انتخابات اور عوامی فیصلے…

یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جنرل مشرف نے2007میں اعلی عدلیہ کی قانونی حیثیت کو متاثر کرنے کی کوشش کی

جونیجو حکومت نے جب افغان مسئلے پر قابل قبول خارجہ پالیسی اپنائی تو صدرضیاء نے ناپسندیدگی کی وجہ سے 29 مئی 1988کو جونیجوحکومت کو برطرف کرکے اسمبلیاں توڑ دیں اور عام انتخابات کے لیے16 نومبر1988کی تاریخ مقررکی لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ 17اگست 1988 میں اس جہاں سے کوچ کر گئے اس کے بعد نومبر 1988میں انتخابات کرائے گئے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت کی حیثیت سے ایوان میں آئی اور یوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور اس کی سات اتحادی جماعتیں (اسلامی جمہوری اتحاد )حزب اختلاف کی بینچوں پر بیٹھیں،لیکن اقرباء پروری ،بدعنوانی اور قواعد کے خلاف بھرتیوں کی وجہ سے تقریبا 20 ماہ بعد بینظیر حکومت صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوںبرطرف ہوئی جمہوری انتخابی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اکتوبر 1990 کے انتخابی نتائج کی بنیاد پر اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ میاں نواز شریف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ۔

تقریبا ڈھائی سال بعد ان کی حکومت کو بھی برطرف کر دیا گیا ۔سپریم کورٹ نے صدر غلام اسحاق خان کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کر دیا مگر اس کے باوجود صدر اسحاق نے اسٹبلشمنٹ گٹھ جوڑ کے تحت نوازشریف کی حکومت کو چلتا کیا،اس دوران بے نظیر بھٹو مفاہمت کے گروں سے واقف ہوچکی تھیں، لہذا ایک مرتبہ پھر امریکی آشیرباد کے نتیجے میںاکتوبر1993 کا انتخابی نتیجہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار میں لے آیا،مگر تین سال کے عرصے میں پھر جمہوری حکومت کو فارغ کیا گیا ۔

فروری 1997 کے انتخابات کے نتیجے میںمسلم لیگ نواز بغیرکسی اتحاد کے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ بر سراقتدار آئی اور میاں نواز شریف نے دوسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا،مگر بدقسمتی سے اس جمہوری حکومت کو بھی ملکی اشرافیہ نے برداشت نہ کیا اور پونے تین سال کے بعدقوم کو بتایا گیا کہ جمہوری حکومت پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی تھی لہذا جنرل پرویز مشرف نے رات کی تاریکی میں حکومت کو برطرف کرتے ہوئے منتخب اسمبلیاں توڑکر آئین کو منسوخ کر دیا اور اقتدار سنبھالا،جب کہ جنرل مشرف کی جانب سے نواز شریف کی حکومت برطرف کیے جانے کے حقائق سراسرسچ کے برعکس تھے ،آج عوام آمر مشرف کی ناقص لاقانونیت اور بدعنوانی کو بھگت رہی ہے اورمشرف کے دیے ہوئے خودکش بم دھماکوں سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

جب کہ دوسری جانب ملک میں امریکی اثر ونفوذ بڑھا کر ڈرون حملوں کی راہ کو آمر مشرف اور ان کے اتحادیوں نے آسان کیا ،اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنرل مشرف کی فوجی حکومت کو زندگی دینے کی کوشش میں نوازشریف کی جماعت کے دھڑے کیے گئے،جب کہ ایم کیو ایم سمیت تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی حمایت نے فوجی اقتدار کے سربراہ جنرل مشرف کو سہارا دیا جو آگے چل کر مذہبی اتحاد ایم ایم اے کی حمایت بھی لینے میں کامیاب ہوا۔ الیکشن2002میں مسلم لیگ ق بنوائی گئی ،جس کے پہلے وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی بنے ۔


نواز لیگ ،پی پی پی اور متحدہ مجلس عمل پانچ مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھی ۔جمالی نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ موجودہ اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے ساتھ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلوںگا ،بیشتر معاملات پر مشاورت لازمی ہو گی اور سب کو ساتھ لے کر پارلیمنٹ چلائیں گے ،یہ بات فوجی آمر جنرل مشرف کو شاید پسند نہ آئی اور انھوں نے مسلم لیگ ق کی اپنی ہی سازش کے ذریعے منتخب وزیراعظم میر ظفرجمالی کو اقتدار سے الگ کر کے دہری شہریت کے امریکی شہری اور وزیر خزانہ شوکت عزیز کو وزیراعظم منتخب کروایا ،جس کی حمایت میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ کے علاوہ متحدہ مجلس عمل شریک رہیں،اور یوں فوجی قیادت کی مرضی سے بنائی گئی نام نہاد اسمبلی کی مدت پوری کرائی گئی جس میں ایل ایف او کی آئینی ترمیم کے ذریعے اصل آئین کا حلیہ بگاڑا گیا ۔

یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جنرل مشرف نے2007میں اعلی عدلیہ کی قانونی حیثیت کو متاثر کرنے کی کوشش کی جس میں پاکستان کے عوام نے وکلا اور سماج کے دیگر جمہوری سوچ کے افراد کے ساتھ فوجی آمر کے خلاف بھرپور تحریک چلائی،جس میں مسلم لیگ ن اور پی پی وکلا تحریک کے ساتھ سر فہرست تھیں جب کہ ایم کیو ایم ،مسلم لیگ ق اور متحدہ مجلس عمل جنرل مشرف کا ساتھ دے رہی تھیں،مگر عدلیہ بحالی کی یہ جمہوری تحریک عوام کی مدد اور حمایت سے کامیاب ہوئی اور یوں جنرل مشرف کے اقتدار کو ختم کرنے کی راہ نکالی گئی ،یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پی پی کی سربراہ بے نظیر بھٹونے امریکی مرضی سے جنرل مشرف سے این آر او کا معاہدہ کیا جس نے پی پی سمیت ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کے ہزاروں زیر التوا مقدمات یکسر ختم کرادیے، اور یوںبے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے پاکستان آمد کی راہ ہموار ہوئی۔

پاکستان آمد کے بعد بے نظیر بھٹو پر خود کش حملے کیے گئے اور آخر کارستائیس دسمبر 2007کے ایک حملے میں پی پی کی بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا،یہاں اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت کے حالات کی پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لیے جنرل مشرف نے امریکی دباؤ کے نتیجے میں 2008کے انتخابات کی حامی بھری اور انتخابی عمل شروع ہوا۔ 2008 کے عام انتخابات میں پی پی پی پہلے ،نواز لیگ دوسرے ،ق لیگ تیسرے ،ایم کیو ایم چوتھے ،عوامی نیشنل پارٹی پانچویں او رمتحدہ مجلس عمل (جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ چھٹے نمبر پر آئی ۔

پی پی پی نے اکثریتی جماعت کی حیثیت سے اقتدار حاصل کرنے کے لیے مسلم لیگ ن ،اے این پی اورایم کیو ایم کو اتحادی بنایااور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں ابتدائی مخلوط حکومت تشکیل دی ۔چند مہینوں کی اس اتحادی حکومت سے مسلم لیگ ن الگ ہو گئی جو تا حال اپوزیشن کام کر رہی ہے ،جب کہ ایم کیو ایم سمیت اے این پی اور مسلم لیگ ق نے پی پی کے ساتھ اقتدار کو پوری طرح اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کیا اور صدر زرداری کے ساتھ ساتھ رہے،گو گیلانی عدالتی احکامات کی روشنی میں بر طرف کردیے گئے اور ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنایا گیا،مگر حکومتی اتحادیوں اے این پی،ایم کیو ایم یا مسلم لیگ ق نے راجہ پرویز اشرف کی بد عنوانی کا کبھی تذکرہ بھی نہیں کیا،اس ساری صورتحال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فوجی آمرانہ اقتدار کیسے سماج میں منفی اور مفاد پرستانہ رجحانات کی پرورش کرتا ہے اور کس طرح جمہوری آزادی کے نام پر عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق کو سیاسی جماعتوں کا اتحاد غصب کرتا ہے ۔

آیندہ آنے والے انتخابات کے لیے شاید سب دعاگو ہیں کہ پاکستان میں عوامی ووٹ کے ذریعے ایسا جمہوری نظام آئے جس میں عوام خوشحال اور سماج میں امن کی فاختہ وہ ساز چھیڑتی پھرے جس کے ہر سر سے امن خوشحالی اور انسانی شعور کے مدھر ساز سنائی دیں۔
Load Next Story