دیرینہ کارکن پی پی پی کا ساتھ چھوڑ گئے
مقامی قیادت ناراض ساتھیوں کو منانے میں ناکام رہی
پاکستان پیپلزپارٹی نواب شاہ ضلع میں مضبوط سیاسی جماعت تصور کی جاتی ہے اور ضلع کو پیپلز پارٹی کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے، لیکن اب اس قلعے میں دراڑیں پڑتی نظر آرہی ہیں۔
ماضی کے اوراق الٹے جائیں تو معلوم ہو گا کہ اس جماعت کے پاس بڑی تعداد میں جاں نثار اور بلند حوصلہ لوگ تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران پیپلزپارٹی کے سید ولی محمد شاہ عرف جنرل شاہ نے جنرل ضیاء کو چیلنج کیا تھاکہ وہ سٹھ میل سے بذریعہ سڑک گزر کر دکھائیں۔ اسی طرح نواب شاہ میں پیپلز پارٹی کے بلاول رند، غلام مصطفیٰ کورائی، عبدالستار جمالی، عبدالکریم بڑدی نے جیے بھٹو کے نعرے لگاکر آمریت کے دنوں میں بھی پی پی کے پرچم کو بلند رکھا۔ فقیر فیض محمد ہیسبانی زمانۂ طالب علمی ہی سے پارٹی سے وابستہ تھے، کئی سال جیل بھی کاٹی اور بحالی جمہوریت کی تحریک میں پولیس سے آنکھ مچولی بھی کھیلتے رہے۔
خیر محمد ایک ایسا وفادار کارکن ثابت ہوا، جس نے دباؤ کے باوجود پی پی سے اپنی وفاداری ختم نہیں کی اور 1983 کی تحریک، 1986 کی تحریک میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ عبدالکریم بڑدی جیسا ورکر بھی پی پی پی کو اب نہیں مل سکے گا، دوست علی رند، شیر افضل اعوان، عنایت علی رند جیسے سرفروش کارکن پی پی میں اب ناپید ہو چکے ہیں۔ جنرل ضیاء کے بعد پرویز مشرف نے بھی اپنی آمریت کے دور میں پی پی کے قلعے میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی، جس میں ناکامی ہوئی، مگر آج یہ مضبوط قلعہ برباد ہوتا نظر آرہا ہے۔ قیادت کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کے باعث ناراض اور عرصے تک خاموش رہنے والے کارکنوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ رہے ہیں اور وہ لب کشائی کر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے انتہائی سرگرم کارکن سید باغ علی شاہ کو بھی پارٹی نے نظر انداز کردیا۔ ان کا شمار سیاسی سرد و گرم جھیلنے والے کارکنوں میں ہوتا ہے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے دور آمریت میں بھی ڈٹے رہے اور بہتر حکمت عملی سے فریال تالپور کا ساتھ دے کر انھیں ضلعی ناظمہ کے طور پر کام یاب کرایا۔ سید باغ علی شاہ کو پانچ سال کے دوران منانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ سید باغ علی شاہ 17 اکتوبر 2007 کو سانحۂ کارساز میں بم دھماکے میں شدید زخمی بھی ہو گئے تھے۔ پچھلے دنوں یہی سید باغ علی شاہ پیپلز پارٹی سے بغاوت کے لیے میدان میں آئے تو سب ناراض کارکن ان سے رابطے میں آگئے، گذشتہ دنوں پیپلزپارٹی ضلع ورکنگ کمیٹی کے رکن خیر محمد مہر کی رہائش گاہ پر سید باغ علی شاہ کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا، جس میں 100 سے زائد کارکنوں، عہدے داروں نے شرکت کی۔
ان میں سابق ضلعی جنرل سیکریٹری فقیر فیض محمد ہیسبانی، سٹی کے سابق صدر بلاول رند، ضلع ورکنگ کمیٹی کے رکن نوابزادہ عبدالستار جمالی، غلام قادر سیٹھار، تعلقہ دوڑ کے نائب صدر اعظم بروہی، محمد بخش مری، اصغر چانڈیو، سپاف سندھ کے سابق مرکزی جنرل سیکریٹری غلام مصطفیٰ کورائی ایڈووکیٹ، علی گل کیریو، پی پی کے حاجی عبدالکریم بڑدی، عبدالعزیز رند اور دیگر نے شامل ہیں۔ اجلاس میں باغی کارکنوں نے حلف اٹھایا کہ وہ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ ان ناراض کارکنوں کے اجلاس کی خبر ملنے پر پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر غلام قادر چانڈیو اور دیگر عہدے دار انھیں منانے پہنچ گئے، جس پر کارکنوں نے ان سے کہا کہ ہم سے پارٹی قیادت بات کرے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
