70 سال سے نظر انداز مسئلہ
ہمارے ملک میں جمہوریت ایک ایسا مسئلہ ہے یا بن گئی ہے، جو ہماری سیاست کا محور ہے
قومی اہمیت کے بعض ایسے مسائل ہوتے ہیں جنھیں ہمارے سیاستدان شعوری طور پر نظرانداز کرتے رہتے ہیں کیونکہ اس نوعیت کے مسائل پر آواز اٹھانے سے ان کے ذاتی اور جماعتی مفادات خطرے میں پڑجاتے ہیں۔ یہی حال قلمکاروں کا ہے۔
ہمارے ملک کی سیاست کی کوئی سمت نہیں، ہر پارٹی کی اپنی سیاسی ترجیحات ہوتی ہیں اور ہر پارٹی اپنی سیاسی ترجیحات کے مطابق اپنی پالیسیاں طے کرتی ہے۔ اس طرز سیاست طرز فکر کی وجہ سے اہم قومی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ ملک ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
ہمارے ملک میں جمہوریت ایک ایسا مسئلہ ہے یا بن گئی ہے، جو ہماری سیاست کا محور ہے، سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہمارے ملک میں عملاً چند خاندان حکمران ہیں جن کا تعلق اشرافیہ سے ہے'عوام کو جمہوریت کے نام پر بیوقوف بنایا جا رہا ہے اور اہم ترین قومی مسائل کو جانتے بوجھتے ہوئے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ایسے ہی مسائل میں زرعی اصلاحات اور جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ سرفہرست ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاستدان اس مسئلے کی اہمیت سے واقف نہیں؟
ہماری آبادی کا لگ بھگ 60 فیصد حصہ دیہات میں رہتا ہے اور زرعی معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ بد قسمتی سے زرعی معیشت جاگیرداروں اور وڈیروں کے قبضے میں ہے۔ یہ قبضہ صدیوں سے برقرار ہے اور زرعی معیشت سے جڑے ہوئے ہاری اور کسان، جاگیرداروں اور وڈیروں کی رعیت بنے ہوئے ہیں۔ کسی ہاری یا کسان کی یہ مجال نہیں کہ وہ کسی وڈیرے یا جاگیردار کے حکم کی سرتابی کرے۔
اگر کوئی سرپھرا ہاری یا کسان وڈیرے یا جاگیردار کے حکم کی تعمیل نہیں کرتا تو یا تو اسے جھوٹے مقدمات میں پھنسادیا جاتا ہے یا پھر جان سے مار دیا جاتا ہے۔ یوں وڈیرے قانون ساز اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور ملکی دولت کی لوٹ مار میں لگ جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان سے جاری ہے۔
وڈیروں کے اختیار کا عالم یہ ہے کہ وہ ہاریوں کے پورے خاندان کو اغوا کرکے اپنی نجی جیلوں میں قید کردیتے ہیں اور دن رات اپنے کھیتوں پر بیگار لے کر اس کا معاوضہ نہیں دیتے، بس زندہ رہنے کے لیے روٹی دے دیتے ہیں۔ ان نجی جیلوں میں عشروں تک ہاری اور کسانوں کے خاندان قید رہتے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا، کبھی کوئی مجسٹریٹ چھاپہ مار کر نجی جیلوں سے ان ہاری خاندانوں کو عدالت میں پیش کرتا ہے تو عدالت انھیں آزاد تو کردیتی ہے لیکن اغوا کرنے والے وڈیروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
یہ کیسا انصاف ہے کہ عشروں تک وڈیروں کی نجی جیلوں میں قید رہنے والوں کو آزاد تو کردیا جاتا ہے لیکن ہاری کسان خاندانوں کو جیل میں رکھنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ میڈیا میں ایک مختصر سی خبر لگ جاتی ہے کہ مغویوں کو آزاد کردیا گیا۔
جب تک ملک میں بایاں بازو فعال تھا جاگیردارانہ نظام کے خلاف تحریکیں چلتی رہتی تھیں، سندھ میں حیدر بخش جتوئی، پنجاب میں چوہدری فتح محمد، سی آر اسلم، سید مطلبی فرید آبادی، سردار شوکت، پختونخوا میں میجر اسحاق۔ جاگیردارانہ نظام کے خلاف ہاریوں، کسانوں کے ساتھ کسان کانفرنسیں منعقد کی جاتی تھیں اور ہاریوں اور کسانوں کو جاگیردارانہ نظام کے خلاف متحرک رکھا جاتا تھا، لیکن بائیں بازو کے رہنماؤں کی ایک سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ انھوں نے جاگیردارانہ نظام کے خلاف جد وجہد کے لیے نئی نسلوں کو تیار نہیں کیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ سینئر قیادت کے گزر جانے کے بعد جاگیردارانہ نظام کے خلاف جدوجہد مفلوج ہوکر رہ گئی۔ اس حوالے سے 2005ء میں عابد حسن منٹو اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں غالباً آخری کسان کانفرنس ہوئی، جس میں ہم بھی شریک رہے، اس کے بعد اس میدان میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔
ملک کی بعض این جی اوز کبھی کبھی ہاریوں اور کسانوں کو جمع کرلیتی ہیں، لیکن چونکہ این جی اوز غیر سیاسی تنظیمیں ہیں لہٰذا اس حوالے سے نہ ان کی کوئی مستقل اور واضح پالیسی ہوتی ہے، نہ ان کی سرگرمیوں میں تسلسل رہتا ہے۔ پھر بھی ان سرگرمیوں کو کچھ نہیں ہونے سے کچھ ہونا بہتر کہا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسی NGOs ہیں جن کے مالکان میں سیاسی شعور ہے اور وہ زرعی اصلاحات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، لیکن صاحب وسائل ہونے کے باوجود وہ زرعی اصلاحات کے لیے تسلسل کے ساتھ متحرک نہیں رہتے، اگر این جی اوز زرعی اصلاحات کے لیے تسلسل کے ساتھ تحریک چلائیں تو شاید سیاسی جماعتوں کو بھی شرم آجائے۔
ہم نے مختصر طور پر ہاریوں اور کسانوں کی حالت زار کا ذکر کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کی وڈیرہ شاہی ہاریوں، کسانوں کے ووٹوں کے طفیل ہی قانون ساز اداروں میں پہنچتی ہے اور پھر لوٹ مار کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کا مشاہدہ آج ہم کررہے ہیں اور جن کی داستانوں سے ہمارا میڈیا بھرا ہوا ہے۔
ہماری سیاسی جماعتوں میں وہ جماعتیں جن پر فیوڈل کا قبضہ ہے اور جن کے سرپرست اور سربراہ خود لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں، وہ زرعی اصلاحات کا مطالبہ کیسے کرسکتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری ایک لاکھ ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔ اگر یہ انکشاف درست ہے تو پھر پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو اپنی قیادت سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا مزدور کسان راج سے ایک لاکھ ایکڑ زمین کی ملکیت مطابقت رکھتی ہے؟
عمران خان اس حقیقت سے واقف ہوںگے، اگر واقف نہیں ہیں تو ہونا چاہیے کہ نئے پاکستان کی تشکیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پرانے پاکستان کی بوسیدہ عمارت کو ڈھا نہیں دیا جاتااورپرانے پاکستان کی عمارت جاگیردارانہ نظام پر استوار ہے۔ ہمارے ملک میں مڈل کلاس پر مشتمل مذہبی جماعتیں فعال ہیں، ان کے پاس نظریاتی کارکن بڑی تعداد میں ہیں اور وسائل بھی ہیں، ان جماعتوں کی قیادت یہ جانتی ہے کہ پیغمبر اسلام نہ جاگیردار تھے نہ سرمایہ دار، کیا اس قیادت کی یہ ذمے داری نہیں بنتی کہ وہ جاگیردارانہ نظام کے خلاف ایک منظم مسلسل اور مربوط تحریک چلائے تاکہ ہماری سیاست کی گاڑی اس گڑھے سے باہر نکل آئے جس میں وہ 70 سال سے پھنسی ہوئی ہے۔