خودکشی کے رجحان میں اضافہ خطرناک حدوں کو چھونے لگا
غربت، کم نمبر، گھریلو جھگڑے تو کسی نے اولاد نہ ہونے پر موت کو گلے لگا لیا
انسانی جان کی حرمت جس قدر موجودہ دور میں پامال ہو رہی ہے، اس کی مثال معلوم تاریخ میں ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
اسلام میں ایک انسان کے قتل کو گویا پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے لیکن جہاں ہم اسلام کے دیگر احکامات کو پس پشت ڈال کر دنیا کی رنگینیوں میں مست ہو چکے ہیں وہاں یوم آخرت کو بھی فراموش کر رکھا ہے ۔ اگر روز محشر ہمیں یاد رہتا تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا۔ قتل وغارت کے ساتھ خود کشی کے واقعات میں بھی جس تواتر کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، وہ یقینا ایک قابل تشویش امر ہے۔
اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کہ وجہ سے تحمل اور برداشت کا رویہ ختم ہو چکا ہے جس کا نتیجہ معاشرے کے بگاڑ ، قتل و غارت اور خود کشی کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ اسی طرح چند روز قبل خود کشی کا ایک واقعہ تحصیل ساہیوال کے قصبہ رادھن میں پیش آیا جہاں ایک ہی روز نوجوان لڑکے اور لڑکی نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
رادھن کا رہائشی 25سالہ افتخار غربت اور بیروز گاری کے ہاتھوں شدید پریشان تھا، مختلف سرکاری دفاتر اور نجی اداروں میں بار بار کوشش کے باوجود اسے کوئی نوکری نہ مل سکی جس کی وجہ سے وہ شدید ذپنی اذیت کا شکار تھا، جس پر دلبرداشتہ ہو کر اس نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
دوسرے واقعہ میں رادھن کے رہائشی اسلم نے چند سال قبل بڑے چاؤ کے ساتھ کبری نامی لڑکی سے شادی کی تھی اور دونوں ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔گھر میں سب کچھ تھا اگر کمی تھی تو اولاد کی، جس کا کبری کو شدت سے احساس تھا ۔اولاد کی نعمت نہ ملنے سے دلبرداشتہ ہو کر اس نے بھی زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ یوں ہی تحصیل کوٹ مومن کے علاقہ بچہ کلاں میں غیرت کے نام پر خاوند نے بیوی کو قتل کرنے کے بعد خود پھندا لے کر خود کشی کر لی۔
اطلاعات کے مطابق بچہ کلاں کے رہائشی ظہیر احمد کی صبا نامی خاتون کے ساتھ شادی ہوئی تھی لیکن ظہیر کو اس کے کردار پر شبہ رہتا تھا جس کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان اکثرجھگڑا رہتا تھا۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا جس کی وجہ سے دونوں میاں بیوی کے درمیان تعلقات خاصے کشیدہ ہو چکے تھے۔ چند روز قبل بھی اسی بات پر دونوں میاں بیوی کے درمیان توں تکرار کے بعد جھگڑا شروع ہوا تو طیش میں آکر ظہیر نے گھر میں پڑے ٹوکے کے وار کر کے اپنی بیوی صبا کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اپنی اہلیہ کے قتل کے بعد ظہیر نے خود بھی پنکھے سے لٹک کر موت کو گلے لگا لیا۔
گزشتہ چند دنوں میں پیش آنے والے یہ وہ واقعات ہیں، جن میں خودکشی کامیاب ہوئی، لیکن ایسے واقعات تو لاتعداد ہیں جن میں خود کشی کرنے والوں کو بروقت طبی امداد دے کر بچا لیا گیا۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران صرف ضلع خوشاب میں خود کشی کی کوشش کرنے والوں کی تعداد جو تھانوں میں رپورٹ ہوئی وہ درجنوں میں ہے اور ایسے واقعات جن کا تھانوں میں اندراج نہیں ہوا وہ بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔
خوشاب میں بوٹی والی مسجد سے ملحقہ وکان میں ایک شیر فروش اکیس سالہ محمد وسیم ولد محمد عبداﷲ نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر زہر کھا لیا۔ نورپورتھل میں ایک شادی شدہ خاتون پچیس سالہ نصرت بی بی زوجہ فلک شیر نے گھریلو حالات سے تنگ آ کر زہریلی گولیاں کھائیں۔
