پاکستان میں سامراجی یلغار
پاکستانی ریاست بھی اب کچھ عرصے سے چینی سامراج سے تعلق بڑھا رہی ہے۔
گزشتہ 65 برسوں سے امریکی سامراج نے اپنے مقامی گماشتوں کے ذریعے جتنا ملک کے عوام کا استحصال کیا ہے اتنا ماضی کی سامراجی طاقتیں مل کر بھی نہیں کرسکیں۔ برصغیر کے زندہ جسم کو چیر کر مذہبی جنونیت کے نام پر یہاں لاکھوں انسانوں کا قتل کرکے اس نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے بعد یہاں کے عوام کو غربت میں دھکیل کر ان کے خون پسینے کی کمائی سے اسلحے کے انبار لگائے گئے جس کا سب سے زیادہ فائدہ اسلحہ بنانے والی صنعتوں کے مالکان کو ہوا۔ امریکا کے بعد چین بھی ایک نومولود سامراجی طاقت ہے جو بتدریج دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کررہا ہے۔
پاکستانی ریاست بھی اب کچھ عرصے سے چینی سامراج سے تعلق بڑھا رہی ہے۔ جس کی ایک واضح مثال چین سے اسلحے کی بڑھتی ہوئی خریداری ہے۔ 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2007 سے لے کر 2011 تک دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والے ممالک میں بھارت سرفہرست ہے جو دنیا میں بکنے والے اسلحے میں سے 10 فیصد خریدتا ہے جب کہ پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جو پانچ فیصد اسلحہ خریدتا ہے۔ پاکستان جو اسلحہ خریدتا ہے اس میں 42 فیصد چین سے، 36 فیصد امریکا سے جب کہ 5 فیصد سوئیڈن سے خریدتا ہے۔
بٹوارے کے 65 سال بعد بھی یہ خطہ اور اس پر مسلط کردہ جعلی تضادات سامراجی قوتوں کے لیے منافعوں کا باعث ہیں اور وہ اس خطے کے عوام کو دنیا کی بدترین غربت اور بیماری میں دھکیل کر اپنی دولت میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔ دفاعی سازوسامان کی فروخت کے علاوہ دیگر اہم ریاستی امور پر بھی سامراجی اجارہ داری کا تسلسل واضح ہے۔ اہم معاملات سمیت ہر معاملے میں امریکی سامراج کے آقاؤں کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ پہلے یہ سارا عمل کسی حد تک پوشیدہ رکھا جاتا تھا لیکن اب تو کچھ عرصے سے اسے پوشیدہ رکھنے کی بھی کوشش نہیں کی جاتی۔۔ تقرری اور حلف نامے کے بعد بھی کسی سربراہ کا اہم ترین فریضہ اپنے آقاؤں کو ان کے پاس جاکر سلامی دینا ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدر، وزیر اعظم اور اہم وزارتوں کے سربراہوں کے چناؤ میں سامراجی طاقتوں کی کتنی گہری مداخلت ہوگی۔
کچھ عرصہ قبل آنے والی وکی لیکس کے مطابق 2008 میں حکومت بنتے وقت پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کے پاس کتنی گہما گہمی تھی اور عہدے حاصل کرنے کا ہر خواہشمند اس در پر گڑگڑا کر اپنی حاجات پیش کر رہا تھا۔ آج پاکستان میں امریکی سفیر کے پاس اس ملک کے معاملات میں عمل دخل کے اختیارات یقیناً برطانوی سامراج کے دور کے وائسرائے سے بھی زیادہ ہیں۔ وزیر خزانہ، داخلہ اور خارجہ کی تعیناتی خصوصی طور پر امریکی آشیر باد سے کی جاتی ہے تاکہ تمام اہم امور پر مضبوط گرفت رہے۔
امریکی سامراج ہمیشہ پاکستانی ریاست کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ اس کے لیے یہاں کے گماشتہ حکمران خواہ وہ فوجی آمر کی شکل میں ہوں یا جمہوریت کا لبادہ اوڑھے جاگیردار اور سرمایہ دار، انھوں نے اپنی قیمت وصول کرکے اس ریاست اور عوام کو ان مفادات کی بھینٹ چڑھایا ہے۔ 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور افغانستان میں امریکی جارحیت کے بعد سے اس گماشتگی میں کافی شدت آئی ہے۔ اس دوران پاکستان کو امریکی پالیسی کے تحت نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کیا گیا وہیں یہاں کی سرزمین کو بھی امریکی فوج کی سپلائی لائن کا حصہ بنایا گیا۔
جن مذہبی جنونیوں کو خود امریکی ڈالروں کے ذریعے پاکستان نے بنایا ان ہی کے خلاف جنگ کا ناٹک کیا گیا۔ اس دوران افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں آپریشنوں کا ڈھونگ رچایا گیا ۔ اپنے ہی پیدا کردہ مجرموں سے جنگ میں امریکی آقاؤں کے ساتھ متعدد اختلافات ابھرے، جس کے باعث یہ جنگ زیادہ طویل اور خونریز ہوتی چلی گئی۔
2008 میں آنے والے معاشی بحران کے باعث امریکی سامراج کمزور اور کھوکھلا ہوتا چلا گیا جس سے امریکا کے حکمران طبقے میں بھی اختلافات پیدا ہونے لگے۔ اسی باعث افغانستان اور پاکستان میں موجود امریکی حامی زیادہ قیمت وصول کرنے کے چکر میں اپنے آقاؤں کے سامنے سر اٹھانے لگے۔
اسامہ بن لادن کے قتل سے امریکی سامراج نے اپنی طاقت کو دوبارہ مسلط تو کیا لیکن ساتھ ہی اپنے حامیوں کا منہ بند رکھنے کے لیے ڈالر بھی مسلسل ادا کیے اور بہت سے کارندوں نے ہیروئن اور دیگر منشیات کی منڈی کو پوری دنیا میں دے کر بہت مال بٹورا۔ اخباری خبر کے مطابق دنیا میں 58 ارب ڈالر سے زیادہ کی منشیات کا دھندہ کیا جارہا ہے۔
مختلف رپورٹوں کے مطابق دنیا میں استعمال ہونے والی منشیات کا 92 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔ طالبان کی آمدن کا 75 فیصد منشیات کی اسمگلنگ پر منحصر ہے۔ اس حوالے سے طالبان کو پیدا کرنے والے اور ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے بہت بڑی تجارت اور کاروبار سے منسلک ہیں۔ اتنی بڑی رقم کے سامنے انسانوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں اور اسے بے دریغ بہایا جارہا ہے۔
گوادر کی بندرگاہ کو اب حتمی طور پر چین کے حوالے کردیا گیا ہے۔ چین نے اس اہم بندرگاہ کی تعمیر پر 20 کروڑ ڈالر سے زائد خرچ کیے جو اہم اسٹرٹیجک گزرگاہ کے راستے میں آتی ہے۔ دنیا میں تیل کی 20 فیصد تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور سعودی حکمرانوں کے ٹکراؤ کا مقام بھی یہی گزرگاہ ہے۔
چین اس بندرگاہ پر کنٹرول کے لیے مزید 35 لاکھ ڈالر ادا کرے گا ۔ اس بندرگاہ کو چین کے صوبے سنکیانگ کی صنعت کو ترویج دینے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا اور اس کے لیے ایک سڑک تعمیر کرنے کا بھی منصوبہ ہے جو اس بندرگاہ کو سنکیانگ سے جوڑے گی۔ سنکیانگ سے چین کے مشرقی ساحل تک پہنچنے کے لیے 4 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے جب کہ گوادر بندرگاہ سے صرف 2 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ افغانستان میں موجود چینی اجارہ داریوں کے قبضے میں معدنی وسائل کو بھی سمندر تک پہنچانے میں سہولت ملے گی۔
اس کے علاوہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی دریافت نے بھی اسے سامراجی طاقتوں کا میدان جنگ بنادیا ہے۔ پاکستانی ریاست اپنی نامیاتی کمزوری کے باعث ان طاقتوں کے خونیں کھیل میں مزید بکھرتی جارہی ہے جب کہ خطے کے عوام کی زندگیاں اجیرن ہوتی جارہی ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے آسٹریلیا کی ملٹی نیشنل کمپنی اور بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے درمیان 1993 کے ریکوڈیک کے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا، اس کے باعث دنیا میں سونے کی کانوں کی بڑی اجارہ دار کینیڈا کیکمپنی کو بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔
اس فیصلے کے محرکات میں بھی دنیا میں کانوں کی دوسری بڑی اجارہ داریوں کو قرار دیا جارہا ہے۔ کینڈین کمپنی اس منصوبے پر ایک لمبے عرصے سے سرمایہ کاری کر رہی تھی اور اب تک 400 ملین ڈالر خرچ کرچکی ہے۔ امریکا اور چین کی سامراجی مفادات اور ان کی جانب سے جن ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے ان کا ٹکراؤ ہمیں بلوچستان کے دیگر معدنی وسائل پر قبضے کی لڑائی میں بھی نظر آتا ہے۔ ان تمام مداخلت جو امریکا، چین، سعودی عرب، ایران، افغانستان اور انڈیا اپنے مقامی آلہ کاروں کے ذریعے کر رہا ہے اس کا واحد حل سرمایہ داری کا خاتمہ، ریاست کا خاتمہ، باقاعدہ فوج کا خاتمہ، اسمبلی، عدالت اور جیل کا خاتمہ کرکے ایک امداد باہمی کا معاشرہ قائم کیا جائے۔ سب مل جل کر پیداوار کریں اور مل جل کر کھائیں، بیرونی حملہ آوروں کا 18 کروڑ عوام خصوصی فوجی تربیت حاصل کرکے اپنا دفاع خود کریں۔
پاکستانی ریاست بھی اب کچھ عرصے سے چینی سامراج سے تعلق بڑھا رہی ہے۔ جس کی ایک واضح مثال چین سے اسلحے کی بڑھتی ہوئی خریداری ہے۔ 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2007 سے لے کر 2011 تک دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والے ممالک میں بھارت سرفہرست ہے جو دنیا میں بکنے والے اسلحے میں سے 10 فیصد خریدتا ہے جب کہ پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جو پانچ فیصد اسلحہ خریدتا ہے۔ پاکستان جو اسلحہ خریدتا ہے اس میں 42 فیصد چین سے، 36 فیصد امریکا سے جب کہ 5 فیصد سوئیڈن سے خریدتا ہے۔
بٹوارے کے 65 سال بعد بھی یہ خطہ اور اس پر مسلط کردہ جعلی تضادات سامراجی قوتوں کے لیے منافعوں کا باعث ہیں اور وہ اس خطے کے عوام کو دنیا کی بدترین غربت اور بیماری میں دھکیل کر اپنی دولت میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔ دفاعی سازوسامان کی فروخت کے علاوہ دیگر اہم ریاستی امور پر بھی سامراجی اجارہ داری کا تسلسل واضح ہے۔ اہم معاملات سمیت ہر معاملے میں امریکی سامراج کے آقاؤں کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ پہلے یہ سارا عمل کسی حد تک پوشیدہ رکھا جاتا تھا لیکن اب تو کچھ عرصے سے اسے پوشیدہ رکھنے کی بھی کوشش نہیں کی جاتی۔۔ تقرری اور حلف نامے کے بعد بھی کسی سربراہ کا اہم ترین فریضہ اپنے آقاؤں کو ان کے پاس جاکر سلامی دینا ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدر، وزیر اعظم اور اہم وزارتوں کے سربراہوں کے چناؤ میں سامراجی طاقتوں کی کتنی گہری مداخلت ہوگی۔
کچھ عرصہ قبل آنے والی وکی لیکس کے مطابق 2008 میں حکومت بنتے وقت پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کے پاس کتنی گہما گہمی تھی اور عہدے حاصل کرنے کا ہر خواہشمند اس در پر گڑگڑا کر اپنی حاجات پیش کر رہا تھا۔ آج پاکستان میں امریکی سفیر کے پاس اس ملک کے معاملات میں عمل دخل کے اختیارات یقیناً برطانوی سامراج کے دور کے وائسرائے سے بھی زیادہ ہیں۔ وزیر خزانہ، داخلہ اور خارجہ کی تعیناتی خصوصی طور پر امریکی آشیر باد سے کی جاتی ہے تاکہ تمام اہم امور پر مضبوط گرفت رہے۔
امریکی سامراج ہمیشہ پاکستانی ریاست کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ اس کے لیے یہاں کے گماشتہ حکمران خواہ وہ فوجی آمر کی شکل میں ہوں یا جمہوریت کا لبادہ اوڑھے جاگیردار اور سرمایہ دار، انھوں نے اپنی قیمت وصول کرکے اس ریاست اور عوام کو ان مفادات کی بھینٹ چڑھایا ہے۔ 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور افغانستان میں امریکی جارحیت کے بعد سے اس گماشتگی میں کافی شدت آئی ہے۔ اس دوران پاکستان کو امریکی پالیسی کے تحت نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کیا گیا وہیں یہاں کی سرزمین کو بھی امریکی فوج کی سپلائی لائن کا حصہ بنایا گیا۔
جن مذہبی جنونیوں کو خود امریکی ڈالروں کے ذریعے پاکستان نے بنایا ان ہی کے خلاف جنگ کا ناٹک کیا گیا۔ اس دوران افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں آپریشنوں کا ڈھونگ رچایا گیا ۔ اپنے ہی پیدا کردہ مجرموں سے جنگ میں امریکی آقاؤں کے ساتھ متعدد اختلافات ابھرے، جس کے باعث یہ جنگ زیادہ طویل اور خونریز ہوتی چلی گئی۔
2008 میں آنے والے معاشی بحران کے باعث امریکی سامراج کمزور اور کھوکھلا ہوتا چلا گیا جس سے امریکا کے حکمران طبقے میں بھی اختلافات پیدا ہونے لگے۔ اسی باعث افغانستان اور پاکستان میں موجود امریکی حامی زیادہ قیمت وصول کرنے کے چکر میں اپنے آقاؤں کے سامنے سر اٹھانے لگے۔
اسامہ بن لادن کے قتل سے امریکی سامراج نے اپنی طاقت کو دوبارہ مسلط تو کیا لیکن ساتھ ہی اپنے حامیوں کا منہ بند رکھنے کے لیے ڈالر بھی مسلسل ادا کیے اور بہت سے کارندوں نے ہیروئن اور دیگر منشیات کی منڈی کو پوری دنیا میں دے کر بہت مال بٹورا۔ اخباری خبر کے مطابق دنیا میں 58 ارب ڈالر سے زیادہ کی منشیات کا دھندہ کیا جارہا ہے۔
مختلف رپورٹوں کے مطابق دنیا میں استعمال ہونے والی منشیات کا 92 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔ طالبان کی آمدن کا 75 فیصد منشیات کی اسمگلنگ پر منحصر ہے۔ اس حوالے سے طالبان کو پیدا کرنے والے اور ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے بہت بڑی تجارت اور کاروبار سے منسلک ہیں۔ اتنی بڑی رقم کے سامنے انسانوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں اور اسے بے دریغ بہایا جارہا ہے۔
گوادر کی بندرگاہ کو اب حتمی طور پر چین کے حوالے کردیا گیا ہے۔ چین نے اس اہم بندرگاہ کی تعمیر پر 20 کروڑ ڈالر سے زائد خرچ کیے جو اہم اسٹرٹیجک گزرگاہ کے راستے میں آتی ہے۔ دنیا میں تیل کی 20 فیصد تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور سعودی حکمرانوں کے ٹکراؤ کا مقام بھی یہی گزرگاہ ہے۔
چین اس بندرگاہ پر کنٹرول کے لیے مزید 35 لاکھ ڈالر ادا کرے گا ۔ اس بندرگاہ کو چین کے صوبے سنکیانگ کی صنعت کو ترویج دینے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا اور اس کے لیے ایک سڑک تعمیر کرنے کا بھی منصوبہ ہے جو اس بندرگاہ کو سنکیانگ سے جوڑے گی۔ سنکیانگ سے چین کے مشرقی ساحل تک پہنچنے کے لیے 4 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے جب کہ گوادر بندرگاہ سے صرف 2 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ افغانستان میں موجود چینی اجارہ داریوں کے قبضے میں معدنی وسائل کو بھی سمندر تک پہنچانے میں سہولت ملے گی۔
اس کے علاوہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی دریافت نے بھی اسے سامراجی طاقتوں کا میدان جنگ بنادیا ہے۔ پاکستانی ریاست اپنی نامیاتی کمزوری کے باعث ان طاقتوں کے خونیں کھیل میں مزید بکھرتی جارہی ہے جب کہ خطے کے عوام کی زندگیاں اجیرن ہوتی جارہی ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے آسٹریلیا کی ملٹی نیشنل کمپنی اور بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے درمیان 1993 کے ریکوڈیک کے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا، اس کے باعث دنیا میں سونے کی کانوں کی بڑی اجارہ دار کینیڈا کیکمپنی کو بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔
اس فیصلے کے محرکات میں بھی دنیا میں کانوں کی دوسری بڑی اجارہ داریوں کو قرار دیا جارہا ہے۔ کینڈین کمپنی اس منصوبے پر ایک لمبے عرصے سے سرمایہ کاری کر رہی تھی اور اب تک 400 ملین ڈالر خرچ کرچکی ہے۔ امریکا اور چین کی سامراجی مفادات اور ان کی جانب سے جن ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے ان کا ٹکراؤ ہمیں بلوچستان کے دیگر معدنی وسائل پر قبضے کی لڑائی میں بھی نظر آتا ہے۔ ان تمام مداخلت جو امریکا، چین، سعودی عرب، ایران، افغانستان اور انڈیا اپنے مقامی آلہ کاروں کے ذریعے کر رہا ہے اس کا واحد حل سرمایہ داری کا خاتمہ، ریاست کا خاتمہ، باقاعدہ فوج کا خاتمہ، اسمبلی، عدالت اور جیل کا خاتمہ کرکے ایک امداد باہمی کا معاشرہ قائم کیا جائے۔ سب مل جل کر پیداوار کریں اور مل جل کر کھائیں، بیرونی حملہ آوروں کا 18 کروڑ عوام خصوصی فوجی تربیت حاصل کرکے اپنا دفاع خود کریں۔