صوفی انسان
پھر یوں بھی ہوا کہ پچھلے سال کراچی لٹریچر فیسٹیول کا بہانہ کرکے گلزار آہی گئے
جلا وطن ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ اس سرزمین میں نہ بستے ہوں۔ ایسے محسوسات جو اپنی زمین پر رہتے ہوئے بھی حد ادراک میں آئیں کہ ہم خود اپنی زمیں پر اجنبی ہیں ۔ بچپن میں کھوئی ہوئی عمراؤجان ، بہت عمر گذرنے کے بعد جب واپس اپنے فیض آباد کو لوٹتی ہے تو اسے ہر طرف جیسے غبارہی غبار محسوس ہوتا ہے اور زبان پر بے دھڑک یہ الفاظ آجاتے ہیں ۔
''یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کونسا دیار ہے''
اسی نظم کے شاعر اسی طرح کے تذبذب کا شکار تھے ــ''گلزار'' جب پہلی بار آج سے 25 سال پہلے دینا جانے کے لیے کراچی آئے تھے۔ رات اپنے بچپن کے دوست کے پاس ٹھہرے اور صبح دینا کے لیے روانہ ہونا تھا ، بچپن کے دوست نے جب گلزار کو یہ بتایا کہ تمہارا دینا بہت بدل گیا ہے ۔ نہ گلیاں پہلے جیسی ہیں ، نہ وہ بیر کا درخت ویسا ہے، نہ گلی کے نکڑ پر جو چھوٹا سا کرکٹ کامیدان تھا وہ رہا ہے، اور تمہارے گھر کا آنگن بھی سکڑ گیاہے۔ گلزار یہ سب سن کر سہم سے جاتے ہیں۔ اسے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ جو نقشہ اس کے ذہن میں ہے دینا کا اور اپنے گھر کا ،جب وہ وہاں جائے گا اور ایسا کچھ وہاں نہ پائے گا تواس کا دل غمگین ہوگا۔ لہذا گلزار نے کراچی سے ہی واپسی کا فیصلہ کر لیا ۔ شاید فیض کی یہ سطریں گلزار کی ان محسوسات کو اچھی طرح رقم کرتی ہیں۔
''دل یہ کہتا ہے کہیں اور چلیں جائیں ، جہاں کوئی دروازہ عبس وا ہو ، نہ بے کار کوئی یاد فریاد کا کشکول لیے بیٹھی ہو ، مرحم حسرت دیدار ہو دیوار کوئی، نہ کوئی سایہ گل ہجرت گل سے ویراں ہو''
پھر یوں بھی ہوا کہ پچھلے سال کراچی لٹریچر فیسٹیول کا بہانہ کرکے گلزار آہی گئے اور کراچی آنے سے پہلے واہگہ بارڈر سے سیدھا ''دینا'' چلے گئے، دینا میں جو بھی کچھ تھا سب دیکھا ۔ اپنا گھر، اس گھر کے موجود ہ مکین بڑے مہمانواز تھے۔ پھر نہ جانے کیا ہوا گلزار کو اور پھر جذبوں کا سمندر کچھ اسطرح سے امڈ پڑا کہ واپس سیدھا واہگہ سے ہندوستان چلے گئے۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول ان کے عدم میں گزر بھی گیا۔ دیواریں ہیں کہ اونچی ہوتی جارہی ہیں ، ہر طرف عزت و انا کی خاطر دریچے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ اتنے بند کہ ہوا کا ایک جھونکا بھی گزرنے نہ پائے۔ آسماں تو جیسے بت سنگ کی مانند خموشاں ہوں۔ یہ جدائی تو جیسے جلاوطنی سے بھی زیادہ سنگین ہے کہ ہم اپنی زمین پر ہوتے ہوئے بھی جیسے اپنی زمین پر نہ ہوں۔ اتنے سارے لوگ، آوازیں، شور و غل لیکن پھر بھی روح میں اترتی تنہائی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
سب کچھ جیسے ٹوٹتا پھوٹتا جارہا ہو اور شاید کسی کو پتا بھی نہیں کہ یہ کیا اور کیوں ہے، کیسے ہے؟؟ اب خوشی کو تو جیسے خریدنا پڑتا ہے اگر نہ خریدو تو جیسے اداسی سی چھائی ہوئی ہو۔ ہم اب جیسے اپنی روح مقفل کرچکے ہیں ، وہ روحیں جن سے انسان کی پہچان تھی۔ قربانی جیسے خود بہ خود ہوجاتی ہو کچھ اسطرح کہ اس کا احساس بھی نہ ہو کہ کیا کھویا اور کیا پایا کیونکہ قربانی خود اپنے وجود میں ایک ایسا عمل ہے جس میں نہ کچھ کھونے کا احساس ہوتا ہے نہ کچھ پانے کی غرض۔ ہم کچھ ایسی بے منزل اقدار کا تسلسل ہیں جس میں چلتے چلتے اب صرف، جدائی، تنہائی اور جلاوطنی کا احساس ہے۔ وہ ہمارے اجداد جو ہمارے بھی ہوتے تھے تو غیروں کے بھی ہوتے تھے، وہ اجداد پورے کنبے اور پریوار گاؤں کے ہوتے تھے۔ وہ ایسے کیوں تھے اور ہم جو بظاہر انھیں کا عکس ہیں وہ ہم نہیں۔ وہ ایسے اس لیے تھے کیونکہ ان کی روحانی اقدار بڑی تھیں ، ان کے جسمانی اقدارسے۔
