گاندھی جی کے قتل کا مقدمہ دوبارہ کھول دیا گیا

تشار گاندھی جس نے پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ہے اور گاندھی کے قتل کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کی مخالفت کی ہے۔

KANDAHAR, AFGHANISTAN:
میرے خیال میں سپریم کورٹ کی طرف سے گاندھی جی کے مقدمہ قتل کی سماعت کے لیے عدالت کا مدد گار مقرر کرنا بہت اہم اقدام ہے تاہم اس ضمن میں دو نکات کا بطور خاص خیال رکھنا ہو گا۔ پہلی بات یہ کہ ابھیناو بھارت کے ٹرسٹی ڈاکٹر پنکھج فڈنس نے ایک اپیل درج کرائی ہوئی ہے جس میں اس قتل میں غیر ملکی ہاتھ کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے مگر یہ ایسا معاملہ ہے جس کے لیے ثبوت کی ضرورت ہے۔

مجھے یاد ہے کہ یہ قتل سیکیورٹی کی بہت بڑی ناکامی کے باعث ہوا۔ میں ''انجمن'' نامی ایک اردو روزنامے کے نیوز ڈیسک پر کام کر رہا تھا کہ پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے ٹیلی پرنٹر کی گھنٹی زور زور سے بجنے لگی جو کہ کسی بہت خاص خبر کے لیے بجتی تھی۔ میں اچھل کر اپنی نشست سے کھڑا ہو گیا تاکہ دیکھوں کیا خبر آئی ہے۔ میں نے بلند آواز میں کہا مہاتما گاندھی کو گولی مار دی گئی۔ خبر میں مزید کوئی تفصیل نہیں تھی۔ میں نے اپنے ایک کولیگ سے کہا جس کے پاس موٹر بائیک تھی مجھے برلا ہاوس پر اتار دو جہاں پر سیکیورٹی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ دروازے پر ایک ہی آدمی کھڑا تھا جو آنے والوں سے معذرت کر رہا تھا۔

آج جب کہ مہاتما گاندھی کے قتل کو ایک بہت بھاری نقصان اور دکھ کے ساتھ یاد کیا جا رہا ہے حکومت کے پاس اس بات کے کافی ثبوت ہیں کہ ایک انتہا پسند ہندو تنظیم گاندھی جی کو مارنے کے در پے تھی لیکن اس کے باوجود حکومت نے ان کی حفاظت کے لیے کوئی سیکیورٹی متعین نہیں کی تھی۔ ان کے قتل سے صرف 48 گھنٹے پہلے ایک انتہا پسند گروپ کے مدن لال نے گاندھی جی کے عبادت کے چبوترے کی عقبی دیوار کے ساتھ ایک بم نصب کیا تھا۔

جب یہ بم پھٹا تو میں خود بھی وہاں موجود تھا لیکن مہاتما گاندھی نے کوئی تشویش ظاہر نہ کی بلکہ معمول کے مطابق میٹنگ جاری رکھی، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میں نے بھی یہی سوچا کہ یہ کوئی کریکر ہو گا لیکن گزشتہ روز اخبارات کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ گاندھی جی کسی طرح موت کے منہ سے بال بال بچے ہیں۔ تب سردار پٹیل وزیر داخلہ تھے۔ انھوں نے اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے استعفیٰ دیدیا لیکن وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے پٹیل سے کہا کہ مہاتما چاہتے تھے کہ ہم دونوں مل کر جدید بھارت کی تعمیر میں تعاون کریں۔

حتیٰ کہ آر ایس ایس پر پابندی بھی اٹھا لی گئی۔ وزارت داخلہ کو چاہیے تھا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرتی کہ ہندو انتہا پسندی کس حد تک جڑیں پکڑ چکی ہے حتیٰ کہ اس وقت سردار پٹیل نے خود یہ کہا تھا کہ آر ایس ایس نے ایسی فضا پیدا کر دی ہے کہ جہاں اس نوعیت کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ جب میں نے 1955ء میں وزارت میں انفارمیشن آفیسر کے طور پر شمولیت اختیار کی اور تقریباً دس سال تک اسی حیثیت میں کام کیا تو اس دوران مجھے بھی کچھ واقعات کا پتہ چلا۔

