کہاں جائے گی تنہائی ہماری
یہ خاموشی خالص نہیں ہوتی کیونکہ مادی دنیا میں خالص خموشی کا امکان موجود نہیں ہے۔
کاشف حسین غائر نے ایک شعر میں سناٹا ' خیال اور تحریک کا ایک فطری تکون تشکیل دیا ہے۔ اس میں آواز کی تخلیق کا پروسیس بھی مستور ہے۔ آندھی چلنے سے جو شور پیدا ہوتا ہے' اسے بھی سناٹا کہتے ہیں اور مکمل خاموشی کو بھی' جب سائیں سائیں کی آواز بھی نہیں ہوتی؛،ایک اَتَم خموشی!
ہم نے اتم خاموشی کا عالم نہیں دیکھا۔ کیونکہ ہم آدمی ہیں۔ ہمارا مادے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ مکمل سکوت کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تو اس نے دیکھا ہوگا جس نے بسیط خلا میں پہلی۔۔۔ ہاں' اس کائنات کی اولین آواز پیدا کی ہوگی۔ تو' جب آواز نہیں ہوتی تب خاموشی ہوتی ہے ۔ یہ خاموشی خالص نہیں ہوتی کیونکہ مادی دنیا میں خالص خموشی کا امکان موجود نہیں ہے۔ مادے کی موجودگی' آواز کی موجودگی ہے۔ یہ بھی اس مادے کا جبر ہے کہ انسان آواز پر تو قادر ہے لیکن خاموشی پر نہیں۔ وہ خلا میں آواز پیدا کرسکتا ہے' خاموشی نہیں۔ تو' جب آواز نہیں ہوتی' تب ہم اسے خاموشی کہتے ہیں۔ یہ خاموشی ایک پروسیس ہے'آواز پیدا کرنے کی؛ اور تب آواز کی پہلی صورت پیدا ہوتی ہے جسے خیال کہتے ہیں۔ خیال آواز کی ابتدائی شکل ہے ۔
خیال جب مجسم ہوجاتا ہے تو آواز پیدا ہوتی ہے۔اس آوازکے اندر حرکت ہی حرکت ہے' تحریک ہی تحریک ہے۔اس کے اندر ارتقا ہے' منقلب ہونے اورکرنے کی صلاحیت سے بھرپور ۔ لیکن خاموشی کے جس جوہر سے اس نے جنم لیا ہے یہ اس جوہرکو جنم نہیں دے سکتی۔ مادہ جس جگہ موجود ہوتا ہے' وہاں مسلسل اس کی وجہ سے آواز کی لہریں نکلتی رہتی ہیں۔ ہم جس حالت کو خاموشی کہتے ہیں یہ ایک ایسی خاموشی ہوتی ہے جس میں شور ہر آن موجود رہتا ہے۔
انسان چونکہ ہر آواز نہیں سن سکتا اس لیے آوازوں کے گھنے شورکو بھی وہ خاموشی سمجھ لیتا ہے۔ اس کے اندر اس غیر حقیقی خموشی سے ایک نئی آوازکی تجسیم ہونے لگتی ہے۔ یعنی مادے کی غیر حقیقی خموشی اس کے اندر ایک اور آواز کو پیدا کرتی ہے جو اس کے لیے نئی ہوتی ہے لیکن یہ خالص نہیں ہوتی۔ اس آواز کو ہم آخر میں ایک لفظ سے تعبیرکرنا شروع کرتے ہیں۔ لفظ دراصل آوازکی پہلی صورت کی طرف اشارہ کرتا ہے' یعنی خیال اور خیال خاموشی کے ایک وقفے کی طرف۔ یہ وقفہ اور اس طرح کے لاکھوں کروڑوں وقفے انسان کو ہر دم متحرک رکھتے ہیں۔ شعر دیکھیں:
زمیں پہ شور مچاتا ہوا یہ سناٹا
کسی خیال کی تحریک لگ رہا ہے مجھے
ناصرکاظمی جیسے شاعروں میں' شاعری ان کے نس نس میں بھری ہوتی ہے۔ ان کا من ایک آئینہ بن جاتا ہے جہاں سے خیال لفظ بن کر منعکس ہوتے رہتے ہیں اور دوسروں کا من لبھاتے ہیں۔ یہ شعرکہ
دل تومیرا اداس ہے ناصر
شہرکیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ایسا ہی ایک شعر ہے۔
خیال ان کے من سے' ان کے دل کی اداسی سے نکل کر شہر کی صورت حال کو منعکس کرکے واپس من کی طرف' دل کی اداسی کی طرف لوٹتا ہے اور آخر میں شاعر کے دل کی اداسی ہی رہ جاتی ہے' سائیں سائیں کرتا شہرکہیں تحلیل ہوجاتا ہے۔کاشف حسین غائر ایک الگ ماحول کا پروردہ ہے۔ اس کے ہاں مادہ تحلیل نہیں ہوتا۔ شہر بھی زندہ ہوتا ہے گھر بھی زندہ ہوتا ہے اور یہ زندگی اس کے اندرکی وحشت کو منعکس کرتی رہتی ہے۔ تحریک اور تحرک کے مظاہر ہر پل موجود رہتے ہیں۔
میں غائر کے شعر پڑھتا ہوں تو مجھے یہ ایک مادیت پرست شاعر لگتا ہے، لیکن مادیت پرستی ہمارے ہاں ایک منفی معنی والی اصطلاح بنی ہوئی ہے جو بیمار حد تک مذہب پرستی یا روحانیت کا نتیجہ ہے۔ شاعری کو بھی ایک روحانی عمل یا کارِ پیغمبری کہہ کر خیال اورحقیقت (یعنی معروض) کے باہمی تعامل پر غورکرنے کی ذمے داری سے چھٹکارا حاصل کرلیا جاتا ہے۔ مادیت پرستی کا مطلب یہ ہے کہ انسان خود کو اپنے اردگرد موجود مظاہرکے حوالے سے شناخت کرنے کی کوشش کرے اور اس کوشش کے دوران وہ اپنے باہرکی طرح اپنے اندر کو بھی کھوجے اور ان دونوں کے باہمی تعامل کو سمجھے۔ چناں چہ میں سمجھتا ہوں کہ غائر روح اور مادے کے باہمی تعامل کو دوسروں سے کہیں زیادہ بہتر طور پر سمجھتا ہے۔
ایک شعر میں وہ دیے' گھر اور تاریکی کا تکون بناتا ہے۔ اس تکون سے جو معنیٰ نکلتا ہے وہ ہے اندر کی وحشت۔ غائر کی شاعری جس کے بارے میں شمیم حنفی کا یہ جملہ ایک ٹریڈ مارک کی صورت معلوم ہوتا ہے ''کاشف حسین غائرکی شاعری غیر متوقع کی تلاش کا دوسرا نام ہے' دراصل انھی مادی مظاہرکے ذریعے اپنے اندرکا اظہار ہے جنھیں ہم شاعری کرتے ہوئے نظرانداز کرتے رہتے ہیں اور انھیں درخور اعتنا نہیں سمجھتے' چنانچہ اردو غزل کی روایت میں جب جب یہ طریقۂ اظہار اپنایا جاتا ہے' کچھ غیر متوقع صورتحال سامنے آتی ہے' ظفر اقبال اس کی بڑی مثال ہے۔ غائر کا یہ شعر دیکھیں:
دیا جلا کے پریشان ہوگیا ہوں میں
یہ گھر تو اور بھی تاریک لگ رہا ہے مجھے
ایسا کیا ہے کہ گھر کو روشن کرنے کا عمل مزید پریشانی' مزید وحشت پر منتج ہوتا ہے۔ یہ اندرکی وہ اداسی ہے' وہ وحشت ہے جو باہرکی روشنی برداشت نہیں کرپاتی۔ ذکر اندرکی وحشت کا ہے لیکن علامتیں سب باہر کی ہیں۔ غائر کے ہاں معنی کا سفر باہر سے اندر کی طرف ملتا ہے۔ خیال معروض سے منعکس ہوکر اندر کی طرف آتا ہے اور اندرکے معنی کو لے کر اسی معروض پر منعکس ہوجاتا ہے۔
یہ معروض تحلیل نہیں ہوتا' بلکہ سوچ کو معنی کی تلاش کی دعوت دیتا رہتا ہے۔ جیسا کہ اس شعر میں وحشت کا معنیٰ منعکس ہورہا ہے۔ لیکن ہمارے سامنے لفظ 'پریشان' ہے جو وحشت کے معنی تک رسائی میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کی طرف میں آنا چاہتا ہوں کیوں کہ یہ غائر کی شاعری میں بہت اہم نکتہ ہے۔ وحشت غزل کی روایت کا ایک اہم مضمون ہے' بلکہ اس حد تک برتا جاتا ہے کہ ایک پامال مضمون کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ غائر نے اس سے پہلو تہی کی ہے اور اس کے لیے لفظ پریشانی کو متبادل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ایک اور شعر دیکھیں:
شام ہوتے ہی کہاں جاتا ہوں، کیا بتلاؤں
آدمی ہو کے پریشان کہاں جاتا ہے
شام اترتے ہی حساس دل آدمی کے اندر جس وحشت کا نزول ہوتا ہے' اسے غائر یہاں بھی لفظ پریشانی سے ظاہر کر رہا ہے۔ ہر لفظ کا ایک رویہ ہوتا ہے اوروحشت کا رویہ متشدد ہے جب کہ پریشانی کا بہت دھیما رویہ ہے۔ وحشت کی کیفیت باہرکی طرف طوفان کی طرح امنڈتی ہے اور پریشانی کی کیفیت اندرکی طرف رینگتی ہے۔ غائر کے ہاں اتنی متضاد خاصیت والا لفظ دوسرے لفظ کے لیے متبادل بن رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ اس لیے کہ وہ اپنے معروض کے ساتھ آخر تک اپنی جڑت برقرار رکھتا ہے۔ وحشت اسے اپنے حقیقی ماحول سے اٹھاکر کسی تصوراتی دشت میں پھینک سکتی ہے جب کہ پریشانی اسے اپنے ماحول کے اندر ہی معروف مقامات کی طرف لے کر جاتی ہے۔
ہم نے اتم خاموشی کا عالم نہیں دیکھا۔ کیونکہ ہم آدمی ہیں۔ ہمارا مادے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ مکمل سکوت کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تو اس نے دیکھا ہوگا جس نے بسیط خلا میں پہلی۔۔۔ ہاں' اس کائنات کی اولین آواز پیدا کی ہوگی۔ تو' جب آواز نہیں ہوتی تب خاموشی ہوتی ہے ۔ یہ خاموشی خالص نہیں ہوتی کیونکہ مادی دنیا میں خالص خموشی کا امکان موجود نہیں ہے۔ مادے کی موجودگی' آواز کی موجودگی ہے۔ یہ بھی اس مادے کا جبر ہے کہ انسان آواز پر تو قادر ہے لیکن خاموشی پر نہیں۔ وہ خلا میں آواز پیدا کرسکتا ہے' خاموشی نہیں۔ تو' جب آواز نہیں ہوتی' تب ہم اسے خاموشی کہتے ہیں۔ یہ خاموشی ایک پروسیس ہے'آواز پیدا کرنے کی؛ اور تب آواز کی پہلی صورت پیدا ہوتی ہے جسے خیال کہتے ہیں۔ خیال آواز کی ابتدائی شکل ہے ۔
