پانچویں عالمی کراچی کانفرنس ایک اچھی کوشش
’’پانچویں عالمی کراچی کانفرنس‘‘ کا انعقاد ہمارے ضمیروں کو جھنجوڑ نے کی ایک اچھی کوشش ہے۔
MULTAN:
حال ہی میںآرٹس کونسل کرا چی میں ''پانچویں عالمی کراچی کانفرنس'' منعقد ہوئی۔کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہارکرنے والوں میں آخری روز موسیقار اور مصور بابر این شیخ اور ادیب ومحقق گل حسین کلماتی بھی شامل تھے انھوں نے جن خیالات کا اظہارکیا وہ شہرکراچی کے باسیوں کو تڑپا گیا۔ اس کانفرنس میں کراچی کے ماضی اور حال کی پیش کردہ تصویر پر دل تڑپ اٹھا کہ ماضی کا کراچی کیا تھا اورآج یہ شہر کیسا ہوگیا ہے؟ نیز مزید کس قدر بگاڑکی طرف اس شہر کو لے جا یا جارہا ہے۔
موسیقار اور مصور بابر این شیخ نے اس کانفرنس میں کراچی شہر کی تاریخی عمارتوں اور مقامات کے بارے میں فلم سازی پر روشنی ڈالی اور یہ شکوہ بجا کیا کہ عمارتوں کی فلم بندی سے اچھی خاصی رقم مل جاتی ہے مگر افسوس کہ یہ رقم ان عمارتوں کی دیکھ بھال پر خرچ نہیں کی جاتی۔ اسی طرح گل حسین کلماتی نے افسوس کا اظہار کیا کہ کراچی عظیم شہر تھا مگر اس کو ہم نے تباہ کردیا۔ انھوں نے اپنی تخلیقی پیش کش میں کراچی کی تین اہم ندیوں اور برساتی نالوں کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ اب انتہائی گندی ہو چکی ہیں اور ان ندیوں نالوں میں کچرا پھینک نے کا عمل جاری ہے۔
یہ باتیں جان کر راقم کی آنکھوں میں بھی کراچی کا وہ منظر دوبارہ تازہ ہوگیا کہ جب کراچی کی لیاری ندی میں بھی اس قدر صاف پانی ہوا کرتا تھا کہ چھوٹے بچے یہاں نہاتے اور رنگین مچھلیاں پکٹر تے تھے۔حسن اسکوائر اور لیاقت آباد دس نمبر کے درمیان واقع پل کے نیچے بہتی ندی کا صاف و شفاف پانی ہوا کرتا تھا ، اس کے دائیں بائیں گوٹھ آباد تھے اور باغیچہ بھی تھا یہ بڑا خوبصورت اور پر فضاء مقام تھا۔ آج اگر آپ اس پل کے اوپر سے بھی گزریں تو ندی میں بہنے والے گندے پانی کی بدبو آپ کو پریشان کردی گی اور جلد یہاں سے گزرنے پر مجبور کرے گی۔
یہ کوئی صدیوں پرانی بات نہیں، ضیا الحق کے دور حکومت کے وقت کی بات ہے۔اس وقت یہاں لیاری ندی کا پانی اس قدر شفاف ہوا کرتا تھا کہ چھوٹی رنگین مچھلیاں پکڑنے کے لیے بچے جمع ہوجایا کرتے تھے جب کہ آج اس ہی شہر میں شہریوں کو پینے کا فراہم کیا جانے والا پانی بھی صاف نہیں، ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی شہرکو فراہم کیا جانے والا اٹھاسی فیصد پانی صاف ہی نہیں ہے۔ شہریوں کی بدقسمتی اور اداروں کی غفلت اورکوتاہی کی اس سے بڑی اورکیا مثال دی جا سکتی ہے؟ گویا اس وقت ندی کا پانی بھی آج کے پینے والے پانی سے زیادہ بہتر تھا۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر نجیب الشوابراجی کے مطابق اس وقت کراچی کی آدھی کے قریب آبادی الرجی کا شکار ہے، اسپتال میں شفاء حاصل کرنے کی غرض سے آنے والا مریض نئی بیماریاں لے کر نکلتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیماریوں کا ایک بڑا سبب شہر میں موجود آلودگی، فضاء میں بڑھتی ہوئی گندگی اور گرد ہے۔
