سیاسی پارٹیوں کے لئے سندھ اہمیت اختیار کر گیا

میاں نواز شریف گزشتہ دنوں کراچی کے دورے پر آئے تو شاید ان کے دماغ میں یہ بات اٹکی ہوئی تھی کہ سندھ میں پیپلزپارٹی۔۔۔


G M Jamali March 05, 2013
میاں نواز شریف گزشتہ دنوں کراچی کے دورے پر آئے تو شاید ان کے دماغ میں یہ بات اٹکی ہوئی تھی کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کا کس طرح مقابلہ کیا جائے۔ فوٹو: فائل

عام انتخابات کا وقت جوں جوں قریب آرہا ہے ملک میں سیاسی سرگرمیاں بھی زور پکڑ رہی ہیں۔

تمام جماعتوں کے لیے سندھ کا سیاسی میدان بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے خاص طور پر مسلم لیگ نواز کے لیے، اسی لیے وہ سندھ کی تمام چھوٹی بڑی قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملا کر پیپلز پارٹی کے مقابلے پر گرینڈ الائنس بنانا چاہتی ہے۔ میاں نواز شریف بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو شکست دینا اتنا آسان کام نہیں ہے اور حالیہ ضمنی انتخابات میں یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ دیگر جماعتیں اتحاد کے باوجود پیپلزپارٹی کے امیدواروں سے واضح اکثریت سے شکست کھاگئیں ، میاں نواز شریف گزشتہ دنوں کراچی کے دورے پر آئے تو شاید ان کے دماغ میں یہ بات اٹکی ہوئی تھی کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کا کس طرح مقابلہ کیا جائے۔

انھوں نے پریس کانفرنس میں اپنی پریشانی کا اظہار کھل کر تو نہ کیا مگر ان کے ایک جملے نے سب کچھ واضح کردیا ۔ میاں صاحب کا کہنا تھا کہ صدر زرداری کا مقابلہ کرنا دل گردے کی بات ہے۔ ان کے منہ سے جملہ شاید ضمنی انتخابات کے نتائج دیکھ کر نکلا ہے ۔ میاں نواز شریف کا خیال پہلے یہ تھا کہ وہ سندھ میں تمام قوم پرست جماعتوں کو اگر ساتھ ملا لیں گے تو پیپلزپارٹی کو ہرانا کچھ مشکل نہیں ہوگا مگر اب وہ خود کواپنے اس خیال پر کچھ جم کر کھڑے ہونے کی پوزیشن میں محسوس نہیں کر رہے ہیں ان کو پتہ ہے کہ آنے والے انتخابات میں جہاں انہیں جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کے سخت مقابلے کا سامنا ہوگا وہیں ابھی سندھ میں ان کے لیے کوئی خاص سازگار حالات نہیں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی مخالف سیاسی جماعتیں بلدیاتی نظام کے حوالے سے اس بات پر خوش تھیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف سیاست کرنے کا ایک بہت بڑا ایشو ہاتھ آگیا ہے اور اس ایشو کی بنیاد پر عام انتخابات میں بہت بڑی کایا پلٹ کردیں گے۔ حالانکہ پہلی بار سندہ پیپلز لوکل گورنمنٹ بل کے ذریعے سندھ کے پانچ ڈویژن کو میٹرو پولیٹن کا درجہ دیا گیا تھا اور کراچی کی طرح حیدرآباد ، لاڑکانہ ، سکھر اور میرپورخاص کے علاوہ خیرپور میں بھی ترقی کی امید پیدا ہوئی تھی ، مخالفین نے پروپیگنڈے کے ذریعے صوبے میں افراتفری کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔

اسی دوران متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) نے حکومت سے علیحدہ ہونے کا اعلان کردیا ۔ ایم کیو ایم کے وزرا اور مشیروں نے اپنے استعفے جمع کرادیئے اور ارکان سندھ اسمبلی نے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کی درخواست دے دی ۔ اس اعلان کے چوتھے دن پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی سے ایک بل منظور کرالیا جس کے تحت ایس پی ایل جی اے 2012 ء منسوخ کردیا گیا اور سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس1979ء بحال کردیا گیا۔ اس سے پیپلز پارٹی مخالف انتخابی سیاست کی پوری عمارت منہدم ہوگئی۔ پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی سے1979ء کے بلدیاتی نظام کی بحالی کا بل منظور کرنے کے علاوہ سندھ میں متعدد یونیورسٹیز کے قیام کے بل بھی منظور کیے اور توقع ہے کہ کنٹریکٹ اور ایڈہاک ملازمین کو مستقل کرنے کا بل بھی جلد سندھ اسمبلی سے منظور ہوجائے گا جس کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کے انتخابی مہم مزید موثر ہونے کے وسیع امکانات ہیں ، حکومت سے علیحدگی کے بعد سندھ اسمبلی کے ایوان میں ایم کیو ایم سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے۔

اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی پیپلز پارٹی کو ہی ہوگا ۔ اندرون سندھ قوم پرستوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف یک نکاتی تحریک مذکورہ بل کی صورت میں چلائی اور سندھ کے عوام کو تاثر دینے کی کوشش کی کہ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے شدید دباؤ میں ہے اس کے برعکس قوم پرست ، نیشنل پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ کا اتحاد ایم کیو ایم کے خلاف ہے لیکن بل کی منظوری کے بعد ایم کیو ایم نے جس طرح پیپلز پارٹی کے خلاف واویلا شروع کیا ہے اس سے سندھ کے عوام میں پیپلز پارٹی کے لیے ایک بار پھر نرم گوشہ پیدا ہوگیا ہے، سوائے چند وزراء کے، دیگر کے بارے میں عوامی رائے مخالفانہ نہیں جبکہ پیپلز پارٹی مخالف جماعتیں آئندہ انتخابات میں اتحاد کے خوف سے اب ایم کیو ایم کے خلاف جارحانہ رویے سے بھی گریز کر رہی ہیں جس کا مکمل فائدہ پیپلز پارٹی کو ہی پہنچ رہا ہے۔

سندھ اسمبلی میں ایک اور غیر معمولی واقعہ رونما ہوا، جب پیپلز پارٹی کے رکن عمران ظفر لغاری نے اچانک ایک قرار داد پیش کی ، جس میں مسلم لیگ (ن) سے اپیل کی گئی کہ وہ دہشت گرد تنظیموں سے اپنا رابطہ توڑدے اور ان کی ظاہری اور خفیہ امداد بند کردے ، یہ قرار داد اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی ۔ قرارداد پیش کرنے کے بعد وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن اور دیگر نے واضح طور پر تقاریرمیں نواز شریف کو اسامہ بن لادن کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کا ماضی یاد دلایا اور مطالبہ کیا کہ پنجاب میں انتہا پسندوں کو فنڈز نہ فراہم کیے جائیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) کا ایوان میں کسی طرح کا دفاع نہیں کیا جس پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ناراضگی کا بھی اظہار کیا۔

سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی کوئی نمائندگی نہیں ہے لیکن اس کی اتحادی جماعتوں نے اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر اس کا کہیں دفاع نہیں کیا، حالانکہ سندھ اسمبلی کی قرارداد میں بہت بڑا الزام عائد کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) دہشت گرد تنظیموں سے نہ صرف رابطے میں ہے بلکہ ان کی امداد بھی کرتی ہے ۔ آئندہ کچھ دنوں میں سندھ کی سیاست کے حوالے سے اور بھی بہت کچھ سامنے آسکتا ہے جس کی میاں نواز شریف توقع بھی نہیں کر رہے ہوں گے ۔ سندھ میں ان کے نئے اتحادیوں سے صدر آصف علی زرداری کے اعلیٰ سطح کے رابطے پہلے سے استوار ہوچکے ہیں۔

مذکورہ بالا صورت حال کے تناظر میں کراچی کے علاقے عباس ٹاؤن میں جو سانحہ رونما ہوا ، وہ پیپلز پارٹی اور اس کے مخالفین کے مستقبل کے سیاسی منصوبوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ضرور ہوسکتا ہے، واقعے کے فوری بعد اگر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سرگرم ہو کر معاملے کو براہ راست دیکھتے تو عوام کے غم و غصے کو کم کیا جاسکتا تھا لیکن سست روی کا مظاہرہ پیپلز پارٹی کو ضرور نقصان پہنچا سکتا ہے،بم دھماکوں کی صورت میں رونما ہونے والے اس سانحہ میں 48 سے زائد افراد شہید اور 180 سے زائد افراد زخمی ہوئے ۔ اس سانحہ نے پورے سندھ کو سوگوار کردیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں بھی تیزی آگئی ہے۔ کراچی کی بدامنی نے انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے موجود شکوک و شبہات کو مزید گہرا کردیا ہے۔ اگر حکومت نے اس پر توجہ نہ دی تو سیاست کے سارے داؤ پیج نہ صرف ادھورے رہ جائیں گے بلکہ جمہوری عمل کے لیے بھی شدید خطرات پیدا ہوجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں