مردم شماری فائدہ کیا ہوا
مردم شماری کرانے کا مقصد یہ تھا کہ اسمبلیوں میں عوام کی صحیح نمایندگی ہوسکے
موجودہ حکومت کی مدت جون 2018ء میں پوری ہوجائے گی اور عام انتخابات کا مرحلہ آئے گا، آئین کے تحت قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے 60 دن میں ملک میں نئے عام انتخابات منعقد کیے جائیں گے جب کہ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں بھی آئین کے تحت لازمی ہیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے بار بار اس ضمن میں ضروری فیصلوں کا تقاضا کیا جارہا تھا اور الیکشن حکام نے پارلیمانی رہنماؤں کو ڈیڈ لائن دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ایک ہفتے میں قانونی سازی نہ ہوئی تو نئی حلقہ بندیوں پر بروقت الیکشن ممکن نہیں ہونگے، مردم شماری عبوری رپورٹ پر نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں نے مردم شماری کے عبوری نتائج کی روشنی میںآیندہ عام انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیاں کروانے پر اتفاق کرلیا ہے، کیا ہی عجیب بات ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما نئی حلقہ بندیوں پر تو متفق ہوگئے ہیں مگر قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے پر راضی نہیں ہوئے اور قومی اسمبلی کی موجودہ 272 نشستیں رکھنے پر ہی اتفاق کیا ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب پرانی تعداد پر ہی الیکشن کرانا تھے تو پھر قوم کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی مردم شماری پر کیوں پھونک دی گئی؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئی حلقہ بندیوں کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافہ کیا جاتا تاکہ عوام کی نمایندگی بہتر انداز سے ہوسکے مگر سیاسی جماعتوں نے آبادی کے تناسب سے قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ عوام کی نمایندگی کا حق ادا نہیں کررہی ہیں اور حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتی ہیں۔ تبدیلی کی باتیں محض عوام کو خوش کرنے کے لیے کرتی ہیں، عملی طور پر یہ تمام ''اسٹیٹس کو'' کی ہی جماعتیں ہیں۔
پاکستان میں ہر دس سال بعد مردم شماری کرانا آئینی تقاضا ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر پچھلے 19سال میں اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، سپریم کورٹ کے حکم پر بہ امر مجبوری مردم شماری کرائی گئی۔ نئی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 22کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ مردم شماری کرانے کا مقصد یہ تھا کہ اسمبلیوں میں عوام کی صحیح نمایندگی ہوسکے، آبادی کی درست تعداد معلوم کرکے بہتر پلاننگ کی جاسکے مگر افسوس کہ مردم شماری کا پہلا بڑا مقصد یعنی عوام کی صحیح نمایندگی اور عوام کے نمایندوں کو آبادی کے تناسب سے اسمبلیوں میں بھیجنے کا تھا جوکہ فوت ہوچکا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سندھ کی شہری آبادی بالخصوص کراچی کے لوگوں اور بیشتر سیاسی جماعتوں کا یہ شکوہ ہے کہ کراچی کی آبادی کم ظاہرکی گئی ہے، جتنی آبادی کراچی کی ظاہرکی گئی اس سے کئی گنا زیادہ آبادی ہے، مگر ان کے تحفظات کا جواب اور لوگوں کو مطمئن کیے بغیر اس عمل کو آگے بڑھادیا گیا اور اس طرح مردم شماری پر لگنے والی قوم کی خطیر رقم ضایع ہوگئی۔
مردم شماری کے آغاز کے موقعے پر وفاقی ادارہ شماریات کے سربراہ آصف باجوہ نے یہ کہا تھا کہ مردم شماری پر 30 ارب کے اخراجات آسکتے ہیں، کیا کسی کو اس بات کا احساس ہے کہ غریب عوام اپنا رزق کتنی محنت سے کماتے ہیں، جب سیاسی جماعتیں ہی عوام کی نمایندگی کا حق ادا کرنے سے قاصر رہیں یا دانستہ اس سے پہلو تہی کریں تو پھر جمہوریت سے عوام کا اعتماد تو اٹھنا ہی ہے۔
ویسے بھی مردم شماری کے نتائج پرکم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا مگر اس کے باوجود پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس میں قومی اسمبلی کے اسپیکر نے نہ جانے انھیں ایسا کیا گھول کر پلادیا کہ وہ تحفظات کے باوجود نشستوں کی پرانی تعداد پر متفق ہوگئے۔ اس سے تو یہ شبہ بھی جنم لے گا کہ کچھ لو، کچھ دو کے اصول پر مک مکا کرلیا گیا ہے، جس کا اظہار میڈیا کے سامنے نہیں کیا گیا، ایسی صورتحال میں جمہوریت پر لوگوں کا ایمان کمزور ہوگا، عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہونگے کہ ان کے اپنے ہی نمایندے عوام کو صحیح نمایندگی دینے پر تیار نہیں۔
سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے میڈیا کو بتایا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں ایک آئینی ترمیم منظوری کے بعد سینیٹ بھجوادی جائے گی ترمیم آئین کا حصہ بننے کے بعد کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام کو بھجوا دی جائے گی جو نئی حلقہ بندیوں پر کام کریں گے۔
حزب مخالف کی جماعتوں پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انھوں نے تحفظات کے ساتھ اس پر اتفاق کیا ہے اور اگر ان کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو وہ اس کے خلاف عدالتوں میں جانے کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب ان جماعتوں کے تحفظات دور ہی نہیں ہوئے ہیں تو پھر انھوں نے نئی حلقہ بندیاں کرانے پر اتفاق کیوں کیا ہے، اگر نئے عام انتخابات کے نتائج مذکورہ اپوزیشن جماعتوں کی منشاء کے مطابق نہ آئے تو وہ یہ جواز بھی بناسکتے ہیں کہ ہمارے تحفظات دور نہیں کیے گئے اور پھر ان انتخابات پر آئینی اور قانونی اعتراضات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔
ملک میں نئی حلقہ بندیوں کا جو فارمولا تیار کیاگیا ہے اس کے بعد یہ صورتحال سامنے آرہی ہے کہ اب 7 لاکھ 80 ہزار کی آبادی پر قومی اسمبلی کا ایک حلقہ بنایا جائے گا۔ اب ذرا سوچیے! کہ ایک عوامی نمایندہ 7لاکھ 80ہزار لوگوں کے مسائل کس طرح حل کریگا، مسائل حل کرنا تو بہت دور وہ ایک منتخب نمایندہ اپنے حلقے کے اتنے افراد سے ملاقات بھی نہیں کرپائے گا۔ اس حلقے کے عوام اپنے نمایندے کو صرف ٹی وی پر ہی دیکھ سکیں گے، وہ خود بھی اگر ان افراد سے ملنا چاہے تو اسے 8ایسے جلسے کرنا ہونگے جن میں ایک لاکھ افراد شریک ہوں اور اگر اس کے حلقے میں کوئی ایسا میدان ہی موجود نہ ہو جہاں وہ اتنے افراد کو جمع کرسکے تو پھر کیا ہوگا؟ یعنی کہ عوام کا نمایندہ عوام سے دور دور ہی رہے گا۔
نئی حلقہ بندیوں کے تحت قومی اسمبلی کی 272 جنرل اور خواتین کی 60 مخصوص نشستیں برقرار رکھی جائیں گی تاہم صوبوں کے درمیان ان کی تقسیم میں ردوبدل ہوگا۔ اس وقت قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ جنرل نشستیں صوبہ پنجاب کی ہیں جن کی تعداد 147 ہے۔ یہ تعداد کم ہوکر 140 جب کہ مخصوص نشستیں بھی کم ہوکر 33رہ جائیں گی، صوبہ خیبرپختونخوا کی 34نشستوں میں چار اور ایک مخصوص نشست کا اضافہ ہوگا، بلوچستان کی 14جنرل نشستوں میں 2اور ایک مخصوص نشست بڑھے گی، سندھ میں قومی اسمبلی کی 61نشستوں کی تعداد برقرار رہے گی، اسلام آباد میں ایک نشست کے اضافے کے بعد تعداد 3ہوجائے گی جب کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 11 میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
اگر قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کی منظوری دیدی جاتی تو 2002ء انتخابی ایکٹ کے تحت کی گئی حلقہ بندیوں کے فارمولے کو سامنے رکھتے ہوئے 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں ملک میں قائم ہونے والی آیندہ قومی اسمبلی 500 نشستوں پر مشتمل ہوتی، جس میں 427 براہ راست انتخاب والی، 13 اقلیتی جب کہ 60 خواتین کی مخصوص نشستیں ہوتیں۔ پنجاب کے حصے میں 218، سندھ کے حصے میں 99، خیبرپختونخوا میں 64، بلوچستان میں 26، فاٹا کے حصے میں 17اور اسلام آباد کے حصے میں 3عمومی نشستیں آتیں۔
اقلیتوں کی نشستیں بھی 10سے بڑھ کر 13ہوجاتیں جب کہ خواتین کی تعداد میں معمولی کمی کے باعث موجودہ 60نشستیں برقرار رہتیں اور اس طرح کم و بیش 4لاکھ کی آبادی پر قومی اسمبلی کا ایک حلقہ بنتا اور وہ نمایندہ عوامی کی آواز کو بہتر انداز میں پیش کرنے کی پوزیشن میں ہوتا۔