یہ وہ شہر تھا کہ جہاں ستر کی دہائی تک متوسط طبقے کی آبادیوں میں دور دور تک شاذونادر ہی کوئی میڈیکل اسٹور ملتا تھا، گلی محلے کے ڈاکٹر ہی سے شہری دوا لے کر بھلے چنگے ہو جاتے تھے، بخار اور ملیریا کے علاوہ کسی اور بیماری کا واسطہ بھی شہریوں کو نہیں پڑتا تھا۔ محلے کے ڈاکٹرکی دوا سے تین سے چار روز میں بیمار مریض اٹھ کر بیٹھ جاتا تھا۔ آج شہرکی گندگی نے پورا ماحول اس قدرگندا کردیا ہے کہ اب ہرگھر میں ایک ، دو بیمار افراد ضرورموجود ہوتے ہیں۔ گھروں میں اب ایک الماری کا بڑا حصہ دواؤں سے بھرا نظر آتا ہے۔
ہر محلے میں ڈاکٹر کے کلینک ہی نہیں کئی کئی میڈیکل اسٹور ہیں اور ان پر جب بھی جائیں رش ہی نظر آتا ہے۔ یہ کیا ہوگیا ہے شہرکو؟ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ لگتا ہے کسی کوکسی کی فکر نہیں، ہاں سیاست اپنے عروج پر ہے، اب اس شہر میں نہ ڈاکٹروں کے کلینک کی کمی ہے نہ سیاسی جماعتوں اور ان کے مختلف گروپوں کی کوئی کمی ہے، حال ہی میں شہرکے ڈپٹی میئرکی جانب سے سیاسی وفاداری بدلنے کی خبر بھی آگئی، اب نئے ڈپٹی میئرکا چناؤ ہوگا۔ سندھ حکومت بھی کراچی شہر سے محبت کے دعوے بھر تی ہے اور وفاقی حکومت بھی مگر اس شہر کے مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ آخر کون ان مسائل کوحل کرے گا؟
پاکستان اسٹیل ملز سے تقریباً پچیس ہزار افراد کا رزق وابستہ ہے مگر انھیں چار ، چار اور پانچ پانچ ماہ تنخواہیں نہیں ملتیں ، کسی نے سوچا کے ان پچیس ہزار افراد کے خاندانوں کا چولہا کیسے جلتا ہوگا؟ بچے فیس نہ ہونے پر اسکول وکالج جاتے بھی ہونگے یا نہیں؟ وفاق کی حکومت اس ادارے کو فروخت کرنا چاہتی ہے، تنگ آئے ہوئے ملازمین بھی چاہتے ہیں کہ اس سے بہتر ہے کہ اس کو فروخت کرکے اس سے جان چھڑائی جائے مگر سندھ حکومت فروخت نہیں کرنا چاہتی ہے اس کے اپنے مفادات ہیں ، ملازمین کے مفاد کی بات نہیں ہورہی آخرکیوں؟ شہرکے پچیس ہزار خاندانوں کا مسئلہ کیا معمولی مسئلہ ہے؟ یہ مسئلہ سیاسی جماعتوں اوران کے نمایندوں کی زبان پرکیوں نہیں؟ یوں سب کی کھینچا تانی میں اس شہرکا بیڑا غرق ہورہا ہے۔
ایک وہ وقت بھی تھا کہ جب یہاں ٹرام سروس چلا کرتی تھی اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلا کرتی تھیں۔ لوگ بس اسٹاپ پر خود ہی قطار بنا کرکھڑے ہو جاتے تھے اور جب بس آتی تو ایک ایک کرکے تحمل سے اس میں سوار ہوتے تھے، تمام نشستیںپر ہوجانے پر کسی کوکھڑے ہوکر سفرکرنا پسند ہوتو ٹھیک ورنہ بس سے اترکر، دوسری بس کے آنے کا انتظارکیا جاتا تھا۔ راقم نے جس سرکاری اسکول سے پڑھا وہاں نظم و ضبط بڑا مثالی تھا، اساتذہ بہت محنت اور لگن سے پڑھاتے تھے، سال کی فیس محض پانچ روپے تھی۔
مسئلے کی اصل جڑکیا ہے؟ غورکیا جائے تو مسائل کی دو بڑی بنیادی وجوہات ہیں۔ایک یہ کہ حکومت سندھ اور اس کے ادارے اس شہر پر توجہ نہیں دے رہے ہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ اداروں سمیت ہم سب اپنی ذات کے مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں ۔اجتماعی سوچ کا فقدان ہے، جس کو جہاں سے مال بنانے کا موقع لگے وہ وہیں مصروف ہوجاتا ہے ، جو عوامی نمایندے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے اور ایک سو بیس گز کے گھر میں رہنے کے دعوے فخر سے کرتے تھے اب ان کے بینک بیلنس ملک ہی نہیں ملک سے باہر بھی ہیں۔
