سوز و گداز یا سوز غم
کیا ہمارے ملک میں معیشت کی بدحالی کا سبب یہی ہے کہ سپلائی بڑھ رہی ہے پیداوار میں اضافہ اور چیزیں ارزاں ہو رہی ہیں۔
PESHAWAR:
مجھے اچھی طرح یاد ہے انٹر یعنی سیکنڈ ایئر تک اختیاری مضامین میں معاشیات پڑھی۔ کامل اساتذہ پروفیسر لیکچرار تھے جو پڑھایا ابھی تک یاد ہے بھولے نہیں۔ کئی سال سے معاشیات، معیشت سازی، معیشت کی بدحالی کا سن رہا ہوں سمجھ سے قاصر ہوں، میں اتنا ضرور جانتا ہوں اگر سپلائی بڑھے گی تو پیداوار میں اضافہ ہوگا ویسے بھی یہ اکنامکس میں مارشل کا لا کہلاتا ہے۔
کیا ہمارے ملک میں معیشت کی بدحالی کا سبب یہی ہے کہ سپلائی بڑھ رہی ہے پیداوار میں اضافہ اور چیزیں ارزاں ہو رہی ہیں۔ اتفاق سے چند معیشت داں، ماہر معاشیات سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے پوچھا۔ ایک ماہر صاحب فرمانے لگے ہمارے فنانس منسٹر جن پر مقدمات بھی ہیں وہ فرما رہے ہیں معیشت اوپر جا رہی ہے۔ میں نے کہا مطلب ظاہر ہے ملک میں خوشحالی آجائے گی۔ بولے میاں کیا بات کر رہے ہو یہ سب جھوٹ ہے اس میں سچ کا کوئی عنصر نہیں۔
میں نے پوچھا وہ کیسے؟ دوسرے صاحب بولے، حضرت! ہمارے نزدیک سرکلر ڈیتھ 800 ارب کے قریب ہے لیکن فنانس منسٹر فرما رہے ہیں 390 ارب کا سرکلر ڈیتھ ہے۔ تیسرے صاحب بولے۔ میاں وہ بڑے بڑے سیکٹر، پبلک سیکٹر مثلاً بجلی و دیگر بڑے سیکٹر شامل نہیں کر رہے انھوں نے دیگر سیکٹرز سے ہٹ کر 390 ارب سرکلر ڈیتھ بتایا ہے۔ ملک میں جتنے چاہیں نوٹ چھاپ لیں لیکن اندرونی طور پر افراط زر بڑھے گا۔ جیسے اس وقت ہمارا جی ڈی پی ریشو 7 فیصد ہے۔ منسٹر صاحب نے جو جی ڈی پی بتائی اس میں پبلک سیکٹر شامل نہیں کیے۔ ہم لوگوں کو اثاثے صحیح نہیں بتائے گئے بلکہ آیندہ سال جی ڈی پی 7.5 فیصد ہوجائے گی۔
ہم تو ان چند باتوں پر سوز و گداز میں ہیں آپ آنے والے برے وقت کی بات کر رہے ہیں جب تو نہ جانے کیا کچھ ہوگا؟ پہلے صاحب بول اٹھے۔ منسٹر صاحب نے کس قدر جھوٹ بولا، فرمایا ہماری امپورٹ بڑھ رہی ہے جب کہ ایسا بالکل نہیں۔ ہم نے صارفین کی فرمائش پر باہر سے بڑی اشیا منگوائیں جس سے امپورٹ مزید کم ہوگئی۔ ہمیں 32 ارب ڈالر کا تاریخی نقصان ہوا ہے۔ ہم کو معیشت پر خاص اصلاحی انتظام و عمل کرنا ہوگا۔
افسوس اس امر کا ہے جو لوگ معیشت پر کام کرنے والے بیٹھے ہیں ضرور ماہر ہوں گے کام سے واقفیت ہوگی لیکن نہ جانے کیوں وہ نہیں کر رہے یا پھر کرنا نہیں چاہتے۔ یہ تو بات سمجھ سے قاصر ہے قطعی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ خاص بات یہ ہے کہ 35 فیصد ہمارے ٹیکسٹائل سینٹر بند ہوچکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ حکومت کی غلط پالیسی کی وجہ سے وہ اس قدر بوجھ میں دب رہے ہیں جس کی وجہ سے مال مہنگا بنے گا جوکہ فروخت میں دشواری ہے۔
یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی غلط معاشی اصلاحات کی وجہ سے کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ اس وقت ہمارا ملک 142 ممالک سے ساؤتھ ایشیا و برصغیر میں صرف 115 پر رہ گیا ہے۔ ہم سے وہ ممالک آگے چلے گئے جو صفر پر تھے جیسے سوڈان، ایتھوپیا، کانگو وغیرہ۔ ہم تمام برصغیر اور ساؤتھ ایشیا کے ممالک سے پیچھے جاچکے ہیں، حد یہ ہوگئی کہ دیگر ممالک میں جو ہم سے پیچھے صفر تھے ان میں ایکسپورٹ40 فیصد ہم سے زیادہ ہے۔
پی ایس او نے ہم سے کہا ہم کو 30 سے 35 تک پٹرول ملتا ہے اس کو 70 سے 80 میں فروخت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم پر ٹیکس، بجلی کے بل میں نامعلوم اضافے اس قدر ہیں جس میں ہم تیل مہنگا بیچ رہے ہیں۔ بجلی کے بل میں تقریباً 9 ایسی ڈیوٹیاں ہیں جو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں لیکن کیا کریں ادا تو کرنا ہے ورنہ بجلی کاٹ دی جائے گی۔ مجھ سے بولے دیکھو یہ میرا بھائی ریفارم کی بات کر رہا ہے اس کو خود معلوم ہے ہم عام آدمی کو ریلیف دینے کے بجائے ہم ایسی حالت میں ہیں کہ عام آدمی کو ریلیف کا بتانا دور کی بات شاید آیندہ بالکل نہ دے سکیں۔