ہم نے اب معاشرے میں رہنا چھوڑ دیا ہے ۔ خود غرضی اور مکاری ہمارے لاشعور میں رچ بس گئی ہے۔ اب ہم صرفConsumer صارف ہی رہ گئے ہیںاور ہمارے اونچ نیچ کی ریت بھی اسی زاویے سے ہے۔ کل جو علم کے خزینے رکھتے تھے اور ہم ان کو اسی نظریئے میں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ، اس کے برعکس آج ہم اسی کو عزت دیتے ہیں جو زیادہ Consume کرتا ہے ۔ خود نمائی کا اسیر ہے، زیادہ Consumption کے لیے،یوں اب زیادہ کرپشن بھی ہوگی!!!!
کرپٹ صرف ہمارے لیڈر نہیں بلکہ ہم خود اور تمام Society بھی ہے۔ سچ جانیے ، اب اگر جناح بھی لوٹ کر پاکستان آئیں تو جیسے اجنبی ۔ ان کی گیارہ اگست کی تقریر بھی اجنبی، ان کی تحریک، ان کی سوچ اور ان کے خیالات و افکار ، پیغام بھی اجنبی۔ کتنا بدل گیا ہے میرا سندھ ، کہاں ہیں میرے بھٹائی کی باتیں ، سچل، سامی اور ایاز کے خیال، وہ رقص اور وہ دھمال، وہ مدرسے جہاں میرے اجداد پڑھا کرتے تھے، وہ اوطاقیں جہاں زیرک اپنی خوبصورت باتوں سے سننے والوں کو محظوظ کیا کرتے تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسے سندھ کو کسی جادو صفت بلا نے دبوچ لیا ہے ، جامعہ سندھ میں کیا ہورہا ہے؟ ہم اب تک یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ عورت اور مرد برابر کے حقوق اور حیثیت رکھتے ہیں۔ اجداد کے زاویوں سے، بلا تاخیر کھولنا ہوگا بند دریچوں کو اور اپنی پژمردہ روحوں کو واپس اپنے وجود میں لانا ہوگا۔
معاشرے کے کیا معنیٰ ہیں؟ طرح طرح کے لوگوں کی سوچ ، فکر، ان کے ہنر اور ان کے نظریات کا مجموعہ ۔ ہم اس معاشرے میں رہتے ہوئے مختلف لوگوں کی کاوشوں اور محنت سے مستفید ہوتے ہیں ۔ معاشرے پر ہمارا حق تب بنتا ہے جب ہم اپنی مزدوری اس معاشرے پر صرف کرتے ہیں۔ کراچی ایک رات میں نہیں بنا اس کے بننے میں صدیوں کی مزدوریاں شامل ہیں۔ جس کو مارکسی اصطلاح میں Embodied Labourمحنت مجسم کہتے ہیں۔ یہ جو آج کا انسان ہے وہ آج نہیں بنا اس کے بننے میں صدیوں کا تسلسل ہے، اجداد کی محنت اور تاریخ کا سبق ہے، ایجادات کا عمل ہے کہ آدمی مقدار سے معیاری تو بنا ہے مگر اس لمحے جو خلاء انسان کے اندر ہے وہ انسانی اقدار کی کمی ہے۔ شاید اس کی وجہ اس کے اردگرد بہت ساری ضروریات ہے۔ میں آج سے 25 سال پہلے جرمنی کے ایک خوبصورت Economist Schumacher کی کتاب Small is Beautiful کا مطا لعہ کیا تھا۔ میں اس کتاب کو اپنی نگاہ سے صوفی معاشیات کی ایک کتاب سمجھتا ہوں اور اگر آپ صوفی کی نگاہ سے اس دنیا کو دیکھیں گے تو بقول شاعر
'' میری آنکھوں سے اس دنیا کو دیکھو
پھر جو چاہو تو چلی جانا''
1973 میں شو میکر کی نگاہ اس موجودہ دور پر تھی جب وہ اپنی کتاب کی تصنیف کر رہا تھا ، وہ دیکھ رہا تھا کہ ترقی کے نام پر ہم ماحولیاتی آلودگی کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ انسان زیادہ Consumption کی دوڑ میں انسانی صفت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ صوفی کی عظمت کو شاید کبیر کی اس بات سے آپ سمجھ سکیں
''سادھو بھوکا بھانکا، دھن کا بھوکا نا ہی
دھن کا بھوکا جو پھرے ، سو تو سادھو نا ہی''
''یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کونسا دیار ہے''
اسی نظم کے شاعر اسی طرح کے تذبذب کا شکار تھے ــ''گلزار'' جب پہلی بار آج سے 25 سال پہلے دینا جانے کے لیے کراچی آئے تھے۔ رات اپنے بچپن کے دوست کے پاس ٹھہرے اور صبح دینا کے لیے روانہ ہونا تھا ، بچپن کے دوست نے جب گلزار کو یہ بتایا کہ تمہارا دینا بہت بدل گیا ہے ۔ نہ گلیاں پہلے جیسی ہیں ، نہ وہ بیر کا درخت ویسا ہے، نہ گلی کے نکڑ پر جو چھوٹا سا کرکٹ کامیدان تھا وہ رہا ہے، اور تمہارے گھر کا آنگن بھی سکڑ گیاہے۔ گلزار یہ سب سن کر سہم سے جاتے ہیں۔ اسے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ جو نقشہ اس کے ذہن میں ہے دینا کا اور اپنے گھر کا ،جب وہ وہاں جائے گا اور ایسا کچھ وہاں نہ پائے گا تواس کا دل غمگین ہوگا۔ لہذا گلزار نے کراچی سے ہی واپسی کا فیصلہ کر لیا ۔ شاید فیض کی یہ سطریں گلزار کی ان محسوسات کو اچھی طرح رقم کرتی ہیں۔
''دل یہ کہتا ہے کہیں اور چلیں جائیں ، جہاں کوئی دروازہ عبس وا ہو ، نہ بے کار کوئی یاد فریاد کا کشکول لیے بیٹھی ہو ، مرحم حسرت دیدار ہو دیوار کوئی، نہ کوئی سایہ گل ہجرت گل سے ویراں ہو''
پھر یوں بھی ہوا کہ پچھلے سال کراچی لٹریچر فیسٹیول کا بہانہ کرکے گلزار آہی گئے اور کراچی آنے سے پہلے واہگہ بارڈر سے سیدھا ''دینا'' چلے گئے، دینا میں جو بھی کچھ تھا سب دیکھا ۔ اپنا گھر، اس گھر کے موجود ہ مکین بڑے مہمانواز تھے۔ پھر نہ جانے کیا ہوا گلزار کو اور پھر جذبوں کا سمندر کچھ اسطرح سے امڈ پڑا کہ واپس سیدھا واہگہ سے ہندوستان چلے گئے۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول ان کے عدم میں گزر بھی گیا۔ دیواریں ہیں کہ اونچی ہوتی جارہی ہیں ، ہر طرف عزت و انا کی خاطر دریچے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ اتنے بند کہ ہوا کا ایک جھونکا بھی گزرنے نہ پائے۔ آسماں تو جیسے بت سنگ کی مانند خموشاں ہوں۔ یہ جدائی تو جیسے جلاوطنی سے بھی زیادہ سنگین ہے کہ ہم اپنی زمین پر ہوتے ہوئے بھی جیسے اپنی زمین پر نہ ہوں۔ اتنے سارے لوگ، آوازیں، شور و غل لیکن پھر بھی روح میں اترتی تنہائی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
سب کچھ جیسے ٹوٹتا پھوٹتا جارہا ہو اور شاید کسی کو پتا بھی نہیں کہ یہ کیا اور کیوں ہے، کیسے ہے؟؟ اب خوشی کو تو جیسے خریدنا پڑتا ہے اگر نہ خریدو تو جیسے اداسی سی چھائی ہوئی ہو۔ ہم اب جیسے اپنی روح مقفل کرچکے ہیں ، وہ روحیں جن سے انسان کی پہچان تھی۔ قربانی جیسے خود بہ خود ہوجاتی ہو کچھ اسطرح کہ اس کا احساس بھی نہ ہو کہ کیا کھویا اور کیا پایا کیونکہ قربانی خود اپنے وجود میں ایک ایسا عمل ہے جس میں نہ کچھ کھونے کا احساس ہوتا ہے نہ کچھ پانے کی غرض۔ ہم کچھ ایسی بے منزل اقدار کا تسلسل ہیں جس میں چلتے چلتے اب صرف، جدائی، تنہائی اور جلاوطنی کا احساس ہے۔ وہ ہمارے اجداد جو ہمارے بھی ہوتے تھے تو غیروں کے بھی ہوتے تھے، وہ اجداد پورے کنبے اور پریوار گاؤں کے ہوتے تھے۔ وہ ایسے کیوں تھے اور ہم جو بظاہر انھیں کا عکس ہیں وہ ہم نہیں۔ وہ ایسے اس لیے تھے کیونکہ ان کی روحانی اقدار بڑی تھیں ، ان کے جسمانی اقدارسے۔
ہم نے اب معاشرے میں رہنا چھوڑ دیا ہے ۔ خود غرضی اور مکاری ہمارے لاشعور میں رچ بس گئی ہے۔ اب ہم صرفConsumer صارف ہی رہ گئے ہیںاور ہمارے اونچ نیچ کی ریت بھی اسی زاویے سے ہے۔ کل جو علم کے خزینے رکھتے تھے اور ہم ان کو اسی نظریئے میں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ، اس کے برعکس آج ہم اسی کو عزت دیتے ہیں جو زیادہ Consume کرتا ہے ۔ خود نمائی کا اسیر ہے، زیادہ Consumption کے لیے،یوں اب زیادہ کرپشن بھی ہوگی!!!!
