جمہوریت کو زندہ رکھیں
موروثیت کا یہ سلسلہ بادشاہوں میں اب تک جاری ہے لیکن چونکہ اب ولی عہد بھی تعلیم یافتہ ہو چکے ہیں
SUKKUR:
بادشاہت میں صدیوں پرانی یہ روایت چلی آرہی ہے کہ بادشاہ کے بعد اس کا بیٹا یا بھائی ہی تخت کا وارث ہو گا عموماً بادشاہ اپنی زندگی میں ہی تخت کے وارث کا اعلان کر دیتے اور یوں ولی عہد کی تر بیت شروع ہو جاتی تا کہ وہ جب مسند اقتدار پر بیٹھے تو اس کو حکمرانی کے اسرا رو رموز سے واقفیت ہو، بعض اوقات تو ولی عہد اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کی اس قدر جلدی میں ہوتے تھے کہ وہ اپنے بادشاہ کو ہی بادشاہی سے اتار کر خود سے حکومت سنبھال لیتے، چاہے اس کے لیے کتنا ہی خون بہانا پڑتا۔
موروثیت کا یہ سلسلہ بادشاہوں میں اب تک جاری ہے لیکن چونکہ اب ولی عہد بھی تعلیم یافتہ ہو چکے ہیں اس لیے خون خرابے کے بغیر ہی اپنی باری کے انتظار میں رہتے ہیں اور وقت آنے پر بادشاہت سنبھال لیتے ہیں بلکہ اکثر ولی عہد تو اس انتظار میں زندگی سے ہی گزر جاتے ہیں اور ان کی جگہ بادشاہ کو نئے ولی عہد کا تقرر کرنا پڑتا ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے ہم بھی چونکہ اسی موروثی نظام کی پیداوار رہے تھے اس لیے ہم نے بھی چند ایک حکمرانوں کو چھوڑ کر اس سلسلے کو جاری رکھا۔ ہماری سیاسی پارٹیوں میں موروثی قیادت کا یہ سلسلہ پیپلز پارٹی سے شروع ہوا اور اب اس کی باز گشت مسلم لیگ ن میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس موروثی قیادت کے رجحان کی بڑی وجہ یہ رہی کہ سیاسی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت نے اپنی پارٹی کے اندر اپنے متبادل قیادت کو پروان ہی نہیں چڑھنے دیا بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کی تا کہ اپنا قبضہ برقرار رہے اور دوسرا کوئی لیڈر اس کی جگہ نہ لے سکے ۔
مجھے یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے جد امجد ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی میں ہی کہا کرتے تھے کہ ان کی اولاد نرینہ اس قابل نہیں کہ وہ پارٹی کی باگ ڈور سنبھال سکے بلکہ ان کی بیٹی میں سیاست کے جراثیم بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں اور وہ سیاسی فہم کی مالک ہیں حالانکہ ان کی پارٹی میں ایک سے ایک پائے کا لیڈر موجود تھا جو پارٹی کی قیادت کا اہل تھا لیکن بھٹو نے پیپلز پارٹی کو اپنے ارد گرد ہی لپیٹے رکھا اور ان کے بعد کچھ وقت کے لیے ان کی ایرانی نژاد بیگم نصرت بھٹو نے قیادت سنبھالی لیکن بعد میں ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو ان کی مضبوط سیاسی وارث کے طور پر سامنے آئیں اور پیپلز پارٹی کو بھٹو کی پارٹی کے طور پر نہ صرف زندہ رکھا بلکہ صحیح جانشینی کا حق بھی ادا کیا اور حق ادا کرتے ہوئے شہادت بھی پا گئیں، ان کے بعد یہ چہ مگویاں شروع ہو گئی تھیں کہ بھٹو کی پارٹی ختم ہو جائے گی کیونکہ اب کوئی بھی بھٹو سیاسی پارٹی کی قیادت کے لیے دستیاب نہ تھا لیکن بھٹو کے داماد آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو مشکل وقت میں نہ صرف سہارا دیا بلکہ پارٹی کو الیکشن میں کامیاب بھی کرایا اور اقتدار کی مسند پر بھی براجمان رہے۔
