نااہلی کا طویل سفر

آج کل پنجاب اسموگ کی لپیٹ میں ہے کچھ لوگ اسے دھند سمجھتے ہیں حالانکہ یہ اس سے مختلف ہے

آج کل پنجاب اسموگ کی لپیٹ میں ہے کچھ لوگ اسے دھند سمجھتے ہیں حالانکہ یہ اس سے مختلف ہے ۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی آج جس سطح پر نظر آ رہی ہے، تیس چالیس برس پہلے ایسی صورتحال نہیں تھی۔اگر قیام پاکستان کے وقت کے منظر نامے کو دیکھا جائے تو ہمارے ملک کا ماحول بالکل صاف اور شفاف تھا۔زیرزمین پانی بھی وافر تھا، جنگلات اور جنگلی حیات کی رنگا رنگی بھی موجود تھی۔پھر اس ملک کے جو وارث بنے ، ان کی کارکردگی اور ذہانت کا اندازہ ملک کی حالت دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔

آج کل پنجاب سموگ کی لپیٹ میں ہے۔ کچھ لوگ اسے دھند سمجھتے ہیں حالانکہ یہ اس سے مختلف ہے، یہ ماحولیاتی آلودگی کی ایک بھیانک اور خطرناک شکل ہے۔گزشتہ روز تو سموگ کے باعث پنجاب میں کئی بجلی گھر بند ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، لوڈشیڈنگ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ سارا دن سورج نظر نہیں آتا، سانس لینا مشکل ہے، لوگ منہ پر حفاظتی ماسک پہن کر باہر نکلتے ہیں۔ بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ عوام بارش کی دعائیں مانگ رہے ہیں تاکہ سموگ میں کمی ہو۔

ایسا کیوں ہو رہا ہے ، اس حوالے سے حکومت کا اپنا ایک زاویہ نگاہ ہے اورسائنسی ماہرین کی اپنی رائے ہے لیکن اگر ماحولیاتی مسائل کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں پاکستان کے اقتدار پر فائز ہونے والی مختلف حکومتوں اور اس کے کارپردازوں کی ملک دشمن پالیسیوں، انتظامی نااہلی، غفلت، لاپروائی ، ذہنی اور علمی کمی کا زیادہ حصہ نظر آئے گا۔ جن حکمرانوں اور سرکاری اداروں کے افسروں نے اس ملک کے لیے پالیسیاں تشکیل دیں، ان کے کارناموں کی زہریلی فصل آج پورا ملک کاٹ رہا ہے جب کہ ان کی اولاد امریکا، کینیڈا اور یورپ فضاؤں میں سانس لے رہی ہے۔ سول اور فوجی افسرشاہی کی ذہنی افلاس روزروشن کی طرح عیاں ہے۔

سیاستدانوں کی نااہلی کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔انھیں تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ماحولیات بھی کوئی اہم ایشو ہے۔ ملک پر فوج کی حکومت ہو یا سویلین حکمران ہوں، کسی نے وطن کے ساتھ محبت کا ثبوت نہیں دیا بلکہ اسے کوئی مفتوحہ علاقہ ہی سمجھا ہے۔ اسٹرٹیجک معاملات ہوں یا ملک کے معاشی وثقافتی معاملات، سب کو زوال پذیر کرنے میں حکمران اشرافیہ کا بنیادی اور کلیدی کردار ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی ہی کو دیکھ لیں۔ کسی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ غیرملکیوں کو آباد کرنے میں تمام فریق آگے آگے رہے ہیں۔ آج بھی اس ملک میں افغانوں، ازبکوں اور تاجکوں کو شہریت دینے کے حامی موجود ہیں بلکہ وہ اس کی پرزور وکالت بھی کررہے ہیں اور انھیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔


دوسری جانب ایسا گروہ بھی موجود ہے جو برمیوں، بہاریوں اور افریقیوں کو ملک میں آباد کرنا چاہتا ہے۔ وہ بھی دھڑلے سے اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں بلکہ غیر قانونی طور غیرملکیوں کو پاکستان میں بسایا جارہا ہے۔ جنگلات کی حالت پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ٹمبر مافیا نے جنگلات کاٹ ڈالے، شہروں میں جدید حکمرانوں نے درختوں کا صفایا کرا دیا ۔ یہاں تک کہ گندے نالوں اور برساتی نالوں کے اردگرد درخت بھی کاٹ کر وہاں آبادیاں بنا دی گئی ہیں۔ رہی سہی کسر ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے پوری کر دی ہے۔

زراعت کے لیے زرخیز زمین ویران کر دی گئی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں سبزیاں اور پھل درآمد ہو رہے ہیں کیونکہ سبزی پیدا کرنے والی زمینوں پر ہاوسنگ سوسائٹیاں بن گئی ہیں۔ حلال جانوروں کی تعداد مسلسل کم ہوتی چلی جا رہی ہے کیونکہ انھیں ذبح کر کے کھایا جا رہا ہے۔دودھیل جانوروں کو بغیر روک ٹوک ذبح کیا جارہا ہے،یہی وجہ ہے کہ پاکستان دودھ بھی درآمد کررہا ہے۔ جنگلات کم ہونے سے جنگلی حیات کا تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے۔ دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔

ایک فوجی آمر ایوب خان نے پنجاب کے تین دریا بھارت کو دے دیے،ملک میں امریکا کے اڈے قائم کرنے کا شرف بھی ان ہی کے دور حکومت کو حاصل ہے۔ اس کے بعد آنے والے کسی حکمران نے ملک کو درپیش پانی کی ضروریات کے مطابق ڈیم تعمیر کرنے پر توجہ نہیں دی۔ آج حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس صرف دو بڑے ڈیم ہیں جب کہ دریائے سندھ میں بھی پانی کم ہو گیا ہے۔ پنجاب میں بہنے والے دو دریاؤں پنجاب اور جہلم میں پانی کم ہوگیا ہے کیونکہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ڈیم اور بیراج تعمیر کررہا ہے۔

ادھر افغانستان میں ڈیم تعمیر ہونے سے وادی پشاور کو سیراب کرنے والے دریا میں بھی پانی کم ہو رہا ہے۔ سندھ میں میٹھے پانی کی جھیلیں کڑوی ہو رہی ہیں۔ ماضی سے شروع ہونے والا نااہلی کا سفر آج اپنی انتہا تک پہنچ چکا ہے۔ اب ملک کی حالت یہ ہے کہ سیلاب آئے تو اسے روکنے کی طاقت نہیں ہے۔ سیکڑوں، ہزاروں دیہات اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ زیرزمین پانی کی سطح مسلسل کم ہو رہی ہے۔ زلزلہ آجائے تو انتظامیہ مفلوج ہوجاتی ہے اور کہیں آگ لگ جائے تو بھی ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں ،آج سموگ ہے تو بھی صرف باتیں بنائی جارہی ہیں ،عملاً کچھ نہیں۔

 
Load Next Story