جوہرآباد میں ایک خاتون قراۃ العین زوجہ محمد شاہد کا اپنے خاوند کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا جس سے دلبرداشتہ ہو کر اُس نے زہر پی لیا۔ محلہ بالیانوالا ہڈالی میں 30سالہ نوجوان احمد نواز ولد محمد نواز نے گھریلو پریشانیوں کے باعث بھاری مقدادر میں خواب آور گولیاں کھا کرخود کشی کی کوشش کی، ان تمام واقعات میں متاثرہ افراد کو بروقت طبی امداد دے کر بچا لیا گیا، لیکن خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف شہریوں بلکہ حکومت کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے، جس کے اسباب کو جان کر انہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام میں ایک انسان کے قتل کو گویا پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے لیکن جہاں ہم اسلام کے دیگر احکامات کو پس پشت ڈال کر دنیا کی رنگینیوں میں مست ہو چکے ہیں وہاں یوم آخرت کو بھی فراموش کر رکھا ہے ۔ اگر روز محشر ہمیں یاد رہتا تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا۔ قتل وغارت کے ساتھ خود کشی کے واقعات میں بھی جس تواتر کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، وہ یقینا ایک قابل تشویش امر ہے۔
اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کہ وجہ سے تحمل اور برداشت کا رویہ ختم ہو چکا ہے جس کا نتیجہ معاشرے کے بگاڑ ، قتل و غارت اور خود کشی کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ اسی طرح چند روز قبل خود کشی کا ایک واقعہ تحصیل ساہیوال کے قصبہ رادھن میں پیش آیا جہاں ایک ہی روز نوجوان لڑکے اور لڑکی نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
رادھن کا رہائشی 25سالہ افتخار غربت اور بیروز گاری کے ہاتھوں شدید پریشان تھا، مختلف سرکاری دفاتر اور نجی اداروں میں بار بار کوشش کے باوجود اسے کوئی نوکری نہ مل سکی جس کی وجہ سے وہ شدید ذپنی اذیت کا شکار تھا، جس پر دلبرداشتہ ہو کر اس نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
دوسرے واقعہ میں رادھن کے رہائشی اسلم نے چند سال قبل بڑے چاؤ کے ساتھ کبری نامی لڑکی سے شادی کی تھی اور دونوں ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔گھر میں سب کچھ تھا اگر کمی تھی تو اولاد کی، جس کا کبری کو شدت سے احساس تھا ۔اولاد کی نعمت نہ ملنے سے دلبرداشتہ ہو کر اس نے بھی زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ یوں ہی تحصیل کوٹ مومن کے علاقہ بچہ کلاں میں غیرت کے نام پر خاوند نے بیوی کو قتل کرنے کے بعد خود پھندا لے کر خود کشی کر لی۔
اطلاعات کے مطابق بچہ کلاں کے رہائشی ظہیر احمد کی صبا نامی خاتون کے ساتھ شادی ہوئی تھی لیکن ظہیر کو اس کے کردار پر شبہ رہتا تھا جس کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان اکثرجھگڑا رہتا تھا۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا جس کی وجہ سے دونوں میاں بیوی کے درمیان تعلقات خاصے کشیدہ ہو چکے تھے۔ چند روز قبل بھی اسی بات پر دونوں میاں بیوی کے درمیان توں تکرار کے بعد جھگڑا شروع ہوا تو طیش میں آکر ظہیر نے گھر میں پڑے ٹوکے کے وار کر کے اپنی بیوی صبا کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اپنی اہلیہ کے قتل کے بعد ظہیر نے خود بھی پنکھے سے لٹک کر موت کو گلے لگا لیا۔
گزشتہ چند دنوں میں پیش آنے والے یہ وہ واقعات ہیں، جن میں خودکشی کامیاب ہوئی، لیکن ایسے واقعات تو لاتعداد ہیں جن میں خود کشی کرنے والوں کو بروقت طبی امداد دے کر بچا لیا گیا۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران صرف ضلع خوشاب میں خود کشی کی کوشش کرنے والوں کی تعداد جو تھانوں میں رپورٹ ہوئی وہ درجنوں میں ہے اور ایسے واقعات جن کا تھانوں میں اندراج نہیں ہوا وہ بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔
خوشاب میں بوٹی والی مسجد سے ملحقہ وکان میں ایک شیر فروش اکیس سالہ محمد وسیم ولد محمد عبداﷲ نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر زہر کھا لیا۔ نورپورتھل میں ایک شادی شدہ خاتون پچیس سالہ نصرت بی بی زوجہ فلک شیر نے گھریلو حالات سے تنگ آ کر زہریلی گولیاں کھائیں۔
جوہرآباد میں ایک خاتون قراۃ العین زوجہ محمد شاہد کا اپنے خاوند کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا جس سے دلبرداشتہ ہو کر اُس نے زہر پی لیا۔ محلہ بالیانوالا ہڈالی میں 30سالہ نوجوان احمد نواز ولد محمد نواز نے گھریلو پریشانیوں کے باعث بھاری مقدادر میں خواب آور گولیاں کھا کرخود کشی کی کوشش کی، ان تمام واقعات میں متاثرہ افراد کو بروقت طبی امداد دے کر بچا لیا گیا، لیکن خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف شہریوں بلکہ حکومت کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے، جس کے اسباب کو جان کر انہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