انھوں نے چالاکی یہ کی کہ جب ان کو یہ نظر آگیا کہ اب وہ بھٹو کا نام مزید استعمال نہیں کرسکتے تو انھوں نے اپنے بچوں کے نام تک تبدیل کر دیے تا کہ بھٹو کا نام پیپلز پارٹی کے ساتھ جڑا رہے اور موروثی قیادت کا جو وقتی بحران سراٹھا رہا تھا اس کو ختم کر دیا گیا، اس جعلی موروثیت کو عوام نے کس حد تک قبول کیا اس کا حشر ہم سب نے ملک میں ہونے والے آخری انتخابات میں دیکھ لیا۔ یہ پارٹی اقتدار میں رہے یا اس سے باہر یہ بھٹو کی پارٹی ہے اور اس کے ووٹر بھٹو کے نام لیوا کو ووٹ دیتے ہیں جن کی تعداد اب سکڑتی جا رہی ہے اور لاہور کے ضمنی انتخابات میں اس کے ووٹوں کی تعداد اس کی گواہ ہے وگرنہ کبھی یہی لاہور شہر بھٹو کا دیوانہ ہوتا تھا اور اسی شہر نے ان کو بامِ عروج تک پہنچایا تھا۔
ہمارے ملک میں پیپلز پارٹی کی دیکھا دیکھی دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی سیاسی موروثیت کو اپنانے کی کوشش کی جن میں نیشنل عوامی پارٹی کو ولی خان کے خاندان نے اپنی موروثی پارٹی بنایا، اسی طرح انھی دنوں میں مسلم لیگ ن پر افتاد پڑی ہوئی ہے، اسے بھی میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد پارٹی کی بقاء اور مستحکم رکھنے کے لیے موروثی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور میاں صاحب کی صاحبزادی محترمہ مریم عملاً اپنے والد میاں نواز شریف کی جگہ کردار ادا کرنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہیں، اس سے پہلے بھی جب میاں نوا زشریف جیل میں تھے تو ان کی بیگم صاحبہ نے پارٹی کو نہایت کامیابی سے چلایا تھا اور وہ اتنی کامیاب رہیں کہ اپنے شوہر کو فوجی آمر سے بچا کر سعودی عرب لے گئیں ۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی جگہ ان کی بیگم صاحبہ نے الیکشن لڑا جس کے دوران ان کی صاحبزادی نے الیکشن مہم کو کامیابی سے نہ صرف چلایا بلکہ ضمنی الیکشن میں کامیابی بھی حاصل کی لیکن ان کی سیاسی جانشینی کو ان کی پارٹی اور ان کے خاندان کی طرف سے ہی قبول نہیں کیا جارہا اور میاں نواز شریف ایک عجیب سے مخصمے کا شکار ہیں کہ وہ اس نئی سیاسی صورتحال میں کس کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کریں کیونکہ ان کے براد رخورد شہباز شریف اس کے سب سے زیادہ اہل اور مضبوط امیدوار ہیں لیکن میاں نواز شریف ان کو یہ ذمے داری سونپنے کو تیار نہیں کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے ہیںکہ اس صورت میں ان کا سیاسی کردار ختم ہو جائے گا اور وہ صرف لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ میں چہل قدمی ہی کرتے پائے جائیں گے ۔
نواز لیگ کی سیاسی قیادت میں کئی ایسے نیک نام بھی موجود ہیں جو کہ اس پارٹی کی قیادت کے لیے موزوں ہیں لیکن میاں نواز شریف کو ان میں سے کسی پر اعتبار نہیں، ان کی پارٹی میں اس موروثیت پر بہت بحث و تمحیص بھی ہو رہی ہے اور اظہار ناراضی بھی کیا جارہا ہے۔
میاں نوز شریف کے پاس کوئی اچھی سیاسی میراث نہیں خصوصاً اس صورت میں جب ان کی جماعت کی تاریخ میں موروثی قیادت کا کوئی تصور نہیں، مسلم لیگ کا دامن کبھی موروثی سیاست سے داغدار نہیں ہوا باوجود اس کے یہ سرکاری درباری پارٹی بھی بنی رہی لیکن کسی گئے گزرے وقت میں بھی کوئی لیڈر اسے کسی ورثے میں منتقل نہ کرسکا، یہ خود میاں صاحب کے حق میں بھی نہیں کہ وہ بادشاہ بن کر اپنی پارٹی کو کسی کے سپرد کر دیں، ان کے مخلص ساتھی بھی اس سے اختلاف کر رہے ہیں، وہ اس موروثی پالیسی کو قبول نہیں کر رہے ہیں، مشکل کے اس وقت میں میاں صاحب کے لیے ضروری ہے کہ مسلم لیگ جیسی بھی ہے اسے لیڈروں سمیت متحد رکھنے کی کوشش کریں۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ اس کے انتشار سے میاں صاحب کے مخالفین فائدہ اٹھائیں گے اور نقصان میاں صاحب کا ہو گا۔ جمہوریت کو جمہوریت ہی رہنے دیں، اسے ملوکیت میں تبدیل نہ کریں۔
بادشاہت میں صدیوں پرانی یہ روایت چلی آرہی ہے کہ بادشاہ کے بعد اس کا بیٹا یا بھائی ہی تخت کا وارث ہو گا عموماً بادشاہ اپنی زندگی میں ہی تخت کے وارث کا اعلان کر دیتے اور یوں ولی عہد کی تر بیت شروع ہو جاتی تا کہ وہ جب مسند اقتدار پر بیٹھے تو اس کو حکمرانی کے اسرا رو رموز سے واقفیت ہو، بعض اوقات تو ولی عہد اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کی اس قدر جلدی میں ہوتے تھے کہ وہ اپنے بادشاہ کو ہی بادشاہی سے اتار کر خود سے حکومت سنبھال لیتے، چاہے اس کے لیے کتنا ہی خون بہانا پڑتا۔
موروثیت کا یہ سلسلہ بادشاہوں میں اب تک جاری ہے لیکن چونکہ اب ولی عہد بھی تعلیم یافتہ ہو چکے ہیں اس لیے خون خرابے کے بغیر ہی اپنی باری کے انتظار میں رہتے ہیں اور وقت آنے پر بادشاہت سنبھال لیتے ہیں بلکہ اکثر ولی عہد تو اس انتظار میں زندگی سے ہی گزر جاتے ہیں اور ان کی جگہ بادشاہ کو نئے ولی عہد کا تقرر کرنا پڑتا ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے ہم بھی چونکہ اسی موروثی نظام کی پیداوار رہے تھے اس لیے ہم نے بھی چند ایک حکمرانوں کو چھوڑ کر اس سلسلے کو جاری رکھا۔ ہماری سیاسی پارٹیوں میں موروثی قیادت کا یہ سلسلہ پیپلز پارٹی سے شروع ہوا اور اب اس کی باز گشت مسلم لیگ ن میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس موروثی قیادت کے رجحان کی بڑی وجہ یہ رہی کہ سیاسی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت نے اپنی پارٹی کے اندر اپنے متبادل قیادت کو پروان ہی نہیں چڑھنے دیا بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کی تا کہ اپنا قبضہ برقرار رہے اور دوسرا کوئی لیڈر اس کی جگہ نہ لے سکے ۔
مجھے یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے جد امجد ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی میں ہی کہا کرتے تھے کہ ان کی اولاد نرینہ اس قابل نہیں کہ وہ پارٹی کی باگ ڈور سنبھال سکے بلکہ ان کی بیٹی میں سیاست کے جراثیم بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں اور وہ سیاسی فہم کی مالک ہیں حالانکہ ان کی پارٹی میں ایک سے ایک پائے کا لیڈر موجود تھا جو پارٹی کی قیادت کا اہل تھا لیکن بھٹو نے پیپلز پارٹی کو اپنے ارد گرد ہی لپیٹے رکھا اور ان کے بعد کچھ وقت کے لیے ان کی ایرانی نژاد بیگم نصرت بھٹو نے قیادت سنبھالی لیکن بعد میں ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو ان کی مضبوط سیاسی وارث کے طور پر سامنے آئیں اور پیپلز پارٹی کو بھٹو کی پارٹی کے طور پر نہ صرف زندہ رکھا بلکہ صحیح جانشینی کا حق بھی ادا کیا اور حق ادا کرتے ہوئے شہادت بھی پا گئیں، ان کے بعد یہ چہ مگویاں شروع ہو گئی تھیں کہ بھٹو کی پارٹی ختم ہو جائے گی کیونکہ اب کوئی بھی بھٹو سیاسی پارٹی کی قیادت کے لیے دستیاب نہ تھا لیکن بھٹو کے داماد آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو مشکل وقت میں نہ صرف سہارا دیا بلکہ پارٹی کو الیکشن میں کامیاب بھی کرایا اور اقتدار کی مسند پر بھی براجمان رہے۔
انھوں نے چالاکی یہ کی کہ جب ان کو یہ نظر آگیا کہ اب وہ بھٹو کا نام مزید استعمال نہیں کرسکتے تو انھوں نے اپنے بچوں کے نام تک تبدیل کر دیے تا کہ بھٹو کا نام پیپلز پارٹی کے ساتھ جڑا رہے اور موروثی قیادت کا جو وقتی بحران سراٹھا رہا تھا اس کو ختم کر دیا گیا، اس جعلی موروثیت کو عوام نے کس حد تک قبول کیا اس کا حشر ہم سب نے ملک میں ہونے والے آخری انتخابات میں دیکھ لیا۔ یہ پارٹی اقتدار میں رہے یا اس سے باہر یہ بھٹو کی پارٹی ہے اور اس کے ووٹر بھٹو کے نام لیوا کو ووٹ دیتے ہیں جن کی تعداد اب سکڑتی جا رہی ہے اور لاہور کے ضمنی انتخابات میں اس کے ووٹوں کی تعداد اس کی گواہ ہے وگرنہ کبھی یہی لاہور شہر بھٹو کا دیوانہ ہوتا تھا اور اسی شہر نے ان کو بامِ عروج تک پہنچایا تھا۔
ہمارے ملک میں پیپلز پارٹی کی دیکھا دیکھی دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی سیاسی موروثیت کو اپنانے کی کوشش کی جن میں نیشنل عوامی پارٹی کو ولی خان کے خاندان نے اپنی موروثی پارٹی بنایا، اسی طرح انھی دنوں میں مسلم لیگ ن پر افتاد پڑی ہوئی ہے، اسے بھی میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد پارٹی کی بقاء اور مستحکم رکھنے کے لیے موروثی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور میاں صاحب کی صاحبزادی محترمہ مریم عملاً اپنے والد میاں نواز شریف کی جگہ کردار ادا کرنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہیں، اس سے پہلے بھی جب میاں نوا زشریف جیل میں تھے تو ان کی بیگم صاحبہ نے پارٹی کو نہایت کامیابی سے چلایا تھا اور وہ اتنی کامیاب رہیں کہ اپنے شوہر کو فوجی آمر سے بچا کر سعودی عرب لے گئیں ۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی جگہ ان کی بیگم صاحبہ نے الیکشن لڑا جس کے دوران ان کی صاحبزادی نے الیکشن مہم کو کامیابی سے نہ صرف چلایا بلکہ ضمنی الیکشن میں کامیابی بھی حاصل کی لیکن ان کی سیاسی جانشینی کو ان کی پارٹی اور ان کے خاندان کی طرف سے ہی قبول نہیں کیا جارہا اور میاں نواز شریف ایک عجیب سے مخصمے کا شکار ہیں کہ وہ اس نئی سیاسی صورتحال میں کس کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کریں کیونکہ ان کے براد رخورد شہباز شریف اس کے سب سے زیادہ اہل اور مضبوط امیدوار ہیں لیکن میاں نواز شریف ان کو یہ ذمے داری سونپنے کو تیار نہیں کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے ہیںکہ اس صورت میں ان کا سیاسی کردار ختم ہو جائے گا اور وہ صرف لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ میں چہل قدمی ہی کرتے پائے جائیں گے ۔
نواز لیگ کی سیاسی قیادت میں کئی ایسے نیک نام بھی موجود ہیں جو کہ اس پارٹی کی قیادت کے لیے موزوں ہیں لیکن میاں نواز شریف کو ان میں سے کسی پر اعتبار نہیں، ان کی پارٹی میں اس موروثیت پر بہت بحث و تمحیص بھی ہو رہی ہے اور اظہار ناراضی بھی کیا جارہا ہے۔
میاں نوز شریف کے پاس کوئی اچھی سیاسی میراث نہیں خصوصاً اس صورت میں جب ان کی جماعت کی تاریخ میں موروثی قیادت کا کوئی تصور نہیں، مسلم لیگ کا دامن کبھی موروثی سیاست سے داغدار نہیں ہوا باوجود اس کے یہ سرکاری درباری پارٹی بھی بنی رہی لیکن کسی گئے گزرے وقت میں بھی کوئی لیڈر اسے کسی ورثے میں منتقل نہ کرسکا، یہ خود میاں صاحب کے حق میں بھی نہیں کہ وہ بادشاہ بن کر اپنی پارٹی کو کسی کے سپرد کر دیں، ان کے مخلص ساتھی بھی اس سے اختلاف کر رہے ہیں، وہ اس موروثی پالیسی کو قبول نہیں کر رہے ہیں، مشکل کے اس وقت میں میاں صاحب کے لیے ضروری ہے کہ مسلم لیگ جیسی بھی ہے اسے لیڈروں سمیت متحد رکھنے کی کوشش کریں۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ اس کے انتشار سے میاں صاحب کے مخالفین فائدہ اٹھائیں گے اور نقصان میاں صاحب کا ہو گا۔ جمہوریت کو جمہوریت ہی رہنے دیں، اسے ملوکیت میں تبدیل نہ کریں۔