینی مدارس کے طالب علموں پر مشتمل ہوتی ہے۔ انھیں نہ ٹھیکوں اور پرمٹوں کی خبر ہوتی ہے اور نہ وہ سرکاری نوکریوں کے طلبگار ہوتے ہیں۔ مفتی محمود جیسے فقیر منش درویش کے دور تک تو علما نے خوشحالی کی ہوا تک نہ چکھی تھی۔ اب اتنی پاکبازی کا دعویٰ جمعیت کی قیادت تو نہیں کرسکتی، لیکن حال اور ماضی کے طالب علم کارکنوں کو ان آلائشوں سے پاک قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں وسیع پیمانے پر اراکین اسمبلیوں کے فنڈز سے اگر کسی نے بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے ہوں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ان خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جمعیت کے کارکنان پر جلسے جلوسوں میں بدنظمی کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ مولانا فضل الرحمن سے کارکنان کی عقیدت، جمعیت میں نظریے اور شخصیت کی کشمکش قرار دی جاسکتی ہے۔ اب تک جمعیت کے کارکنان مدرسوں کی ملازمت کے لیے تو پارٹی کی جانب دیکھتے ہوں گے لیکن سرکاری ملازمت ان کے تصور میں نہیں ہے۔باچا خان اور ولی خان جیسے نظریاتی لیڈروں سے پارٹی کی قیادت تیسری نسل تک آگئی ہے۔ اسفند یار ولی کی قیادت میں اے این پی اب حقیقت پسند ہوگئی ہے۔ وہ اب اقتدار اور پیسے کی اہمیت کے قائل ہوچکے ہیں۔ یہ رجحان قیادت میں بھی ہے اور کارکنان میں بھی۔ ایک صدی کی جدوجہد کے بعد ''سرخ پوش'' اپنے صوبے میں پسندیدہ نام کے ساتھ اقتدار کی اونچائی پر ہیں۔ قیادت نے خوشحالی کو کارکنان تک منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٹھیکوں اور پرمٹوں کے علاوہ سرکاری نوکریوں میں پختون ترقی پسند کارکنوں کو کھپایا گیا ہے۔ تھوڑی سی تربیت کے ساتھ کچھ وابستگی اور پھر دلبستگی اے این پی کو تادیر سیاست میں زندہ رکھے گی۔
ایم کیو ایم بھی سیاست کے قبلے میں کارکنان کے لقمے کے خیال رکھنے کی قائل ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں نوکریوں اور داخلوں کو لے کر اٹھنے والی پارٹی اس اہم پہلو کو نظرانداز نہیں کرسکتی تھی۔ پہلے بلدیات اور پھر وفاقی و صوبائی حکومتوں میں الطاف حسین کے حامیوں کو نوازا گیا۔ جب دیہی سندھ سے کوٹے کی طلبگار پیپلز پارٹی ہو تو شہروں کی نمایندہ ایم کیو ایم کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ فکری نشستوں اور لٹریچر کا مطالعہ کرتے شہری علاقے کے پڑھے لکھے کارکنوں کو متحدہ نے ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔
اس پارٹی پر کیک پر رکیک حملوں، لنچ باکس کی لالچ یا بریانی کی دیگ پر ہڑبونگ کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔جماعت اسلامی کی قیادت کی جانب سے کارکنوں کو نوازنے پر گفتگو سے پہلے ہم میرٹ پر گفتگو کریں گے؟ یہ بڑا نازک سوال ہے۔ تمام پارٹیاں اقتدار میں آکر کارکنان کو سرکاری نوکریاں دیتی ہیں، اگر وہ شرائط پوری کرتے ہوں۔ جماعت کا اپنے کارکنان کی سفارش نہ کرنا اچھا فعل ہے یا برا؟ یہ وہ نقطہ ہے جو کالم کی بنیاد بنا ہے۔ تاجر، وکلا، ڈاکٹر اور انجینئر تو فرمائش نہیں کرتے، لیکن کم پڑھے لکھے، مخلص اور غریبوں کو اقتدار میں آکر بھی محروم رکھنا کس حد تک صحیح ہے؟ جماعت کو جنرل ضیاء کے دور میں وفاقی وزارتیں، تین مرتبہ کراچی کی میئر شپ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی وزارتیں ملیں۔
