زمانے میں پنپنے کی یہ باتیں
اداروں، افراد، گروہوں اور عہدیداران کے سا منے ریاستِ پاکستان کے حقیقی مقاصد اور عوام کی حیثیت کم تر قرار پاتے رہے
قائداعظمؒ ہندوستان کے چوٹی کے قانون دان اور سیاست دان تھے جو طویل عرصے تک ہندوستان کی وحدت کو مقدم جانتے ہوئے مسلم اقلیت کی ریاستی امور میں نمائندگی اور حقوق کے آئینی تحفظ کے حصول کی خاطر بھرپور سیاسی کوششیں جاری رکھے رہے۔ تبدیل ہوتے وقت اور حالات و واقعات کے دھارے نے آئینی حقوق کے اس مسئلے کے حل سے متعلق قائداعظمؒ کے نقطہ نظر اور لائحہ عمل میں بھی بتدریج تبدیلی پیدا کی جو بالآخر تقسیمِ ہند، علیحدہ ریاست کے مطالبے اورپھر ریاستِ پاکستان کے وجود میں آنے پر منتج ہوئی۔ حصولِ پاکستان کا اولین مقصد ہندوستان کی مسلم اقلیت کےلیے ایسی ریاست کا قیام تھا جہاں اس اقلیت کو مکمل آئینی حقوق میسر ہوں اور اس کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، مذہبی، غرض تمام تر مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔
قائداعظمؒ نے 11 اگست 1947 کے دن نومولود ریاست کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران کاروبارِ ریاست سے متعلق چند اصول بیان فرمائے تھے جن کے تحت قائداعظمؒ کا پاکستان ایک جمہوری ریاست تھا جس کا مقصد جمہور کی فلاح و بہبود اور جان و مال و عزت کا تحفظ تھا۔ ریاست کا ہر باشندہ رنگ، نسل اور مذہبی تشخص سے بالاتر ہو کر محض ریاست کا شہری تصور کیا جانا تھا۔ ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہونا تھے۔ ریاست کی طرف سے ہر شہری کو معاشی، معاشرتی، ذہنی، جسمانی و مذہبی آزادی کی فراہمی اور یقین دہانی تھی جبکہ ریاست کسی طور کسی شہری سے کسی بھی طرح کا امتیاز برتنے کی مجاز نہیں تھی۔ حقِ حکمرانی عوامی نمائندگان کا تھا اور مقننہ اعلی ترین ادارہ قرار پایا تھا۔ ایک ایسی جمہوری ریاست تشکیل پانا تھی جس کی عوامی حکومت آئین کے تحت حسنِ انتظام سے ریاست کے مقاصد کو ریاستی اداروں کے ذریعے یقینی بناتی!
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ قائداعظمؒ کے انتقال کے بعد مسلم لیگ کے کمزور انتظامی ڈھانچے اور لیاقت علی خان شہید کے علاوہ مضبوط مرکزی رہنماؤں کے فقدان کے باعث جو سیاسی خلا پیدا ہوا اُسے مفاد پرست گروہوں، قدامت پسند عناصر، افسر شاہی اور ریاستی اداروں کے نمائندگان نے پُر کیا اور امورِ ریاست میں شمولیت حاصل کرکے بھرپور انداز سے ریاست کو اپنی اپنی مخصوص سوچ، مفادات اور نظریئے کے رنگ میں رنگنے کی سعی کی، یہ بھول کر کہ ریاست کی سمت کا تعین تو کیا جا چکا تھا جبکہ ذمہ دار اَفراد اور اِداروں سے محض اتنی توقع تھی کہ اسے متعین کردہ راہ پر قائداعظمؒ کی جانب سے طے شدہ اصولوں پر چلائے رکھتے۔ انجامِ کار اس کا یہ ہوا کہ وہ نظریاتی ریاست جس کے پاس اپنے مقاصد کی تکمیل کے واسطے ادارے اور ذمہ دار افراد ہونا تھے، وہی ریاست اداروں، افراد اور گروہوں کے متفرق مقاصد و نظریات کی تکمیل کا ذریعہ بن گئی۔
ادارے، افراد، گروہ، عہدے اور انہی کے نظریات اور مقاصد افضل جبکہ ریاستِ پاکستان، اس کے حقیقی ریاستی مقاصد اور اصل دعوے دار عوام کی حیثیت کم تر اور ذیلی قرار پاتی رہی۔ یہی غیرمعمولی، غیر ضروری، غیر جمہوری اور ناقص صورتحال جسے ان عناصر کی جانب سے وسیع تر عوامی، قومی و مذہبی مقاصد کے نام پر معمول کی صورتحال بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے، ریاستِ پاکستان کی بنیادی ناکامیوں کا سبب بنتی رہی ہے۔ ان عناصر کے نظریات کا ترجمان بیانیہ، ریاست کے بیانیے کے طور پر ابھارا جاتا رہا ہے۔ ریاست عوامی امنگوں کے بجائے انہی عناصر کی خواہشات، نظریات اور تجربات کی ٹنڈ منڈ بیلوں پر پروان چڑھتی رہی ہے۔ ریاست کی معیشت کا پہیہ عوام کی فلاح اور معاشی آسودگی کی خاطر نہیں بلکہ ریاست پر حاوی ان عناصر کی ترجیحات کی تسکین کے مقصد سے گھومتا رہا ہے۔ ریاست کے جن ستونوں کو اعلی ترین حیثیت میں ریاستی مقاصد کی تکمیل کرنا تھی، عوام کےلیے انہی کو نفرت انگیز اور ہیچ جنس بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ جن عناصر کو آئینی حدود میں رہ کر عوامی خدمات سر انجام دینا تھیں وہی آئین کو جیب میں ڈال کر خود ساختہ ذمہ داریاں نبھانے پر مامور رہے ہیں۔
مکمل ذہنی، شخصی اور سیاسی آزادی کے ماحول میں ریاست سے متعلق عوام کے جس اجتماعی قومی شعور کو پروان چڑھنا تھا اسی شعورکو انہی عناصر کی جانب سے ہر سطح پر مخصوص و محدود فضا پیدا کرکے اپنے نظریات اور مقاصد سے ہم آہنگ کیاجاتا رہا ہے۔ عوام کا کردار ثانوی بنایا گیا، جن کا کام محض تماشا دیکھنا، معیشت کی چکی کا ایندھن بن کر ان عناصر اور مقاصد کےلیے وسائل کو قابلِ استعمال بنانا، مذہب کی بنیاد پرتفریق کرنا، جمہوریت کو مرض اور سیاستدان کو کوڑھی جاننا، سیاسی نظام اور اس کے تسلسل کو بے کار سمجھنا، دشمنوں کے خوف میں مبتلا رہنا، مسخ تاریخ کو آخری سچ ماننا، روزمرہ کی تمام تر تکالیف و الجھنوں کی وجہ نااہل سیاسی حکومت کو گرداننا جبکہ حیات کے تمام مصائب کے واحد دائمی حل کےلیے ایک عدد مسیحا کی تلاش اور اس کے دورِ حکومت کے انتظار میں دن گنتے رہنا ہے۔
آج قائد اعظم کا نظریہِ ریاستِ پاکستان پیچھے رہ چکا جبکہ اداروں، افراد اور گروہوں کا نظریہ ریاست بن چکا ہے۔ جمہوریت جو بظاہر جمہوری حکومت کی صورت میں دکھائی دیتی ہے اختیارات، فیصلہ اور پالیسی سازی میں مکمل آزاد نہیں!
