گیجٹس کے دور میں ادب
ادب گروہی، لسانی اور قومیتی عناصر کو قبول تو بے شک کرسکتا ہے، بلکہ کرتا ہے
KARACHI:
اتنی بات تو ہم سبھی جانتے ہیں اور کسی بھی قسم کے نظریاتی اور فکری اختلاف کے بغیر مانتے ہیں کہ ادب جنگل میں بیٹھ کر تخلیق نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ادب کا پہلا اور بنیادی سروکار ایک معاشرے سے یا ادیب شاعر کے اردگرد کی زندگی سے ہوتا ہے۔ زندہ اور بڑے ادب کی اوّلین شناخت کے حوالوں میں سے ایک یہ ہے کہ اُس میں اجتماعی تجربے کی گونج سنائی دیتی ہے۔
ادیب چاہے نرگسیت ہی کے اثر میں کیوں نہ ہو اور شاعر چاہے رومانی جذبوں کے سوا کسی شے کو ہاتھ لگانے پر آمادہ نہ ہو، پھر بھی زندگی کے اجتماعی رویوں سے لاتعلق ہرگز نہیں ہوسکتا۔ تخلیقی اظہار میں کسی نہ کسی طرح یہ رویے راہ پاتے اور اپنا اثبات کرتے ہیں۔ یہی وہ رشتہ ہے جو اجتماعی دھڑکنوں کو انفرادی طرزِاظہار میں سمو دیتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جو زندگی کی وسیع دائرے میں تفہیم کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے، جو ادب میں انسان کے انسان سے رشتے کی بازیافت کرتی ہے، اُس کے وجود کو وسعتِ معنی سے ہم کنار کرتی ہے اور ایک قدر کی حیثیت سے انسانی احساس کی تشکیل کا ذریعہ بنتی ہے۔
ادب گروہی، لسانی اور قومیتی عناصر کو قبول تو بے شک کرسکتا ہے، بلکہ کرتا ہے، لیکن ان کے وسیلے سے وہ افتراق یا نفاق کی راہ نہیں نکالتا، بلکہ ان کے توسط سے وہ زیادہ بڑے دائرے میں انسانوں کو باہمی طور پر جوڑتا ہے۔ اگر خارج سے لیے گئے کسی نظریے کی باربرداری کا کام ادب کو نہ سونپا جائے تو یہ طے ہے کہ اُس کا ہر قدم انسانیت کے رشتے کی غیر مشروط پاس داری کی سمت اٹھے گا۔ اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ادیبوں اور شاعروں کے ذمے صرف یہ کام ہے کہ وہ انسانیت کے ترانے اور انسانوں کے گن گاتے رہیں۔
انسانی خرابیوں، گروہی مسائل اور تہذیب و تمدنی اختلافات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ نہیں، یہ مطالبہ بے جا ہوگا۔ وہ رنج، غصے، بغض اور عناد کو بھی اپنا موضوع بنانے کی آزادی رکھتے ہیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ اِس قبیل کے موضوعات کے توسط سے بھی فصل کا نہیں، وصل کا سامان کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے کہ شر میں بھی خیر کا ایک پہلو ہوتا ہے اور ادیب کی نگاہ اسی پہلو پر پڑتی ہے۔ حرفِ سخن کے لیے جس پیغمبری تاثیر کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ رنگارنگی، اختلاف اور تنوع کے ہوتے ہوئے دراصل انسانوں کو جوڑنے، ملانے اور قریب لانے کے عمل ہی میں مضمر ہے۔ اس لحاظ سے ادب دراصل آگ میں پھول کھلانے کا کام ہے۔
اب اگر یہ باتیں درست ہیں جو ادب اور ادیب کے بارے میں سطورِ گزشتہ میں کہی گئی ہیں تو پھر ہمیں ایک سوال پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ یہ جو اس وقت انسانی معاشروں میں نفاق پھیل رہا ہے، ایک ہی جگہ اور ایک ہی حال میں رہنے والے انسانوں کے بیچ براعظموں جیسے فاصلے جو پیدا ہورہے ہیں، کیا ان معاشروں کا ادب اور ادیب اس صورتِ حال سے لاتعلق ہوگئے ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا پھر وہ اس میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں؟ اگر یہ بھی نہیں تو کیا ادب کی اثر آفرینی کا دور ختم ہوگیا ہے؟
ہم ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں اور دیانت داری سے جواب دینا چاہیں تو سچ یہ ہے کہ ان تینوں سوالوں میں سے کسی ایک کا جواب بھی براہِ راست اور آسانی سے اثبات میں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نفی میں۔ ان میں سے ہر سوال کے جواب کے لیے ہمیں ہاں اور نہیں کے درمیان رُک کر سوچنا پڑے گا اور اپنی بات کہنے کے لیے اصل میں، چوںکہ، چناںچہ، اگر اور مگر جیسے سابقے اور لاحقے استعمال کرنے پڑیں گے۔
اس کے باوجود اس امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مکمل طور سے درست جواب تک پہنچنے میں کسی قدر دشواری کا سامنا ہو۔ اس کی ایک سے زیادہ وجوہ ہیں۔ اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اکیس ویں صدی تک آتے آتے انسانی زندگی کا تجربہ اس درجہ پیچیدہ اور بعض صورتوں میں اس قدر بے یقینی سے مملو ہوچکا ہے کہ اُس سے راست معنی کا حصول کارِدارد کے درجے میں ہے۔ ظاہر ہے، ادب پر اس کا اثر ناگزیر ہے۔ چناںچہ آج ادب کی معنویت اور انسانی سماج پر اُس کے اثرات کے حوالے سے کوئی بات اگلے وقتوں کی طرح راست اور فیصلہ کن انداز میں نہیں کہی جاسکتی۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ پھر ادب کی ضرورت ہی کیا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ ادب پہلے بھی انسان کی کسی وجودی اور اُس کے سماج کی کسی مادّی ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ نہیں تھا۔ اس کا سروکار تو فرد کی روح اور سماج کے داخلی مطالبات سے ہوتا ہے۔ اکیس ویں صدی کی اِس دنیا میں ادب اور ادیب کے جو رُجحانات، مسائل اور رویے ہیں، اُن پر تو ہم بات کرتے ہی رہتے ہیں، اور ضرورت ہو تو اور بھی کی جاسکتی ہے۔ تاہم یہ بھی تو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس عہد میں کیا انسان کو اپنی روح کی پکار اور سماج کو اپنے داخل کی آواز سنائی بھی دیتی ہے کہ نہیں، اور وہ اسے درخورِ اعتنا بھی گردانتا ہے کہ نہیں۔ ادب اُس کی زندگی کے تقاضوں میں کہیں باقی بھی ہے کہ نہیں۔ ٹیکنولوجی اور بالخصوص گیجٹس کی برتری قائم کرتی اس صدی میں، ہزار افسوس کے ساتھ ہی سہی، انسانی زندگی کے رُجحانات کو دیکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آج ایک حد تک ادب مدِفاضل میں شمار ہوتا ہے۔
انسانی زندگی کے بنیادی مطالبات میں اب اِس کا شمار ہوتا نظر نہیں آرہا۔ بات اصل میں یہ ہے کہ جمے جمائے تہذیبی معاشرے میں انسانی روح کے لیے جو کام ادب سرانجام دیتا تھا، عہدِ حاضر کا انسان ایسے کسی کام کی خواہش یا ضرورت اوّل تو محسوس ہی نہیں کرتا اور اگر کسی درجے میں کرتا بھی ہے تو اُسے ناگزیر تو یقینا نہیں سمجھتا۔ نتیجہ یہ کہ ادب اس عہد میں سرکتا ہوا انسانی زندگی کے حاشیے کی اُن اشیا میں پہنچتا دکھائی دیتا ہے جو ایک ایک کرکے معدوم ہو رہی ہیں۔
اب اگر صورتِ حالات یہ نقشہ پیش کررہی ہے تو ہمیں صاف لفظوں میں اس سوال کا سامنا کرنا چاہیے، کیا ادب بھی انسانی زندگی میں معدوم ہوجائے گا؟ ویسے دیکھا جائے تو یہ سوال نیا نہیں ہے۔ اِس سے پہلے بھی پوچھا گیا ہے، کم سے کم گزشتہ لگ بھگ پون صدی کے عرصے میں تو کئی بار پوچھا گیا ہے، اور اب اِس نئی صدی کے ان سترہ برسوں میں تو مختلف انداز سے اس سوال کی گونج ہمیں اپنے ادبی ایوان میں رہ رہ کر سنائی دینے لگی ہے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو ایک بار پھر حوصلہ بندھاتا ہے۔ اس لیے کہ جن چیزوں اور کاموں کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو، انسان یا اُس کا سماج اُن کے بارے میں کچھ سوچنے یا پوچھنے کا تردّد بھی نہیں کرتا۔ آج اگر ادب کی بقا کا سوال ہمیں درپیش ہے تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم کسی نہ کسی صورت اُسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی ضرورت چاہے کتنی ہی کم محسوس ہورہی ہو یا ہم نے اُس کی طرف سے دھیان ہٹا ہی کیوں نہ لیا ہو، لیکن وہ اب بھی ہمارے اندر باقی ہے اور کسی نہ کسی طرح اپنے ہونے کا احساس بہرحال دلا رہی ہے۔
