نگراں وزیر اعظم کے لئے مشاورت جاری

سیاسی تجزیہ نگاروں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امکانی طور پر نگراں وزیر اعظم کے معاملہ پر۔۔۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امکانی طور پر نگراں وزیر اعظم کے معاملہ پر اتفاق رائے نہیں ہوگا۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی طرف سے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کو نگراں وزیر اعظم کے تقرر کے معاملے پر مشاورت کیلئے لکھے گئے خط کے بعد عام انتخابات اور نگراں سیٹ اپ کے قیام کے بارے میں بے یقینی کی فضاء بڑی حد تک ختم ہو گئی ہے۔

وزیر اعظم نے باضابطہ خط لکھ کر اس اہم معاملے پر مشاورت کا قائد حزب اختلاف کے ساتھ آغاز کر دیا ہے، باور کیا جا رہا ہے کہ آئندہ چند روز کے اندر، اندر قائد حزب اختلاف اپوزیشن کی طرف سے متفقہ نام نگراں وزیر اعظم کے لئے حکومت کو پیش کر دیں گے، پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان نگراں وزیر اعظم کے معاملہ پر بوجہ مشاورت نہیں ہو سکی، قائد حزب اختلاف نے امیر جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے ذریعے نگراں وزیراعظم پر تحریک انصاف کے ساتھ مشاورت کرنے کا عندیہ دیا تھا، تحریک انصاف کے قائدین کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی سمیت کسی سیاسی جماعت نے ہمارے ساتھ رابطہ نہیں کیا ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امکانی طور پر نگراں وزیر اعظم کے معاملہ پر اتفاق رائے نہیں ہوگا اور یہ معاملہ بالآخر الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا اب جبکہ اسمبلیوں کی مدت کی تکمیل میں ڈیڑھ ہفتہ رہ گیا ہے، وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان الوداعی ملاقاتیں کر رہے ہیں، قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کو مشاورت کیلئے وزیر اعظم کی طرف سے لکھے گئے خط کے بعد انتخابات کے التواء کی قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیں، اسلام آباد میں تعینات غیر ملکی سفارتکار بالخصوص یورپی سفارتکار آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں، غیر ملکی سفارتکاروں کو یہ خدشہ ہے کہ نگراں حکومت کی مدت میں توسیع کئے جانے کا امکان ہے۔

بعض سیاسی حلقے بھی نگراں حکومت کو طول دینے کی قیاس آرائیوں کو اہم قرار دے رہے ہیں، دستور پاکستان میں نگراں حکومت کی مدت کا تعین درج ہے اور آئینی طور پر نگراں حکومت کی مدت میں توسیع کا قطعاً کوئی جواز نہیں ہے، حکومتی حلقے ایسی قیاس آرائیوں کو بے بنیاد قرار دے رہے ہیں، اسلام آباد میں تعینات غیر ملکی سفارتکار موجودہ الیکشن کمیشن کو خود مختار اور قابل اعتبار کمیشن قرار دے کر یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات شفاف اور آزادانہ ہوںگے ، موجودہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے ہے اور پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن کو پہلے سے زیادہ اختیارات تفویض کر دیئے گئے ہیں، عام انتخابات کی شفافیت کو ہر پہلو سے یقینی بنانے کی بھاری ذمہ داری موجودہ الیکشن کمشنر پر عائد ہوتی ہے اور یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے تعاون سے ہی سرانجام دے سکتا ہے۔


الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پارلیمانی کمیٹی کے درمیان ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی تصدیق کے معاملہ پر معاہدہ طے پا گیا ہے، الیکشن کمیشن کی طرف سے مبینہ طور پر ارکان اسمبلی کو ڈگریوں کی تصدیق کرانے کے لئے لکھے گئے خط کی وجہ سے کمیشن اور پارلیمنٹ کے درمیان ایک تنائو کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی، قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے یہ معاملہ پوری قوت کے ساتھ ایوان کے اندر اٹھایا اور الیکشن کمیشن سے یہ استفسار کیا کہ کمیشن کس اختیار کے ساتھ اس معاملہ پر ارکان اسمبلی کی تضحیک کر رہا ہے، قائد حزب اختلاف کی تجویز پر سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی۔

کمیٹی کے ارکان نے چیف الیکشن کمشنر کے ساتھ اس معاملہ پر مذاکرات کئے، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر جاوید لغاری کو مذاکرات میں مدعو کیا گیا تھا، فریقین کے درمیان اسی امر پر اتفاق ہو گیا کہ ڈگریوں کی تصدیق کیلئے پہلے جاری عمل کو برقرار رکھا جائے گا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن ارکان اسمبلی کے ساتھ ڈگریوں کے معاملہ پر رابطہ نہیں کرے گا بلکہ الیکشن کمیشن اس معاملہ پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے حکام کے ساتھ رابطہ کرے گا، امیدواروں کیلئے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ کاغذات نامزدگی کے ساتھ اصل ڈگری پیش کریں گے، پارلیمانی کمیٹی اور الیکشن کمیشن کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے بعض حلقے الیکشن کمیشن پر یہ تنقید کر رہے ہیں کہ ڈگریوں کے معاملہ پر الیکشن کمیشن پسپا ہو گیا ہے اور جعلی ڈگری والے دوبارہ الیکشن لڑ سکیں گے۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے زیر انتظام اسلام آباد کے جناح کنونشن سنٹر میں کل جماعتی کانفرنس کے 5 نکاتی اعلامیہ پر تجزیے اور تبصرے کئے جا رہے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی بھی اسی طرح کی کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں قبل ازیں کر چکی ہے، مولانا فضل الرحمن ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو ایک چھت تلے جمع کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں، مولانا فضل الرحمن کے روایتی سیاسی حریف بلوچ رہنما محمود خان اچکزئی بھی اس کانفرنس میں شریک تھے، اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملے اور فوجی آپریشنز بند کئے جائیں، قیام امن کا موثر ذریعہ مذاکرات ہیں، گرینڈ قبائلی جرگہ فریقین کے ساتھ مذاکرات کرے گا، اس کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد پر طالبان نے پہلی بار مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔

طالبان کے ساتھ مذاکرات کو اگر نتیجہ خیز اور بامعنی بنانے کیلئے حکومت وقت ان سفارشات پر عملدرآمد کر دے تو وثوق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں معاملات کو احسن انداز میں حل کیا جا سکتا ہے، قابل ذکر ملک کی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین کے درمیان اس اہم اور احساس معاملہ پر اتفاق رائے یقینی طور پر ایک اہم پیشرفت ہے ، کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں یہ کہا گیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں حکومت پیشکش کا مثبت جواب دے، پاکستان تحریک انصاف واحد ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے اے این پی اور جے یو آئی (ف) کی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہیں کی، تحریک انصاف کے قائدین کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی شعبدہ بازی تھی الیکشن کے دوران انتخابی مہم چلانے کی غرض سے یہ کل جماعتی کانفرنس بلا کر ان دونوں جماعتوں نے پولیٹیکل سکورنگ کی ہے۔

سفارتی اور سیاسی حلقے امریکی سفیر کی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ملاقات کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں، اسلام آباد میں تعینات نئے امریکی سفیر رچرڈ اولسن کا مولانا فضل الرحمن کے ساتھ یہ پہلا رابطہ تھا، طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کے دوسرے روز امریکی سفیر کی ملاقات اہمیت کی حامل تھی، امریکی سفیر نے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اس کانفرنس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مشترکہ اعلامیوں کی رو سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کون کرے گا؟ اور کون طالبان کو ضمانت دے گا، حکومت وقت کا کیا ردعمل آتا ہے؟ غیر جانبدار دفاعی مبصرین کا خیال ہے کہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے فریقین کے درمیان لچک کا ہونا ضروری ہے۔
Load Next Story