افسوس کہ زمانے میں پنپنے کی یہ باتیں نہیں! پاکستان کو کسی بھی طور پر جدید جمہوری ریاست میں تبدیل کرنا ہے تو ریاست کے اداروں کو آئینی حدود میں کام کرنا سیکھنا ہوگا۔ یہ سمجھنا اور برداشت کرنا پڑے گا کہ حکومت کی تشکیل عوامی استحقاق ہے اور مقننہ ریاست کا اعلی ترین ادارہ۔ اسی طرح افراد اور گروہ ریاستی امور میں براہ راست مداخلت کا اختیار نہیں رکھتے جبکہ تسلسل سے چلتا رہنے والا آزاد جمہوری نظامِ حکومت جدید دنیا میں ترقی اور عزت کے حصول کی سیڑھی ہے جو ایک مرحلہ وار عمل ہے اور جس کےلیے کوئی شارٹ کٹ بھی موجود نہیں۔
ریاست غیر جمہوری عناصر کے ہاتھ میں کھیلتی رہے گی تو ہر مرحلے پر ناکامی طے ہے۔ ریاست عوامی مقاصد کو بھول جائے تو سالمیت کا خطرے میں پڑجانا طے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اب بھی نہیں سیکھیں گے تو پھر کب سیکھیں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
قائداعظمؒ نے 11 اگست 1947 کے دن نومولود ریاست کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران کاروبارِ ریاست سے متعلق چند اصول بیان فرمائے تھے جن کے تحت قائداعظمؒ کا پاکستان ایک جمہوری ریاست تھا جس کا مقصد جمہور کی فلاح و بہبود اور جان و مال و عزت کا تحفظ تھا۔ ریاست کا ہر باشندہ رنگ، نسل اور مذہبی تشخص سے بالاتر ہو کر محض ریاست کا شہری تصور کیا جانا تھا۔ ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہونا تھے۔ ریاست کی طرف سے ہر شہری کو معاشی، معاشرتی، ذہنی، جسمانی و مذہبی آزادی کی فراہمی اور یقین دہانی تھی جبکہ ریاست کسی طور کسی شہری سے کسی بھی طرح کا امتیاز برتنے کی مجاز نہیں تھی۔ حقِ حکمرانی عوامی نمائندگان کا تھا اور مقننہ اعلی ترین ادارہ قرار پایا تھا۔ ایک ایسی جمہوری ریاست تشکیل پانا تھی جس کی عوامی حکومت آئین کے تحت حسنِ انتظام سے ریاست کے مقاصد کو ریاستی اداروں کے ذریعے یقینی بناتی!
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ قائداعظمؒ کے انتقال کے بعد مسلم لیگ کے کمزور انتظامی ڈھانچے اور لیاقت علی خان شہید کے علاوہ مضبوط مرکزی رہنماؤں کے فقدان کے باعث جو سیاسی خلا پیدا ہوا اُسے مفاد پرست گروہوں، قدامت پسند عناصر، افسر شاہی اور ریاستی اداروں کے نمائندگان نے پُر کیا اور امورِ ریاست میں شمولیت حاصل کرکے بھرپور انداز سے ریاست کو اپنی اپنی مخصوص سوچ، مفادات اور نظریئے کے رنگ میں رنگنے کی سعی کی، یہ بھول کر کہ ریاست کی سمت کا تعین تو کیا جا چکا تھا جبکہ ذمہ دار اَفراد اور اِداروں سے محض اتنی توقع تھی کہ اسے متعین کردہ راہ پر قائداعظمؒ کی جانب سے طے شدہ اصولوں پر چلائے رکھتے۔ انجامِ کار اس کا یہ ہوا کہ وہ نظریاتی ریاست جس کے پاس اپنے مقاصد کی تکمیل کے واسطے ادارے اور ذمہ دار افراد ہونا تھے، وہی ریاست اداروں، افراد اور گروہوں کے متفرق مقاصد و نظریات کی تکمیل کا ذریعہ بن گئی۔
ادارے، افراد، گروہ، عہدے اور انہی کے نظریات اور مقاصد افضل جبکہ ریاستِ پاکستان، اس کے حقیقی ریاستی مقاصد اور اصل دعوے دار عوام کی حیثیت کم تر اور ذیلی قرار پاتی رہی۔ یہی غیرمعمولی، غیر ضروری، غیر جمہوری اور ناقص صورتحال جسے ان عناصر کی جانب سے وسیع تر عوامی، قومی و مذہبی مقاصد کے نام پر معمول کی صورتحال بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے، ریاستِ پاکستان کی بنیادی ناکامیوں کا سبب بنتی رہی ہے۔ ان عناصر کے نظریات کا ترجمان بیانیہ، ریاست کے بیانیے کے طور پر ابھارا جاتا رہا ہے۔ ریاست عوامی امنگوں کے بجائے انہی عناصر کی خواہشات، نظریات اور تجربات کی ٹنڈ منڈ بیلوں پر پروان چڑھتی رہی ہے۔ ریاست کی معیشت کا پہیہ عوام کی فلاح اور معاشی آسودگی کی خاطر نہیں بلکہ ریاست پر حاوی ان عناصر کی ترجیحات کی تسکین کے مقصد سے گھومتا رہا ہے۔ ریاست کے جن ستونوں کو اعلی ترین حیثیت میں ریاستی مقاصد کی تکمیل کرنا تھی، عوام کےلیے انہی کو نفرت انگیز اور ہیچ جنس بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ جن عناصر کو آئینی حدود میں رہ کر عوامی خدمات سر انجام دینا تھیں وہی آئین کو جیب میں ڈال کر خود ساختہ ذمہ داریاں نبھانے پر مامور رہے ہیں۔
مکمل ذہنی، شخصی اور سیاسی آزادی کے ماحول میں ریاست سے متعلق عوام کے جس اجتماعی قومی شعور کو پروان چڑھنا تھا اسی شعورکو انہی عناصر کی جانب سے ہر سطح پر مخصوص و محدود فضا پیدا کرکے اپنے نظریات اور مقاصد سے ہم آہنگ کیاجاتا رہا ہے۔ عوام کا کردار ثانوی بنایا گیا، جن کا کام محض تماشا دیکھنا، معیشت کی چکی کا ایندھن بن کر ان عناصر اور مقاصد کےلیے وسائل کو قابلِ استعمال بنانا، مذہب کی بنیاد پرتفریق کرنا، جمہوریت کو مرض اور سیاستدان کو کوڑھی جاننا، سیاسی نظام اور اس کے تسلسل کو بے کار سمجھنا، دشمنوں کے خوف میں مبتلا رہنا، مسخ تاریخ کو آخری سچ ماننا، روزمرہ کی تمام تر تکالیف و الجھنوں کی وجہ نااہل سیاسی حکومت کو گرداننا جبکہ حیات کے تمام مصائب کے واحد دائمی حل کےلیے ایک عدد مسیحا کی تلاش اور اس کے دورِ حکومت کے انتظار میں دن گنتے رہنا ہے۔
آج قائد اعظم کا نظریہِ ریاستِ پاکستان پیچھے رہ چکا جبکہ اداروں، افراد اور گروہوں کا نظریہ ریاست بن چکا ہے۔ جمہوریت جو بظاہر جمہوری حکومت کی صورت میں دکھائی دیتی ہے اختیارات، فیصلہ اور پالیسی سازی میں مکمل آزاد نہیں!
افسوس کہ زمانے میں پنپنے کی یہ باتیں نہیں! پاکستان کو کسی بھی طور پر جدید جمہوری ریاست میں تبدیل کرنا ہے تو ریاست کے اداروں کو آئینی حدود میں کام کرنا سیکھنا ہوگا۔ یہ سمجھنا اور برداشت کرنا پڑے گا کہ حکومت کی تشکیل عوامی استحقاق ہے اور مقننہ ریاست کا اعلی ترین ادارہ۔ اسی طرح افراد اور گروہ ریاستی امور میں براہ راست مداخلت کا اختیار نہیں رکھتے جبکہ تسلسل سے چلتا رہنے والا آزاد جمہوری نظامِ حکومت جدید دنیا میں ترقی اور عزت کے حصول کی سیڑھی ہے جو ایک مرحلہ وار عمل ہے اور جس کےلیے کوئی شارٹ کٹ بھی موجود نہیں۔
ریاست غیر جمہوری عناصر کے ہاتھ میں کھیلتی رہے گی تو ہر مرحلے پر ناکامی طے ہے۔ ریاست عوامی مقاصد کو بھول جائے تو سالمیت کا خطرے میں پڑجانا طے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اب بھی نہیں سیکھیں گے تو پھر کب سیکھیں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