بقول فنانس وزیر کے فرمایا کہ آئی ایم ایف نے ہم سے کہا تین ماہ ہماری ان باتوں پر چلیں اس پر عمل کریں ہم نے ایسا ہی کیا لیکن کہیں فائدہ نظر نہ آیا بلکہ نقصان میں رہے۔دور کیوں جاتے ہیں آیندہ سال یونیورسٹیوں، ٹیکنیکل اداروں، تعلیمی اداروں سے تقریباً پچاس ہزار سے زائد نوجوان علم حاصل کرکے فارغ ہو رہے ہیں ان کو دینے کے لیے ہمارے پاس روزگار نہیں۔ جب کہ لاکھوں لوگ پہلے سے بیروزگار ہیں اب مزید کس طرح روزگار دیں۔ میں جو کہہ رہا ہوں وہ آپ سب لوگ سمجھ رہے ہیں۔ جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے واضح طور پر یہ کہہ دیا کہ ہمارے پاس اب صرف 14 ارب ڈالر پڑے ہیں۔
دوسری جانب ہماری ہر ماہ کی امپورٹ 5 سے 5.5 ارب ڈالر آرہی ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے شاید مارچ، اپریل میں ہم کو آئی ایم ایف کے پاس بھیک مانگنے جانا پڑے۔ ایک صاحب جو خاموشی سے سن رہے تھے بول پڑے ہمارے پاس جو فنانس ٹیم منیجرز کا عملہ ہے ان کی مستعدی کہاں چلی گئی۔ اب یہاں میں صاف طور پر دو باتیں کہوں گا۔ ایک کام آتا نہیں۔ دو یا کام کرنا نہیں چاہتے۔ اصولی طور پر ان کو عرق ریزی جانفشانی کرنی ہے ان کی محنت سے کافی فرق پڑ سکتا ہے۔ اگر ہم اسحاق ڈار کی جھوٹی باتوں پر قائم رہے تو مزید بدحال ہوتے جائیں گے اور وہ فگرز کا کھیل کھیلتے رہیں گے جس کے وہ بہت ہوشیار ہیں۔
ایک صاحب بولے! میاں حیرت ہوتی ہے جو ملک ہم سے ہر لحاظ سے پیچھے تھے مثلاً بنگلہ دیش جب ہم سے علیحدہ ہوا تو صرف جوٹ، پٹ سن کی پیداوار تھی اب اس وقت وہ ہم سے آگے ہے۔ 5 سال قبل ہماری اور بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ برابر تھی لیکن اب آپ اس کا ریشو دیکھیں وہ ہم سے آگے جاچکا ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے ممالک جن کے بارے میں سوچا نہیں جاسکتا تھا کہ وہ اس تیزی سے آگے بڑھیں گے وہ آگے جاتے جا رہے ہیں اور بدقسمتی ہماری ہم پیچھے جا رہے ہیں۔ 2004ء سے 2011ء یعنی 7 سال میں ہر ماہ دس فیصد ہماری ایکسپورٹ ڈبل ہوئی لیکن اب دیکھیں کس حال میں ہیں۔
میں نے کہا ایک بات میں سمجھنے سے قاصر ہوں ہر حکومت چاہتی ہے اس کا ملک ترقی کرے عوام خوشحال ہوں، روزگار بڑھے پیداوار میں اضافہ ہو۔ مجھے ایک بات یاد آرہی ہے آپ لوگوں کو بتاتا چلوں میں کچھ زرعی علاقوں میں گیا کسانوں سے ملا، سبزی، اجناس دیگر اشیا جو پیدا کر رہے تھے ان کے بارے میں بات ہوئی۔ کہنے لگے ہم لوکی، ترئی، بھنڈی، گاجر، کدو، دیگر اشیا بوروں میں ڈال کر سبزی منڈی میں جو آڑھتی (ہول سیلر) مقرر کیا ہے اس کے پاس صبح تین بجے سے پہلے بھیج دیتے ہیں۔ وہ بوریوں کو تولتا ہے اور فی من کے حساب سے رقم دے دیتا ہے۔
یہ سرکاری اعداد و شمار ہے کہ ہمارے ملک میں ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ عوام خط غربت سے نیچے ہیں۔ بلکہ مزید نیچے جا رہے ہیں اس لیے کہ آبادی بڑھ رہی ہے روزگار میں بجائے اضافے کے کمی آرہی ہے۔ ہمارے سرکاری ادارے انھیں وہی وی وی آئی پی پروٹوکول دے رہے ہیں جس پر عوام کو سخت اعتراض ہے۔ ان لوگوں کی باتیں تو اب روز کی ہیں سنتے ہیں اور ان کو سوز و گداز جان کر وہی اہمیت دیتے ہیں جو سوز غم سہنے کے بعد دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بے بس ہیں کچھ نہیں کرسکتے کڑھتے رہتے ہیں اور کیا کریں۔