سوشلسٹ کوریا کیا چاہتا ہے
سوشلسٹ کوریا نے آج تک کسی بھی ملک پر حملہ کیا اور نہ وہاں اپنی فوج اتاری۔
سوشلسٹ کوریا کیا چاہتا ہے اور اس کی راہ کیا ہے، اسے پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اکثر لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سوشلسٹ کوریا نے اسلحے کا ذخیرہ کرلیا ہے اور مار دھاڑ سے بھرپور ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سوشلسٹ کوریا پہلے جاپانی سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد کرتا رہا اور پھر امریکی سامراج کے خلاف آج بھی ڈٹا ہوا ہے۔ جب یہاں 1948 میں انقلاب برپا ہوا اور جاگیرداری، سرمایہ داری کا خاتمہ بالخیر کیا، اس کے ساتھ ساتھ تمام سامراجی بندھنوں سے ملک کو آزاد کرنے کا اعلان کیا تو امریکا نے جنوب میں اپنی فوج اتار دی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا نے ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود کوریا میں اپنی فوج کیوں اتاری؟
سامراجیوں کا یہ وطیرہ کوئی نیا نہیں۔ برطانیہ برصغیر پر کیوں کر قابض ہوا اور یہاں کے عوام دو سو سال تک اس کے خلاف لڑتے رہے اور آخرکار برطانوی سامراج کو اپنے دیس سے نکال باہر کیا۔ اسی طرح ویتنام پر امریکی سامراج دہائیوں بم برساتا رہا۔ وہاں کی ایک ایک انچ زمین بموں سے محفوظ نہ رہی۔ امریکی سامراج کی جانب سے ' اورنج ایجنٹ' نامی جراثیم کے استعمال سے آج بھی ویتنام میں اپاہج اور معذور بچے پیدا ہورہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں برطانوی سامراج صدیوں قابض رہا۔
کمیونسٹ پارٹی آف افریقہ کے جنرل سیکریٹری کرائس ہانی، جو کہ گورے تھے، کو امریکی سی آئی اے نے ہالینڈ سے جاسوس بھیج کر قتل کروایا۔ عراق میں مہلک ہتھیار رکھنے کا نام نہاد الزام لگا کر امریکا نے عراق پر حملہ کیا اور صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ بعد ازاں خود امریکی نمایندوں نے یہ کہا کہ 'ہمیں غلط اطلاعات فراہم کی گئی تھیں'۔ غلط اطلاعات کے نتیجے میں عراق میں بارہ لاکھ انسانوں کے قتل کا ذمے دار کون ہے؟
چلی میں ڈاکٹر آیندے کی حکومت کو امریکی سی آئی اے نے ختم کیا اور لاکھوں انسانوں کا قتل کیا، جسے امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ نے بعد میں خود تسلیم بھی کیا۔ امریکی سی آئی اے کی سازش کے تحت انڈونیشیا میں ڈاکٹر سوئیکارنو کی حکومت کا تختہ الٹا اور پندرہ لاکھ انسانوں کا قتل کیا۔ یہ ساری انسانیت سوز حرکات امریکی سامراج نے کیں اور کرتا آرہا ہے۔ اب سوشلسٹ کوریا پر آکر اس لیے اٹک گیا ہے کہ اس کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہیں۔
امریکی دانشور پروفیسر ڈاکٹر نوم چومسکی کے بقول امریکا اب تک براہ راست اور بالواسطہ طور پر اٹھاسی ملکوں میں مداخلت کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا ہے۔ امریکا کو کیا پڑی ہے کہ ہزاروں میل دور سے کوریا آکر جاپان اور جنوبی کوریا سے مل کر فوجی مشقیں کرے۔ امریکا دنیا بھر میں قتل و غارت گری کرتا ہے اور پاکستان سمیت سب کو دھمکی دیتا ہے اور اسے اعتراض ہے کوریا پر کہ وہ امریکا کو کیوں دھمکی دیتا ہے، وہ امریکا کو دھمکی دینا بند کرے۔ تو کیا امریکا کا یہ فریضہ نہیں بنتا کہ وہ بھی کوریا کو دھمکی دینا بند کرے، جنوبی کوریا سے اپنی فوج وا پس بلالے، جنوبی جاپانی سمندر سے اپنا بحری بیڑا ہٹا لے۔
