ادارے کو بہتر بنانے کے لیے انقلابی اقدامات کررہا ہوں صدیق الفاروق
متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین صدیق الفاروق کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو
متروکہ وقف املاک بورڈ اقلیتوں کے مذہبی مقامات کے انتظامات، تعمیر اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کام کرنے والا سرکاری ادارہ ہے۔اس ادارے کے زیر انتظام ا قلیتوں کے تعلیمی ادارے اورہسپتال بھی ہیں ۔ یہ ایک خود مختار ادارہ ہے جو اپنی آمدن سے ہی اپنے اخراجات پورے کرتا ہے اور حکومت سے کوئی پیسہ نہیں لیتا۔ اس محکمے کی کارکردگی کے حوالے سے جاننے کیلئے گزشتہ دنوں ''ایکسپریس فورم'' میں متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین صدیق الفاروق کو مدعو کیا گیا جن سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
3برس قبل جب میں نے ادارے کا چارج سنبھالا تو اس وقت یہ ادارہ 15 کروڑ روپے کے خسارے میں تھا۔ ایک سال بعد شرح سود 12فیصد سے 6فیصد پر آگئی جس کے باعث ہمیں سرمایہ کاری پر 21کروڑ روپے کا خسارہ ہوا یعنی کل خسارہ 36کروڑ روپے تھا۔ میں نے اس عرصے میں نہ صرف وہ خسارہ ختم کیا بلکہ 50کروڑ روپے منافع بھی بنایا یعنی کل آمدن 86 کروڑ روپے ہوئی۔ یہ آمدن اس سے بھی زیادہ ہوتی لیکن پیچیدہ عدالتی نظام اور کم اختیارات کے باعث کافی مشکلات ہیں۔
بدقسمتی سے وہ لوگ جو کرایہ کم دیتے ہیں یا ہماری زمینوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں وہ بار بار عدالتوں سے حکم امتناعی لے آتے ہیں جو بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر یہ مسائل نہ ہوتے تو میں آمدن میں ڈیڑھ سے دو ارب روپے اضافہ کرچکا ہوتا۔ خسارے کے علاوہ جو چیلنجز مجھے درپیش تھے ان میں محکمے کے اندر کرپشن، عملے کی نااہلی جبکہ ضرورت سے زائد ملازمین اور گھوسٹ ملازمین شامل ہیں۔ میں نے ان مسائل کو حل کرنے کیلئے دن رات ایک کیا۔ جب تک انسان اور شیطان ہیں، میرے نزدیک دنیا سے کرپشن ختم نہیں ہوسکتی مگر میں نے اس پر کافی حد تک قابو پالیا ہے۔
پہلے ملازمین اور افسران قبضہ مافیا کے ساتھ مک مکا کرلیتے تھے مگر اب کھلم کھلا کرپشن والی روایت دم توڑ چکی ہے کیونکہ اب کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ پہلے ملی بھگت سے نیلامی ہوا کرتی تھی مگر میں نے اسے بھی شفاف بنانے کی کوشش کی۔ اب بڑے اخبارات میں اشتہارات دیئے جاتے ہیں، کھلی نیلامیاں ہورہی ہیں جس کے بعد 3 گنا سے 8 گنا بولیاں زیادہ ہوئی ہیں۔اسی طرح خالی پلاٹوں کی نیلامی سے بھی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔
ہمارا ادارہ حکومت سے کچھ نہیں لیتا بلکہ اپنی آمدن سے ہی اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔ اگر سابق چیئرمین خدا خوفی سے کام لیتے تو اِس وقت ادارے کے پاس 10 ارب روپے ہوتے اور آمدن میں بھی بہت اضافہ ہوتا۔ میرے چارج سنبھالنے سے اب تک کے اقدامات سے اس وقت ادارے کی آمدن ڈیڑھ ارب روپے سالانہ ہے جس میں ابھی مزید اضافہ ہوگا۔ ہمارے 5تعلیمی ادارے ہیں جن کا سالانہ خسارہ 24 کروڑ روپے تھا، ان کی حالت بہتر کی گئی اور انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔ جہاں اساتذہ نہیں تھے ان کی بھرتی کی گئی اور شام کی کلاسوں کا بھی آغاز کیا گیا تاکہ تعلیم کو فروغ دیا جا سکے۔
اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جارہا ہے جس سے بچوں کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔ گرونانک دیو انٹرنیشنل یونیورسٹی اور گندھارا ہیریٹیج انٹرنیشنل یونیورسٹی ، دونوں کیلئے 3، 3 ارب روپے منظور ہوچکے ہیں، مارچ 2016ء میں ان کے وفاقی دارلحکومت میں قائم مین کیمپس میںایم فل اور ریسرچ کلاسز کا آغاز ہوجائے گا۔ بعدازاں ٹیکسلا میں گندھارا ہیریٹیج انٹرنیشنل یونیورسٹی اور ننکانہ صاحب میں گرونانک دیو انٹرنیشنل یونیورسٹی قائم کی جائے گی جہاں طلبہ کی زیادہ تعداد ہوگی۔
محکمے کے تحت اقلیتوں کی خدمت کا کام جاری ہے۔میں ''ملک اور مذہب اپنا اپنا لیکن انسانیت سانجھی'' کے نعرے پر کام کررہا ہوں اور تمام مذاہب کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہوں۔پشاور میں بھائی بیبا صاحب گردوارہ، ننکانہ صاحب میں 2گردوارے اور کیارہ صاحب گردوارہ ، جو 70سال سے بند تھے میں نے انہیں بحال کیا۔ ننکانہ صاحب میں امرت جل جو سکھوں کا مقدس پانی ہے 67 برس سے اس کا مسئلہ تھا، میں نے 17دن میں وہ مسئلہ حل کرکے وہاں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جس کے بعد اب امرت جل بوتلوں میں بند کرکے ایکسپورٹ کیا جائے گا جس کا 2 روپے فی لیٹر گردواروں کی بہتری کیلئے استعمال کیا جائے گا۔
یہ امرت جل بغیر کیمیکل کے ہوگا اور اس کی شیلف لائف 5سال ہوگی۔ 4ٹوور پروموٹر بھی بھرتی کرلیے گئے ہیں جو دیگر ممالک سے آئے یاتریوں کی معاونت کریں گے۔ یہ 100 ڈالر فی یاتری محکمے کو دیں گے جس سے آمدن میں اضافہ ہوگا۔ میں نے ننکانہ صاحب میں موجود جنم استھان کی اعلیٰ تزین و آرائش کروائی ہے جو دیدنی ہے۔ ننکانہ صاحب، پنجا صاحب، کرتار پور اور کٹاس راج میں کمرے خستہ حال تھے، وہاں اب سینکڑوں کمرے تعمیر کیے جاچکے ہیں جبکہ ابھی مزید سینکڑوں کمرے تعمیر کیے جائیں گے اور بعض جگہ ابھی تعمیر جاری ہے۔
کٹاس راج میں نواز شریف نے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا افتتاح کیا کیونکہ وہاں ہندوؤں کا ایک بڑااستھان ہے۔وہاں ہزاروں درخت لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں دو غاریں دریافت کرکے انہیں محفوظ جبکہ ایک کنواں جو 2ہزار برس سے ملبے تلے دبا ہوا تھا اسے دریافت کرکے بحال کیا گیاہے۔ ہم نے مندروں کو جدید تقاضوں کے مطابق بحال کیا ہے۔ کٹاس راج میں 4 مختلف تہذیبیں ہیں۔ وہاں ہندومت کے ہزاروں برس پرانے مندر ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کا اسٹوپا ہے جو اشوکا کے زمانے کا ہے۔
