ایک پہلو یہ بھی ہے
قوانین از سر نو بنائے جائیں جن میں ججوں اور جرنیلوں کو استثنیٰ دے دیا جائے
احتساب ہو رہا ہے یا انتقام لیا جار ہا ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا جس کے بارے میں ابھی سے کوئی رائے نہیں دی جا سکتی لیکن ایک بات بڑی واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان میں احتساب ہو یا احتساب کے نام پر انتقام اس کے بارے میں پاکستان کی اشرافیہ متفق ہے کہ اشرافیہ کی حد تک ہر دو صورت میں احتساب نہیں ہونا چاہیے اس اشرافیہ میں وہ سارے لوگ شامل ہیں جن کے ہاتھ میں اس ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے کی طاقت ہے۔
وہ اپنے اس اختیار کا بیدردی اور بے حیائی کے ساتھ اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ان کے اختیارات کے آگے کوئی بند باندھنے والا نہیں اور نہ ہی کوئی اس بارے میں ان سے پوچھ گچھ کر سکتا ہے اور جو باز پرس کر نے کی طاقت رکھتا ہے تو یہ نام نہاد اشرافیہ اس کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتی ہے اور پھر سب مل کر گنگا اشنان کرتے ہیں۔ احتساب کمیشن کا معاملہ اس وقت سامنے آیا ہے جب سابق وزیر اعظم ان کے بچے اور سمدھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نیب میں اپنے خلاف کرپشن کے الزامات میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ اب نیب نے اپنے اختیارات کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے چوہدری صاحبان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی بھی گرد آلود فائلیں کھولی ہیں ان کو جھاڑ پونچھ کر کے تفتیشی عمل کا آغاز کر دیا ہے تا کہ حساب برابر رہے۔
نیب کے نئے چیئر مین نے جب سے ادارے کی سربراہی سنبھالی کی ہے ان کا واسطہ بڑے ملزموں سے پڑ گیا ہے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑنے والی بات ہو گئی ہے، لیکن انھوں نے بھی استقامت سے اشرافیہ کے ان بڑے لوگوں پر اس طرح ہاتھ ڈالا ہے کہ ان کی چیخیں نکل گئی ہیں اور حکومتی ایوانوں کے ساتھ اپوزیشن کو بھی پریشانیاں لاحق ہو چکی ہیں اور اب جب سب کو یہ نظر آنا شروع ہو گیاہے کہ کیامعلوم کس وقت کون پکڑا جائے تو اس نام نہاد اشرافیہ کو نیب کا قانون ہی کھٹکنے لگا ہے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس میں کئی سقم ہیں جن کو پارلیمان کے ذریعے دور کر دیا جائے اور یوں نیب کو بالکل ہی ختم کر دیا جائے اس کی جگہ احتساب کمیشن بنا دیا جائے۔
جس کے قوانین از سر نو بنائے جائیں جن میں ججوں اور جرنیلوں کو استثنیٰ دے دیا جائے۔ اس سے پہلے ججوں اور جرنیلوں کو احتساب کے دائرہ کار میں لانے کی تجویز پیپلز پارٹی کی تھی جس کو پارلیمانی کمیٹی میں واپس لے لیا گیا ہے۔ اس بارے میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا بھی یہی موقف سامنے آیا ہے ججوں اور جرنیلوں کو احتساب کے عمل سے الگ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے باز پرس نہیں ہو سکتی بلکہ ان کا اپنے اداروں میں اپنا قدرے مضبوط احتسابی نظام ہے جس پر بھر پور طور پر عمل کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے مجوزہ نئے احتساب کمیشن کے قیام سے اتفاق نہیں کیا بلکہ جماعت اسلامی کا موقف تو یہ ہے کہ نیب آرڈیننس میں ترامیم کے بعد بلا تفریق احتساب کو یقینی بنایا جائے۔ جماعت کے محترم امیر بھی بلا تفریق احتساب کے متعلق زور دے رہے ہیں اپوزیشن کی بڑی جماعت تحریک انصاف نے بھی احتساب کمیشن کو مسترد کر دیا ہے حالانکہ اس کے متعدد رہنماء بھی احتساب کے شکنجے میں آچکے ہیں۔
اشرافیہ کی جانب سے احتسابی قصے کو اس وقت چھیڑا گیا ہے جب کہ انتخابات قریب ہیں۔ سیاستدان انتخابات کے لیے تیاریوںکو بھلا کر احتساب سے بچت کے طریقے ڈھونڈنے لگ گئے ہیں۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد احتسابی عمل کے ذریعے مزید نااہلیاں متوقع ہیں ان متوقع نااہلیوںاور احتسابی شکنجے سے بچنے کے لیے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں ایک بار پھر نظریہ ضرورت کے تحت مفاہمت ہو چکی ہے تا کہ مشترکہ لائحہ عمل سے اس مشکل سے نکلا جا سکے۔ لیکن نیب بھی کچھ زیادہ ہی متحرک ہو چکی ہے اور ہر روز ایک نیا کیس سامنے آ رہا ہے اور وہ سیاستدان جو اپنے اچھے وقتوں میں نیب کو گھاس نہیں ڈالتے تھے اب اسی نیب کے شکنجے سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ احتسابی قوانین کو ظالمانہ کہا جا رہا ہے نئے قوانین بنانے کے لیے صف بندی کی جارہی ہے تا کہ اپنے لیے ان نئے قوانین کے تحت رعائتیں حاصل کی جا سکیں۔
دیکھنایہ ہے کہ اپنے مفادات پر ٹھوکر لگتے ہی ساری اشرافیہ اکٹھی ہو رہی ہے، اس ساری صورتحال سے اگر کوئی محظوظ ہو رہاہے تو وہ اس ملک کے عوام ہیں جو کہ حقیقت میں بلا تفریق احتساب چاہتے ہیں کیونکہ وہ تاریخی طور پر یہ دیکھتے آئے ہیں کہ اس ملک میں صرف کمزور ہی احتساب کے شکنجے میں جکڑا گیا ہے جب کہ امیروں کو اس عمل سے دور ہی رکھا گیا۔ سیاسی احتساب کی بات اور ہے جس میں سیاسی مخالفین کو سیاسی حکومتوں نے ہی اپنے اقتدار کے دوران احتسابی عمل سے گزارا لیکن اس عمل سے بھی کچھ نہ نکل سکا بس عوام دیکھتے ہی رہ گئے اور اشرافیہ مزے لوٹتی رہی۔ درحقیقت اس ملک کے عوام کو ہمیشہ دکھایا کچھ اور گیا اور عمل کچھ اور کیا گیا۔
عوام کو اگر دیکھا جائے تو وہ بطور قوم اس بات پہ متفق نظر آتے ہیں کہ احتساب کا عمل اشرافیہ سے شروع ہو اور انھی پر ختم ہو کہ ملک میں لوٹ مار اشرافی طبقے کی جانب سے کی گئی ہے جس کا قوم کو علم بھی ہے اور غصہ بھی ہے کہ ان کے وسائل کو جس بے دردی سے لوٹ کر اشرافیہ نے اپنی تجوریاں بھری ہیں ان کی کئی مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں لیکن یہ طبقہ مسلسل احتساب سے بچتا ہی رہا ہے۔ اب عوامی مطالبہ ہی یہ ہے کہ معاشرے کے بااثر افراد کا بھی احتساب ہو کیونکہ جمہوریت میں اگر احتساب نہ ہو تو ایسی جمہوریت ناکام جمہوریت کہلاتی ہے۔ آسان اور سادہ ترین الفاظ میں عوام کا یہ مطالبہ ہے کہ احتساب کے عمل کا کوئی بھی نیا نام رکھ دیں ان کو غرض بے لاگ اور بے رحم احتساب سے ہے لیکن اگر عوام اور اشرافیہ کے لیے الگ الگ قانون ہوں گے تو ایسے احتسابی کھیلوں سے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں۔