کرپٹ صرف ہمارے لیڈر نہیں بلکہ ہم خود اور تمام Society بھی ہے۔ سچ جانیے ، اب اگر جناح بھی لوٹ کر پاکستان آئیں تو جیسے اجنبی ۔ ان کی گیارہ اگست کی تقریر بھی اجنبی، ان کی تحریک، ان کی سوچ اور ان کے خیالات و افکار ، پیغام بھی اجنبی۔ کتنا بدل گیا ہے میرا سندھ ، کہاں ہیں میرے بھٹائی کی باتیں ، سچل، سامی اور ایاز کے خیال، وہ رقص اور وہ دھمال، وہ مدرسے جہاں میرے اجداد پڑھا کرتے تھے، وہ اوطاقیں جہاں زیرک اپنی خوبصورت باتوں سے سننے والوں کو محظوظ کیا کرتے تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسے سندھ کو کسی جادو صفت بلا نے دبوچ لیا ہے ، جامعہ سندھ میں کیا ہورہا ہے؟ ہم اب تک یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ عورت اور مرد برابر کے حقوق اور حیثیت رکھتے ہیں۔ اجداد کے زاویوں سے، بلا تاخیر کھولنا ہوگا بند دریچوں کو اور اپنی پژمردہ روحوں کو واپس اپنے وجود میں لانا ہوگا۔
معاشرے کے کیا معنیٰ ہیں؟ طرح طرح کے لوگوں کی سوچ ، فکر، ان کے ہنر اور ان کے نظریات کا مجموعہ ۔ ہم اس معاشرے میں رہتے ہوئے مختلف لوگوں کی کاوشوں اور محنت سے مستفید ہوتے ہیں ۔ معاشرے پر ہمارا حق تب بنتا ہے جب ہم اپنی مزدوری اس معاشرے پر صرف کرتے ہیں۔ کراچی ایک رات میں نہیں بنا اس کے بننے میں صدیوں کی مزدوریاں شامل ہیں۔ جس کو مارکسی اصطلاح میں Embodied Labourمحنت مجسم کہتے ہیں۔ یہ جو آج کا انسان ہے وہ آج نہیں بنا اس کے بننے میں صدیوں کا تسلسل ہے، اجداد کی محنت اور تاریخ کا سبق ہے، ایجادات کا عمل ہے کہ آدمی مقدار سے معیاری تو بنا ہے مگر اس لمحے جو خلاء انسان کے اندر ہے وہ انسانی اقدار کی کمی ہے۔ شاید اس کی وجہ اس کے اردگرد بہت ساری ضروریات ہے۔ میں آج سے 25 سال پہلے جرمنی کے ایک خوبصورت Economist Schumacher کی کتاب Small is Beautiful کا مطا لعہ کیا تھا۔ میں اس کتاب کو اپنی نگاہ سے صوفی معاشیات کی ایک کتاب سمجھتا ہوں اور اگر آپ صوفی کی نگاہ سے اس دنیا کو دیکھیں گے تو بقول شاعر
'' میری آنکھوں سے اس دنیا کو دیکھو
پھر جو چاہو تو چلی جانا''
1973 میں شو میکر کی نگاہ اس موجودہ دور پر تھی جب وہ اپنی کتاب کی تصنیف کر رہا تھا ، وہ دیکھ رہا تھا کہ ترقی کے نام پر ہم ماحولیاتی آلودگی کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ انسان زیادہ Consumption کی دوڑ میں انسانی صفت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ صوفی کی عظمت کو شاید کبیر کی اس بات سے آپ سمجھ سکیں
''سادھو بھوکا بھانکا، دھن کا بھوکا نا ہی
دھن کا بھوکا جو پھرے ، سو تو سادھو نا ہی''