اس کے علاوہ وہاں ہری سنگ کی حویلی ہے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا گورنر تھا جبکہ سڑک کے دوسری طرف دو مساجد ہیں۔ ہم نے وہاں سڑکیں، ریستوران، ٹائلٹ و دیگر اہم کام کیے ہیں جن سے سیاحت میں اضافہ ہوگا۔سکھر میں ہندوؤں کا سب سے بڑا مندر سادھو بیلا ہے۔اس کے حوالے سے بھی میں نے کام کیا ہے اور اس کی گرانٹ 5 لاکھ سے بڑھا کر 30 لاکھ کردی ہے۔میت بس کے لیے 15 لاکھ جبکہ مندر کے 20 لاکھ کے بجلی کے بل ادا کیے۔ اس کے علاوہ سر گنگا رام کی سمادھی ، کرشنا مندر اور پشاور میں مندروں کی مرمت اور بحالی کا کام جاری ہے۔ ہم تمام مذاہب کے لوگوں کو سہولیات فراہم کررہے ہیں تاکہ ان کی عبادات میں مشکلات پیدا نہ ہوں۔
بابا گرونانک کا کلام جب ضعیف ہوجاتا ہے تو اسے جلا کر پانی میں بہایا جاتا ہے ، انگیٹھا صاحب صرف بھارت میں تھا مگر اب میں نے یہاں نارووال میں بنا دیا ہے تاکہ ان کے کلام کی بے حرمتی نہ ہو اور اسے یہاں ہی بہا دیا جائے۔ میں نے جب چارج سنبھالا تو 24 سو مقدمات زیر التوا تھے۔ میرے پاس جوڈیشل پاور ہے لہٰذا میں نے مختلف شہروں میں خود عدالت لگا کر کیسز کا فیصلہ کیا اور مجرموں کو سزائیں دیں مگر مافیا دیگر عدالتوں سے حکم امتناعی لے آتا ہے جس کی وجہ سے رکاوٹیں ہیں۔ میں نے دن رات ایک کرکے ادارے کی بہتری کیلئے بہت زیادہ کام کیا ہے۔
3برس قبل 11 سو کے قریب سکھ پاکستان آتے تھے مگر میرے چارج سنبھالنے کے بعد موثر اقدامات سے اب یہ تعداد خاصی بڑھ چکی ہے اور ہم نے گزشتہ برس 34 سو بھارتی سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کیے ۔ چند روز قبل 600سے زائد سکھ دنیا بھر سے جبکہ 600سے زائد دیگر ممالک کے سکھ بھارت کے راستے پاکستان پہنچے ہیں۔اس کے علاوہ 25سو کے قریب بھارتی سکھوں کو میں نے واہگہ بارڈر پر خوش آمدید کہا۔ پاکستانی سکھ ملا کر 35ہزار سے زائد سکھ ہر سال ننکانہ صاحب کی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں جنہیں کھانا، رہائش، علاج اور سکیورٹی مفت فراہم کی جاتی ہے تاہم ان سے صرف ٹرانسپورٹ کے پیسے لیے جاتے ہیں۔ میں نے گزشتہ 3برسوں میں ادارے کی بہتری کے لیے بہت کام کیا ہے مگر اختیارات کی کمی کی وجہ سے مسائل ابھی بھی باقی ہیں۔
ہمارا ادارہ خود مختار ہے بھی اور نہیں بھی۔ میں نے اس حوالے سے وزیراعظم سے بات کی۔ 1975ء کے ایکٹ کے مطابق ہمیںا ختیارات مل سکتے ہیں مگر اس میں کچھ مشکلات بھی سامنے آئی ہیں ، ہم اس حوالے سے قانون سازی کررہے ہیں۔ اگر میرے پاس مکمل اختیارات ہوتے تو میں نے جتنا کام کیا ہے اس سے تین گنا زیادہ کام کرچکا ہوتا۔ مجھے آرام نہیں کام سے رغبت اور میں چھٹی والے دن بھی کام کرتا ہوں مگر کم اختیارات اور پیچیدہ عدالتی نظام کی وجہ سے میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اب تک میں تقریباََ 16 ارب روپے کی زمین واگزار کروا چکا ہوں۔ہمارے پاس ایک لاکھ 10ہزار ایکڑ زمین ہے اور ہماری اتنی ہی زمین پر لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ جس کے پاس تھوڑی طاقت ہے وہ ٹرسٹ کی زمین پر قبضہ چاہتا ہے اور ایسا صوبائی حکومتیں بھی چاہتی ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں ناجائز قابض لوگوں کو متنبہ کرنے کیلئے اشتہار دیا جائے گا کہ وہ قبضہ چھوڑ دیں یا پھر ہمیں کرایہ ادا کریں لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر 3 سال قید کیلئے تیار ہو جائیں۔