علاوہ ازیں شہری علاقوں کی نمایندگی میں اضافہ ہوتا کیوں کہ گزشتہ دو دہائیوں میں دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کے رحجان میں تیزی آئی ہے خاص طور پر سندہ میں یہ عمل باقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہے اور اس تبدیلی کے اثرات کو پارلیمانی نظام پر مرتب ہونے سے روکا جا رہا ہے اور اس عمل میں چند ایک کو چھوڑ کر سب شریک نظر آ رہے ہیں ایسے میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ عوام کو صحیح نمایندگی دینے میںکوئی اور نہیں بلکہ خود عوامی نمایندے ہی رکاوٹ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں نے مردم شماری کے عبوری نتائج کی روشنی میںآیندہ عام انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیاں کروانے پر اتفاق کرلیا ہے، کیا ہی عجیب بات ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما نئی حلقہ بندیوں پر تو متفق ہوگئے ہیں مگر قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے پر راضی نہیں ہوئے اور قومی اسمبلی کی موجودہ 272 نشستیں رکھنے پر ہی اتفاق کیا ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب پرانی تعداد پر ہی الیکشن کرانا تھے تو پھر قوم کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی مردم شماری پر کیوں پھونک دی گئی؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئی حلقہ بندیوں کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافہ کیا جاتا تاکہ عوام کی نمایندگی بہتر انداز سے ہوسکے مگر سیاسی جماعتوں نے آبادی کے تناسب سے قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ عوام کی نمایندگی کا حق ادا نہیں کررہی ہیں اور حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتی ہیں۔ تبدیلی کی باتیں محض عوام کو خوش کرنے کے لیے کرتی ہیں، عملی طور پر یہ تمام ''اسٹیٹس کو'' کی ہی جماعتیں ہیں۔
پاکستان میں ہر دس سال بعد مردم شماری کرانا آئینی تقاضا ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر پچھلے 19سال میں اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، سپریم کورٹ کے حکم پر بہ امر مجبوری مردم شماری کرائی گئی۔ نئی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 22کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ مردم شماری کرانے کا مقصد یہ تھا کہ اسمبلیوں میں عوام کی صحیح نمایندگی ہوسکے، آبادی کی درست تعداد معلوم کرکے بہتر پلاننگ کی جاسکے مگر افسوس کہ مردم شماری کا پہلا بڑا مقصد یعنی عوام کی صحیح نمایندگی اور عوام کے نمایندوں کو آبادی کے تناسب سے اسمبلیوں میں بھیجنے کا تھا جوکہ فوت ہوچکا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سندھ کی شہری آبادی بالخصوص کراچی کے لوگوں اور بیشتر سیاسی جماعتوں کا یہ شکوہ ہے کہ کراچی کی آبادی کم ظاہرکی گئی ہے، جتنی آبادی کراچی کی ظاہرکی گئی اس سے کئی گنا زیادہ آبادی ہے، مگر ان کے تحفظات کا جواب اور لوگوں کو مطمئن کیے بغیر اس عمل کو آگے بڑھادیا گیا اور اس طرح مردم شماری پر لگنے والی قوم کی خطیر رقم ضایع ہوگئی۔
مردم شماری کے آغاز کے موقعے پر وفاقی ادارہ شماریات کے سربراہ آصف باجوہ نے یہ کہا تھا کہ مردم شماری پر 30 ارب کے اخراجات آسکتے ہیں، کیا کسی کو اس بات کا احساس ہے کہ غریب عوام اپنا رزق کتنی محنت سے کماتے ہیں، جب سیاسی جماعتیں ہی عوام کی نمایندگی کا حق ادا کرنے سے قاصر رہیں یا دانستہ اس سے پہلو تہی کریں تو پھر جمہوریت سے عوام کا اعتماد تو اٹھنا ہی ہے۔
ویسے بھی مردم شماری کے نتائج پرکم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا مگر اس کے باوجود پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس میں قومی اسمبلی کے اسپیکر نے نہ جانے انھیں ایسا کیا گھول کر پلادیا کہ وہ تحفظات کے باوجود نشستوں کی پرانی تعداد پر متفق ہوگئے۔ اس سے تو یہ شبہ بھی جنم لے گا کہ کچھ لو، کچھ دو کے اصول پر مک مکا کرلیا گیا ہے، جس کا اظہار میڈیا کے سامنے نہیں کیا گیا، ایسی صورتحال میں جمہوریت پر لوگوں کا ایمان کمزور ہوگا، عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہونگے کہ ان کے اپنے ہی نمایندے عوام کو صحیح نمایندگی دینے پر تیار نہیں۔
سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے میڈیا کو بتایا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں ایک آئینی ترمیم منظوری کے بعد سینیٹ بھجوادی جائے گی ترمیم آئین کا حصہ بننے کے بعد کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام کو بھجوا دی جائے گی جو نئی حلقہ بندیوں پر کام کریں گے۔
حزب مخالف کی جماعتوں پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انھوں نے تحفظات کے ساتھ اس پر اتفاق کیا ہے اور اگر ان کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو وہ اس کے خلاف عدالتوں میں جانے کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب ان جماعتوں کے تحفظات دور ہی نہیں ہوئے ہیں تو پھر انھوں نے نئی حلقہ بندیاں کرانے پر اتفاق کیوں کیا ہے، اگر نئے عام انتخابات کے نتائج مذکورہ اپوزیشن جماعتوں کی منشاء کے مطابق نہ آئے تو وہ یہ جواز بھی بناسکتے ہیں کہ ہمارے تحفظات دور نہیں کیے گئے اور پھر ان انتخابات پر آئینی اور قانونی اعتراضات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔
ملک میں نئی حلقہ بندیوں کا جو فارمولا تیار کیاگیا ہے اس کے بعد یہ صورتحال سامنے آرہی ہے کہ اب 7 لاکھ 80 ہزار کی آبادی پر قومی اسمبلی کا ایک حلقہ بنایا جائے گا۔ اب ذرا سوچیے! کہ ایک عوامی نمایندہ 7لاکھ 80ہزار لوگوں کے مسائل کس طرح حل کریگا، مسائل حل کرنا تو بہت دور وہ ایک منتخب نمایندہ اپنے حلقے کے اتنے افراد سے ملاقات بھی نہیں کرپائے گا۔ اس حلقے کے عوام اپنے نمایندے کو صرف ٹی وی پر ہی دیکھ سکیں گے، وہ خود بھی اگر ان افراد سے ملنا چاہے تو اسے 8ایسے جلسے کرنا ہونگے جن میں ایک لاکھ افراد شریک ہوں اور اگر اس کے حلقے میں کوئی ایسا میدان ہی موجود نہ ہو جہاں وہ اتنے افراد کو جمع کرسکے تو پھر کیا ہوگا؟ یعنی کہ عوام کا نمایندہ عوام سے دور دور ہی رہے گا۔
نئی حلقہ بندیوں کے تحت قومی اسمبلی کی 272 جنرل اور خواتین کی 60 مخصوص نشستیں برقرار رکھی جائیں گی تاہم صوبوں کے درمیان ان کی تقسیم میں ردوبدل ہوگا۔ اس وقت قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ جنرل نشستیں صوبہ پنجاب کی ہیں جن کی تعداد 147 ہے۔ یہ تعداد کم ہوکر 140 جب کہ مخصوص نشستیں بھی کم ہوکر 33رہ جائیں گی، صوبہ خیبرپختونخوا کی 34نشستوں میں چار اور ایک مخصوص نشست کا اضافہ ہوگا، بلوچستان کی 14جنرل نشستوں میں 2اور ایک مخصوص نشست بڑھے گی، سندھ میں قومی اسمبلی کی 61نشستوں کی تعداد برقرار رہے گی، اسلام آباد میں ایک نشست کے اضافے کے بعد تعداد 3ہوجائے گی جب کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 11 میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
اگر قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کی منظوری دیدی جاتی تو 2002ء انتخابی ایکٹ کے تحت کی گئی حلقہ بندیوں کے فارمولے کو سامنے رکھتے ہوئے 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں ملک میں قائم ہونے والی آیندہ قومی اسمبلی 500 نشستوں پر مشتمل ہوتی، جس میں 427 براہ راست انتخاب والی، 13 اقلیتی جب کہ 60 خواتین کی مخصوص نشستیں ہوتیں۔ پنجاب کے حصے میں 218، سندھ کے حصے میں 99، خیبرپختونخوا میں 64، بلوچستان میں 26، فاٹا کے حصے میں 17اور اسلام آباد کے حصے میں 3عمومی نشستیں آتیں۔
اقلیتوں کی نشستیں بھی 10سے بڑھ کر 13ہوجاتیں جب کہ خواتین کی تعداد میں معمولی کمی کے باعث موجودہ 60نشستیں برقرار رہتیں اور اس طرح کم و بیش 4لاکھ کی آبادی پر قومی اسمبلی کا ایک حلقہ بنتا اور وہ نمایندہ عوامی کی آواز کو بہتر انداز میں پیش کرنے کی پوزیشن میں ہوتا۔
علاوہ ازیں شہری علاقوں کی نمایندگی میں اضافہ ہوتا کیوں کہ گزشتہ دو دہائیوں میں دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کے رحجان میں تیزی آئی ہے خاص طور پر سندہ میں یہ عمل باقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہے اور اس تبدیلی کے اثرات کو پارلیمانی نظام پر مرتب ہونے سے روکا جا رہا ہے اور اس عمل میں چند ایک کو چھوڑ کر سب شریک نظر آ رہے ہیں ایسے میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ عوام کو صحیح نمایندگی دینے میںکوئی اور نہیں بلکہ خود عوامی نمایندے ہی رکاوٹ ہیں۔