میرٹ و انصاف کی دہائی دے کر جماعت نے اپنے کارکنان کو سرکاری ملازمتیں دینے سے بڑی حد تک اجتناب کیا۔ اس پالیسی نے کارکنان میں مایوسی پیدا کی۔ رضائے الٰہی کی تبلیغ کس حد تک ہونی چاہیے؟ نعرے لگانے اور دریاں بچھانے والے کو ''پڑھاکو'' کے مقابلے میں چھوڑ دینا اہم سوال ہے۔ لقمہ نہ ملے تو سیاسی قبلہ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ بے شک کوئی سیاسی پارٹی روزگار دینے کا دفتر نہیں، لیکن قیادت اور عوام کے درمیان پل بننے والے کارکن کی توانائی خرچ کروا کر اسے سماج کے ''معاشی گِدھوں'' کے آگے چھوڑ دینا کس حد تک صحیح ہے؟ اقتدار میں آنے والی پارٹیاں اپنے قبلے کو بھی جانتی ہیں اور کارکن کے معاشی لقمے کی ضرورت کا بھی تمام کو احساس ہے۔ کیا جماعت اسلامی کو نہیں سمجھنا چاہیے کہ کیا ہے قبلہ اور لقمہ؟
اگر الیکشن خیریت سے ہوگئے اور اقتدار حقدار کو مل گیا تو یہ ایک اور اچھی بات ہوگی۔ پاکستان کی سیاست کی اچھی بات۔ وہ سیاست جس کے آٹھ بڑے کھلاڑی ہیں۔ آصف زرداری، نوازشریف، چوہدری شجاعت، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، سید منور حسن، الطاف حسین اور اسفند یار ولی۔ دو مسلم لیگیں، تین سیکولر پارٹیاں، دو مذہبی پارٹیاں تو ایک نئی نویلی پارٹی۔ آٹھ شخصیات ایک طرف ہیں جنھیں آٹھ کروڑ ووٹروں سے ووٹ لینے ہیں۔ ان آٹھ لیڈروں اور آٹھ کروڑ ووٹروں کے درمیان پل کون ہے؟ یہ پل سب سے زیادہ اہم ہے جو آج ہمارے موضوع گفتگو ہے۔ یہ سیاسی کارکنان ہیں جو عوام اور قائدین کو ایک دوسرے سے ملاتے ہیں، ان کا قبلہ کس جانب ہوتا ہے؟ سیاست نے ان کے لقمے کا کیا بندوبست کیا ہے؟ یہ آج کی سیاست کا دلچسپ سوال ہے۔
پوسٹر لگانے، دریاں بچھانے، ہینڈ بل تقسیم کرنے، نعرے لگانے، آوے آوے اور جاوے جاوے کرنے والوں کا قبلہ کس طرح کا ہوتا ہے؟ جلسوں میں کرسیاں و مائیک لگانے والے، بینر لٹکانے والوں کی معاشی صورت حال کیا ہوتی ہے، ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لانے والوں کی نفسیات کیا ہوتی ہے اور تربیت کا کیا انتظام ہوتا ہے؟ سرکاری نوکری پر ان کا کتنا حق ہوتا ہے؟ میرٹ کو دیکھا جائے یا سیاسی کارکنوں کو نوازا جائے؟ یہ نازک سوالات ہمارے ملک کی سیاست میں طویل عرصے سے گونج رہے ہیں۔ انتخابات کی آنے والی گہما گہمی کے موقع پر ہم پاکستان کی آٹھ بڑی سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو قریب سے دیکھیں گے۔ ہم ان کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، تعلیم و تربیت ، کچھ مانگنے اور قربانی دینے کو پرکھیں گے۔ آئیے! اس کی ابتداء جیالوں سے کرتے ہیں۔
بھٹو نے غریب کارکنوں کا نعرہ لگاکر سیاسی کارکنوں کو اپنے سے قریب کرلیا۔ لیڈر کی شخصیت، پارٹی کے نظریے اور ظلم کے خلاف لڑنے والا پی پی کا ورکر قربانی کا مجسمہ تھا۔ بھٹو کے دور میں اس نے کبھی مالی فائدے اور سرکاری نوکری کا خواب نہ دیکھا تھا۔ مل گیا تو ٹھیک اور نہ ملا تو کچھ نہیں۔ بھٹو کی پھانسی اور گیارہ سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار نے بہت کچھ بدل دیا۔ بے نظیر نے قربانیاں دینے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انھیں نوازنا چاہا۔
نوازشریف کے مقابل اس نوازنے کے کلچر نے سیاست کو بدل دیا اور سیاسی ورکرز کو مادیت پرست بنادیا۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہجوم میں چند غریب غربا کا آگے بڑھ جانا خوشی کے ساتھ حسد کا باعث بنا۔ نوکری اور وسائل کی چھینا جھپٹی انھیں سالگرہ کے کیک کی لوٹ مار تک لے آئی۔ آصف علی زرداری نے کارکنوں کی قربانیوں کو مزید سراہا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں لگائے اور شریف و مشرف کے دور میں نکالے جانے والوں کو پھر لگایا گیا۔ پارٹی کی قیادت کارکنوں کے معاشی مسائل کے حل کی پالیسی پر فخر کرتی ہے۔
نواز شریف اور چوہدری شجاعت کی لیگ کے کارکنوں کے کلچر کو ایک سمجھ کر گفتگو ہورہی ہے۔ بڑے بڑے صنعت کاروں کی سیاست ذرا مختلف ہوتی ہے، پوسٹرز، ہینڈ بل، بینرز اور جلسوں کے تمام انتظامات رقوم دے کر ٹھیکوں پر کروائے جاتے ہیں۔ تاجروں سے ووٹ اور نوٹ تک محدود ہونے والی لیگ کے کارکنان پر کام کا بوجھ نسبتاً کم ہوتا ہے۔ وہ جیالوں کی طرح نوکریوں کے کم ہی طلبگار ہوتے ہیں۔ نواز شریف کے متوالوں کا بریانی کی دیگ پر ہڑبونگ مچانا تربیت کی کمی کا سبب ہے۔
سرمایہ دار سیاستدان کو اپنے کارکنان کو اپنی فیکٹریوں میں نوکری دینے کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔عمران خان کی تحریک انصاف بھی ان تین پارٹیوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ کارکنان اگر تربیت سے عاری ہوں اور قبلے کی سمت چلنے میں پاؤں زخمی کیے بغیر لقمے کے طلبگار ہوں تو؟ چونکہ تحریک انصاف ایک نئی پارٹی ہے اور اقتدار میں نہیں آئی لہٰذا اس کے کارکنان کے مزاج کی اصل آزمائش آنے والے دنوں میں ہوگی۔ پارٹی انتخابات کے موقع پر دھینگا مشتی اچھی بات نہیں۔ اگر آنے والے دنوں میں عمران نے کارکنان کی تربیت کا اہتمام کیا تو تحریک انصاف پاکستان میں ''انڈین نیشنل کانگریس'' کی مانند ہوسکتی ہے۔
نظریاتی کارکنان، عمدہ لیڈرشپ اور ملک بھر میں مقبول و منتخب تنظیم۔ کارکنان کے قبلے اور لقمے پر گفتگو کرتا یہ کالم ملک کی چار بڑی پارٹیوں پر اپنی گفتگو مکمل کرچکا ہے۔ دولت مندی اور ہنرمندی کے گرد گھومتی پارٹیوں کے بعد ہم دیگر چار پارٹیوں پر گفتگو کریں گے۔ اے این پی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے کارکنان کی نفسیات اور قیادت سے ان کی فرمائشوں کی تکمیل پر۔ اب دو مذہبی اور دو سیکولر پارٹیوں کے کارکنان ہمارا موضوع گفتگو ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کی بہت بڑی اکثریت دینی مدارس کے طالب علموں پر مشتمل ہوتی ہے۔ انھیں نہ ٹھیکوں اور پرمٹوں کی خبر ہوتی ہے اور نہ وہ سرکاری نوکریوں کے طلبگار ہوتے ہیں۔ مفتی محمود جیسے فقیر منش درویش کے دور تک تو علما نے خوشحالی کی ہوا تک نہ چکھی تھی۔ اب اتنی پاکبازی کا دعویٰ جمعیت کی قیادت تو نہیں کرسکتی، لیکن حال اور ماضی کے طالب علم کارکنوں کو ان آلائشوں سے پاک قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں وسیع پیمانے پر اراکین اسمبلیوں کے فنڈز سے اگر کسی نے بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے ہوں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ان خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جمعیت کے کارکنان پر جلسے جلوسوں میں بدنظمی کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ مولانا فضل الرحمن سے کارکنان کی عقیدت، جمعیت میں نظریے اور شخصیت کی کشمکش قرار دی جاسکتی ہے۔ اب تک جمعیت کے کارکنان مدرسوں کی ملازمت کے لیے تو پارٹی کی جانب دیکھتے ہوں گے لیکن سرکاری ملازمت ان کے تصور میں نہیں ہے۔باچا خان اور ولی خان جیسے نظریاتی لیڈروں سے پارٹی کی قیادت تیسری نسل تک آگئی ہے۔ اسفند یار ولی کی قیادت میں اے این پی اب حقیقت پسند ہوگئی ہے۔ وہ اب اقتدار اور پیسے کی اہمیت کے قائل ہوچکے ہیں۔ یہ رجحان قیادت میں بھی ہے اور کارکنان میں بھی۔ ایک صدی کی جدوجہد کے بعد ''سرخ پوش'' اپنے صوبے میں پسندیدہ نام کے ساتھ اقتدار کی اونچائی پر ہیں۔ قیادت نے خوشحالی کو کارکنان تک منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٹھیکوں اور پرمٹوں کے علاوہ سرکاری نوکریوں میں پختون ترقی پسند کارکنوں کو کھپایا گیا ہے۔ تھوڑی سی تربیت کے ساتھ کچھ وابستگی اور پھر دلبستگی اے این پی کو تادیر سیاست میں زندہ رکھے گی۔
ایم کیو ایم بھی سیاست کے قبلے میں کارکنان کے لقمے کے خیال رکھنے کی قائل ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں نوکریوں اور داخلوں کو لے کر اٹھنے والی پارٹی اس اہم پہلو کو نظرانداز نہیں کرسکتی تھی۔ پہلے بلدیات اور پھر وفاقی و صوبائی حکومتوں میں الطاف حسین کے حامیوں کو نوازا گیا۔ جب دیہی سندھ سے کوٹے کی طلبگار پیپلز پارٹی ہو تو شہروں کی نمایندہ ایم کیو ایم کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ فکری نشستوں اور لٹریچر کا مطالعہ کرتے شہری علاقے کے پڑھے لکھے کارکنوں کو متحدہ نے ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔
اس پارٹی پر کیک پر رکیک حملوں، لنچ باکس کی لالچ یا بریانی کی دیگ پر ہڑبونگ کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔جماعت اسلامی کی قیادت کی جانب سے کارکنوں کو نوازنے پر گفتگو سے پہلے ہم میرٹ پر گفتگو کریں گے؟ یہ بڑا نازک سوال ہے۔ تمام پارٹیاں اقتدار میں آکر کارکنان کو سرکاری نوکریاں دیتی ہیں، اگر وہ شرائط پوری کرتے ہوں۔ جماعت کا اپنے کارکنان کی سفارش نہ کرنا اچھا فعل ہے یا برا؟ یہ وہ نقطہ ہے جو کالم کی بنیاد بنا ہے۔ تاجر، وکلا، ڈاکٹر اور انجینئر تو فرمائش نہیں کرتے، لیکن کم پڑھے لکھے، مخلص اور غریبوں کو اقتدار میں آکر بھی محروم رکھنا کس حد تک صحیح ہے؟ جماعت کو جنرل ضیاء کے دور میں وفاقی وزارتیں، تین مرتبہ کراچی کی میئر شپ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی وزارتیں ملیں۔
میرٹ و انصاف کی دہائی دے کر جماعت نے اپنے کارکنان کو سرکاری ملازمتیں دینے سے بڑی حد تک اجتناب کیا۔ اس پالیسی نے کارکنان میں مایوسی پیدا کی۔ رضائے الٰہی کی تبلیغ کس حد تک ہونی چاہیے؟ نعرے لگانے اور دریاں بچھانے والے کو ''پڑھاکو'' کے مقابلے میں چھوڑ دینا اہم سوال ہے۔ لقمہ نہ ملے تو سیاسی قبلہ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ بے شک کوئی سیاسی پارٹی روزگار دینے کا دفتر نہیں، لیکن قیادت اور عوام کے درمیان پل بننے والے کارکن کی توانائی خرچ کروا کر اسے سماج کے ''معاشی گِدھوں'' کے آگے چھوڑ دینا کس حد تک صحیح ہے؟ اقتدار میں آنے والی پارٹیاں اپنے قبلے کو بھی جانتی ہیں اور کارکن کے معاشی لقمے کی ضرورت کا بھی تمام کو احساس ہے۔ کیا جماعت اسلامی کو نہیں سمجھنا چاہیے کہ کیا ہے قبلہ اور لقمہ؟