تصوف کیا ہے تیسرا اور آخری حصہ
اس وقت سے لے کر آج تک یہ ’’محافظ‘‘ کسی نہ کسی نام سے پندرہ فیصد ہونے کے باوجود پچاسی فیصد آدموں پر مسلط ہے۔
یہ بات تو تفصیل سے ہو گئی ہے کہ اس کائنات اور زمان و مکان کی بنیاد منفی و مثبت یا قرآنی اصطلاح زووج یا جوڑوں پر قائم ہے، اس لیے اب ہم ''چھوٹی کائنات'' انسان کی طرف آتے ہیں جو اپنی جگہ ایک باقاعدہ کائنات ہے۔
دنیا کی باقی تمام مخلوقات حتیٰ کہ ملائیکہ تک جبلت اور فطرت کی تابع ہوتی ہے صرف انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کے اندر منفی و مثبت کا جوڑا یکجا موجود ہے اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جسے یہ اختیار، یہ آزادی اور یہ فہم حاصل ہے کہ چاہے تو شر اور ابلیس بھی بن سکتا ہے اور چاہے تو آدم اور سراسر خیر بھی بن سکتا ہے یعنی منفی و مثبت دونوں اس کے اندر یکجا ہیں یہاں ہم اس کی جسمانی زوج یا منفی و مثبت یعنی نر و مادہ کی بات نہیں کر رہے کیونکہ نر و مادہ صرف ایک جسمانی فرق ہے، انسانیت اور فہم یا عمل میں نر و مادہ یکسان طور پر انسان ہیں اور دونوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ شر پسند بھی بن سکتے ہیں اور خیر پسند بھی چاہے تو ملائیکہ سے بھی اوپر چلا جائے اور چاہے تو ابلیس سے بھی دو قدم آگے نکل جائے۔
اور اسی بات کی صراحت رب جلیل نے بھی کی ہوئی کہ میں نے تو اسے ''احسن تقویم'' پر پیدا کیا ہے ، یعنی یہ واحد مخلوق ہے جسے خدا نے تمام مخلوقات سے برتر، ذہین اور برا بھلا پہچاننے والا بنایا تاکہ وہ زمین پر رب ذوالجلال کی ''نیابت'' کا تاج پہننے کے قابل ہو جائے لیکن اس نے خود کو طرح طرح کے گناہوں میں لتھیڑ کر ''اسفلہ سافلین'' میں گرا دیا ہے۔ انسان کی یہی دو سرشتیں، دو مزاج او دو طبایع ہیں جس کی بنیاد پروہ منفی بھی بن سکتا ہے، زمین پر شر کا نمایندہ بھی ہو سکتا ہے اور خدا کا خلیفہ بن کر مثبت کردار بھی اپنا سکتا۔
آدم جو خیر ہے، امن ہے، مثبت ہے اور ابلیس جو شر ہے خونریزی ہے اور منفی ہے۔ مذہبیات، طبعیات، ارضیات اور عمرانیات کی روشنی میں جب ہم اس وقت سے بات شروع کرتے ہیں جب بنی نوع انسان عقل و شعور کا مالک ہو کر ''جنت'' میں رہتا تھا،جنت کی بحث بھی ہم ''مکانی '' لحاظ سے نہیں کریں گے، اس بحث سے بچتے ہوئے ہم صرف ''زمانی'' جنت کی بات کریں گے، وہ دور جب آبادی کم اور خوراک وافر تھی، انسان جہاں سے چاہتا ہاتھ بڑھا کر کھا لیتا تھا جہاں جی چاہتا پڑا رہتا تھا۔ کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی۔ آزاد تھا۔ جھگڑا نہیں تھا،کشمکش نہیں تھی کیونکہ اس کی واحد ضرورت پیٹ بھرنا تھا اور خوراک وافر تھی ۔گویا زمین بہشت ہی بہشت تھی ۔
بہشت آن جا کہ آزارے نہ باشد
کسے را با کسے کارے نہ باشد
میٹھے پانی کے چشمے تھے،گویا دودھ و شہد کی نہریں تھیں لیکن آہستہ آہستہ آبادی بڑھتی گئی، خوراک کی قلت ہوئی اور اس کے لیے چھیننا چھپٹی کا آغاز ہوا۔ چونکہ ہماری تحقیق کے مطابق وہ مقام یہ پہاڑی سلسلہ اور اردگرد کی زمین تھیں اس لیے کچھ جغرافیائی عوامل نے بھی کام کیا۔ پہاڑوں کی چوٹیاں ایک دیوار کی طرح سمندری ہواؤں اور بارشوں کے لیے روک بھی بن گئیں چنانچہ وسطی ایشیا ریگستانوں میں بدل گیا ۔
یہی وہ دور تھا جب کچھ لوگوں نے گوشت خوری اور شکار کو پیشہ بنا لیا حالانکہ ابتدائی شجر نشین اجداد سے لے کر مانس تک انسان سبزی خور تھا ۔گوشت خور شکاریوں کے پاس پتھر کے ہتھیار بھی آ گئے ۔گوشت خوری کی وجہ سے طاقتور بھی تھے اور اسی وجہ سے ان میں حوانیت تھی۔ جب کہ سبزی خور، غلہ خور، نرم مزاج اور امن پسند تھے ۔
