آدمی حالات کو جنم دیتا ہے

اس فیصلے نے ملک کی تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا اور پاکستان کو 1970 تک عام انتخابات کا طویل انتظار کرنا پڑا۔


Aftab Ahmed Khanzada March 04, 2013

ڈزرائیلی نے کہا کہ ''حالات آدمی کو جنم نہیں دیتے بلکہ آدمی حالات کو جنم دیتا ہے'' پاکستان کو اس وقت جن سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی سرفہرست ہے انتہاپسندی محض ایک عمل یا کارروائی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچ ہے جو پاکستانی معاشرے میں آہستہ آہستہ سرائیت کر رہی ہے۔

ایڈارڈو گالینو کا کہنا ہے کہ ''ہر صبح تاریخ ایک نیا جنم لیتی ہے'' پاکستان کی پارلیمانی سیاست کا پہلا عشرہ نفرت انگیز ناکامی پر مشتمل ہے لامتناہی آئینی بحث و مباحثہ جاری رہا اور 1956ء تک ملک کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت چلایا گیا، اسی سال مارچ میں پہلا پاکستانی آئین نافذالعمل ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان مسلم لیگ جو اکلوتی ملک گیر سیاسی جماعت تھی منتشر ہو گئی، سربراہ مملکت کے ہاتھوں مرکز ی اور صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے کی روایت قائم کر دی گئی تھی اسے مستحکم کرنے میں عدلیہ نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اکتوبر 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے پہلی آئین ساز اسمبلی کی برطرفی کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا گیا۔

اس فیصلے نے ملک کی تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا اور پاکستان کو 1970 تک عام انتخابات کا طویل انتظار کرنا پڑا۔ آئینی اور سیاسی بحران نے صوبوں اور مرکز کے درمیان کشیدگی پیدا کر دی دیگر صوبوں میں مرکز اور پنجاب کو ایک سمجھا جانے لگا۔ طاقتور اداروں کے کارپردازوں نے مشرقی بنگال کی جمہوری اکثریت کو محرومیوں سے دوچار کرنے کے حربے استعمال کرنے شروع کر دیے وہ جمہوری اکثریت کو موثر انداز میں کام کرنے کا موقع دے کر اپنی خارجہ پالیسی کی سمت اور داخلی ترجیحات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ جاگیرداروں نے بنگال کی مقبول عوامی جماعتوں عوامی لیگ اور جنتا تری دل کی مخالفت میں فعال حصہ لیا ان کی مخالفت کے پس منظر میں ایک ہی خوف تھا کہ بنگال کی سیاسی پارٹیا ں جاگیرداری کا خاتمہ اور زرعی اصلاحات چاہتی ہیں چنانچہ وہ انہیں کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔

1956 میں مغربی پاکستان کو ون یونٹ یعنی ایک صوبہ بنانا اور قومی اسمبلی میں اس کی مشرقی پاکستان کے ساتھ برابری پیدا کرنا ظاہر کرتا تھا کہ مرکز کو اکثریتی صوبے بنگال کے چیلنج سے محفو ظ کیا جا رہا ہے جب کہ حقیقت بھی یہ ہی ہے کہ 1958 میں پاکستان میں فوجی انقلا ب کے اسباب میں سے سب سے بڑا سبب عام انتخابات کا التوا تھا۔ 1956 کے آئین کے تحت اگر یہ عام انتخابات منعقد ہو جاتے تو پنجاب کے جاگیرداروں، اشرافیہ کے مفادات خطرے میں پڑ جاتے یہ ہی وجہ ہے کہ آمریت کے آتے ہی سیاسی جماعتوں کے نظام کی کمزوریوں کو موضوع بنانے اور توجہ دینے کی بجائے سیاست دانوں کی بدعنوانی اورگروہ بندیوں کا شور مچانا شروع کر دیا مارشل لا نافذ ہوا اور انتخابات ملتوی ہو گئے اور جاگیرداروں کو کامیابی حاصل ہوگئی۔

پاکستان میں منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے کی روایت اس وقت وجود میں آئی جب صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ کے گورنروں نے ڈاکٹر خان صاحب اور ایم اے کھوڑو کی وزارتیں 22 اگست 1947 اور 26 اپریل 1948 کو برطرف کر دیں۔ جنرل ایوب خان نے اپنے اقتدار پر قبضے کا جواز یہ پیش کیا کہ ''سیاست دان اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال، بدعنوانیوں اور گروہی سازشوں کے ذریعے ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئے تھے'' اور پھر ان کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنے والے آمروں جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف نے بھی یہ ہی جواز پیش کیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آمروں کے دور میں جتنی بدعنوانی، کرپشن ہوئی اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔

جمہوریت کی ناکامی کے دیگر اسباب میں مسلم لیگ کی بدعنوانیوں بحیثیت سیاسی ادارہ کمزوریاں اور جاگیرداروں کے مفادات سرفہرست ہیں ان تمام عوامل کے ڈانڈے تحریک آزادی سے ملتے ہیں پاکستان میںمسلم لیگ وہ کردار ادا نہ کر سکی جو بھارتی سیاست میں کانگریس نے بھرپور انداز میں ادا کیا قائداعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی قیادت کا عدم برداشت کا رویہ بھی جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا پنجاب کے یونینسٹوں کو نشانہ بنایا گیا جو تحریک پاکستان کے دوران سیاسی کلچر میں نشوونما پاچکے تھے۔

حسین شہید سہروردی اور مولانا عبدالحمید بھاشانی جیسے مخالفین کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی اور ان پر الزامات لگائے گئے مسلم لیگ کی مخالفت کو پاکستان سے دشمنی قرار دیا جاتا رہا پاکستان کے سیاست دانوں کو کمتر سمجھنے کا اندازہ 1949 میں پروڈا (PRODA) کے نفاذ سے بھی ظاہر ہوتا ہے اس قانون کے تحت اقربا پروری، رشوت ستانی، بدعنوانی کے الزامات کے ساتھ سیاست دانوں کو عوامی عہدوں کے لیے نااہل قرار دیا جاسکتا تھا الزامات وزراء اور عام اراکین اسمبلی پر نہ صرف گورنر جنرل اور صوبائی گورنر عائد کر سکتے تھے بلکہ عام شہری بھی پانچ ہزار روپے زرضمانت جمع کرا کے مقدمہ دائر کر سکتا تھا۔

جہاں تک مذہبی انتہاپسندی کا تعلق ہے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے انتہاپسندی کے رحجان کو مضبوط کرنے میں 3 طرح سے کردار ادا کیا پہلا مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے سے وہاں پر موجود ایک بڑی ہندو اقلیت کا پاکستان سے تعلق ختم ہو گیا اور پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد بھی بہت ہی کم ہو گئی دوسرا مشرقی پاکستان کے الگ ہو جانے سے پاکستان میں ہندوستان مخالف اور ہندو مخالف جذبات میں بہت شدت آگئی کیونکہ عمومی طور پر مشرقی پاکستان کی علیحد گی کی بڑی وجہ ہندوستان کی سازش کو قرار دیاگیا تیسری بات یہ ہے کہ دو قومی نظریہ جو پاکستانی قوم پرستی کی سیکولر بنیاد تھا وہ کمزور ہو گیا اور اسلام کو ریاستی اجزا کو مجتمع رکھنے کا ذریعہ قرار دیا جانے لگا۔ افغان جہاد سے ملک میں دہشت گردی اور کلاشنکوف کلچر فروغ پانے لگا۔

جنرل ضیاء کے دور حکومت میں انتہاپسندی، جنونیت، جہالت اور تشدد کی حوصلہ افزائی نے رواداری، برداشت اورمساویانہ معاشرتی قدروں کو سخت نقصان پہنچایا صرف یہ ہی نہیں اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ مذہبی جماعتوں کی انتخابی سیاست میں پاکستان کے عوام کی جانب سے انہیں مسترد کر دینے کی وجہ سے جنم لینے والی مایوسی بھی ہے جس نے مذہبی اورفرقہ وارانہ تشدد کی شکل اختیار کی۔ مذہبی جماعتوں کی انتخابی عمل میں ناکامی کی وجہ سے مذہبی بنیادپرستی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتاچلا گیا کیونکہ انہیں اپنی بقا اسی طرف نظر آنے لگی۔

غربت، بے روزگاری، بھوک کے مارے لوگ ان کے ایندھن بنتے چلے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں انتہاپسندوں کی چاندی ہوگئی۔ وحشت اور دہشت کے یہ بیوپاری بارود کی بو پورے ملک میں پھیلانا چاہتے ہیں ملک میں دہشت گردی کے واقعات جمہوریت، ملک کے استحکام ملک کی تہذیب اور تمد ن پر حملے میں یہ چند ہزار دہشت گرد ملک اور قوم کے دشمن ہیں۔ پاکستان کے عوام ان انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ پر عزم ہیں کہ وہ حکومت اپنی مسلح افواج کے ساتھ مل کر اپنے اتحاد کے ذریعے ان دہشت گردوں کو نہ صرف ختم کر دیں گے بلکہ ملک سے انتہاپسندی اور جنونیت کا بھی خاتمہ کردیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں