اندھا کون
ایک وہ جو عقل کے اندھے ہوتے ہیں جنہیں سوائے منطق کے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
پونے دو بجے کا وقت تھا۔ عبداللہ نمازِ ظہر ادا کرکے مسجد سے نکلنا ہی چاہ رہا تھا کہ کسی نے پاؤں پر ہاتھ مارا اور کہا: ''بھائی! دعا مانگنا سِکھا دو!''
پتا نہیں یہ اچانک پیش کردہ مطالبہ تھا یا آواز کا درد کہ عبداللہ کے پاؤں جکڑ سے گئے۔ عبداللہ نے اس آدمی کا ہاتھ پکڑا اور پہلی صف میں لاکر بِٹھا دیا۔ وہ شخص بینائی کی نعمت سے محروم تھا۔ عبداللہ نے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ دیکھو یوں ہاتھ اُٹھا کر اللہ کے سامنے...
''ایک منٹ بھائی صاحب، نظر نہیں آتا تو دیکھوں کیا؟''
عبداللہ کو اپنی بے وقوفی کا احساس ہوگیا۔ اس نے شرمندگی سے معافی مانگی اور ان صاحب کے ہاتھ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر قبلہ رُو اُٹھا دیئے، ''اب آپ خیال کریں کہ اللہ پاک آپ کے سامنے ہیں...'' عبداللہ نے بات جوڑنی چاہی مگر اِس بار اُن صاحب نے پھر سے بات اُچک لی۔
''جو سامنے نظر آئے تو اس کا خیال کیا؟ بھائی کیسی باتیں کرتے ہو؟''
عبداللہ کو ایسے لگا جیسے کسی نے تِیر دل کے آرپار کردیا ہو۔ اسے سمجھ آیا کہ اندھا وہ شخص نہیں وہ خود ہے. یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ دعا کےلیے ہاتھ اُٹھانے کے بعد وہ بینا اور عبداللہ نابینا ہے۔ معاملہ یکسر پلٹ گیا تھا۔
عبداللہ بوجھل دل سے دفتر واپس آگیا مگر اب کام کس سے ہوتا؟ اُس نے چھٹی لی اور گھر چلا آیا۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر بینائی ہے کیا اور نابینا ہونا کسے کہتے ہیں؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ نابینا دیکھنے والے سے بہتر ہوجائے؟
وہ سوچنے لگا کہ اندھوں کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ جو طبعی طور پر آنکھوں کی نعمت سے محروم ہیں اور اپنے آس پاس موجود چیزوں کو دیکھ نہیں سکتے۔
تو ایک وہ جو عقل کے اندھے ہوتے ہیں اور انہیں سِوائے منطق کے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ وہ رشتےداروں کو، والدین و اولاد کو، کام و تجارت کو، علم و ہنر کو، سہولت و مسافت کو، دوری و قربت کو، حتٰی کہ خدا کو بھی عقل کی کسوٹی پر پَرکھتے ہیں۔ جو سمجھ میں آگیا وہ ٹھیک، جو نہ سمجھ میں آیا وہ رد۔ ایسے اندھوں کےلیے علم بھی حجاب بن جاتا ہے۔ جتنا پڑھتے ہیں، اتنی ہی بینائی جاتی رہتی ہے۔
اور ایک ہوتے ہیں ذات کے اندھے، جنہیں اپنے سوائے کچھ نظر نہیں آتا۔ ان کی اپنی ''میں'' ہی ان کا خدا ہوتی ہے۔ جو سامنے ٹکرایا وہ کافر ٹھہرا۔
اور ایک ہوتے ہیں عشق کے اندھے، جو عقیدت کی کالی پٹی پہن کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ عشق خود ان کے اور محبوب کے درمیان حجاب بن جاتا ہے۔ ان اندھوں کو نہ تو شریعت دکھتی ہے نہ طریقت۔ عاشقی کا یہ بھوت موت ہی اُتارتی ہے۔
اور کچھ ہوتے ہیں ظرف کے اندھے۔ آپ اِن سے کتنی ہی بھلائی کیوں نہ کرلیجیے، کتنا ہی کچھ سکھا دیجیے مگر یہ احسان مان کر نہیں دیتے۔ اِن کے پاس پہنچ کر تو نیکی و بدی ایک ہو جاتے ہیں۔ کچھ اچھا ہوگیا تو اِن کی قابلیت، کچھ بُرا ہوگیا تو کوئی سازش یا حاسد کی چال۔
کچھ ہوتے ہیں من کے اندھے کہ دلوں پر تالے لگے ہوتے ہیں اور حق بات قبول نہیں کرتے۔ دیکھتے ہوئے بھی نہیں مانتے۔ جان کر مکر جاتے ہیں۔ یہ بے حس لوگ ہوتے ہیں۔ جیسے جانور جنگل میں بچے دے کر بھول جاتا ہے، یہ بھی مدرسے یا اسکول میں بچے جمع کروا کر بھول جاتے ہیں؛ اور ان کی پرورش یا روزمرہ ضروریات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔
اور سب سے اچھے اِن میں جو ہوتے ہیں وہ ہوتے ہیں قُرب کے اندھے۔ انہیں خُدا کے سوا کچھ دکھتا ہی نہیں۔ دنیا و جہاں کی آسائشیں، رات کے نرم و گرم بستر، آرام و سہولت کے مواقع، عقل و نفس کی چالاکیاں، شہوت و ظلم کے دھندے، انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ جب نظر ہی نہ آئے تو کشش کیسے پائیں؟ یہ صرف اللہ کو دیکھتے ہیں، باقی سب کےلیے نابینا۔ کوئی مشکل ہو، کوئی حادثہ ہو یا کوئی امتحان، انہیں سوائے خُدا کی ذات کے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔
دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو کبھی اونچا نہیں بولتے۔ کسی سے لڑائی بھی ہوجائے توبھی کہتے ہیں ''خُدا موجود ہے۔ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ آواز اونچی کیسے کروں؟ یہ جو چیخ رہا ہے یہ تو اندھا ہے، میں کیسے بولوں، میں تو دیکھتا ہوں۔''
آپ سے ایک کام کی بات عرض کروں؟ کبھی خدا اور بندے کے ہیچ نہیں آنا چاہیے۔ کسی کی تنہائی خراب نہ کیجیے۔ آخری رات کا سمے کسی کی امانت ہوتا ہے، موبائل پر باتوں کےلیے نہیں۔ اللہ کی تعظیم کرنی چاہیے۔ اللہ پاک اپنے ادب کا مزہ ضرور چکھاتے ہیں۔ دو رکعت تعظیم کی نیت سے بھی پڑھ لینے چاہئیں۔
یاد رکھیے، جو بینائی خدا تک نہ لے جائے وہ اندھی ہے، اور وہ اندھا پن جو خدا کی چوکھٹ پر چھوڑ آئے وہ مطلق بینائی ہے۔
عبداللہ نے روتی آنکھوں سے ہاتھ اُٹھائے:
یا ذوالجلالِ والاکرام! یا ربّ! اَنتَ مولانا! مجھے وقت کے شر سے بچا۔
میری زندگی میں برکت دے۔ میری موت میں بھی برکت دے۔
مجھے بینائی دے کہ تجھے محسوس کرسکوں، تجھے پاسکوں۔
مجھے اندھا کر دنیا اور اِس کی محبت سے،
شہوت اور اس کی کشش سے،
دولت اور اس کی رعنائی سے،
منافقت اور اس کی دل رُبائی سے،
طاقت اور اس کی چاہت سے،
نفس اور اس کی خباثت سے۔
اے اللہ! دلِ بینا دے۔ وہ نور دے جو تیری وحدت کو دیکھے، وہ نظر دے جو حقیقتِ محمدی ﷺ کو پہچانے۔ وہ طور بنا جو تیری دید میں فنا ہو جائے!
یہ زندگی تو آپا دھاپی میں گذر گئی، تو قبول کرلے۔ آنکھیں دی ہیں، اب بینائی بھی دے دے۔ آمین!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پتا نہیں یہ اچانک پیش کردہ مطالبہ تھا یا آواز کا درد کہ عبداللہ کے پاؤں جکڑ سے گئے۔ عبداللہ نے اس آدمی کا ہاتھ پکڑا اور پہلی صف میں لاکر بِٹھا دیا۔ وہ شخص بینائی کی نعمت سے محروم تھا۔ عبداللہ نے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ دیکھو یوں ہاتھ اُٹھا کر اللہ کے سامنے...
''ایک منٹ بھائی صاحب، نظر نہیں آتا تو دیکھوں کیا؟''
عبداللہ کو اپنی بے وقوفی کا احساس ہوگیا۔ اس نے شرمندگی سے معافی مانگی اور ان صاحب کے ہاتھ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر قبلہ رُو اُٹھا دیئے، ''اب آپ خیال کریں کہ اللہ پاک آپ کے سامنے ہیں...'' عبداللہ نے بات جوڑنی چاہی مگر اِس بار اُن صاحب نے پھر سے بات اُچک لی۔
''جو سامنے نظر آئے تو اس کا خیال کیا؟ بھائی کیسی باتیں کرتے ہو؟''
عبداللہ کو ایسے لگا جیسے کسی نے تِیر دل کے آرپار کردیا ہو۔ اسے سمجھ آیا کہ اندھا وہ شخص نہیں وہ خود ہے. یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ دعا کےلیے ہاتھ اُٹھانے کے بعد وہ بینا اور عبداللہ نابینا ہے۔ معاملہ یکسر پلٹ گیا تھا۔
عبداللہ بوجھل دل سے دفتر واپس آگیا مگر اب کام کس سے ہوتا؟ اُس نے چھٹی لی اور گھر چلا آیا۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر بینائی ہے کیا اور نابینا ہونا کسے کہتے ہیں؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ نابینا دیکھنے والے سے بہتر ہوجائے؟
وہ سوچنے لگا کہ اندھوں کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ جو طبعی طور پر آنکھوں کی نعمت سے محروم ہیں اور اپنے آس پاس موجود چیزوں کو دیکھ نہیں سکتے۔
تو ایک وہ جو عقل کے اندھے ہوتے ہیں اور انہیں سِوائے منطق کے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ وہ رشتےداروں کو، والدین و اولاد کو، کام و تجارت کو، علم و ہنر کو، سہولت و مسافت کو، دوری و قربت کو، حتٰی کہ خدا کو بھی عقل کی کسوٹی پر پَرکھتے ہیں۔ جو سمجھ میں آگیا وہ ٹھیک، جو نہ سمجھ میں آیا وہ رد۔ ایسے اندھوں کےلیے علم بھی حجاب بن جاتا ہے۔ جتنا پڑھتے ہیں، اتنی ہی بینائی جاتی رہتی ہے۔
اور ایک ہوتے ہیں ذات کے اندھے، جنہیں اپنے سوائے کچھ نظر نہیں آتا۔ ان کی اپنی ''میں'' ہی ان کا خدا ہوتی ہے۔ جو سامنے ٹکرایا وہ کافر ٹھہرا۔
اور ایک ہوتے ہیں عشق کے اندھے، جو عقیدت کی کالی پٹی پہن کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ عشق خود ان کے اور محبوب کے درمیان حجاب بن جاتا ہے۔ ان اندھوں کو نہ تو شریعت دکھتی ہے نہ طریقت۔ عاشقی کا یہ بھوت موت ہی اُتارتی ہے۔
اور کچھ ہوتے ہیں ظرف کے اندھے۔ آپ اِن سے کتنی ہی بھلائی کیوں نہ کرلیجیے، کتنا ہی کچھ سکھا دیجیے مگر یہ احسان مان کر نہیں دیتے۔ اِن کے پاس پہنچ کر تو نیکی و بدی ایک ہو جاتے ہیں۔ کچھ اچھا ہوگیا تو اِن کی قابلیت، کچھ بُرا ہوگیا تو کوئی سازش یا حاسد کی چال۔
کچھ ہوتے ہیں من کے اندھے کہ دلوں پر تالے لگے ہوتے ہیں اور حق بات قبول نہیں کرتے۔ دیکھتے ہوئے بھی نہیں مانتے۔ جان کر مکر جاتے ہیں۔ یہ بے حس لوگ ہوتے ہیں۔ جیسے جانور جنگل میں بچے دے کر بھول جاتا ہے، یہ بھی مدرسے یا اسکول میں بچے جمع کروا کر بھول جاتے ہیں؛ اور ان کی پرورش یا روزمرہ ضروریات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔
اور سب سے اچھے اِن میں جو ہوتے ہیں وہ ہوتے ہیں قُرب کے اندھے۔ انہیں خُدا کے سوا کچھ دکھتا ہی نہیں۔ دنیا و جہاں کی آسائشیں، رات کے نرم و گرم بستر، آرام و سہولت کے مواقع، عقل و نفس کی چالاکیاں، شہوت و ظلم کے دھندے، انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ جب نظر ہی نہ آئے تو کشش کیسے پائیں؟ یہ صرف اللہ کو دیکھتے ہیں، باقی سب کےلیے نابینا۔ کوئی مشکل ہو، کوئی حادثہ ہو یا کوئی امتحان، انہیں سوائے خُدا کی ذات کے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔
دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو کبھی اونچا نہیں بولتے۔ کسی سے لڑائی بھی ہوجائے توبھی کہتے ہیں ''خُدا موجود ہے۔ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ آواز اونچی کیسے کروں؟ یہ جو چیخ رہا ہے یہ تو اندھا ہے، میں کیسے بولوں، میں تو دیکھتا ہوں۔''
آپ سے ایک کام کی بات عرض کروں؟ کبھی خدا اور بندے کے ہیچ نہیں آنا چاہیے۔ کسی کی تنہائی خراب نہ کیجیے۔ آخری رات کا سمے کسی کی امانت ہوتا ہے، موبائل پر باتوں کےلیے نہیں۔ اللہ کی تعظیم کرنی چاہیے۔ اللہ پاک اپنے ادب کا مزہ ضرور چکھاتے ہیں۔ دو رکعت تعظیم کی نیت سے بھی پڑھ لینے چاہئیں۔
یاد رکھیے، جو بینائی خدا تک نہ لے جائے وہ اندھی ہے، اور وہ اندھا پن جو خدا کی چوکھٹ پر چھوڑ آئے وہ مطلق بینائی ہے۔
عبداللہ نے روتی آنکھوں سے ہاتھ اُٹھائے:
یا ذوالجلالِ والاکرام! یا ربّ! اَنتَ مولانا! مجھے وقت کے شر سے بچا۔
میری زندگی میں برکت دے۔ میری موت میں بھی برکت دے۔
مجھے بینائی دے کہ تجھے محسوس کرسکوں، تجھے پاسکوں۔
مجھے اندھا کر دنیا اور اِس کی محبت سے،
شہوت اور اس کی کشش سے،
دولت اور اس کی رعنائی سے،
منافقت اور اس کی دل رُبائی سے،
طاقت اور اس کی چاہت سے،
نفس اور اس کی خباثت سے۔
اے اللہ! دلِ بینا دے۔ وہ نور دے جو تیری وحدت کو دیکھے، وہ نظر دے جو حقیقتِ محمدی ﷺ کو پہچانے۔ وہ طور بنا جو تیری دید میں فنا ہو جائے!
یہ زندگی تو آپا دھاپی میں گذر گئی، تو قبول کرلے۔ آنکھیں دی ہیں، اب بینائی بھی دے دے۔ آمین!
دل اک کشکول جو بھرتا ہی نہیں ہے ہم سے
آنکھ کا حال کہ ہر دم سوالی ٹھہرے
تجھ کو تیری ہی قسم مجھ کو پلا دے ساقی
مے توحید کی اور جام خیالی ٹھہرے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