پھر دنیا کا پہلا کیمیائی انقلاب آگ کی صورت میں گوشت خور شکاریوں کے ہاتھ لگا، پتھروں کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی یہ کیمیائی ایجاد اس زمانے میں ٹھیک اسی طرح تھی جس طرح ''ایٹمی '' طاقت کی۔ جس طرح آج ایٹمی طاقتوں کے غرور کی حد نہیں، ویسے ہی اس زمانے آگ ایجادکرنے والوں کی تھی۔ یہیں سے ان کے سروں میں ناری یا ایٹمی ہونے کا خناس پیدا ہو گیا نہ صرف خاکی رزق کھانے والوں کو حقیر جانا بلکہ ان کو پہاڑوں کے باغوں غاروں اور پنا گاہوں سے بھی بھگا دیا۔ سزی خور شاکھا ہاری یا آدم یا خاکی اور کیا کرتے؟ چنانچہ ہموار زمینوں میں پانی کے قریب زمین ہی کے ہوگئے۔ زمین سے خوراک پیدا کرتے تھے،گھر بناتے تھے اور مرنے کے بعد ''زمین ماں'' کے سینے میں دفن ہو جاتے تھے۔ زراعت اور فصل کے انتظار کے لیے ایک جگہ ٹھہرنا ضروری ہوتا ہے چنانچہ انسانی اجتماعی بستیاں بسا کر تہذیب وتمدن کے بھی عادی ہو گئے۔
انسان کا ذہنی ارتقا بھی برابر جاری رہا چنانچہ وقتی طور پر آنے والے غارت گروں اور لٹیروں نے سوچا کہ واپس جایا ہی کیوں جائے۔ ہتھیار تو ان کے پاس تھے چنانچہ لٹیرے سے حاکم اور محافظ بن گئے ۔گویا گائے کو ''دھوہ کر'' کھانا شروع کردیا۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک یہ ''محافظ'' کسی نہ کسی نام سے پندرہ فیصد ہونے کے باوجود پچاسی فیصد آدموں پر مسلط ہے۔ کبھی بادشاہ کبھی فاتح کبھی سردار کبھی شہنشاہ کبھی آمر اور کبھی اس نہایت خطرناک ہتھیار جمہوریت سے کام لیتا ہے خود کو عوام کی جان و مال کا محافظ دین و عقیدے کا محافظ وطن اور قوم کا محافظ بن کر ''عوام'' کی حفاظت کرتا ہے ۔کس لیے؟ کیا وہ اتنا نیک اور انسان دوست مذہب دوست ملک دوست ہے؟
جی نہیں رکھوالا باغ کی حفاظت اس لیے کرتا ہے کہ کوئی اور اس کا پھل نہ توڑے اور میں خود ہی سارا پھل جھولی میں ڈال لوں۔ دنیا کی کسی بھی عسکریت، حاکمیت اور اشرافیہ کا طریقہ واردات یہی ہوتا ہے۔ دشمن تو نہ جانے کب آئے یا نہ آئے لیکن محافظ حفاظت کے نام وہ سب کچھ اس سے چھینتا ہے جو چھیننے کے لائق ہوتا ہے۔
در اصل یہاں پر ایک اور سائنسی حقیقت بھی کار فرما ہوتی ہے۔ چارلس ڈارون اور فرنچ عالم لامارک نے ارتقا کا یہ اصول بیان کیا ہے کہ کوئی عضو جب زیادہ استعمال ہو جاتا ہے تو وہ مضبوط اور طاقطور ہو جاتا ہے اور جس عضو سے کام نہیں لیا جاتا ہے وہ کمزور ہو تے ہوتے معدوم ہوجاتا ہے۔ پس حاکمیہ اور اشرافیہ نے ایسا بندوبست کیاہوا ہے کہ خود تو دماغ کا بے پناہ استعمال کرکے طرح طرح کے پنترے جذباتی نعرے اور اپنی مدح سرائیاں ایجاد کرتا ہے چنانچہ صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے دماغ کے اس استعمال سے طاقتور جب کہ جسم عدم استعمال کی وجہ سے اتنے نازک ہو گئے کہ ایک پھول بھی نہیں توڑ سکتے۔ ادھر عوامیہ کو ''دماغ'' استعمال نہ کرنے اور صرف جسم سے کام لینے پر لگایا ہوا ہے چنانچہ عوامیہ کے جسم سخت طاقتور اور ان کے لیے کماؤ ہو چکے ہیں اور دماغ اتنا بیکار ہے کہ اشرافیہ جیسا بھی استعمال چاہیں استعمال ہو جاتے ہیں۔
ہمارے خیال میں وہ کسان جو دن بھر کھیت میں کام کرتا ہے، سر تا پا مٹی اور پسینے سے شرابور ہے اور نماز کا وقت ہونے پر وضو کرکے کھیت کی مینڈھ پر قبلہ رو ہو جاتا ہے، سب سے بڑا صوفی ہے۔ وہ جولاہا، وہ مزدور، وہ ترکھان، وہ لوہار بھی صوفی ہے جو انسانی معاشرے کو اپنی خدمات سے مستفید کرتا ہے۔ روکھی سوکھی کھاتا ہے، دوسرے کے غم درد میں شریک ہوتا ہے، بہترین صوفی، بہترین آدم اور بہترین خیر ہے۔