خیال جب مجسم ہوجاتا ہے تو آواز پیدا ہوتی ہے۔اس آوازکے اندر حرکت ہی حرکت ہے' تحریک ہی تحریک ہے۔اس کے اندر ارتقا ہے' منقلب ہونے اورکرنے کی صلاحیت سے بھرپور ۔ لیکن خاموشی کے جس جوہر سے اس نے جنم لیا ہے یہ اس جوہرکو جنم نہیں دے سکتی۔ مادہ جس جگہ موجود ہوتا ہے' وہاں مسلسل اس کی وجہ سے آواز کی لہریں نکلتی رہتی ہیں۔ ہم جس حالت کو خاموشی کہتے ہیں یہ ایک ایسی خاموشی ہوتی ہے جس میں شور ہر آن موجود رہتا ہے۔
انسان چونکہ ہر آواز نہیں سن سکتا اس لیے آوازوں کے گھنے شورکو بھی وہ خاموشی سمجھ لیتا ہے۔ اس کے اندر اس غیر حقیقی خموشی سے ایک نئی آوازکی تجسیم ہونے لگتی ہے۔ یعنی مادے کی غیر حقیقی خموشی اس کے اندر ایک اور آواز کو پیدا کرتی ہے جو اس کے لیے نئی ہوتی ہے لیکن یہ خالص نہیں ہوتی۔ اس آواز کو ہم آخر میں ایک لفظ سے تعبیرکرنا شروع کرتے ہیں۔ لفظ دراصل آوازکی پہلی صورت کی طرف اشارہ کرتا ہے' یعنی خیال اور خیال خاموشی کے ایک وقفے کی طرف۔ یہ وقفہ اور اس طرح کے لاکھوں کروڑوں وقفے انسان کو ہر دم متحرک رکھتے ہیں۔ شعر دیکھیں:
زمیں پہ شور مچاتا ہوا یہ سناٹا
کسی خیال کی تحریک لگ رہا ہے مجھے
ناصرکاظمی جیسے شاعروں میں' شاعری ان کے نس نس میں بھری ہوتی ہے۔ ان کا من ایک آئینہ بن جاتا ہے جہاں سے خیال لفظ بن کر منعکس ہوتے رہتے ہیں اور دوسروں کا من لبھاتے ہیں۔ یہ شعرکہ
دل تومیرا اداس ہے ناصر
شہرکیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ایسا ہی ایک شعر ہے۔
خیال ان کے من سے' ان کے دل کی اداسی سے نکل کر شہر کی صورت حال کو منعکس کرکے واپس من کی طرف' دل کی اداسی کی طرف لوٹتا ہے اور آخر میں شاعر کے دل کی اداسی ہی رہ جاتی ہے' سائیں سائیں کرتا شہرکہیں تحلیل ہوجاتا ہے۔کاشف حسین غائر ایک الگ ماحول کا پروردہ ہے۔ اس کے ہاں مادہ تحلیل نہیں ہوتا۔ شہر بھی زندہ ہوتا ہے گھر بھی زندہ ہوتا ہے اور یہ زندگی اس کے اندرکی وحشت کو منعکس کرتی رہتی ہے۔ تحریک اور تحرک کے مظاہر ہر پل موجود رہتے ہیں۔
میں غائر کے شعر پڑھتا ہوں تو مجھے یہ ایک مادیت پرست شاعر لگتا ہے، لیکن مادیت پرستی ہمارے ہاں ایک منفی معنی والی اصطلاح بنی ہوئی ہے جو بیمار حد تک مذہب پرستی یا روحانیت کا نتیجہ ہے۔ شاعری کو بھی ایک روحانی عمل یا کارِ پیغمبری کہہ کر خیال اورحقیقت (یعنی معروض) کے باہمی تعامل پر غورکرنے کی ذمے داری سے چھٹکارا حاصل کرلیا جاتا ہے۔ مادیت پرستی کا مطلب یہ ہے کہ انسان خود کو اپنے اردگرد موجود مظاہرکے حوالے سے شناخت کرنے کی کوشش کرے اور اس کوشش کے دوران وہ اپنے باہرکی طرح اپنے اندر کو بھی کھوجے اور ان دونوں کے باہمی تعامل کو سمجھے۔ چناں چہ میں سمجھتا ہوں کہ غائر روح اور مادے کے باہمی تعامل کو دوسروں سے کہیں زیادہ بہتر طور پر سمجھتا ہے۔
ایک شعر میں وہ دیے' گھر اور تاریکی کا تکون بناتا ہے۔ اس تکون سے جو معنیٰ نکلتا ہے وہ ہے اندر کی وحشت۔ غائر کی شاعری جس کے بارے میں شمیم حنفی کا یہ جملہ ایک ٹریڈ مارک کی صورت معلوم ہوتا ہے ''کاشف حسین غائرکی شاعری غیر متوقع کی تلاش کا دوسرا نام ہے' دراصل انھی مادی مظاہرکے ذریعے اپنے اندرکا اظہار ہے جنھیں ہم شاعری کرتے ہوئے نظرانداز کرتے رہتے ہیں اور انھیں درخور اعتنا نہیں سمجھتے' چنانچہ اردو غزل کی روایت میں جب جب یہ طریقۂ اظہار اپنایا جاتا ہے' کچھ غیر متوقع صورتحال سامنے آتی ہے' ظفر اقبال اس کی بڑی مثال ہے۔ غائر کا یہ شعر دیکھیں:
دیا جلا کے پریشان ہوگیا ہوں میں
یہ گھر تو اور بھی تاریک لگ رہا ہے مجھے
ایسا کیا ہے کہ گھر کو روشن کرنے کا عمل مزید پریشانی' مزید وحشت پر منتج ہوتا ہے۔ یہ اندرکی وہ اداسی ہے' وہ وحشت ہے جو باہرکی روشنی برداشت نہیں کرپاتی۔ ذکر اندرکی وحشت کا ہے لیکن علامتیں سب باہر کی ہیں۔ غائر کے ہاں معنی کا سفر باہر سے اندر کی طرف ملتا ہے۔ خیال معروض سے منعکس ہوکر اندر کی طرف آتا ہے اور اندرکے معنی کو لے کر اسی معروض پر منعکس ہوجاتا ہے۔
یہ معروض تحلیل نہیں ہوتا' بلکہ سوچ کو معنی کی تلاش کی دعوت دیتا رہتا ہے۔ جیسا کہ اس شعر میں وحشت کا معنیٰ منعکس ہورہا ہے۔ لیکن ہمارے سامنے لفظ 'پریشان' ہے جو وحشت کے معنی تک رسائی میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کی طرف میں آنا چاہتا ہوں کیوں کہ یہ غائر کی شاعری میں بہت اہم نکتہ ہے۔ وحشت غزل کی روایت کا ایک اہم مضمون ہے' بلکہ اس حد تک برتا جاتا ہے کہ ایک پامال مضمون کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ غائر نے اس سے پہلو تہی کی ہے اور اس کے لیے لفظ پریشانی کو متبادل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ایک اور شعر دیکھیں:
شام ہوتے ہی کہاں جاتا ہوں، کیا بتلاؤں
آدمی ہو کے پریشان کہاں جاتا ہے
شام اترتے ہی حساس دل آدمی کے اندر جس وحشت کا نزول ہوتا ہے' اسے غائر یہاں بھی لفظ پریشانی سے ظاہر کر رہا ہے۔ ہر لفظ کا ایک رویہ ہوتا ہے اوروحشت کا رویہ متشدد ہے جب کہ پریشانی کا بہت دھیما رویہ ہے۔ وحشت کی کیفیت باہرکی طرف طوفان کی طرح امنڈتی ہے اور پریشانی کی کیفیت اندرکی طرف رینگتی ہے۔ غائر کے ہاں اتنی متضاد خاصیت والا لفظ دوسرے لفظ کے لیے متبادل بن رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ اس لیے کہ وہ اپنے معروض کے ساتھ آخر تک اپنی جڑت برقرار رکھتا ہے۔ وحشت اسے اپنے حقیقی ماحول سے اٹھاکر کسی تصوراتی دشت میں پھینک سکتی ہے جب کہ پریشانی اسے اپنے ماحول کے اندر ہی معروف مقامات کی طرف لے کر جاتی ہے۔