اکثریت کی دلچسپی صرف مفادات کے گرد ہی گھومتی ہے ، شعورکا فقدان ہی فقدان نظرآتا ہے۔ ایک دکاندار اپنی دکان کا سامان اپنی دکان سے آگے بڑھاکر رکھتا ہے،کچرا جمع کرکے وہی آگ لگا دیتا ہے، دکان کے آگے کوئی تخت یا ٹھیلہ لگا لیتا ہے اور ساتھ ہی کرسیاں آگے تک ڈال دیتا ہے، پھر لوگ اپنی گاڑیاں پارک کر دیتے ہیں، یوں آدھے سے زیادہ سڑک بند ہوجاتی ہے، اس کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ والے اپنی گاڑیاں کھڑی کرکے سواریوں کو اتارتے اور سوارکرتے رہتے ہیں۔
اسی سڑک پرکچھ گاڑی والے مخالف سمت سے الٹی گاڑیاں لاتے ہیں کیونکہ وہ 'یو ٹرن' سے گاڑی لانا پسند نہیں کرتے یا ان کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔ کہیں لوگ گھرکا کچرا ہی دروازے یا گلی کے باہر رکھ دیتے ہیں یا کچھ زیادہ 'صفائی پسند' کچرے کو سڑک پر اس طرح ڈالتے ہیں کہ آدھی سڑک پرکچرا ہی کچرا جمع ہو جاتا ہے۔ اب ذرا غورکریں اس میں کس کس کا کیاکیا کردار ہے؟ ایک عام شہری درست جگہ پر درست طریقے سے کچرا ٹھکانے نہیں لگا رہا ہے، حکومتی ادارے کچرا اٹھانے نہیں آرہے ہیں ۔ عوامی نمایندے کیا کررہے ہیں؟کچھ پتہ نہیں !ایسے میں ''پانچویں عالمی کراچی کانفرنس'' کا انعقاد ہمارے ضمیروں کو جھنجوڑ نے کی ایک اچھی کوشش ہے۔
حال ہی میںآرٹس کونسل کرا چی میں ''پانچویں عالمی کراچی کانفرنس'' منعقد ہوئی۔کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہارکرنے والوں میں آخری روز موسیقار اور مصور بابر این شیخ اور ادیب ومحقق گل حسین کلماتی بھی شامل تھے انھوں نے جن خیالات کا اظہارکیا وہ شہرکراچی کے باسیوں کو تڑپا گیا۔ اس کانفرنس میں کراچی کے ماضی اور حال کی پیش کردہ تصویر پر دل تڑپ اٹھا کہ ماضی کا کراچی کیا تھا اورآج یہ شہر کیسا ہوگیا ہے؟ نیز مزید کس قدر بگاڑکی طرف اس شہر کو لے جا یا جارہا ہے۔
موسیقار اور مصور بابر این شیخ نے اس کانفرنس میں کراچی شہر کی تاریخی عمارتوں اور مقامات کے بارے میں فلم سازی پر روشنی ڈالی اور یہ شکوہ بجا کیا کہ عمارتوں کی فلم بندی سے اچھی خاصی رقم مل جاتی ہے مگر افسوس کہ یہ رقم ان عمارتوں کی دیکھ بھال پر خرچ نہیں کی جاتی۔ اسی طرح گل حسین کلماتی نے افسوس کا اظہار کیا کہ کراچی عظیم شہر تھا مگر اس کو ہم نے تباہ کردیا۔ انھوں نے اپنی تخلیقی پیش کش میں کراچی کی تین اہم ندیوں اور برساتی نالوں کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ اب انتہائی گندی ہو چکی ہیں اور ان ندیوں نالوں میں کچرا پھینک نے کا عمل جاری ہے۔
