احتجاجی سیاست میں ڈھلی انتخابی سرگرمیاں

ٹرین مارچ کے ذریعے شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کی کوشش


Arif Aziz March 05, 2013
ٹرین مارچ کے ذریعے شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کی کوشش۔ فوٹو: فائل

مسلسل بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات سے جہاں عام زندگی شدید متأثر ہورہی ہے، وہیں کراچی میں پُرامن طریقے سے انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آرہا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سال اقتدار میں رہنے کے بعد رخصت ہونے والی ہے اور نگراں سیٹ اپ کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔ کراچی میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابی مہم کا سلسلہ چند ماہ کے دوران سوگ منانے، ہڑتالوں، مختلف ایشوز پر احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے ٹوٹتا رہا ہے، لیکن اسی عرصے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مخالف جماعتوں کے قائدین کے درمیان ملاقاتیں، سیاسی گٹھ جوڑ اور انتخابی اتحاد کے اعلانات بھی ہوتے رہے۔

اس کے ساتھ ساتھ عدالت کے حکم پر الیکشن کمیشن کی طرف سے ووٹر لسٹوں کی تصدیق کا عمل اور نئی حلقہ بندیوں کا شور بھی سنائی دیتا رہا، اور اب اس معاملے کو اپوزیشن جماعتوں کا 'ٹرین مارچ' اسلام آباد لے گیا ہے۔ کراچی سے اتوار کے دن یہ 'ٹرین مارچ' راول پنڈی کے لیے روانہ ہوا۔ اس موقع پر اس میں شامل سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کے علاوہ بڑی تعداد میں ان کے کارکنان ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے۔ مارچ میں جماعت اسلامی، مسلم لیگ(ن)، جمعیت علمائے پاکستان، عوامی مسلم لیگ، سندھ ترقی پسند پارٹی، جمعیت علمائے اسلام(س)، مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔

ٹرین مارچ کے راول پنڈی پہنچنے کے بعد شرکاء قافلے کی صورت میں وہاں سے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے آفس تک جائیں گے۔ اس مارچ کی وجہ کراچی میں بدامنی، ٹارگیٹ کلنگ، کراچی میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق بعض معاملات پر سیاسی جماعتوں کے شدید تحفظات ہیں۔ اس مارچ کی قیادت جماعت اسلامی (سندھ) کے امیر ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی کررہے ہیں۔ اسلام آباد میں سیاسی قائدین چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات میں انھیں ایک یاد داشت پیش کریں گے۔

ٹرین مارچ میں جماعت اسلامی (سندھ) کے جنرل سیکریٹری ممتاز سہتو، کراچی کے امیر محمد حسین محنتی، سیکریٹری نسیم صدیقی، نائب امراء راجا عارف سلطان، نصراللہ خان شجیع، سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری، مسلم لیگ(ن) کے راہ نما سلیم ضیاء، مسلم لیگ فنکشنل کے شاہد سومرو، جمعیت علمائے پاکستان کے راہ نما مستقیم نورانی، عوامی مسلم لیگ کے محفوظ یار خان ایڈووکیٹ، سندھ ترقی پسند پارٹی کے گلزار سومرو اور دیگر شریک ہیں۔ اتوار کے دن روانگی سے قبل کینٹ اسٹیشن پر جلسہ منعقد کیا گیا، جس سے ان راہ نماؤں نے خطاب کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی نے کہا کہ شہر کو یرغمال بنا لیا گیا ہے، انتخابی فہرستیں دہشت گردوں کے کہنے پر بنائی جاتی ہیں، تصدیق کا عمل مکمل ہونے کے باوجود 22 لاکھ ووٹروں کا اضافہ کردیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ٹرین مارچ محبت اور جمہوریت کا قافلہ ہے، ہم عوام کو محفوظ اور کراچی کو ایک مرتبہ پھر روشنیوں کا شہر بنائیں گے۔ اویس نورانی نے کہا کہ دہشت گردوں، بھتا خوروں اور ٹارگیٹ کلرز کے خلاف یہ ٹرین مارچ ایک ریفرنڈم ثابت ہوگا، الیکشن کمیشن آئین کے بجائے ایک سیاسی گروہ کی وفاداری کر رہا ہے، حلقہ بندیوں کے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔ سلیم ضیاء نے کہا کہ ہم الیکشن چاہتے ہیں، سلیکشن نہیں۔ کراچی میں انتخابات دھونس اور دھاندلی سے ہوتے ہیں اور اسی لیے آج کراچی میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ متحدہ کا مینڈیٹ جعلی ہے۔ اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ انتخابی فہرستوں میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں کی گئی ہیں، ہمارے تحفظات کے باوجود فہرستیں درست نہیں کی گئیں، پیپلزپارٹی اور متحدہ دھاندلی پر تلی ہوئی ہے۔

ممتاز سہتو نے کہا کہ عوام کسی کو دھاندلی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اگر ووٹر لسٹیں درست نہ کی گئیں تو جمہوریت کا دعویٰ جھوٹ ثابت ہو گا۔ محمد حسین محنتی نے کہا کہ ٹرین مارچ شہر میں امن وامان کے قیام اور شفاف ووٹر لسٹوں کے لیے ہے، شفاف انتخابات کے ذریعے ہی ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ ان کے علاوہ خطاب کرنے والے راہ نماؤں نے کراچی کے خراب حالات پر پی پی پی کی موجودہ حکومت اور متحدہ قومی موومنٹ پر کڑی تنقید کی اور ووٹرلسٹوں کی درستی کو شفاف انتخابات کے لیے لازمی قرار دیتے ہوئے اپنے مطالبات دہرائے۔ اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتیں کراچی میں مختلف صورتوں میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے ساتھ ساتھ صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے دھرنے بھی دے چکی ہیں اور اب ٹرین مارچ بھی ان کی طرف سے ایک بڑی سیاسی کوشش شُمار کی جارہی ہے۔

اُدھر گذشتہ دنوں کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر عدالت نے کہا کہ اس کے لیے الیکشن کمیشن میں نیت، ارادے اور لگن کی کمی ہے، جب کہ چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ یہ مردم شماری کے بغیر ممکن نہیں اور اب عام انتخابات کا وقت قریب ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے اگر مردم شماری کے بغیر یہ ممکن ہے تو الیکشن کمیشن کو اس کا طریقۂ کار بھی بتایا جائے اور اس ضمن میں معاونت کی جائے۔ اس وقت مقامی سیاست میں عدالتی حکم اور الیکشن کمشنر کے بیانات زیرِ بحث ہیں۔

پچھلے ہفتے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کراچی پہنچے اور یہاں مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا سے ملاقات کی، جس کے بعد پریس کانفرنس میں ان جماعتوں کے مابین انتخابی اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ ن لیگ کی اعلی قیادت سندھ کی سطح پر انتخابی میدان مارنے کے لیے سیاسی جماعتوں سے مسلسل رابطوں میں ہے اور قومی سطح پر سیاست کرنے والی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سندھی قوم پرستوں سے بھی ہاتھ ملا رہی ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی راہ نما لیاقت علی جتوئی نے اپنی رہایش گاہ پر پریس کانفرنس میں کہاکہ ہم الیکشن کمیشن کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان پہلے دن سے ہی ڈراما چل رہا ہے۔ ایم کیو ایم انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کے لیے اپوزیشن میں بیٹھی ہے۔

دوسری طرف ایم کیوایم اپنے سیاسی اور انتخابی سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں ہفتے کے دن قومی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 249 میں ڈاکٹر فاروق ستار نے مختلف ترقیاتی منصوبوںکی افتتاحی تقریب کے موقع پر شرکاء سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے بعد ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو سَحر کی نوید ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہمیں اقتدار ملا تو پاکستان کی ہر گلی، محلے اور ایک ایک گھر تک جمہوریت کے ثمرات پہنچائیں گے۔ ہمیں اپنے ووٹ کے ذریعے پاکستان سے جاگیرداروں اور وڈیروں کی موروثی سیاست کا خاتمہ کرنا ہو گا، ملک کے عوام کے درمیان زبان کی بنیاد پرکوئی لڑائی نہیں، یہ باتیں جاگیرداروں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے پھیلائی ہیں اور وہی سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس موقع پر ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے اراکینِ اسمبلی، ذمے داران، کارکنان اور عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔

پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے زیر صدارت 10 اتحادی جماعتوں کا اجلاس اتوار کے دن لیگی راہ نما حاجی خدابخش راجڑ کی رہایش گاہ پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں امتیاز احمد شیخ، جام مدد علی خان، حاجی خدا بخش راجڑ، کامران ٹیسوری، ن لیگ کے سلیم ضیاء، عرفان اللہ مروت، نیشنل پیپلزپارٹی کے نعیم الرحمن، جماعت اسلامی کے مولانا اسد اللہ بھٹو، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ڈاکٹر خالد محمود سومرو، جمعیت علمائے پاکستان کے صاحبزادہ اویس نورانی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے راہ نماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر دس رُکنی پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا گیا، جو عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے خلاف ہر حلقے پر ون ٹو ون مقابلے کے لیے امیدوارں کی فہرست کو حتمی شکل دے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