یعنی ایک بات واضح تھی کہ گاندھی جی کے قتل کی پوری طرح سے تحقیقات ہی نہیں کی گئی تھیں۔ یا ممکن ہے حکومت میں بھی کچھ افراد اس میں شامل ہوں جن کے بارے میں حکومت نہیں چاہتی تھی کہ ان کا پردہ فاش ہو۔ آرکائیو آف انڈیا ابھی تک وزارت داخلہ کی طرف سے نہیں آئے تھے جب برطانوی حکومت نے اقتدار کی منتقلی کے عنوان سے دو یا تین سال کے بعد تین جلدوں والی کتاب چھاپی جس میں برطانوی نکتہ نظر دیا گیا تھا۔


مہاتما گاندھی کے قتل کے فوراً بعد جب میں برلا ہاؤس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ جہاں گاندھی جی گولی لگنے کے بعد زمین پر گرے تھے اس جگہ کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ وہاں سے عبادت کے پلیٹ فارم تک جاتے ہوئے خون کے کچھ چھینٹے پڑے تھے لیکن ان کی حفاظت کے لیے کوئی پولیس والا بھی وہاں نہیں تھا، حالانکہ قتل کے ثبوت کے لیے ان کی کتنی زیادہ اہمیت تھی۔ آخر کسی بھی بھارتی حکومت نے اس واقعے کا کھوج لگانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ مجھے بی جے پی کی بے اعتنائی کی وجہ سمجھ آتی ہے کیونکہ اس کی صلاح کار تنظیم آر ایس ایس اس معاملے میں کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں چاہتی لیکن کانگریس حکومت تو تحقیقات کر سکتی تھی۔

اس وقت تک ہمارے پاس جو معلومات ہیں وہ اس مقدمے کی کارروائی کی ہیں اور اس پر پنجاب ہائی کورٹ شملہ نے کیا فیصلہ دیا تھا۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ سول سوسائٹی کی بعض خواتین نے گاندھی جی کے مبینہ قاتل نتھورام گوڈسے کے لیے اون کے پُل اوور بنے تھے لیکن حکومت بوجوہ ان تمام معاملات کو چھپائے ہوئے ہے۔ کانگریس کی 132سالہ تاریخ میں اس بات پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد ان کے پیروکاروں پر کیا گزری اور آج ان کا کیا حال ہے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وہ آج بھی ان کو شک شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے جیسے کہ وہ حکومت توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بی جے پی کے پاس جو اقتدار ہے اس پر کسی قسم کی کوئی نگرانی نہیں ہے۔ کہنے کو بھارت ایک جمہوری ملک ہے مگر وزیراعظم نریندر مودی نے تمام تر اختیارات کلی طور پر اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور وہ اپنی صوابدید سے ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ پارٹی مودی کی ہر بات کو سراہتی ہے اور پارٹی کے اجلاس میں ان کی تصویر کو اونچا کرتی ہے کیونکہ ان کے خیال میں ووٹروں کو متوجہ کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے۔ جہاں تک مہاتما گاندھی کا تعلق ہے تو ان کی ملک کی آزاد معیشت والے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں بنتی۔

یہ درست ہے کہ تقسیم برصغیر کے موقع پر قانون اور امن و امان قائم نہیں رہ سکا تھا لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ کسی ایک بھی پولیس آفیسر نے ان واقعات کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھا۔ حالانکہ ایسے ثبوت یقیناً اکٹھے کیے جا سکتے تھے جن سے ملک کے سب سے قیمتی شخص کے قتل کا سراغ لگانے میں کوئی ٹھوس مدد مل سکے۔ یہ درست ہے کہ چند انتہا پسند ہندوؤں کو گرفتار کر لیا گیا لیکن میرا یقین ہے کہ اتنے بڑے قتل کا منصوبہ یقیناً بہت بڑا تھا جس میں اعلیٰ مناصب کے بہت زیادہ لوگ بھی ملوث ہوں گے۔

سو ابھی آسیم آنند کے مالیگاوں بم دھماکے کے بارے میں اعترافی بیان سے ثابت ہوا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی جڑیں کتنی گہری پھیلی ہوئی ہیں، تو ظاہر ہے گاندھی جی کے قتل میں صرف اکیلا نتھو رام گوڈسے ہی تو ملوث نہیں ہو سکتا۔ تشار گاندھی جس نے پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ہے اور گاندھی کے قتل کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کی مخالفت کی ہے۔ تشار گاندھی کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ نے جس سینئر ایڈووکیٹ کو عدالت کی مدد کے لیے متعین کیا ہے اس کی کارکردگی دیکھ کر مقدمہ کے بارے میں آیندہ پیش رفت کا فیصلہ کیا جانا چاہیے کیونکہ صرف مقدمہ دوبارہ کھول دینے کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکے گا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story