انتخابی امیدوار میدان عمل میں

پی پی پی کی طرف سے الیکشن میں نئے چہرے سامنے لائے جانے کا امکان

پی پی پی کی طرف سے الیکشن میں نئے چہرے سامنے لائے جانے کا امکان۔ فوٹو: فائل

لاڑکانہ اور قمبرشہداد کوٹ اضلاع کے چار قومی اور آٹھ صوبائی حلقوں میں سے چند پر پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے نئے چہرے سامنے لائے جانے کا امکان ہے۔

یہ فیصلہ ان حلقوں کے لیے ہے جن میں پارٹی کے نمایندوں کی کارکردگی بہتر نہیں رہی اور اسی وجہ سے سیاسی گرفت کم زور نظر آرہی ہے۔ الیکشن کے قریب جہاں متعدد سیاسی شخصیات پیپلزپارٹی میں شامل ہو رہی ہیں، وہیں اس جماعت کے خلاف انتخابی اتحاد بھی بن رہے ہیں۔ انتخابی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو پی پی پی نئے چہروں اور دیگر عہدے داروں کو انتخابی ٹکٹ دے گی۔

باخبر ذرایع کے مطابق این اے 204 پر شاہد حسین بھٹو منتخب ہوئے تھے، ان کی جگہ نثار احمد کھوڑو کو انتخابی میدان میں اتارا جاسکتا ہے، جب کہ این اے 205 پر پیپلز پارٹی ضلع لاڑکانہ کے سینئر نائب صدر حزب اللہ بگھیو کو ٹکٹ ملنے کا امکان ہے، این اے 206 پر نواب سردار احمد خان چانڈیو سامنے لائے جاسکتے ہیں، لیکن اس نشست پر پیپلز پارٹی پریشانی کا شکار ہے۔ این اے 207 پر بھی کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے، کیوں کہ اس نشست پر ن لیگ کے سردار ممتاز علی خان بھٹو کے الیکشن میں حصہ لینے کی توقع ہے۔

یہ بے نظیر بھٹو شہید کا روایتی حلقۂ انتخاب ہے۔ ان کی شہادت کے بعد فریال تالپر نے اس حلقے سے کام یابی حاصل کی ہے۔ ممتاز علی بھٹو نے اس حلقے پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر کے پی پی پی کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا ہے یا نہیں یہ تو آنے والے وقت میں سامنے آئے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ایس 35 بھی حاجی الطاف حسین انڑکو مل سکتی ہے، جنھوں نے حال ہی میں ق لیگ چھوڑ کر پی پی پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ پی ایس 36 سے کام یاب نثار احمد کھوڑو کی جگہ پارٹی کے ضلعی صدر ایاز سومرو کو ان کی رتو ڈیرو میں کارکردگی بہتر نہ ہونے کے باعث لائے جانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

پی ایس 37 کے لیے سیف اللہ ابڑو یا خورشید احمد جونیجو کو پارٹی ٹکٹ دیے جانے کا امکان ہے۔ پی ایس 38 پر ہمیشہ پی پی پی کے عباسی خاندان کے حاجی منور علی عباسی کام یاب ہوتے آئے ہیں، جن کے اس بار امیدوار ہونے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دوسری جانب فنکشنل مسلم لیگ کے ڈویژنل صدر سید اکبر شاہ راشدی اسی نشست پر مضبوط امیدوار کے طور پر نظر آرہے ہیں، جن کی جانب سے بھرپور انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے۔ پی ایس 39 پر پی پی پی کے غلام مجدد اسران ایم پی اے کے بھائی مجتبیٰ اسران کو ٹکٹ مل سکتا ہے۔


صوبائی نشست پی ایس 40 پر میر نادر خان مگسی اس مرتبہ بھی ٹکٹ حاصل کر لیں گے، جب کہ پی ایس 41 پر عزیز احمد جتوئی بھی انہی کی طرح پھر پیپلز پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ اسی طرح پی ایس 42 پر پیپلز پارٹی کے نجم الدین ابڑو کی کارکردگی اطمینان بخش نہ ہونے کی وجہ سے سیٹ چانڈیو برادری کے برہان خان چانڈیو کو دیے جانے کا امکان ہے۔ اس منظر نامے کے ساتھ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اب تک الیکشن کی تیاریاں شروع نہیں کی گئی ہیں اور نہ ہی ٹکٹ سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جاسکا ہے۔

لاڑکانہ اور قمبرشہدادکوٹ اضلاع کی نشستوں پر پیپلز پارٹی کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے فنکشنل مسلم لیگ، نواز لیگ، پیپلزپارٹی شہید بھٹو، جی یو آئے، ایم کیو ایم اور مختلف قوم پرست جماعتوں کی جانب سے حکمتِ عملی طے کی جارہی ہے اور ان کے مابین انتخابی اتحاد ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سردار ممتاز علی خان بھٹو نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ فریال ٹالپر نے اس بار این اے 207 پر کاغذات نام زدگی داخل کروائے تو وہ ان کے خلاف الیکشن ضرور لڑیں گے جب کہ پی ایس 37 پر ان کے بیٹے امیر بخش خان بھٹو، ن لیگ کے امیدوار ہوں گے۔

پی ایس 35 پر پ پی پی کے علاوہ فنکشنل لیگ کے شفقت خان انڑ اور قاف لیگ کے بابو سرور سیال بھی الیکشن لڑیں گے، جن کی جانب سے انتخابی سرگرمیاں تیز کر دی گئی ہیں۔ پی ایس 36 پر شہید بھٹو کی چیئر پرسن اور نواز لیگ کے بابو سرفراز جتوئی، پی ایس 38 پر فنکشنل لیگ کے سید اکبر شاہ راشدی کے علاوہ پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے ڈاکٹر سکندرجتوئی اور جی یو آئی کے جانب سے امیدوار لائے جائیں گے، پی ایس 41 پر انڑ خاندان کی قرۃ العین شفقت، فنکشنل لیگ کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑیں گی۔

پی ایس 42 پر دیگر پارٹیوں کے علاوہ نواز لیگ کی جانب سے امداد چولیانی بھی امیدوار ہوں گے۔ چند روز قبل سردار ممتاز خان بھٹو کی جانب سے نو ڈیرو میں ایک بڑا عوامی جلسہ منعقد کیا گیا، جس سے مسلم لیگ ن کے سربراہ محمد نواز شریف نے خطاب کیا اور پیپلز پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ صدر آصف علی زرداری نے سندھی عوام کو دھوکا دیا، پانچ سال کے دوران سندھ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، نہ تو شہید بے نظیر بھٹو کے قاتل پکڑے گئے اور نہ ہی سندھ میں امن قائم کیا جا سکا، سندھ میں نوکریاں بیچی جا رہی ہیں۔ نواز شریف کے جلسے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے قمبر میں منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نواز شریف کو جواب انتخابات میں سیاسی طور پر دیا جائے گا، وہ جواب ایسا ہو گا کہ نواز شریف دوبارہ سندھ کا رخ نہیں کریں گے۔

سیاسی تبصرہ نگاروں کے مطابق پی پی پی کی روایتی حریف جماعت مسلم لیگ ن، فنکشنل لیگ کے علاوہ اے این پی، جے یو آئی سمیت قوم پرستوں کا اتحاد اس مرتبہ پی پی پی کے لیے مشکلات کا باعث ضرور بنے گا۔ گذشتہ الیکشن میں بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد حالات یک سر بدل گئے تھے اور عوام نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے تھے، جس کی وجہ سے اسے بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل ہوئی، لیکن اس بار پیپلز پارٹی اور اس کے منتخب نمایندوں کی پانچ سالہ کارکردگی انتہائی مایوس کُن بتائی جاتی ہے، جس کے اثرات عام الیکشن میں نظر آئیں گے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ حالات پہلے جیسے نہیں رہے اور اسی لیے انتخابی امیدواروں کے لیے نئے اور مضبوط ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔
Load Next Story