امریکا یہ کہتا ہے کہ وہ سوشلسٹ کوریا کو کسی بھی طور پر جوہری طاقت کے طور پر تسلیم نہیں کرے گا۔ اب مسئلہ ہے کہ سوشلسٹ کوریا کو جوہری طاقت کے طور پر تسلیم کرنے کو کون کہہ رہا ہے؟ پھر امریکا کو کیا پڑی ہے کہ وہ کہے کہ ہم سوشلسٹ کوریا کو جوہری طاقت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے۔ امریکا نے ہی ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے، نہ کہ سوشلسٹ کوریا نے۔ آج تک امریکا نے جاپان سے جوہری حملے پر معافی نہیں مانگی۔
امریکی نمایندے نے جنوبی کوریا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ''امریکا اور جنوبی کوریا کے اتحاد کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، ہمارے سفارت کار اس وقت زیادہ موثر ہوتے ہیں جب انھیں عسکری حمایت ہوتی ہے۔'' اب آپ خود اس بات کا تجزیہ کریں کہ امریکا یہ بیان کیوں دے رہا ہے؟ ان بیانات کا مقصد سوشلسٹ کوریا کو حملے کے لیے دھمکیاں دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اگر امریکا سوشلسٹ کوریا سے مذاکرات چاہتا ہے تو دھمکیاں دینا بند کرے اور مذاکرات شروع کردے اور فوری طور پر جنوبی کوریا سے اپنی تیس ہزار فوج واپس بلالے۔
چودہویں صدی کے یونانی ذہین فلسفی اور موسیقار 'سولونو' نے کہا تھا کہ 'سانپ کو چھیڑو نہیں اور چھیڑو تو چھوڑو نہیں'۔ اس پر شمالی کوریا اور اس کے صدر کم جون ان مکمل طور پر عمل کررہے ہیں، اسی لیے امریکا اور اس کے اتحادی پریشان ہیں۔ سوشلسٹ کوریا نے آج تک کسی بھی ملک پر حملہ کیا اور نہ وہاں اپنی فوج اتاری۔ وہ اپنی سوشلزم کی تعمیر اور مستقبل کے کمیونسٹ سماج کے قیام کی تک و دو میں لگا ہوا ہے۔ یہاں خواندگی کی شرح سو فیصد ہے، رہائش ہر ایک کو میسر ہے، علاج مفت اور بروقت ہے، کسی بیرونی مالیاتی معاہدے میں جکڑا ہوا نہیں، نہ کسی کا قرضدار ہے، ٹرانسپورٹ تقریباً مفت ہے، کوئی ٹارگٹ کلنگ ہے اور نہ دہشت گردی، منشیات کی پیداوار ہے اور نہ منشیات نوشی، عصمت فروشی ناپید ہے، خواتین آزاد ہیں، نہ فرقے ہیں اور نہ فرقہ پرستی۔ شاید یہ چیزیں عالمی سامراج کو نہیں بھاتیں، اسی لیے وہ سوشلسٹ کوریا کے خلاف اقتصادی پابندی، راہداری کی ناکابندی اور تجارت پر قدغن لگائی ہوئی ہے۔
امریکا کے پاس اس وقت تیس ہزار ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں، جس سے اس دنیا کو تین سو بار تباہ کیا جاسکتا ہے اور الٹا سوشلسٹ کوریا کو کہتا ہے کہ وہ امریکا کو دھمکی نہ دے۔ دھمکی دینے کا حق صرف امریکا کو ہی ہے؟ اگر آج امریکا اپنے اتحادی کی وجہ سے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر کہہ رہا ہے تو سوشلسٹ کوریا بھی دنیا بھر کی پیداواری قوتیں، محنت کش عوام، اور سامراج مخالف قوتوں کے بل بوتے پر امریکی سامراج سے زیادہ طاقتور ہے۔ امریکا نے پہلے چین کے ذریعے سوشلسٹ کوریا کو رام کرنے کی کوشش کی، جب اس کو ناکامی ہوئی تو پھر روس سے رجوع کیا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ قوتیں پھر سے اپنے آپ کو مربوط اور مضبوط کررہی ہیں، سوشلسٹ کوریا کو امریکی سامراج کسی بھی صورت میں زیر نہیں کرسکتا ہے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے جب دنیا کی سرحدیں نہیں رہیں گی، طبقات ختم ہوجائیں گے، فوج، عدالتیں، اسمبلیاں اور جائیداد ناپید ہوجائیں گی۔ یعنی دنیا ایک ہوجائے گی۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔
سامراجیوں کا یہ وطیرہ کوئی نیا نہیں۔ برطانیہ برصغیر پر کیوں کر قابض ہوا اور یہاں کے عوام دو سو سال تک اس کے خلاف لڑتے رہے اور آخرکار برطانوی سامراج کو اپنے دیس سے نکال باہر کیا۔ اسی طرح ویتنام پر امریکی سامراج دہائیوں بم برساتا رہا۔ وہاں کی ایک ایک انچ زمین بموں سے محفوظ نہ رہی۔ امریکی سامراج کی جانب سے ' اورنج ایجنٹ' نامی جراثیم کے استعمال سے آج بھی ویتنام میں اپاہج اور معذور بچے پیدا ہورہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں برطانوی سامراج صدیوں قابض رہا۔
کمیونسٹ پارٹی آف افریقہ کے جنرل سیکریٹری کرائس ہانی، جو کہ گورے تھے، کو امریکی سی آئی اے نے ہالینڈ سے جاسوس بھیج کر قتل کروایا۔ عراق میں مہلک ہتھیار رکھنے کا نام نہاد الزام لگا کر امریکا نے عراق پر حملہ کیا اور صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ بعد ازاں خود امریکی نمایندوں نے یہ کہا کہ 'ہمیں غلط اطلاعات فراہم کی گئی تھیں'۔ غلط اطلاعات کے نتیجے میں عراق میں بارہ لاکھ انسانوں کے قتل کا ذمے دار کون ہے؟
چلی میں ڈاکٹر آیندے کی حکومت کو امریکی سی آئی اے نے ختم کیا اور لاکھوں انسانوں کا قتل کیا، جسے امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ نے بعد میں خود تسلیم بھی کیا۔ امریکی سی آئی اے کی سازش کے تحت انڈونیشیا میں ڈاکٹر سوئیکارنو کی حکومت کا تختہ الٹا اور پندرہ لاکھ انسانوں کا قتل کیا۔ یہ ساری انسانیت سوز حرکات امریکی سامراج نے کیں اور کرتا آرہا ہے۔ اب سوشلسٹ کوریا پر آکر اس لیے اٹک گیا ہے کہ اس کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہیں۔
امریکی دانشور پروفیسر ڈاکٹر نوم چومسکی کے بقول امریکا اب تک براہ راست اور بالواسطہ طور پر اٹھاسی ملکوں میں مداخلت کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا ہے۔ امریکا کو کیا پڑی ہے کہ ہزاروں میل دور سے کوریا آکر جاپان اور جنوبی کوریا سے مل کر فوجی مشقیں کرے۔ امریکا دنیا بھر میں قتل و غارت گری کرتا ہے اور پاکستان سمیت سب کو دھمکی دیتا ہے اور اسے اعتراض ہے کوریا پر کہ وہ امریکا کو کیوں دھمکی دیتا ہے، وہ امریکا کو دھمکی دینا بند کرے۔ تو کیا امریکا کا یہ فریضہ نہیں بنتا کہ وہ بھی کوریا کو دھمکی دینا بند کرے، جنوبی کوریا سے اپنی فوج وا پس بلالے، جنوبی جاپانی سمندر سے اپنا بحری بیڑا ہٹا لے۔
امریکا یہ کہتا ہے کہ وہ سوشلسٹ کوریا کو کسی بھی طور پر جوہری طاقت کے طور پر تسلیم نہیں کرے گا۔ اب مسئلہ ہے کہ سوشلسٹ کوریا کو جوہری طاقت کے طور پر تسلیم کرنے کو کون کہہ رہا ہے؟ پھر امریکا کو کیا پڑی ہے کہ وہ کہے کہ ہم سوشلسٹ کوریا کو جوہری طاقت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے۔ امریکا نے ہی ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے، نہ کہ سوشلسٹ کوریا نے۔ آج تک امریکا نے جاپان سے جوہری حملے پر معافی نہیں مانگی۔
امریکی نمایندے نے جنوبی کوریا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ''امریکا اور جنوبی کوریا کے اتحاد کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، ہمارے سفارت کار اس وقت زیادہ موثر ہوتے ہیں جب انھیں عسکری حمایت ہوتی ہے۔'' اب آپ خود اس بات کا تجزیہ کریں کہ امریکا یہ بیان کیوں دے رہا ہے؟ ان بیانات کا مقصد سوشلسٹ کوریا کو حملے کے لیے دھمکیاں دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اگر امریکا سوشلسٹ کوریا سے مذاکرات چاہتا ہے تو دھمکیاں دینا بند کرے اور مذاکرات شروع کردے اور فوری طور پر جنوبی کوریا سے اپنی تیس ہزار فوج واپس بلالے۔
چودہویں صدی کے یونانی ذہین فلسفی اور موسیقار 'سولونو' نے کہا تھا کہ 'سانپ کو چھیڑو نہیں اور چھیڑو تو چھوڑو نہیں'۔ اس پر شمالی کوریا اور اس کے صدر کم جون ان مکمل طور پر عمل کررہے ہیں، اسی لیے امریکا اور اس کے اتحادی پریشان ہیں۔ سوشلسٹ کوریا نے آج تک کسی بھی ملک پر حملہ کیا اور نہ وہاں اپنی فوج اتاری۔ وہ اپنی سوشلزم کی تعمیر اور مستقبل کے کمیونسٹ سماج کے قیام کی تک و دو میں لگا ہوا ہے۔ یہاں خواندگی کی شرح سو فیصد ہے، رہائش ہر ایک کو میسر ہے، علاج مفت اور بروقت ہے، کسی بیرونی مالیاتی معاہدے میں جکڑا ہوا نہیں، نہ کسی کا قرضدار ہے، ٹرانسپورٹ تقریباً مفت ہے، کوئی ٹارگٹ کلنگ ہے اور نہ دہشت گردی، منشیات کی پیداوار ہے اور نہ منشیات نوشی، عصمت فروشی ناپید ہے، خواتین آزاد ہیں، نہ فرقے ہیں اور نہ فرقہ پرستی۔ شاید یہ چیزیں عالمی سامراج کو نہیں بھاتیں، اسی لیے وہ سوشلسٹ کوریا کے خلاف اقتصادی پابندی، راہداری کی ناکابندی اور تجارت پر قدغن لگائی ہوئی ہے۔
امریکا کے پاس اس وقت تیس ہزار ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں، جس سے اس دنیا کو تین سو بار تباہ کیا جاسکتا ہے اور الٹا سوشلسٹ کوریا کو کہتا ہے کہ وہ امریکا کو دھمکی نہ دے۔ دھمکی دینے کا حق صرف امریکا کو ہی ہے؟ اگر آج امریکا اپنے اتحادی کی وجہ سے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر کہہ رہا ہے تو سوشلسٹ کوریا بھی دنیا بھر کی پیداواری قوتیں، محنت کش عوام، اور سامراج مخالف قوتوں کے بل بوتے پر امریکی سامراج سے زیادہ طاقتور ہے۔ امریکا نے پہلے چین کے ذریعے سوشلسٹ کوریا کو رام کرنے کی کوشش کی، جب اس کو ناکامی ہوئی تو پھر روس سے رجوع کیا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ قوتیں پھر سے اپنے آپ کو مربوط اور مضبوط کررہی ہیں، سوشلسٹ کوریا کو امریکی سامراج کسی بھی صورت میں زیر نہیں کرسکتا ہے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے جب دنیا کی سرحدیں نہیں رہیں گی، طبقات ختم ہوجائیں گے، فوج، عدالتیں، اسمبلیاں اور جائیداد ناپید ہوجائیں گی۔ یعنی دنیا ایک ہوجائے گی۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