اس کا ایک مطلب اور بھی ہے وہ یہ کہ اکیس ویں صدی کے اس منظر نامے میں گیجٹس کی برتری کا جو احساس پیدا کیا جارہا ہے یا پھیلایا جارہا ہے، وہ بے شک ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، جس کا مشاہدہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں قدم قدم پر کررہے ہیں، لیکن اس سچائی کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی کہ گیجٹس چاہے آج ہماری کتنی ہی لازمی ضرورت کیوں نہ بن گئے ہوں، مگر اُن کا سارا معاملہ صرف ہمارے خارج سے ہے۔
ہمارے داخل میں اُن کا اثر و رسوخ ایسا نہیں ہے کہ وہ ہمارے احساس کے سانچوں کو مکمل طور سے بدل ڈالیں اور ہماری روح پر پوری طرح سے غلبہ حاصل کرلیں۔ ان گیجٹس کے ذریعے بے شک انسانی تہذیب کی کایا کلپ کا پورا سامان کیا گیا ہے، ٹیکنولوجی کا سیلاب اُسے بہا لے جانے کے درپے ہے۔ حالات و حقائق تو بے شک یہی کہہ رہے ہیں، لیکن فی الحال ٹیکنولوجی تہذیب کا ملیامیٹ کرنے اور اُس کی اقدار کو نابود کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ یہ امید افزا بات ہے۔ روشنی معدوم نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے سوال ہمارے اندر کی حرارت کا سراغ دے رہے ہیں۔ یہ بلاشبہ ہماری تہذیب، ہمارے ادب کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے۔
یہ ثبوت اپنے معاصر ادب کے تخلیقی تجربات کی صورت افسانے، ناول، نظم یا غزل کے اشعار سے ہی ہم تک نہیں پہنچ رہا، بلکہ ہمارے نقد و نظر اور تحلیل و تجزیے میں بھی اس نوع کے مسائل کو دیکھنے اور اپنے تہذیبی و سماجی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے، جو یقینا خوش کن ہے اور امید افزا ہے۔ اس لیے کہ زندہ تہذیب اور معاشرے اپنی روایت اور اقدار کے نظام کو حنوط کرکے یا منجمد حالت میں نہیں رکھتے، بلکہ اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ لمحۂ موجود کو اپنی کل کائنات بے شک نہیں گردانتے، لیکن کبھی اُس سے لاتعلق بھی نہیں ہوتے۔ اپنے عہد کے حقائق اور اُن کے زیرِاثر انسانی رویوں کی تبدیلی کا منظرنامہ کسی بھی عہد کے زندہ ادب کے تجربے میں لازمی طور سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ پہلو ایک طرف تو کسی خاص عہد کے ادب کے لیے انفرادی شناخت کا حوالہ بنتا ہے، دوسری طرف اس کے ذریعے زمانہ در زمانہ تہذیب و روایت کا تسلسل بھی برقرار رہتا ہے۔
زندہ تہذیب اپنے بنیادی خدوخال کی یقینا حفاظت کرتی ہے۔ اس لیے کہ اُس کا جوہر اُن میں محفوظ ہوتا ہے اور اس جوہر کی بقا دراصل اس تہذیب کی بقا کی ضامن ہوتی ہے۔ تاہم اس تہذیب کی ترقی اور فروغ کے امکانات کا دائرہ ایک ہی صورت میں وسیع ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اُس میں وقت کے تغیرات کو سہارنے کی سکت ہو۔ یہ سکت اُس وقت پیدا ہوتی ہے، جب تہذیب زمانے کے مثبت تقاضوں کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے اور منفی حالات کے دباؤ میں بھی اپنی داخلی قوت کو زائل نہیں ہونے دیتی۔ اس قوت کا سب سے مؤثر اظہار اس کے تخلیقی پیرایے اور فنی اوضاع میں ہوتا ہے، یعنی ادب اور دوسرے فنونِ لطیفہ میں۔ ادب کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس میں صرف لفظ ہی نہیں، بلکہ آواز، رنگ، سر اور تعمیر کے مظاہر کو بہ یک وقت بروے کار لایا جاسکتا ہے اور حتیٰ الوسع اُن کے توسط سے اثرات اور نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
ادب کی تخلیقی معنویت کا انحصار تو بے شک ادیب و شاعر کی انفرادی صلاحیت، اُس کے تجربے کی گہرائی اور اظہار کی ہنر مندی پر ہوتا ہے، لیکن اس عمل میں کسی خاص دور کے مخصوص رُجحانات اور سماجی ترجیحات کو بھی قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کو ذرا تفصیل سے اور کچھ مثالوں کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، اس لیے ہمیں یہاں ذرا ٹھہرنا چاہیے۔
اپنے تہذیبی میلان اور ادب کی طرف سماجی رویے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اگر ہم کلاسیکی ادب کا جائزہ لیں تو داستان اور غزل وہ دو اصناف ہیں جن میں ہمیں اپنے تہذیبی نقوش نمایاں طور سے محفوظ ہوتے نظر آتے ہیں۔ شخصی تجربات اور انفرادی احساسات سے لے کر اجتماعی ترجیحات اور سماجی رُجحانات تک کا سب سے زیادہ بلیغ اظہار ہمیں انھی دو اصناف میں ملتا ہے۔ غزل کے شعر کی اثر آفرینی سے ہم آج بھی انکار نہیں کرسکتے، لیکن ساتھ ہی یہ مانے بغیر بھی چارہ نہیں کہ شعری اصناف میں آج نظم زیادہ بڑے اور زیادہ مؤثر صیغۂ اظہار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب رہی بات داستان کی تو وہ ناول اور افسانے سے ہوتے ہوئے مختصر افسانے کی جس صورت میں ہمارے سامنے ہے، اُسے دیکھتے ہوئے کہانی کے تسلسل کے باوجود اُس کی الگ حیثیت کا انکار ممکن ہی نہیں ہے۔
اب اگر دیکھا جائے تو عصرِ حاضر کے تخلیقی تجربوں میں ان دو ہیئتوں کا نمایاں ہونا محض صنفِ اظہار کی ترجیح یا تبدیلی کا مسئلہ نہیں ہے، اور نہ ہی اسے کسی ایک آدھ سماجی میلان کا اثر کہہ کر ہم ایک طرف ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ ایسی تبدیلیوں کے پس منظر میں عام طور سے ایک نہیں، متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
یہ عوامل وقت کے تقاضوں اور سماجی میلانات کے زیرِاثر کام کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے، جو تبدیلیاں اِن عوامل کے تحت ادب میں رونما ہوتی ہیں اُن میں ایک کردار ادیب کی فعالیت اور پیش بینی کا بھی ہوتا ہے، لیکن ادیب کی پیش بینی بھی تو زمانے کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر ہی اپنا کام کرتی ہے۔ اِس دور میں کہ جب اخبارات و رسائل کے لیے باقی سب چیزوں سے زیادہ اہمیت مادّی مفادات کی ہے، اور انھیں ادب کی ترویج اور فروغ سے دل دل چسپی نہیں، کتاب سے معاشرے کی دوری کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور ادب و فکر جیسی جملہ سرگرمیاں سماج میں ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں- ایسے میں کمرشل ازم پر کمربستہ اخبارات ان ادبی تجربات کو نہ صرف جگہ دے رہے ہیں، بلکہ اِن کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہیں تو یہ دراصل اسی حقیقت کا اظہار ہے کہ ایک طرف ہمارے معاشرے میں ادب کی طلب باقی ہے اور دوسری طرف ہمارے ادیبوں نے بھی وقت کی تند موجوں کے آگے ہتھیار ڈال کر خود کو تقدیر کے سپرد نہیں کیا ہے، بلکہ وہ ادب اور اپنی بقا کے تقاضوں سے باخبر ہیں اور اُن کے لیے ہر ممکن زندگی کا سامان کررہے ہیں۔
اس زاویے سے اب اگر اپنے معاشرے اور اس کے ذرائعِ ابلاغ کا جائزہ لیا جائے تو ایک الگ منظر سامنے آتا ہے۔ یہ منظر حوصلہ افزا ہے اور اس امر کی یقین دہانی کراتا ہے کہ وقت کا بہاؤ اور تبدیلی کا دباؤ بے شک حقیقت ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں تہذیب و ادب اور اُن کی اقدار ازکار رفتہ نہیں ہیں۔ اُن میں قوتِ حیات کارفرما ہے اور معاشرہ بھی اُن سے بیگانہ نہیں ہوا ہے۔ ادب اپنے اظہار و ابلاغ کے پیرایے میں جب بھی تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے، وہ دراصل اپنی بقا اور استحکام کے نئے قرینے بروے کار لاتا ہے، اور معنویت کے نئے امکانات کے در وا کرتا ہے۔ یہ عمل تہذیبوں کی زندگی میں بالخصوص اُن مراحل پر ہوتا ہے، جب وہ تغیر کے کسی بڑے تجربے سے دوچار ہوتی ہیں۔ غالب نے جب کہا تھا:
بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
تو دراصل وہ ایک طرح سے تغیر کی اسی صورتِ حال کی طرف اشارہ تھا۔
(جاری ہے۔)
اتنی بات تو ہم سبھی جانتے ہیں اور کسی بھی قسم کے نظریاتی اور فکری اختلاف کے بغیر مانتے ہیں کہ ادب جنگل میں بیٹھ کر تخلیق نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ادب کا پہلا اور بنیادی سروکار ایک معاشرے سے یا ادیب شاعر کے اردگرد کی زندگی سے ہوتا ہے۔ زندہ اور بڑے ادب کی اوّلین شناخت کے حوالوں میں سے ایک یہ ہے کہ اُس میں اجتماعی تجربے کی گونج سنائی دیتی ہے۔
ادیب چاہے نرگسیت ہی کے اثر میں کیوں نہ ہو اور شاعر چاہے رومانی جذبوں کے سوا کسی شے کو ہاتھ لگانے پر آمادہ نہ ہو، پھر بھی زندگی کے اجتماعی رویوں سے لاتعلق ہرگز نہیں ہوسکتا۔ تخلیقی اظہار میں کسی نہ کسی طرح یہ رویے راہ پاتے اور اپنا اثبات کرتے ہیں۔ یہی وہ رشتہ ہے جو اجتماعی دھڑکنوں کو انفرادی طرزِاظہار میں سمو دیتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جو زندگی کی وسیع دائرے میں تفہیم کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے، جو ادب میں انسان کے انسان سے رشتے کی بازیافت کرتی ہے، اُس کے وجود کو وسعتِ معنی سے ہم کنار کرتی ہے اور ایک قدر کی حیثیت سے انسانی احساس کی تشکیل کا ذریعہ بنتی ہے۔
ادب گروہی، لسانی اور قومیتی عناصر کو قبول تو بے شک کرسکتا ہے، بلکہ کرتا ہے، لیکن ان کے وسیلے سے وہ افتراق یا نفاق کی راہ نہیں نکالتا، بلکہ ان کے توسط سے وہ زیادہ بڑے دائرے میں انسانوں کو باہمی طور پر جوڑتا ہے۔ اگر خارج سے لیے گئے کسی نظریے کی باربرداری کا کام ادب کو نہ سونپا جائے تو یہ طے ہے کہ اُس کا ہر قدم انسانیت کے رشتے کی غیر مشروط پاس داری کی سمت اٹھے گا۔ اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ادیبوں اور شاعروں کے ذمے صرف یہ کام ہے کہ وہ انسانیت کے ترانے اور انسانوں کے گن گاتے رہیں۔
انسانی خرابیوں، گروہی مسائل اور تہذیب و تمدنی اختلافات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ نہیں، یہ مطالبہ بے جا ہوگا۔ وہ رنج، غصے، بغض اور عناد کو بھی اپنا موضوع بنانے کی آزادی رکھتے ہیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ اِس قبیل کے موضوعات کے توسط سے بھی فصل کا نہیں، وصل کا سامان کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے کہ شر میں بھی خیر کا ایک پہلو ہوتا ہے اور ادیب کی نگاہ اسی پہلو پر پڑتی ہے۔ حرفِ سخن کے لیے جس پیغمبری تاثیر کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ رنگارنگی، اختلاف اور تنوع کے ہوتے ہوئے دراصل انسانوں کو جوڑنے، ملانے اور قریب لانے کے عمل ہی میں مضمر ہے۔ اس لحاظ سے ادب دراصل آگ میں پھول کھلانے کا کام ہے۔
اب اگر یہ باتیں درست ہیں جو ادب اور ادیب کے بارے میں سطورِ گزشتہ میں کہی گئی ہیں تو پھر ہمیں ایک سوال پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ یہ جو اس وقت انسانی معاشروں میں نفاق پھیل رہا ہے، ایک ہی جگہ اور ایک ہی حال میں رہنے والے انسانوں کے بیچ براعظموں جیسے فاصلے جو پیدا ہورہے ہیں، کیا ان معاشروں کا ادب اور ادیب اس صورتِ حال سے لاتعلق ہوگئے ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا پھر وہ اس میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں؟ اگر یہ بھی نہیں تو کیا ادب کی اثر آفرینی کا دور ختم ہوگیا ہے؟
ہم ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں اور دیانت داری سے جواب دینا چاہیں تو سچ یہ ہے کہ ان تینوں سوالوں میں سے کسی ایک کا جواب بھی براہِ راست اور آسانی سے اثبات میں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نفی میں۔ ان میں سے ہر سوال کے جواب کے لیے ہمیں ہاں اور نہیں کے درمیان رُک کر سوچنا پڑے گا اور اپنی بات کہنے کے لیے اصل میں، چوںکہ، چناںچہ، اگر اور مگر جیسے سابقے اور لاحقے استعمال کرنے پڑیں گے۔
اس کے باوجود اس امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مکمل طور سے درست جواب تک پہنچنے میں کسی قدر دشواری کا سامنا ہو۔ اس کی ایک سے زیادہ وجوہ ہیں۔ اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اکیس ویں صدی تک آتے آتے انسانی زندگی کا تجربہ اس درجہ پیچیدہ اور بعض صورتوں میں اس قدر بے یقینی سے مملو ہوچکا ہے کہ اُس سے راست معنی کا حصول کارِدارد کے درجے میں ہے۔ ظاہر ہے، ادب پر اس کا اثر ناگزیر ہے۔ چناںچہ آج ادب کی معنویت اور انسانی سماج پر اُس کے اثرات کے حوالے سے کوئی بات اگلے وقتوں کی طرح راست اور فیصلہ کن انداز میں نہیں کہی جاسکتی۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ پھر ادب کی ضرورت ہی کیا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ ادب پہلے بھی انسان کی کسی وجودی اور اُس کے سماج کی کسی مادّی ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ نہیں تھا۔ اس کا سروکار تو فرد کی روح اور سماج کے داخلی مطالبات سے ہوتا ہے۔ اکیس ویں صدی کی اِس دنیا میں ادب اور ادیب کے جو رُجحانات، مسائل اور رویے ہیں، اُن پر تو ہم بات کرتے ہی رہتے ہیں، اور ضرورت ہو تو اور بھی کی جاسکتی ہے۔ تاہم یہ بھی تو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس عہد میں کیا انسان کو اپنی روح کی پکار اور سماج کو اپنے داخل کی آواز سنائی بھی دیتی ہے کہ نہیں، اور وہ اسے درخورِ اعتنا بھی گردانتا ہے کہ نہیں۔ ادب اُس کی زندگی کے تقاضوں میں کہیں باقی بھی ہے کہ نہیں۔ ٹیکنولوجی اور بالخصوص گیجٹس کی برتری قائم کرتی اس صدی میں، ہزار افسوس کے ساتھ ہی سہی، انسانی زندگی کے رُجحانات کو دیکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آج ایک حد تک ادب مدِفاضل میں شمار ہوتا ہے۔
انسانی زندگی کے بنیادی مطالبات میں اب اِس کا شمار ہوتا نظر نہیں آرہا۔ بات اصل میں یہ ہے کہ جمے جمائے تہذیبی معاشرے میں انسانی روح کے لیے جو کام ادب سرانجام دیتا تھا، عہدِ حاضر کا انسان ایسے کسی کام کی خواہش یا ضرورت اوّل تو محسوس ہی نہیں کرتا اور اگر کسی درجے میں کرتا بھی ہے تو اُسے ناگزیر تو یقینا نہیں سمجھتا۔ نتیجہ یہ کہ ادب اس عہد میں سرکتا ہوا انسانی زندگی کے حاشیے کی اُن اشیا میں پہنچتا دکھائی دیتا ہے جو ایک ایک کرکے معدوم ہو رہی ہیں۔
اب اگر صورتِ حالات یہ نقشہ پیش کررہی ہے تو ہمیں صاف لفظوں میں اس سوال کا سامنا کرنا چاہیے، کیا ادب بھی انسانی زندگی میں معدوم ہوجائے گا؟ ویسے دیکھا جائے تو یہ سوال نیا نہیں ہے۔ اِس سے پہلے بھی پوچھا گیا ہے، کم سے کم گزشتہ لگ بھگ پون صدی کے عرصے میں تو کئی بار پوچھا گیا ہے، اور اب اِس نئی صدی کے ان سترہ برسوں میں تو مختلف انداز سے اس سوال کی گونج ہمیں اپنے ادبی ایوان میں رہ رہ کر سنائی دینے لگی ہے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو ایک بار پھر حوصلہ بندھاتا ہے۔ اس لیے کہ جن چیزوں اور کاموں کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو، انسان یا اُس کا سماج اُن کے بارے میں کچھ سوچنے یا پوچھنے کا تردّد بھی نہیں کرتا۔ آج اگر ادب کی بقا کا سوال ہمیں درپیش ہے تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم کسی نہ کسی صورت اُسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی ضرورت چاہے کتنی ہی کم محسوس ہورہی ہو یا ہم نے اُس کی طرف سے دھیان ہٹا ہی کیوں نہ لیا ہو، لیکن وہ اب بھی ہمارے اندر باقی ہے اور کسی نہ کسی طرح اپنے ہونے کا احساس بہرحال دلا رہی ہے۔
اس کا ایک مطلب اور بھی ہے وہ یہ کہ اکیس ویں صدی کے اس منظر نامے میں گیجٹس کی برتری کا جو احساس پیدا کیا جارہا ہے یا پھیلایا جارہا ہے، وہ بے شک ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، جس کا مشاہدہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں قدم قدم پر کررہے ہیں، لیکن اس سچائی کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی کہ گیجٹس چاہے آج ہماری کتنی ہی لازمی ضرورت کیوں نہ بن گئے ہوں، مگر اُن کا سارا معاملہ صرف ہمارے خارج سے ہے۔
ہمارے داخل میں اُن کا اثر و رسوخ ایسا نہیں ہے کہ وہ ہمارے احساس کے سانچوں کو مکمل طور سے بدل ڈالیں اور ہماری روح پر پوری طرح سے غلبہ حاصل کرلیں۔ ان گیجٹس کے ذریعے بے شک انسانی تہذیب کی کایا کلپ کا پورا سامان کیا گیا ہے، ٹیکنولوجی کا سیلاب اُسے بہا لے جانے کے درپے ہے۔ حالات و حقائق تو بے شک یہی کہہ رہے ہیں، لیکن فی الحال ٹیکنولوجی تہذیب کا ملیامیٹ کرنے اور اُس کی اقدار کو نابود کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ یہ امید افزا بات ہے۔ روشنی معدوم نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے سوال ہمارے اندر کی حرارت کا سراغ دے رہے ہیں۔ یہ بلاشبہ ہماری تہذیب، ہمارے ادب کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے۔
یہ ثبوت اپنے معاصر ادب کے تخلیقی تجربات کی صورت افسانے، ناول، نظم یا غزل کے اشعار سے ہی ہم تک نہیں پہنچ رہا، بلکہ ہمارے نقد و نظر اور تحلیل و تجزیے میں بھی اس نوع کے مسائل کو دیکھنے اور اپنے تہذیبی و سماجی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے، جو یقینا خوش کن ہے اور امید افزا ہے۔ اس لیے کہ زندہ تہذیب اور معاشرے اپنی روایت اور اقدار کے نظام کو حنوط کرکے یا منجمد حالت میں نہیں رکھتے، بلکہ اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ لمحۂ موجود کو اپنی کل کائنات بے شک نہیں گردانتے، لیکن کبھی اُس سے لاتعلق بھی نہیں ہوتے۔ اپنے عہد کے حقائق اور اُن کے زیرِاثر انسانی رویوں کی تبدیلی کا منظرنامہ کسی بھی عہد کے زندہ ادب کے تجربے میں لازمی طور سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ پہلو ایک طرف تو کسی خاص عہد کے ادب کے لیے انفرادی شناخت کا حوالہ بنتا ہے، دوسری طرف اس کے ذریعے زمانہ در زمانہ تہذیب و روایت کا تسلسل بھی برقرار رہتا ہے۔
زندہ تہذیب اپنے بنیادی خدوخال کی یقینا حفاظت کرتی ہے۔ اس لیے کہ اُس کا جوہر اُن میں محفوظ ہوتا ہے اور اس جوہر کی بقا دراصل اس تہذیب کی بقا کی ضامن ہوتی ہے۔ تاہم اس تہذیب کی ترقی اور فروغ کے امکانات کا دائرہ ایک ہی صورت میں وسیع ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اُس میں وقت کے تغیرات کو سہارنے کی سکت ہو۔ یہ سکت اُس وقت پیدا ہوتی ہے، جب تہذیب زمانے کے مثبت تقاضوں کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے اور منفی حالات کے دباؤ میں بھی اپنی داخلی قوت کو زائل نہیں ہونے دیتی۔ اس قوت کا سب سے مؤثر اظہار اس کے تخلیقی پیرایے اور فنی اوضاع میں ہوتا ہے، یعنی ادب اور دوسرے فنونِ لطیفہ میں۔ ادب کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس میں صرف لفظ ہی نہیں، بلکہ آواز، رنگ، سر اور تعمیر کے مظاہر کو بہ یک وقت بروے کار لایا جاسکتا ہے اور حتیٰ الوسع اُن کے توسط سے اثرات اور نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
ادب کی تخلیقی معنویت کا انحصار تو بے شک ادیب و شاعر کی انفرادی صلاحیت، اُس کے تجربے کی گہرائی اور اظہار کی ہنر مندی پر ہوتا ہے، لیکن اس عمل میں کسی خاص دور کے مخصوص رُجحانات اور سماجی ترجیحات کو بھی قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کو ذرا تفصیل سے اور کچھ مثالوں کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، اس لیے ہمیں یہاں ذرا ٹھہرنا چاہیے۔
اپنے تہذیبی میلان اور ادب کی طرف سماجی رویے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اگر ہم کلاسیکی ادب کا جائزہ لیں تو داستان اور غزل وہ دو اصناف ہیں جن میں ہمیں اپنے تہذیبی نقوش نمایاں طور سے محفوظ ہوتے نظر آتے ہیں۔ شخصی تجربات اور انفرادی احساسات سے لے کر اجتماعی ترجیحات اور سماجی رُجحانات تک کا سب سے زیادہ بلیغ اظہار ہمیں انھی دو اصناف میں ملتا ہے۔ غزل کے شعر کی اثر آفرینی سے ہم آج بھی انکار نہیں کرسکتے، لیکن ساتھ ہی یہ مانے بغیر بھی چارہ نہیں کہ شعری اصناف میں آج نظم زیادہ بڑے اور زیادہ مؤثر صیغۂ اظہار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب رہی بات داستان کی تو وہ ناول اور افسانے سے ہوتے ہوئے مختصر افسانے کی جس صورت میں ہمارے سامنے ہے، اُسے دیکھتے ہوئے کہانی کے تسلسل کے باوجود اُس کی الگ حیثیت کا انکار ممکن ہی نہیں ہے۔
اب اگر دیکھا جائے تو عصرِ حاضر کے تخلیقی تجربوں میں ان دو ہیئتوں کا نمایاں ہونا محض صنفِ اظہار کی ترجیح یا تبدیلی کا مسئلہ نہیں ہے، اور نہ ہی اسے کسی ایک آدھ سماجی میلان کا اثر کہہ کر ہم ایک طرف ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ ایسی تبدیلیوں کے پس منظر میں عام طور سے ایک نہیں، متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
یہ عوامل وقت کے تقاضوں اور سماجی میلانات کے زیرِاثر کام کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے، جو تبدیلیاں اِن عوامل کے تحت ادب میں رونما ہوتی ہیں اُن میں ایک کردار ادیب کی فعالیت اور پیش بینی کا بھی ہوتا ہے، لیکن ادیب کی پیش بینی بھی تو زمانے کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر ہی اپنا کام کرتی ہے۔ اِس دور میں کہ جب اخبارات و رسائل کے لیے باقی سب چیزوں سے زیادہ اہمیت مادّی مفادات کی ہے، اور انھیں ادب کی ترویج اور فروغ سے دل دل چسپی نہیں، کتاب سے معاشرے کی دوری کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور ادب و فکر جیسی جملہ سرگرمیاں سماج میں ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں- ایسے میں کمرشل ازم پر کمربستہ اخبارات ان ادبی تجربات کو نہ صرف جگہ دے رہے ہیں، بلکہ اِن کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہیں تو یہ دراصل اسی حقیقت کا اظہار ہے کہ ایک طرف ہمارے معاشرے میں ادب کی طلب باقی ہے اور دوسری طرف ہمارے ادیبوں نے بھی وقت کی تند موجوں کے آگے ہتھیار ڈال کر خود کو تقدیر کے سپرد نہیں کیا ہے، بلکہ وہ ادب اور اپنی بقا کے تقاضوں سے باخبر ہیں اور اُن کے لیے ہر ممکن زندگی کا سامان کررہے ہیں۔
اس زاویے سے اب اگر اپنے معاشرے اور اس کے ذرائعِ ابلاغ کا جائزہ لیا جائے تو ایک الگ منظر سامنے آتا ہے۔ یہ منظر حوصلہ افزا ہے اور اس امر کی یقین دہانی کراتا ہے کہ وقت کا بہاؤ اور تبدیلی کا دباؤ بے شک حقیقت ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں تہذیب و ادب اور اُن کی اقدار ازکار رفتہ نہیں ہیں۔ اُن میں قوتِ حیات کارفرما ہے اور معاشرہ بھی اُن سے بیگانہ نہیں ہوا ہے۔ ادب اپنے اظہار و ابلاغ کے پیرایے میں جب بھی تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے، وہ دراصل اپنی بقا اور استحکام کے نئے قرینے بروے کار لاتا ہے، اور معنویت کے نئے امکانات کے در وا کرتا ہے۔ یہ عمل تہذیبوں کی زندگی میں بالخصوص اُن مراحل پر ہوتا ہے، جب وہ تغیر کے کسی بڑے تجربے سے دوچار ہوتی ہیں۔ غالب نے جب کہا تھا:
بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
تو دراصل وہ ایک طرح سے تغیر کی اسی صورتِ حال کی طرف اشارہ تھا۔
(جاری ہے۔)