اس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر کام شروع ہوجائے گا۔ محکمے میں کپیسٹی کا مسئلہ ہے جبکہ ملازمین بھی مسائل کھڑے کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ محکمہ ان کا ہے جبکہ چیئرمین نے تبدیل ہوجانا ہے،اس لیے وہ چیزیں چھپاتے ہیں اور مافیا سے مل جاتے ہیں۔ میں نے بہتر کام نہ کرنے پر 3 سیکرٹری برطرف کیے۔ ویب سائٹ بنائی گئی مگر اس میں مسائل تھے۔
اب نیسپاک کے ساتھ معاہدہ ہوگیا ہے جس کے بعد تمام ریکارڈ کمپیوٹرائز ہوجائے گا اور معاملات میں مزید بہتری آئے گی۔محکمے کے اندر سے گھوسٹ ملازمین کا خاتمہ کرنے میں کافی حد تک کامیابی ہوئی ہے تاہم لوگ عدالت سے حکم امتناعی لے آتے ہیں ۔ کرپشن کا خاتمہ بہت گھمبیر مسئلہ ہے۔ مجھے ایک کیس میں 5 ارب روپے کی پیشکش ہوئی جبکہ پورے ملک سے کھربوں روپے کی ٹرسٹ کی زمین کے حوالے سے چلنے والے مختلف مقدمات میں مجھے 20 ارب روپے کی پیشکش ہوئی ۔ میں نے کیسز کی سماعت کرلی ہے، جلد ان کا فیصلہ ہوجائے گا۔
آئینی حکومتوں کو توڑنے کی کوشش سے ادارے کمزور ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک پاکستان کے ہر مرض کا حل جمہوری اور آئینی نظام کے تسلسل میں ہے۔ اگر تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں گے اور پارلیمنٹ درست قانون سازی کرے گی تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے، نظام ٹھیک ہوگا اور کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا۔ سب جانتے ہیں کہ سابق چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ نے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ہم نے نیب کے ساتھ بھرپور تعاون کیامگر ان کے خلاف مقدمات نہیں چل سکے مگر اب ان کی کرپشن کے خلاف 2 ریفرنس دائر ہوچکے ہیں، ان کی گرفتاری کیلئے جلد چیئرمین نیب سے ملاقات کروں گا۔
3برس قبل جب میں نے ادارے کا چارج سنبھالا تو اس وقت یہ ادارہ 15 کروڑ روپے کے خسارے میں تھا۔ ایک سال بعد شرح سود 12فیصد سے 6فیصد پر آگئی جس کے باعث ہمیں سرمایہ کاری پر 21کروڑ روپے کا خسارہ ہوا یعنی کل خسارہ 36کروڑ روپے تھا۔ میں نے اس عرصے میں نہ صرف وہ خسارہ ختم کیا بلکہ 50کروڑ روپے منافع بھی بنایا یعنی کل آمدن 86 کروڑ روپے ہوئی۔ یہ آمدن اس سے بھی زیادہ ہوتی لیکن پیچیدہ عدالتی نظام اور کم اختیارات کے باعث کافی مشکلات ہیں۔
بدقسمتی سے وہ لوگ جو کرایہ کم دیتے ہیں یا ہماری زمینوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں وہ بار بار عدالتوں سے حکم امتناعی لے آتے ہیں جو بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر یہ مسائل نہ ہوتے تو میں آمدن میں ڈیڑھ سے دو ارب روپے اضافہ کرچکا ہوتا۔ خسارے کے علاوہ جو چیلنجز مجھے درپیش تھے ان میں محکمے کے اندر کرپشن، عملے کی نااہلی جبکہ ضرورت سے زائد ملازمین اور گھوسٹ ملازمین شامل ہیں۔ میں نے ان مسائل کو حل کرنے کیلئے دن رات ایک کیا۔ جب تک انسان اور شیطان ہیں، میرے نزدیک دنیا سے کرپشن ختم نہیں ہوسکتی مگر میں نے اس پر کافی حد تک قابو پالیا ہے۔
پہلے ملازمین اور افسران قبضہ مافیا کے ساتھ مک مکا کرلیتے تھے مگر اب کھلم کھلا کرپشن والی روایت دم توڑ چکی ہے کیونکہ اب کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ پہلے ملی بھگت سے نیلامی ہوا کرتی تھی مگر میں نے اسے بھی شفاف بنانے کی کوشش کی۔ اب بڑے اخبارات میں اشتہارات دیئے جاتے ہیں، کھلی نیلامیاں ہورہی ہیں جس کے بعد 3 گنا سے 8 گنا بولیاں زیادہ ہوئی ہیں۔اسی طرح خالی پلاٹوں کی نیلامی سے بھی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔
ہمارا ادارہ حکومت سے کچھ نہیں لیتا بلکہ اپنی آمدن سے ہی اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔ اگر سابق چیئرمین خدا خوفی سے کام لیتے تو اِس وقت ادارے کے پاس 10 ارب روپے ہوتے اور آمدن میں بھی بہت اضافہ ہوتا۔ میرے چارج سنبھالنے سے اب تک کے اقدامات سے اس وقت ادارے کی آمدن ڈیڑھ ارب روپے سالانہ ہے جس میں ابھی مزید اضافہ ہوگا۔ ہمارے 5تعلیمی ادارے ہیں جن کا سالانہ خسارہ 24 کروڑ روپے تھا، ان کی حالت بہتر کی گئی اور انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔ جہاں اساتذہ نہیں تھے ان کی بھرتی کی گئی اور شام کی کلاسوں کا بھی آغاز کیا گیا تاکہ تعلیم کو فروغ دیا جا سکے۔
اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جارہا ہے جس سے بچوں کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔ گرونانک دیو انٹرنیشنل یونیورسٹی اور گندھارا ہیریٹیج انٹرنیشنل یونیورسٹی ، دونوں کیلئے 3، 3 ارب روپے منظور ہوچکے ہیں، مارچ 2016ء میں ان کے وفاقی دارلحکومت میں قائم مین کیمپس میںایم فل اور ریسرچ کلاسز کا آغاز ہوجائے گا۔ بعدازاں ٹیکسلا میں گندھارا ہیریٹیج انٹرنیشنل یونیورسٹی اور ننکانہ صاحب میں گرونانک دیو انٹرنیشنل یونیورسٹی قائم کی جائے گی جہاں طلبہ کی زیادہ تعداد ہوگی۔
محکمے کے تحت اقلیتوں کی خدمت کا کام جاری ہے۔میں ''ملک اور مذہب اپنا اپنا لیکن انسانیت سانجھی'' کے نعرے پر کام کررہا ہوں اور تمام مذاہب کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہوں۔پشاور میں بھائی بیبا صاحب گردوارہ، ننکانہ صاحب میں 2گردوارے اور کیارہ صاحب گردوارہ ، جو 70سال سے بند تھے میں نے انہیں بحال کیا۔ ننکانہ صاحب میں امرت جل جو سکھوں کا مقدس پانی ہے 67 برس سے اس کا مسئلہ تھا، میں نے 17دن میں وہ مسئلہ حل کرکے وہاں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جس کے بعد اب امرت جل بوتلوں میں بند کرکے ایکسپورٹ کیا جائے گا جس کا 2 روپے فی لیٹر گردواروں کی بہتری کیلئے استعمال کیا جائے گا۔
یہ امرت جل بغیر کیمیکل کے ہوگا اور اس کی شیلف لائف 5سال ہوگی۔ 4ٹوور پروموٹر بھی بھرتی کرلیے گئے ہیں جو دیگر ممالک سے آئے یاتریوں کی معاونت کریں گے۔ یہ 100 ڈالر فی یاتری محکمے کو دیں گے جس سے آمدن میں اضافہ ہوگا۔ میں نے ننکانہ صاحب میں موجود جنم استھان کی اعلیٰ تزین و آرائش کروائی ہے جو دیدنی ہے۔ ننکانہ صاحب، پنجا صاحب، کرتار پور اور کٹاس راج میں کمرے خستہ حال تھے، وہاں اب سینکڑوں کمرے تعمیر کیے جاچکے ہیں جبکہ ابھی مزید سینکڑوں کمرے تعمیر کیے جائیں گے اور بعض جگہ ابھی تعمیر جاری ہے۔
کٹاس راج میں نواز شریف نے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا افتتاح کیا کیونکہ وہاں ہندوؤں کا ایک بڑااستھان ہے۔وہاں ہزاروں درخت لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں دو غاریں دریافت کرکے انہیں محفوظ جبکہ ایک کنواں جو 2ہزار برس سے ملبے تلے دبا ہوا تھا اسے دریافت کرکے بحال کیا گیاہے۔ ہم نے مندروں کو جدید تقاضوں کے مطابق بحال کیا ہے۔ کٹاس راج میں 4 مختلف تہذیبیں ہیں۔ وہاں ہندومت کے ہزاروں برس پرانے مندر ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کا اسٹوپا ہے جو اشوکا کے زمانے کا ہے۔
اس کے علاوہ وہاں ہری سنگ کی حویلی ہے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا گورنر تھا جبکہ سڑک کے دوسری طرف دو مساجد ہیں۔ ہم نے وہاں سڑکیں، ریستوران، ٹائلٹ و دیگر اہم کام کیے ہیں جن سے سیاحت میں اضافہ ہوگا۔سکھر میں ہندوؤں کا سب سے بڑا مندر سادھو بیلا ہے۔اس کے حوالے سے بھی میں نے کام کیا ہے اور اس کی گرانٹ 5 لاکھ سے بڑھا کر 30 لاکھ کردی ہے۔میت بس کے لیے 15 لاکھ جبکہ مندر کے 20 لاکھ کے بجلی کے بل ادا کیے۔ اس کے علاوہ سر گنگا رام کی سمادھی ، کرشنا مندر اور پشاور میں مندروں کی مرمت اور بحالی کا کام جاری ہے۔ ہم تمام مذاہب کے لوگوں کو سہولیات فراہم کررہے ہیں تاکہ ان کی عبادات میں مشکلات پیدا نہ ہوں۔
بابا گرونانک کا کلام جب ضعیف ہوجاتا ہے تو اسے جلا کر پانی میں بہایا جاتا ہے ، انگیٹھا صاحب صرف بھارت میں تھا مگر اب میں نے یہاں نارووال میں بنا دیا ہے تاکہ ان کے کلام کی بے حرمتی نہ ہو اور اسے یہاں ہی بہا دیا جائے۔ میں نے جب چارج سنبھالا تو 24 سو مقدمات زیر التوا تھے۔ میرے پاس جوڈیشل پاور ہے لہٰذا میں نے مختلف شہروں میں خود عدالت لگا کر کیسز کا فیصلہ کیا اور مجرموں کو سزائیں دیں مگر مافیا دیگر عدالتوں سے حکم امتناعی لے آتا ہے جس کی وجہ سے رکاوٹیں ہیں۔ میں نے دن رات ایک کرکے ادارے کی بہتری کیلئے بہت زیادہ کام کیا ہے۔
3برس قبل 11 سو کے قریب سکھ پاکستان آتے تھے مگر میرے چارج سنبھالنے کے بعد موثر اقدامات سے اب یہ تعداد خاصی بڑھ چکی ہے اور ہم نے گزشتہ برس 34 سو بھارتی سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کیے ۔ چند روز قبل 600سے زائد سکھ دنیا بھر سے جبکہ 600سے زائد دیگر ممالک کے سکھ بھارت کے راستے پاکستان پہنچے ہیں۔اس کے علاوہ 25سو کے قریب بھارتی سکھوں کو میں نے واہگہ بارڈر پر خوش آمدید کہا۔ پاکستانی سکھ ملا کر 35ہزار سے زائد سکھ ہر سال ننکانہ صاحب کی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں جنہیں کھانا، رہائش، علاج اور سکیورٹی مفت فراہم کی جاتی ہے تاہم ان سے صرف ٹرانسپورٹ کے پیسے لیے جاتے ہیں۔ میں نے گزشتہ 3برسوں میں ادارے کی بہتری کے لیے بہت کام کیا ہے مگر اختیارات کی کمی کی وجہ سے مسائل ابھی بھی باقی ہیں۔
ہمارا ادارہ خود مختار ہے بھی اور نہیں بھی۔ میں نے اس حوالے سے وزیراعظم سے بات کی۔ 1975ء کے ایکٹ کے مطابق ہمیںا ختیارات مل سکتے ہیں مگر اس میں کچھ مشکلات بھی سامنے آئی ہیں ، ہم اس حوالے سے قانون سازی کررہے ہیں۔ اگر میرے پاس مکمل اختیارات ہوتے تو میں نے جتنا کام کیا ہے اس سے تین گنا زیادہ کام کرچکا ہوتا۔ مجھے آرام نہیں کام سے رغبت اور میں چھٹی والے دن بھی کام کرتا ہوں مگر کم اختیارات اور پیچیدہ عدالتی نظام کی وجہ سے میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اب تک میں تقریباََ 16 ارب روپے کی زمین واگزار کروا چکا ہوں۔ہمارے پاس ایک لاکھ 10ہزار ایکڑ زمین ہے اور ہماری اتنی ہی زمین پر لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ جس کے پاس تھوڑی طاقت ہے وہ ٹرسٹ کی زمین پر قبضہ چاہتا ہے اور ایسا صوبائی حکومتیں بھی چاہتی ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں ناجائز قابض لوگوں کو متنبہ کرنے کیلئے اشتہار دیا جائے گا کہ وہ قبضہ چھوڑ دیں یا پھر ہمیں کرایہ ادا کریں لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر 3 سال قید کیلئے تیار ہو جائیں۔اس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر کام شروع ہوجائے گا۔ محکمے میں کپیسٹی کا مسئلہ ہے جبکہ ملازمین بھی مسائل کھڑے کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ محکمہ ان کا ہے جبکہ چیئرمین نے تبدیل ہوجانا ہے،اس لیے وہ چیزیں چھپاتے ہیں اور مافیا سے مل جاتے ہیں۔ میں نے بہتر کام نہ کرنے پر 3 سیکرٹری برطرف کیے۔ ویب سائٹ بنائی گئی مگر اس میں مسائل تھے۔
اب نیسپاک کے ساتھ معاہدہ ہوگیا ہے جس کے بعد تمام ریکارڈ کمپیوٹرائز ہوجائے گا اور معاملات میں مزید بہتری آئے گی۔محکمے کے اندر سے گھوسٹ ملازمین کا خاتمہ کرنے میں کافی حد تک کامیابی ہوئی ہے تاہم لوگ عدالت سے حکم امتناعی لے آتے ہیں ۔ کرپشن کا خاتمہ بہت گھمبیر مسئلہ ہے۔ مجھے ایک کیس میں 5 ارب روپے کی پیشکش ہوئی جبکہ پورے ملک سے کھربوں روپے کی ٹرسٹ کی زمین کے حوالے سے چلنے والے مختلف مقدمات میں مجھے 20 ارب روپے کی پیشکش ہوئی ۔ میں نے کیسز کی سماعت کرلی ہے، جلد ان کا فیصلہ ہوجائے گا۔
آئینی حکومتوں کو توڑنے کی کوشش سے ادارے کمزور ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک پاکستان کے ہر مرض کا حل جمہوری اور آئینی نظام کے تسلسل میں ہے۔ اگر تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں گے اور پارلیمنٹ درست قانون سازی کرے گی تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے، نظام ٹھیک ہوگا اور کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا۔ سب جانتے ہیں کہ سابق چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ نے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ہم نے نیب کے ساتھ بھرپور تعاون کیامگر ان کے خلاف مقدمات نہیں چل سکے مگر اب ان کی کرپشن کے خلاف 2 ریفرنس دائر ہوچکے ہیں، ان کی گرفتاری کیلئے جلد چیئرمین نیب سے ملاقات کروں گا۔