یہ باتیں جان کر راقم کی آنکھوں میں بھی کراچی کا وہ منظر دوبارہ تازہ ہوگیا کہ جب کراچی کی لیاری ندی میں بھی اس قدر صاف پانی ہوا کرتا تھا کہ چھوٹے بچے یہاں نہاتے اور رنگین مچھلیاں پکٹر تے تھے۔حسن اسکوائر اور لیاقت آباد دس نمبر کے درمیان واقع پل کے نیچے بہتی ندی کا صاف و شفاف پانی ہوا کرتا تھا ، اس کے دائیں بائیں گوٹھ آباد تھے اور باغیچہ بھی تھا یہ بڑا خوبصورت اور پر فضاء مقام تھا۔ آج اگر آپ اس پل کے اوپر سے بھی گزریں تو ندی میں بہنے والے گندے پانی کی بدبو آپ کو پریشان کردی گی اور جلد یہاں سے گزرنے پر مجبور کرے گی۔
یہ کوئی صدیوں پرانی بات نہیں، ضیا الحق کے دور حکومت کے وقت کی بات ہے۔اس وقت یہاں لیاری ندی کا پانی اس قدر شفاف ہوا کرتا تھا کہ چھوٹی رنگین مچھلیاں پکڑنے کے لیے بچے جمع ہوجایا کرتے تھے جب کہ آج اس ہی شہر میں شہریوں کو پینے کا فراہم کیا جانے والا پانی بھی صاف نہیں، ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی شہرکو فراہم کیا جانے والا اٹھاسی فیصد پانی صاف ہی نہیں ہے۔ شہریوں کی بدقسمتی اور اداروں کی غفلت اورکوتاہی کی اس سے بڑی اورکیا مثال دی جا سکتی ہے؟ گویا اس وقت ندی کا پانی بھی آج کے پینے والے پانی سے زیادہ بہتر تھا۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر نجیب الشوابراجی کے مطابق اس وقت کراچی کی آدھی کے قریب آبادی الرجی کا شکار ہے، اسپتال میں شفاء حاصل کرنے کی غرض سے آنے والا مریض نئی بیماریاں لے کر نکلتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیماریوں کا ایک بڑا سبب شہر میں موجود آلودگی، فضاء میں بڑھتی ہوئی گندگی اور گرد ہے۔
یہ وہ شہر تھا کہ جہاں ستر کی دہائی تک متوسط طبقے کی آبادیوں میں دور دور تک شاذونادر ہی کوئی میڈیکل اسٹور ملتا تھا، گلی محلے کے ڈاکٹر ہی سے شہری دوا لے کر بھلے چنگے ہو جاتے تھے، بخار اور ملیریا کے علاوہ کسی اور بیماری کا واسطہ بھی شہریوں کو نہیں پڑتا تھا۔ محلے کے ڈاکٹرکی دوا سے تین سے چار روز میں بیمار مریض اٹھ کر بیٹھ جاتا تھا۔ آج شہرکی گندگی نے پورا ماحول اس قدرگندا کردیا ہے کہ اب ہرگھر میں ایک ، دو بیمار افراد ضرورموجود ہوتے ہیں۔ گھروں میں اب ایک الماری کا بڑا حصہ دواؤں سے بھرا نظر آتا ہے۔
ہر محلے میں ڈاکٹر کے کلینک ہی نہیں کئی کئی میڈیکل اسٹور ہیں اور ان پر جب بھی جائیں رش ہی نظر آتا ہے۔ یہ کیا ہوگیا ہے شہرکو؟ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ لگتا ہے کسی کوکسی کی فکر نہیں، ہاں سیاست اپنے عروج پر ہے، اب اس شہر میں نہ ڈاکٹروں کے کلینک کی کمی ہے نہ سیاسی جماعتوں اور ان کے مختلف گروپوں کی کوئی کمی ہے، حال ہی میں شہرکے ڈپٹی میئرکی جانب سے سیاسی وفاداری بدلنے کی خبر بھی آگئی، اب نئے ڈپٹی میئرکا چناؤ ہوگا۔ سندھ حکومت بھی کراچی شہر سے محبت کے دعوے بھر تی ہے اور وفاقی حکومت بھی مگر اس شہر کے مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ آخر کون ان مسائل کوحل کرے گا؟