ان کی ناکامی کے بعد صوبائی وزیر سید مراد علی شاہ نواب شاہ پہنچے اور ناراض دھڑے کی قیادت کرنے والے سید باغ علی شاہ سے ملاقات کی اور منانے کی کوشش کی مگر وہ بھی کام یاب نہیں ہوئے۔ مقامی سطح پر زرداری ہاؤس سے اس ضمن میں کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اسی طرح فریال تالپور نے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا، مگر ذرایع کے مطابق انھوں نے غلام قادر چانڈیو سے کہا تھا کہ وہ سید باغ علی شاہ اور ان کے ساتھیوں کو منائیں، مگر یہ سب کوششیں بے سود ثابت ہوئیں اور 27 فروری کو سید باغ علی شاہ، فقیر فیض محمد ہیسبانی، غلام مصطفیٰ کورائی، عبدالستار جمالی، خیر محمد شاہ، علی گل کیریو، بلاول رند، اعظم بروہی، محمد بخش مری، اصغر چانڈیو، عبدالعزیز رند اور دیگر نے کراچی میں مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا سے ملاقات کی اور باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی کو خیرباد کر مسلم لیگ فنکشنل میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔
مقامی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے حلقوں نے اسے پیپلز پارٹی کے قلعے میں دراڑ اور سیاسی نقصان قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق عام الیکشن میں اگر جاں نثاروں اور سرفروشوں کا ساتھ نہ رہا تو پھر دیکھنے کے لیے صرف خواب ہی رہ جائیں گے۔ پی پی پی کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کی ناراضگی دور کرے اور ان کے جائز مطالبات پورے کرے۔ پیپلز پارٹی میں اب بھی ناراض کارکن اور عہدے دار موجود ہیں، جن میں سابق ایم پی اے عنایت علی رند سرفہرست ہیں۔ مقامی سطح پر سیاسی اور عوامی حلقوں میں دیرینہ کارکنوں کا یوں پی پی پی کو چھوڑ کر جانا موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
ماضی کے اوراق الٹے جائیں تو معلوم ہو گا کہ اس جماعت کے پاس بڑی تعداد میں جاں نثار اور بلند حوصلہ لوگ تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران پیپلزپارٹی کے سید ولی محمد شاہ عرف جنرل شاہ نے جنرل ضیاء کو چیلنج کیا تھاکہ وہ سٹھ میل سے بذریعہ سڑک گزر کر دکھائیں۔ اسی طرح نواب شاہ میں پیپلز پارٹی کے بلاول رند، غلام مصطفیٰ کورائی، عبدالستار جمالی، عبدالکریم بڑدی نے جیے بھٹو کے نعرے لگاکر آمریت کے دنوں میں بھی پی پی کے پرچم کو بلند رکھا۔ فقیر فیض محمد ہیسبانی زمانۂ طالب علمی ہی سے پارٹی سے وابستہ تھے، کئی سال جیل بھی کاٹی اور بحالی جمہوریت کی تحریک میں پولیس سے آنکھ مچولی بھی کھیلتے رہے۔
خیر محمد ایک ایسا وفادار کارکن ثابت ہوا، جس نے دباؤ کے باوجود پی پی سے اپنی وفاداری ختم نہیں کی اور 1983 کی تحریک، 1986 کی تحریک میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ عبدالکریم بڑدی جیسا ورکر بھی پی پی پی کو اب نہیں مل سکے گا، دوست علی رند، شیر افضل اعوان، عنایت علی رند جیسے سرفروش کارکن پی پی میں اب ناپید ہو چکے ہیں۔ جنرل ضیاء کے بعد پرویز مشرف نے بھی اپنی آمریت کے دور میں پی پی کے قلعے میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی، جس میں ناکامی ہوئی، مگر آج یہ مضبوط قلعہ برباد ہوتا نظر آرہا ہے۔ قیادت کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کے باعث ناراض اور عرصے تک خاموش رہنے والے کارکنوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ رہے ہیں اور وہ لب کشائی کر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے انتہائی سرگرم کارکن سید باغ علی شاہ کو بھی پارٹی نے نظر انداز کردیا۔ ان کا شمار سیاسی سرد و گرم جھیلنے والے کارکنوں میں ہوتا ہے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے دور آمریت میں بھی ڈٹے رہے اور بہتر حکمت عملی سے فریال تالپور کا ساتھ دے کر انھیں ضلعی ناظمہ کے طور پر کام یاب کرایا۔ سید باغ علی شاہ کو پانچ سال کے دوران منانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ سید باغ علی شاہ 17 اکتوبر 2007 کو سانحۂ کارساز میں بم دھماکے میں شدید زخمی بھی ہو گئے تھے۔ پچھلے دنوں یہی سید باغ علی شاہ پیپلز پارٹی سے بغاوت کے لیے میدان میں آئے تو سب ناراض کارکن ان سے رابطے میں آگئے، گذشتہ دنوں پیپلزپارٹی ضلع ورکنگ کمیٹی کے رکن خیر محمد مہر کی رہائش گاہ پر سید باغ علی شاہ کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا، جس میں 100 سے زائد کارکنوں، عہدے داروں نے شرکت کی۔
ان میں سابق ضلعی جنرل سیکریٹری فقیر فیض محمد ہیسبانی، سٹی کے سابق صدر بلاول رند، ضلع ورکنگ کمیٹی کے رکن نوابزادہ عبدالستار جمالی، غلام قادر سیٹھار، تعلقہ دوڑ کے نائب صدر اعظم بروہی، محمد بخش مری، اصغر چانڈیو، سپاف سندھ کے سابق مرکزی جنرل سیکریٹری غلام مصطفیٰ کورائی ایڈووکیٹ، علی گل کیریو، پی پی کے حاجی عبدالکریم بڑدی، عبدالعزیز رند اور دیگر نے شامل ہیں۔ اجلاس میں باغی کارکنوں نے حلف اٹھایا کہ وہ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ ان ناراض کارکنوں کے اجلاس کی خبر ملنے پر پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر غلام قادر چانڈیو اور دیگر عہدے دار انھیں منانے پہنچ گئے، جس پر کارکنوں نے ان سے کہا کہ ہم سے پارٹی قیادت بات کرے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
ان کی ناکامی کے بعد صوبائی وزیر سید مراد علی شاہ نواب شاہ پہنچے اور ناراض دھڑے کی قیادت کرنے والے سید باغ علی شاہ سے ملاقات کی اور منانے کی کوشش کی مگر وہ بھی کام یاب نہیں ہوئے۔ مقامی سطح پر زرداری ہاؤس سے اس ضمن میں کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اسی طرح فریال تالپور نے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا، مگر ذرایع کے مطابق انھوں نے غلام قادر چانڈیو سے کہا تھا کہ وہ سید باغ علی شاہ اور ان کے ساتھیوں کو منائیں، مگر یہ سب کوششیں بے سود ثابت ہوئیں اور 27 فروری کو سید باغ علی شاہ، فقیر فیض محمد ہیسبانی، غلام مصطفیٰ کورائی، عبدالستار جمالی، خیر محمد شاہ، علی گل کیریو، بلاول رند، اعظم بروہی، محمد بخش مری، اصغر چانڈیو، عبدالعزیز رند اور دیگر نے کراچی میں مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا سے ملاقات کی اور باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی کو خیرباد کر مسلم لیگ فنکشنل میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔
مقامی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے حلقوں نے اسے پیپلز پارٹی کے قلعے میں دراڑ اور سیاسی نقصان قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق عام الیکشن میں اگر جاں نثاروں اور سرفروشوں کا ساتھ نہ رہا تو پھر دیکھنے کے لیے صرف خواب ہی رہ جائیں گے۔ پی پی پی کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کی ناراضگی دور کرے اور ان کے جائز مطالبات پورے کرے۔ پیپلز پارٹی میں اب بھی ناراض کارکن اور عہدے دار موجود ہیں، جن میں سابق ایم پی اے عنایت علی رند سرفہرست ہیں۔ مقامی سطح پر سیاسی اور عوامی حلقوں میں دیرینہ کارکنوں کا یوں پی پی پی کو چھوڑ کر جانا موضوع بحث بنا ہوا ہے۔