ڈپریشن

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی ابتری، معاشی بدحالی اور بے یقینی کی صورتحال نہایت ناگفتہ بہ ہے۔


Raees Fatima November 05, 2017
[email protected]

LODHRAN/ BAHAWALPUR: ہر تیسرے آدمی کو شکایت ہے کہ ''کسی کام میں جی نہیں لگتا،اکتاہٹ اور جمود طاری رہتا ہے'' افسردگی اور مایوسی کا شکار لوگ اکثر خود کشی کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ اضمحلال اور یاسیت بڑی خطرناک علامتیں ہیں ۔ محض پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں ۔ بعض اوقات کسی چھوٹی سی بات سے دل برداشتہ ہوکر لوگ اپنی جان ہار دیتے ہیں۔ دراصل یہ سب ڈپریشن کی نشانیاں ہیں ۔ مہذب اور متمدن ممالک میں جہاں اکثریت تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے۔

ڈپریشن کو باقاعدہ ایک بیماری سمجھا جاتا ہے جس کا تعلق ذہن اوراندرونی وداخلی کیفیات سے ہے۔ وہاں لوگ فوری طور پر ماہرین نفسیات اور سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کرکے اپنا مسئلہ بیان کرتے ہیں ۔ علاج اور سائیکو تھراپی سے ان کا مرض دور ہوجاتا ہے، لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں نفسیاتی امراض کو اول تو مرض سمجھا ہی نہیں جاتا، دوسرے یہ کہ اگرکوئی انھیں ماہرین نفسیات کے پاس جانے کا مشورہ دے تو وہ بھڑک اٹھتے ہیں اور جواب میں کہتے ہیں کہ ''کیا ہم پاگل ہیں جو ماہر نفسیات کے پاس جائیں؟'' یہی سب سے بڑی غلطی ہے کہ بیماری کے اسباب کو نہ سمجھنا۔ یہ بالکل ایسی ہی مثال ہے کہ حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جائیں تو سب سے پہلے معالجین پوچھتے ہیں کہ ''پیٹ ٹھیک ہے، قبض تو نہیں؟ ''

مریض سوچتا ہے کہ میرے سر میں درد ہے، بخار ہے اور یہ قبض کا پوچھ رہے ہیں۔ یہ تو طبیب ہی جانتا ہے کہ قبض '' ام الامراض '' ہے۔ کراچی میں ایم۔اے جناح روڈ پر جامعہ کلاتھ مارکیٹ کے سامنے کبھی ایک حکیم صاحب ہوا کرتے تھے، ان کے پاس جو بھی مریض جاتا بغیر نبض دیکھے اور حال چال پوچھے وہ دوائیں حوالے کرکے کہتے کہ ''تین دن بعد آنا ۔ تین دن کی دوا پابندی سے کھانا '' ایک دفعہ ایک مریض نے ان سے سوال کیا کہ بغیر حال سنے اور نبض دیکھے آپ کس بیماری کی دوا دے رہے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا کہ ''آدھی سے زیادہ بیماریاں پیٹ سے اور قبض سے شروع ہوتی ہیں، جب پیٹ صاف ہوگا تو اصل بیماری تک رسائی آسان ہوتی ہے۔

یہی عالم نفسیاتی عوارض کا ہے۔ نناوے فیصد لوگ ذرا ذرا سی تکلیف پر ڈاکٹروں، حکیموں اور ہومیو پیتھ سے رجوع کرتے ہیں۔ چوٹ لگ جائے تو انجکشن لگواتے ہیں پٹیاں بندھواتے ہیں لیکن ذہنی بیماریوں کو اول تو سرے سے اہمیت ہی نہیں دیتے اور اگر رابطہ بھی کرتے ہیں تو جھاڑ پھونک کرنے والوں سے، جنات اتارنے والے ڈھونگیوں سے، عاملوں سے جو جگہ جگہ دکانیں سجائے بیٹھے ہیں، جنات اتارنے سے لے کر ''محبوب آپ کے قدموں میں'' جیسے دل فریب دعوؤں سے لوگوں کو لوٹتے ہیں۔

خواتین ان جعلی عاملوں اور پیروں کا زیادہ نشانہ بنتی ہیں، مرض نفسیاتی ہے، ڈپریشن ہے، لیکن جعلی اور ڈھونگی عامل اچھی خاصی رقم بٹورنے کے بعد کہیں گے کہ ''ساس نے یا نند نے سفلی عمل کروایا ہے'' بیٹے کی ماں کوکہیں گے ''آپ کے بیٹے پر بڑا سخت سفلی عمل ہے'' اور خواتین بے وقوف بن کر ہزاروں کی رقم ان کی نذرکر بیٹھتی ہیں۔ ڈپریشن کی ایک وجہ خالی بیٹھنا بھی ہے۔

عموماً ایسی خواتین جن کے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو،گھر میں کام کے لیے ملازم گھومنے کے لیے گاڑی، دیکھنے کو ٹی وی، کھانے کو ہر شے میسر ہو لیکن کرنے کوکچھ نہ ہو سوائے سونے کے اور آرام کرنے کے۔ تو یہ اکتاہٹ اور بے زاری بھی جھاڑ پھونک کرنے والے عاملوں تک لے جاتی ہے۔ جو انھیں یقین دلاتے ہیں کہ ان پر کسی نے جادو کروا دیا ہے۔

پچھلے دنوں ڈپریشن کے موضوع پر کراچی میں ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں ذہنی بیماریوں کے بارے میں بات کی گئی اور بتایا گیا کہ پاکستان میں دماغی اور نفسیاتی عوارض میں اضافہ ہورہا ہے، لوگوں میں نفسیاتی امراض کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے جس کی بڑی وجہ مطالعے سے دوری اور تعلیم کی کمی ہے۔ سیمینار میں بتایا گیا کہ دماغی بیماریوں کی وجہ سے معاشرتی مسائل اور پیچیدگیاں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔

سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال اتنی ابتر ہے کہ لوگ ہر لمحہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں ۔کاروباری حضرات کو ہر وقت شیئر مارکیٹ کے گھٹنے بڑھنے کا احساس دم نہیں لینے دیتا، ملازمت پیشہ خواتین و حضرات خاص کر وہ جو پرائیویٹ اداروں، فیکٹریوں اور کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہیں انھیں عدم تحفظ کا احساس بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ کام کے دوران ذہنی دباؤ، خوف اور مقابلے کا رحجان منفی سوچوں کو فروغ دیتا ہے۔

ڈپریشن میں انسان خود کو قابل رحم سمجھنے لگتا ہے، اس کا رونے کو جی چاہتا ہے، زندگی کی گہما گہمی اسے اور تنہا کردیتی ہے۔ ڈپریشن کا شکار افراد بظاہر نارمل نظر آتے ہیں لیکن اندر سے وہ زندگی سے خالی ہوتے ہیں۔ تنہائی بھی ڈپریشن کی ایک اہم اور بڑی وجہ ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین اس کا زیادہ شکار ہوتی ہیں کیونکہ مرد حضرات باہر کی دنیا میں انجوائے کرسکتے ہیں، دوستوں میں گپ شپ لگاسکتے ہیں لیکن خواتین جو تنہائی اور اپنوں کی بے رخی کا شکار ہوتی ہیں انھیں سائیکاٹرسٹ کے پاس ضرور جانا چاہیے۔ کیونکہ مسلسل تنہائی انھیں جسمانی طور پر بھی بیمار کرسکتی ہے۔

بھوک کا نہ لگنا، مسلسل رونے کو جی چاہنا، ہر وقت دکھی رہنا اور خود کو زمانے کے رحم وکرم پہ چھوڑ دینا۔ انسان کو توڑکے رکھ دیتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نفسیاتی اور دماغی عوارض کے بارے میں شعور اجاگرکیا جائے، اگر ڈپریشن کا علاج بروقت کرلیا جائے تو مریضوں کے صحت مند ہونے کے زیادہ امکانات ہیں، لیکن یاسیت اور افسردگی جیسی علامات سامنے ہونے کے باوجود اگر علاج سے اجتناب برتا جائے تو ڈپریشن جسمانی معذوری تک جاسکتا ہے،کیونکہ مسلسل ایک ہی کیفیت میں رہنے سے انسان زندگی سے دور ہوتا جاتا ہے۔ ڈپریشن کو معمولی مرض نہیں سمجھنا چاہیے۔

سیمینار میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ ڈپریشن کا مرض بچوں کی پرورش کے دوران ماں سے بچے میں بھی منتقل ہوجاتا ہے اور پھر بچے سے اگلی نسل تک پھیل جاتا ہے۔ اس کا بروقت نوٹس لینا اور علاج کروانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ڈپریشن سے عدم تحفظ کا احساس، نیند کا اڑ جانا، بھوک کا نہ لگنا بھی عام بات ہے۔ ایسی صورت میں سائیکاٹرسٹ اور ادویات کا استعمال مرض کو بڑھنے سے روک سکتا ہے، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب مریض کو احساس ہو کہ اسے علاج کی ضرورت ہے۔ کسی عامل اور جن اتارنے والے بابا کی نہیں۔ دوسرے جسمانی امراض کی طرح اگر ڈپریشن بھی بہت بڑھ جائے تو علاج مشکل ہو جاتا ہے لہٰذا اسے ابتدا ہی میں کنٹرول کرنے کے لیے معالج سے رابطہ ضروری ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی ابتری، معاشی بدحالی اور بے یقینی کی صورتحال نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ عام آدمی بھی اس سے متاثر ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں، اقتدار ملتا ہے، اقتدار کے مزے حکمران لوٹتے ہیں، خزانہ خالی کرتے ہیں، مقدمات بنتے ہیں، پھر ''ڈیل'' ہوجاتی ہے۔ ''پانچوں انگلیاں گھی میں سرکڑھائی میں'' والی مثال صادق آتی ہے۔ عوامی مسائل سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ سارے ادارے ایک شخص کو تحفظ دینے کے لیے آمادہ ۔ ایسی ناگفتہ بہ صورتحال میں انسان ڈپریشن کا شکار نہ ہوگا تو کیا ہوگا۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں کا رویہ بھی قوم کو ڈپریشن میں مبتلا کردیتا ہے۔ مجموعی طور پر پوری قوم مایوسی کا شکار ہے۔ ناامیدی ہی ناامیدی ہے۔ خوش کوئی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