جمہوریت کو چلنے دو

بھارت افغان سرزمین کو استعمال کرکے مسلسل پاکستان میں دہشتگردی کو ہوا دے رہا ہے۔


عثمان دموہی November 05, 2017
[email protected]

یہ پہلا موقعہ تھا کہ کسی امریکی وزیرخارجہ کا دورۂ پاکستان اس کی امنگوں کے مطابق کامیاب نہیں رہا۔ وزیر خارجہ کیا پہلے کوئی ادنیٰ سا اہلکار بھی وہاں سے آتا تو اپنی بات منواتا اور''ڈو مور''کا نیا ڈکٹیشن دے کر چلا جاتا۔ ہمارے حکمرانوں کی جرأت نہ ہوتی کہ وہ اس کے خلاف اپنی زبان کھول سکیں۔

دراصل ٹلرسن پاکستانی قیادت کو صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی کو بلاچوں وچرا قبول کرانے کے لیے آئے تھے، مگر پاکستان تو پہلے ہی ٹرمپ کی افغان پالیسی کو ردکرچکا ہے اور اس نے اپنا موقف بھی پیش کردیا ہے کہ وہ دھمکیوں سے ڈرنیوالا نہیں ہے وہ افغانستان میں پراکسی جنگ نہیں لڑسکتا۔ پاکستان کے اس بولڈ کردار کو بہت سراہا جا رہا ہے لیکن امریکی اخباروں نے ٹلرسن کے دورۂ پاکستان کو پھیکا قرار دیا ہے کیونکہ وہاں ان کا نہایت سرد مہری سے استقبال کیا گیا۔

بہرحال پاکستانی حکومت کے اس رویے سے امریکیوں کو یہ پیغام ضرورگیا ہے کہ اگر وہ آنکھیں پھیر سکتے ہیں تو پاکستان بھی ویسا کرسکتا ہے۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے سینیٹ میں اپنے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی قیادت جس میں آرمی چیف بھی شامل تھے نے یک زبان ہوکر ٹلرسن پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان کو امریکا پرکوئی اعتبار نہیں رہا۔اس کی پالیسیاں سراسر پاکستان مخالف ہیں۔ اس کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے اور وہ بھارت کی طرفداری کرکے پاکستان کیا پورے خطے کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ہماری حکومتوں نے شروع سے امریکا کے ساتھ ایسا بولڈ رویہ اختیارکیا ہوتا تو آج امریکی صدرکو اتنی جرأت نہ ہوتی کہ وہ ہمیں ذلیل وخوارکرتا اور دھمکی کے ذریعے اپنے حکم کو بجا لانے کا فرمان جاری کرتا۔ خواجہ آصف نے درست ہی کہا ہے کہ امریکی حکومتوں کو سر پر چڑھانے والے ہمارے آمر حکمران تھے جو اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے ہر امریکی حکم پر بچھ جایا کرتے تھے۔ وہ ان کے کسی حکم کو ٹالنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے کیونکہ ان کا اقتدار ان کی ہی آشیرباد کا مرہون منت ہوتا تھا اور اسی لیے وہ ان کے تمام جائز اور ناجائز احکامات کو مانتے رہے ہیں۔

بڈھ پیرکا ہوائی اڈہ ایوب خان کے دور میں امریکا کو دیا گیا جہاں سے امریکی برسوں اپنے طیاروں کے ذریعے روس کی جاسوسی کرتے رہے لیکن اس نیکی کے صلے میں پاکستان کو امریکا کی جانب سے یہ انعام ملا کہ 1965ء کی جنگ میں امریکا نے پاکستان کی امداد بند کردی جب کہ بھارت کی ہر طرح سے امداد جاری رکھی۔ جب بڈھ پیر کے ہوائی اڈے کا راز فاش ہوا تو روسی حکومت نے پاکستان کو اپنے دشمن نمبر ایک ملک کی فہرست میں شامل کرلیا۔

روس سے اس وقت سے جو تعلقات خراب ہوئے تو وہ 1979ء تک خراب ہی تھے کہ ہم نے پھر امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے افغان جہاد میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔ جنرل ضیا الحق کے اس فیصلے سے ان کی حکومت کو تو ضرور طوالت حاصل ہو گئی مگر افغان جہاد نے پاکستان کو کلاشنکوف کلچر، منشیات کے عذاب اور روس سے نئی دشمنی جیسے تحفے ہمیں عطا کردیے۔ جن سے ہم آج بھی نبرد آزما ہیں۔

اس جہاد کے صلے میں ہمیں امریکا نے جو اسلحہ دیا وہ تمام اوجڑی کیمپ حادثے میں تباہ کرادیا گیا۔ افغان جہاد میں پاکستان نے روس جیسی سپر پاور سے ٹکر لی تھی۔ ہمارے مجاہدین نے نہایت بہادری سے روسی فوجوں کا مقابلہ کیا اورانھیں افغانستان سے نکال باہرکیا۔ ہماری اس کارگزاری پر امریکا ہمیں افغانستان میں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا اور ہمیں کئی مصائب میں گرفتارکرگیا۔

شمالی اتحاد والے روس کے ساتھ ساتھ بھارت سے بھی رابطے میں تھے وہ ہمارے مفادات کے خلاف دیوار بن کرکھڑے ہوگئے۔ البتہ طالبان سے ہمارے تعلقات خوشگوار تھے لیکن انھوں نے اسلامی نظام کی آڑ میں کچھ ایسے غیر مقبول کام کیے جن سے مغربی ممالک طالبان کے خلاف ہوگئے۔ ایسے میں وہ مجاہدین جنھیں امریکی حکومت نے مختلف ممالک سے بلاکر افغانستان میں اکٹھا کرلیا تھا،انھوں نے پاکستان کا رخ کرلیا اور قبائلی علاقوں میں اپنے پوشیدہ ٹھکانے قائم کرلیے۔

جب اسامہ بن لادن کو افغانستان سے بے دخل کرنے کی امریکی کوششیں ناکام ہوگئیں تو مشرف حکومت کو صدر بش نے ایک ہی فون پر دھمکی دلا کر طالبان سے لڑنے کے لیے تیار کرلیا۔ پھر امریکیوں کو پاکستان میں نئے فوجی اڈے فراہم کردیے گئے جہاں سے امریکی جنگی طیارے اڑان بھر کر افغانستان میں بمباری کرتے رہے۔ اس سے طالبان پاکستان کے خلاف ہو گئے اور انھوں نے ترغیب دے کر قبائلی علاقے کے علاوہ جنوبی پنجاب میں پاکستانی طالبان کی ایک بڑی کھیپ تیار کردی انھوں نے نہ صرف پاکستان میں تخریب کاری شروع کردی بلکہ افغانستان میں بھی نیٹو فوجوں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا، امریکا تب سے پاکستان کو انھیں کنٹرول کرنے اور ان کے خفیہ ٹھکانوں کو تباہ کرنے کی تنبیہ کرتا چلا آرہا ہے۔

اسے حقانی گروپس سے بھی سخت شکایت ہے مگر وہ اس بات پر ذرا دھیان نہیں دے رہا کہ بھارت طالبان کے بعض دھڑوں کو اپنے ساتھ ملاکر پاکستان میں مسلسل دہشتگردی پھیلا رہا ہے۔ پاکستان میں اب تک جتنے بھی بم دھماکے ہوئے ہیں وہ تمام بھارت کے ایما پر کیے گئے ہیں۔ پاکستانی قید میں موجود بھارتی جاسوس کلبھوشن بھی بعض طالبان گروپس سے رابطے میں تھا۔ وہ ان سے بلوچستان میں دہشتگردی کرواتا رہا ہے۔ اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ افغان جنگ کی طوالت کی وجہ بھارت ہے۔

بھارت افغان سرزمین کو استعمال کرکے مسلسل پاکستان میں دہشتگردی کو ہوا دے رہا ہے۔ اس نے افغان قیادت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر پورے افغانستان کو اپنی ملکیت بنا لیا ہے۔ افغانستان میں موجود امریکی کمانڈوز کو بھی اس نے اپنی چمک سے اپنے کنٹرول میں کرلیا ہے یہ سب مل کر بھارت کا دم بھر رہے ہیں اور پاکستان پر روز نئے نئے الزامات لگا کر بھارت کو خوش کر رہے ہیں۔

پورا مشرف دور دہشتگردی کی نذر ہوگیا اور ملک کو اس آمرانہ دور میں سخت نقصان اٹھاناپڑا۔ آمرانہ دور خواہ ملک میں کوئی سا بھی رہا اس سے ملک کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے حتیٰ کہ ملک دولخت بھی آمرانہ دور میں ہی ہوا تھا۔ جمہوری حکومتوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی بیرونی آقا کے حکم کو فوراً قبول نہیں کرتیں اور ان کے ملک وقوم کو نقصان پہنچانیوالے احکامات کے آگے سرنڈر نہیں ہوتیں۔ وہ ہر مسئلے کو اسمبلیوں میں لے جاتی ہیں۔

اس دفعہ بھی یہی ہوا کہ حکومت ٹرمپ کی دھمکی سے مرعوب ہونے کے بجائے نئی افغان پالیسی کے معاملے کو اسمبلی میں لے گئی اور اب سینیٹ میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ٹلرسن سے ہونے والی تمام گفتگو سے سینیٹرز کو مطلع کردیا ہے۔ دراصل سینیٹ اور اسمبلی کے ارکان پہلے ہی حکومت کو افغانستان کے سلسلے میں بے خوف پالیسی پر چلنے کا مشورہ دے چکے ہیں چنانچہ حکومت اور عسکری قیادت نے مل کر ٹلرسن سے جو دبنگ بات کی ہے وہ بھی اسی ہدایت کی روشنی میں کی گئی ہے جس سے یقینا پاکستان کا وقار بلند ہوا ہے اور امریکی حکومت کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ اب پاکستانی حکومت سختی سے جمہوری اصولوں پر کاربند ہے اور وہ اپنے قومی مفاد کے خلاف اس کے آگے نہیں جھکے گی لیکن مغربی ممالک کو تو اپنے مفادات کے حصول کے لیے آمرانہ حکومتیں ہی راس آتی رہی ہیں اور جمہوری حکومتوں کو وہ اپنے احکامات پر نہ چلنے کی سزا دیتے رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت جوہری بم بنانے کی سزا تھی اور اب میاں صاحب کی یہ تیسری مرتبہ معزولی جوہری دھماکے کرنے اور سی پیک شروع کرنے کی سزائیں نہیں ہیں تو کیا ہیں؟ 29 اکتوبر کے میرے کالم میں شایع تین جملوں کو درج ذیل پڑھا جائے۔

تصحیح: شہید حکیم سعید نے 4 جامعات کو چارٹر دلائے تھے۔ آپ نے 1977ء کے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا اور ان کے قومی مقولے کو یوں پڑھا جائے۔ ''پاکستان سے محبت کرو اور پاکستان کی تعمیرکرو۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں