اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہمارے حکمران طبقات کی اصل بیماری جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے۔
نواز شریف، آصف علی زرداری اور پرویز مشرف نے مل کر تقریباً تین دہائیوں تک پاکستان پر حکمرانی کی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی پاکستان میں طبی معائنہ کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور یہ نہ صرف اس ملک کے عوام کی توہین ہے جہاں علاج و معالجے کی سہولتیں بدتر سطح پر ہیں اور روزانہ لاتعداد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر 70 ہزار جگر کے ناکارہ ہونے سے 50 ہزارگردوں کے فیل ہونے سے اور 25 ہزار دل کے کام نہ کرنے کی وجہ سے زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں، اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس سی سے ہر سال دو لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں وجہ پینے کے پانی میں مضر اثرات کی زیادتی بتائی جاتی ہے۔
70 برس میں اس ملک میں ایک دو اسپتالوں کو چھوڑ کرکوئی ایک بھی ایسا جدید اسپتال نہیں جہاں پر جدید ترین خطوط پر نہ تو تشخیص ہوسکتی ہے اور نہ علاج۔ بھارت کے کئی سابق وزرائے اعظم اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی اپنی کسی بیماری کے لیے کبھی باہر نہیں گئے جب کہ ہمارے ملک میں ایک طویل فہرست ہے کہ غریب ملک کے کروڑوں اربوں روپے 70 برسوں میں سیاست دانوں نے غیر ممالک میں اپنے علاج اور بیماریوں کے ٹیسٹ اور معائنے پر خرچ کر ڈالے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، خواجہ ناظم الدین وغیرہ کبھی علاج کے لیے بیرون ملک نہیں گئے۔ ان کے علاوہ پاکستان کے کسی لیڈر کو کبھی اپنے ملک پر اتنا بھی اعتماد نہیں کہ وہ اپنا علاج وطن عزیز میں کروائیں۔ چشم تصور میں لائیں یہ بات کہ 22 کروڑ افراد کی غالب اکثریت جن کے گھرکا ایک فرد جو واحد گھر کا کفیل ہو وہ بیمار ہوجائے یا دنیا سے چلا جائے تو اس کے خاندان پر کیا گزرتی ہوگی؟ پاکستان میں صحت کے شعبے کے اعشاریے انتہائی خراب ہیں اور پاکستان کا شمار ایسے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں اس شعبے کی حالت انتہائی بدتر ہے۔
اسے المیے سے ہی تعبیر کیا جائے گا کہ پاکستان اپنی خام قومی پیداوار (جی این پی) کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے جب کہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا چار فیصد سے بھی کم حصہ اس شعبے کی ترقی پر خرچ کرتا ہے۔ صحت کے شعبے اور اس کے مندرجات پر نگاہ کی جائے تو پتہ چلے گا کہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہزاروں اموات ماہانہ کی بنیاد پر ایسی ہوتی ہیں جنھیں روکا جاسکتا تھا اور ایسا ہونے کی وجہ صرف مطلوبہ آلات اور ساز و سامان کا نہ ہونا ہے اور پنجاب اور سرحد کے 23 اضلاع میں رہنے والے تقریباً 3 کروڑ 10 لاکھ افراد کے لیے کمپیوٹرائزڈ ٹوموگرافی (سی ٹی اسکین) مشین نہیں ہے، جب کہ سندھ اور بلوچستان میں صورتحال اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔
کس قدر دہلا دینے والی بات ہے کہ ایٹمی قوت سے آراستہ 70 سال سے تاریخ کے نقشے پر موجود پاکستان میں ہر تیسرے منٹ پر اعضا کی عدم دستیابی کے باعث ایک فرد انتقال کر جاتا ہے اور ہمارے ارباب اختیار ہیں کہ ''سب اچھا ہے'' کا راگ الاپنے میں مصروف رہتے ہیں انھیں عوام کی ایک بھی تکلیف سے کوئی لینا دینا نہیں ہاں ٹیکس در ٹیکس ان سے وصول کرنا وہ اسے اپنا پیدائشی حق گردانتے ہیں اور بقول شاعر:
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے
دنیا کے 194 ممالک کی فہرست میں زیادہ سے زیادہ اوسط عمر 84 سال کے ساتھ جاپان پہلے نمبر پر جب کہ جنوبی افریقہ کا ملک سائرہ لی اونی 46 سال عمر کے ساتھ 194 یعنی سب سے آخری نمبر پر ہے۔ امریکا 79 سال اوسط عمر، برطانیہ، جرمنی 81 سال اوسط عمر، چین 75 سال، ایران 74 سال، بھارت 66 سال، افغانستان 61 سال اور پاکستان اوسط عمر 63 سال کے ساتھ 155 ویں نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر اوسط عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی ملک کے باشندوں کی زیادہ اوسط عمر اس ملک کی صحت پر خرچ کی جانیوالی رقم اور معیار زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستان میں صحت کی سہولتوں کا شدید فقدان ہے لیکن اشرافیہ (امیر) کے لیے نہیں صرف غریب کے لیے ہی ایسا ہے۔ امیر کو اس غریب ملک میں بھی ہر طرح کی سہولت میسر ہے۔ غریب پاکستانیوں کے لیے بنائے گئے سرکاری اسپتالوں میں معمولی سر درد کی دوا تک میسر نہیں ہوتی۔ جہاں تک بڑے شہروں میں نجی شعبے میں امرا کے لیے بنائے گئے اسپتالوں کا تعلق ہے تو ان کے اندر ترقی یافتہ دنیا کے ایجاد شدہ کم و بیش تمام جدید آلات اور عالمی شہرت کے حامل ڈاکٹرز موجود ہیں۔
اب مملکت خداداد پاکستان میں کینسر کی تشخیص اور اس کا علاج بھی ہوسکتا ہے، لیور ٹرانسپلانٹ بھی ملک کے اندر ہو رہے ہیں اور دل کی بیماریوں یا پھر سرجری کے باکمال ڈاکٹرز پاکستان کے اندر اگر سرکاری نہیں تو نجی شعبے میں ضرور دستیاب ہیں۔ لیکن ان ڈاکٹرز کا علاج اور ان کی فیس اس قدر مہنگی ہیں کہ پاکستان کا عام شہری ان کو کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا مر فوراً سکتا ہے۔ الغرض یہ کہ اس ملک میں یہاں علاج نہیں ہوسکتا تو غریب کا نہیں ہوسکتا، امیر کا ہر طرح کا علاج پاکستان میں ہوسکتا ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ طبی سہولیات ان کو میسر ہیں۔
اس ملک میں معاملہ یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں کی اولین ذمے داری بھی حکمراں طبقات کی خدمت سمجھی جاتی ہے۔ بعض اوقات سرکاری ڈاکٹر اسپتالوں میں کم اور حکمرانوں کے گھروں پر زیادہ نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو بڑے حکمراں طبقات ذاتی اسپتالوں کے بھی مالک ہیں۔ شریف خاندان کا ''اتفاق اسپتال'' ہے، زرداری کے دست راست عاصم حسین کا ''ضیا الدین اسپتال'' ہے، شوکت خانم اسپتال ''عمران خان کا ہے۔ رہے جرنیل صاحبان تو فوجی اداروں کے زیر اہتمام ملک کے ہر شہر میں ورلڈ کلاس اسپتال چل رہے ہیں۔
اسی طرح حکمران طبقے کا کوئی فرد جب بھی چاہے پاکستان یا دنیا کے کسی بھی حصے سے کوئی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ ڈاکٹر ان کے در دولت پر حاضر ہوجاتا ہے، دنیا کی بہترین سے بہترین دوائی منٹوں میں ان کے لیے منگوائی جاسکتی ہے، حد تو یہ کہ ان کے ذاتی ملازمین تک کا لندن میں سرکاری خرچ پر علاج ہوتا ہے۔
ہمارے حکمران طبقات کی اصل بیماری جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے۔ انھیں دوغلے پن کا مرض لاحق ہے، وہ بے حسی کی بیماری میں مبتلا ہیں، کذب کے عارضے نے ان کی زبانوں کو گھیر رکھا ہے، ان کے دل و دماغ سنگدلی کی وبا کا شکار ہوچکے ہیں اور ان کے ضمیر نشہ آور دوا کھانے سے ہمیشہ کے لیے سو گئے ہیں اور تکبر کے مرض کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کی عقل کو زنگ لگ گیا ہے، ان کی سوچ عصبیت اور تعصب کے جراثیم سے زہر ناک ہوگئی ہے۔ اور اس طبقہ اشرافیہ کے علاج کا اب صرف یہی ایک طریقہ ہے کہ انھیں چند ماہ کے لیے ان کے محلات سے دور پاکستان کے کسی گاؤں دیہات میں رکھ کر غریب آدمی کی طرح جینے پر مجبور کردیا جائے تاکہ انھیں پتہ چلے کہ اس ملک کا عام اور غریب شہری کس طرح زندگی گزارتا ہے۔