پاکستان ریلوے کے 4 سال
چار سال قبل مسافروں نے ریلوے سے سفر کرنا اس لیے چھوڑ دیا تھا کیونکہ ریلوے کے اوقات بے معنی ہوچکے تھے۔
جون 2013 میں جب موجودہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اقتدار میں آئی تھی اورخواجہ سعد رفیق کو وزیرریلوے مقررکیا گیا تھا، اس وقت محکمہ ریلوے آخری سانسیں لے رہا تھا اور مکمل تباہی کے قریب تھا جس کے مکمل ذمے دار اس وقت پی پی حکومت میں اے این پی کے غلام احمد بلور وزیر ریلوے، پی پی حکومت اے این پی اور سب سے زیادہ صدر آصف علی زرداری تھے جو ریلوے کی تباہی دیکھتے رہے مگر خاموش تماشائی بنے رہے کیونکہ اے این پی حکومتی حلیف تھی۔
2012-13 میں ریلوے کی آمدنی صرف 18 ارب روپے تھی جو بڑھ کر 2016-17 میں حکومتی اقدامات کے نتیجے میں 40 ارب دس کروڑ تک پہنچ چکی ہے ۔ ریلوے میں بہتری کے اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف ریلوے کی آمدنی میں اضافہ ہوا بلکہ مسافروں کی تعداد بھی بڑھی اور انھیں سہولتیں ملیں۔کرایوں میں اضافے کے ساتھ متعدد بارکمی ہوئی اور سب سے اہم یہ ہے کہ ریلوے نے اپنا عوام میں کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلیا جس کے نتیجے میں آج ٹرینیں مسافروں سے بھری ہوئی ہیں اور کئی روز قبل ریلوے سفر کے لیے ریزرویشن کرانا پڑ رہی ہے۔
چار سال قبل مسافروں نے ریلوے سے سفر کرنا اس لیے چھوڑ دیا تھا کیونکہ ریلوے کے اوقات بے معنی ہوچکے تھے۔ کوئی ٹرین وقت پر آتی تھی نہ جاتی تھی اور ریلوے انجنوں کی یہ حالت تھی کہ وہ جگہ جگہ فیل ہوکر ٹرین کو جنگل میں کھڑا کر دیا کرتے تھے۔ انجنوں کو ضرورت کے مطابق تیل نہیں ملتا تھا اور وہ جواب دے جاتے تھے جس کے نتیجے میں مسافر تاریک راتوں، گرم ترین دنوں میں گھنٹوں دوسرے انجن کے آنے کا انتظار کرتے تھے اور کئی روز بعد سخت پریشانی اٹھاکر منزل پر پہنچتے تھے۔
اب چار سال پہلے والی صورتحال تو نہیں مکمل صورتحال کی بہتری کے لیے ابھی بہت کام باقی ہے اور شاید بعض ریلوے افسران اب بھی مخلص نہیں ہیں۔ حال ہی میں 7 اکتوبر کو راقم کو کراچی سے لاہور سفر کے لیے کراچی ایکسپریس میں سفر کرنا پڑا۔ ٹرین وقت پر چلی اور نوابشاہ تک ٹھیک آئی پھر سیٹھارجہ میں انجن فیل ہوگیا۔
تین گھنٹے بعد روہڑی سے دوسرا تھکا ہوا انجن آیا جو صبح ڈھرکی آکر فیل ہوگیا۔ دوسرا انجن ملتان تک سات گھنٹے تاخیر کرا چکا تھا۔ ملتان سے نیا انجن لگا اور ٹرین شام سات بجے لاہور پہنچی۔ واپسی میں مجھے اور میرے کزن کو لاہور سے اسی کراچی ایکسپریس نے الگ الگ دنوں میں وقت پر کراچی پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرینوں کے انجن فیل ہونے میں خاصی کمی آچکی ہے ہر ٹرین کو ضرورت کے مطابق آئل مل رہا ہے۔ اکثر ٹرینیں وقت پر چل رہی ہیں ۔ 2013-14 میں ٹرینوں کے وقت کی پابندی 37 فیصد تھی جو مسلسل کوشش سے 2016-17 میں 77 فیصد تک آگئی ہے اور ریلوے پر مسافروں کا اعتماد مسلسل بڑھ رہا ہے اور چار سالوں میں ریلوے مسافروں کی تعداد میں دوکروڑ کے قریب اضافہ ہوا ہے جو قابل تحسین ہے۔
چار سال قبل مال گاڑیاں تقریباً بند ہی ہوچکی تھیں اور بمشکل روزانہ ایک مال گاڑی پر آگئی تھی جو چار سالوں میں روزانہ بارہ ہوگئی ہے، پاکستان ریلوے نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والی اپنی ٹرینوں کی بہتری پر ہی توجہ دی ہے جس کے نتیجے میں ریلوے نے چار سالوں میں ماضی کے مقابلے میں دو ارب چالیس کروڑ روپے زیادہ کمائے ہیں۔ چار سال قبل 46617 مال گاڑیوں کی ویگنیں لوڈ ہوتی تھیں جو اب پانچ گنا اضافے کے ساتھ 264256 ویگنیں لوڈ ہو رہی ہیں اور مسافروں کے علاوہ مال برداری کے سلسلے میں بھی ریلوے نے مال گاڑیوں سے مال بھیجنے والوں کا اعتماد حاصل کرلیا ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ مال برداری ٹرکوں سے سستی اور محفوظ بھی ہے۔
پاکستان ریلوے اپنی ٹرینوں کے ٹریک بھی مسلسل اپ گریڈ کر رہی ہے اور آیندہ دو برسوں میں باقی ٹریک کی اپ گریڈیشن یقینی بنادی گئی ہے۔ ریلوے نے مسافروں کی سہولت کے لیے ایک نیا پسنجر ریزرویشن سسٹم بھی متعارف کرایا ہے جب کہ اس سے قبل مسافروں کا ریلوے میں کوئی والی وارث اور ٹرینوں سے متعلق کچھ بتانے والا ہی نہیں تھا۔ ریلوے میں ای ٹکٹنگ کا کامیابی سے آغاز ہوا تھا جس سے مسافر گھر بیٹھے بکنگ کرا رہے ہیں اور ایک سال میں 27500 مسافر اس سسٹم سے مستفید ہوئے ہیں اور ریلوے کو بھی 36 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی اور روزانہ تقریباً 3500 مسافر ریلوے کی اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ریلوے نے اپنی چار سالہ کارکردگی میں مسافروں کو ڈائننگ کارز میں برانڈڈ اور معیاری اشیا سپلائی کے لیے نئے معاہدے تو کیے ہیں مگر ریلوے پلیٹ فارموں اور ٹرینوں میں کھانوں اور اشیائے ضرورت کی فروخت کی جو لوٹ مار مچی ہوئی ہے اور مہنگے داموں کھانوں، پھلوں، مشروبات، چائے ودیگر اشیا کی مناسب قیمتوں اور معیار کی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے ریلوے کنٹریکٹر اور ان کے کارندوں نے مسافروں کو لوٹنے کی انتہا کر رکھی ہے۔ ٹرینوں میں جو میلے و پرانے تکیے اور چادریں کم ازکم پچاس روپے اور طلب زیادہ ہونے پر مزید مہنگی مسافروں کو دی جاتی ہیں۔
غرض کہ ریلوے میں خرید و فروخت پر ریلوے قیمتوں پرکنٹرول نہیں رکھتا جس کی وجہ سے مسافر لٹ رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جس کی وجہ سے خسارے میں جانے والی ریلوے اپنا خسارہ کم کررہی ہے تو ریلوے کو سفر کے دوران انتہائی گراں فروشی کا شکار مسافروں پر بھی توجہ دینے اور انھیں مناسب نرخوں پر اشیائے ضرورت فروخت پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس معاملے میں ریلوے کنٹریکٹر سفارش پر سستے ٹھیکے لیتے ہیں اور ریلوے مسافروں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔
ریلوے کو کھانوں کے معیارکی بہتری کے ساتھ منہ مانگے نرخوں پر بھی کنٹرول کرنا چاہیے۔ ریلوے رپورٹ کے مطابق 27 میں سے 25 لوکو موٹیوز بحالی کے بعد استعمال کیے جا رہے ہیں اور پرانے انجنوں کی استطاعت کار بڑھانے کے لیے 300 ٹریکشن موٹرز کی بحالی جلد مکمل ہوجائے گی جب کہ 800 پسنجرز کوچز کی بحالی کے سلسلے میں 750 کوچز تیار کرلی گئی ہیں اور اکانومی کلاس کی 300 بوگیوں کی اپ گریڈیشن کرکے انھیں اے سی اسٹینڈرڈ کے معیار پر لایا جا رہا ہے۔ پسنجرز کوچز کی سالانہ اوور ہالنگ کے معیار کو تبدیل کرکے جدید مٹیریل کے استعمال پر توجہ دی جا رہی ہے اور اب تک 13 گاڑیوں کے 34 ریکس مکمل تزئین و آرائش کے بعد اب زیر استعمال ہیں۔ ملک میں ایک سو ریلوے اسٹیشنوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کی بھی تیاریاں جاری ہیں اور ریلوے نے لوڈ شیڈنگ فری ورکنگ ایریاز کے قیام میں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے۔
دس سال قبل بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقعے پر ریلوے کو سندھ میں سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا جس کے مداوے پر پی پی حکومت نے ریلوے کو خصوصی فنڈ دینے کی بجائے بلور جیسا نااہل وزیر دیا تھا جنھوں نے ریلوے کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جن کے بعد ریلوے کو بہتر بنانا نئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے۔
ریلوے کی بحالی میں وفاقی حکومت نے بھی فنڈز فراہم کیے جس کے نتیجے میں ڈبلنگ آف ٹریک کا کام لودھراں سے رائیونڈ تک مکمل ہوسکا ہے جب کہ ریلوے اپنی ٹرینوں کی حفاظت کے نظام جو جدید بنا رہی ہے ریلوے کی زمینوں سے تجاوزات اور قبضے ختم کرائے جا رہے ہیں اور ریلوے ملازمین کے مسائل بھی حل کرائے گئے ہیں۔
چین سے جو نئی بوگیاں منگوا کر استعمال ہو رہی ہیں ان کے معیار کے مقابلے میں پرانی بوگیوں کی تبدیلی یا ان کی بہتری کی بہت ضرورت ہے تاکہ اے سی اسٹینڈرڈ اور اے سی بزنس کلاس کے مسافروں کو ان کے ادا کیے گئے زائد کرایے جیسی سہولتیں نئی بوگیوں کے ساتھ پرانی بوگیوں میں بھی مل سکیں اور اکانومی کلاس کی بوگیوں کا بہتر بنانا بھی اشد ضروری ہے۔