پاکستان اسٹیل ملز سے تقریباً پچیس ہزار افراد کا رزق وابستہ ہے مگر انھیں چار ، چار اور پانچ پانچ ماہ تنخواہیں نہیں ملتیں ، کسی نے سوچا کے ان پچیس ہزار افراد کے خاندانوں کا چولہا کیسے جلتا ہوگا؟ بچے فیس نہ ہونے پر اسکول وکالج جاتے بھی ہونگے یا نہیں؟ وفاق کی حکومت اس ادارے کو فروخت کرنا چاہتی ہے، تنگ آئے ہوئے ملازمین بھی چاہتے ہیں کہ اس سے بہتر ہے کہ اس کو فروخت کرکے اس سے جان چھڑائی جائے مگر سندھ حکومت فروخت نہیں کرنا چاہتی ہے اس کے اپنے مفادات ہیں ، ملازمین کے مفاد کی بات نہیں ہورہی آخرکیوں؟ شہرکے پچیس ہزار خاندانوں کا مسئلہ کیا معمولی مسئلہ ہے؟ یہ مسئلہ سیاسی جماعتوں اوران کے نمایندوں کی زبان پرکیوں نہیں؟ یوں سب کی کھینچا تانی میں اس شہرکا بیڑا غرق ہورہا ہے۔
ایک وہ وقت بھی تھا کہ جب یہاں ٹرام سروس چلا کرتی تھی اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلا کرتی تھیں۔ لوگ بس اسٹاپ پر خود ہی قطار بنا کرکھڑے ہو جاتے تھے اور جب بس آتی تو ایک ایک کرکے تحمل سے اس میں سوار ہوتے تھے، تمام نشستیںپر ہوجانے پر کسی کوکھڑے ہوکر سفرکرنا پسند ہوتو ٹھیک ورنہ بس سے اترکر، دوسری بس کے آنے کا انتظارکیا جاتا تھا۔ راقم نے جس سرکاری اسکول سے پڑھا وہاں نظم و ضبط بڑا مثالی تھا، اساتذہ بہت محنت اور لگن سے پڑھاتے تھے، سال کی فیس محض پانچ روپے تھی۔
مسئلے کی اصل جڑکیا ہے؟ غورکیا جائے تو مسائل کی دو بڑی بنیادی وجوہات ہیں۔ایک یہ کہ حکومت سندھ اور اس کے ادارے اس شہر پر توجہ نہیں دے رہے ہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ اداروں سمیت ہم سب اپنی ذات کے مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں ۔اجتماعی سوچ کا فقدان ہے، جس کو جہاں سے مال بنانے کا موقع لگے وہ وہیں مصروف ہوجاتا ہے ، جو عوامی نمایندے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے اور ایک سو بیس گز کے گھر میں رہنے کے دعوے فخر سے کرتے تھے اب ان کے بینک بیلنس ملک ہی نہیں ملک سے باہر بھی ہیں۔
اکثریت کی دلچسپی صرف مفادات کے گرد ہی گھومتی ہے ، شعورکا فقدان ہی فقدان نظرآتا ہے۔ ایک دکاندار اپنی دکان کا سامان اپنی دکان سے آگے بڑھاکر رکھتا ہے،کچرا جمع کرکے وہی آگ لگا دیتا ہے، دکان کے آگے کوئی تخت یا ٹھیلہ لگا لیتا ہے اور ساتھ ہی کرسیاں آگے تک ڈال دیتا ہے، پھر لوگ اپنی گاڑیاں پارک کر دیتے ہیں، یوں آدھے سے زیادہ سڑک بند ہوجاتی ہے، اس کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ والے اپنی گاڑیاں کھڑی کرکے سواریوں کو اتارتے اور سوارکرتے رہتے ہیں۔
اسی سڑک پرکچھ گاڑی والے مخالف سمت سے الٹی گاڑیاں لاتے ہیں کیونکہ وہ 'یو ٹرن' سے گاڑی لانا پسند نہیں کرتے یا ان کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔ کہیں لوگ گھرکا کچرا ہی دروازے یا گلی کے باہر رکھ دیتے ہیں یا کچھ زیادہ 'صفائی پسند' کچرے کو سڑک پر اس طرح ڈالتے ہیں کہ آدھی سڑک پرکچرا ہی کچرا جمع ہو جاتا ہے۔ اب ذرا غورکریں اس میں کس کس کا کیاکیا کردار ہے؟ ایک عام شہری درست جگہ پر درست طریقے سے کچرا ٹھکانے نہیں لگا رہا ہے، حکومتی ادارے کچرا اٹھانے نہیں آرہے ہیں ۔ عوامی نمایندے کیا کررہے ہیں؟کچھ پتہ نہیں !ایسے میں ''پانچویں عالمی کراچی کانفرنس'' کا انعقاد ہمارے ضمیروں کو جھنجوڑ نے کی ایک اچھی کوشش ہے۔