کچھ باتیں دینا واڈیا کے متعلق
دینا واڈیا بھی اپنے والد قائداعظم محمد علی جناح کی طرح اصول پرست تھیں۔
KARACHI:
قائداعظم محمد علی جناح کی اکلوتی بیٹی دینا واڈیا 98 برس کی عمر میں لندن میں انتقال کرگئیں۔ وہ 15 اگست 1919 کو لندن ہی میں پیدا ہوئی تھیں، انھوں نے سوگواروں میں ایک صاحب زادے نوسلی واڈیا، بہو اور دو پوتے چھوڑے ہیں۔ دینا جو قائداعظم کی اکلوتی اولاد تھیں، جب دینا نے ایک پارسی نویل واڈیا سے شادی کا فیصلہ کیا تو قائداعظم نے اپنی بیٹی سے تمام تعلقات توڑ لیے تھے۔
انھوں نے عمر کا بیشتر حصہ بھارتی شہر ممبئی میں گزارا اور وہیں شادی کے بندھن میں بھی بندھیں۔ بی بی سی نمایندہ کے مطابق 5 برس کی کوششوں کے بعد ستمبر 2002 کو نیویارک کے میڈیسن ایونیو میں ان (دینا واڈیا) کے اپارٹمنٹ میں ملاقات کرنے میں کامیابی ملی۔ وہ ایک خصوصی اپارٹمنٹ بلڈنگ میں رہتی تھیں، جہاں اگر آپ کی ملاقات طے نہیں تو آپ عمارت کی لابی تک نہیں پہنچ پاتے، وہ عوامی توجہ سے دور رہنے کی پوری کوشش کرتی تھیں۔ دینا نے مجھے اپنا انٹرویو ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ انھوں نے اصرار کیا کہ کچھ بھی ریکارڈ نہیں ہونا چاہیے۔
انھوں نے تصویر کھینچنے کی اجازت نہیں دی لیکن وہاں سے نکلتے وقت رویہ نرم ہوا اور مجھے اپنی لندن میں 1943 میں تیار کی جانے والے مکمل پورٹریٹ کی تصویر بنانے کی اجازت دے دی۔ اس وقت وہ بیٹے کی امید سے تھیں۔ اب جب کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے تو رازداری کی بندش سے آزاد ہوگیا ہوں اور جو انھوں نے کہا تھا اس میں کچھ حیران کردینے والا نہیں تھا۔ حیران کن طور پر ان کی شکل اپنے والد سے ملتی تھی۔ دینا واڈیا دوستانہ اور خوشگوار شخصیت کی مالک تھیں۔ انھوں نے مجھے اپنی خوبصورت ماں رتن بائی کی تصویر دکھائی، ان کا انتقال اس وقت ہوا جب دینا 9 برس کی تھیں۔ دینا کی زیادہ تر پرورش نانی نے کی۔
ان کی ڈیسک پر اپنے والد کی ایک تصویر تھی۔ انھوں نے قائداعظم محمد علی جناح پر فخر سے بتایا اور کہا کہ ہاں پارسی اور بعد میں مسیحی مذہب اختیار کرنے والے نویل واڈیا سے شادی پر جھگڑا ہوا تھا، لیکن بعد میں صلح ہوگئی تھی اور ایک دوسرے سے بات چیت اور خطوط لکھتے تھے۔ دینا نے بتایا کہ جب مسلم لیگ نے پاکستان کا مطالبہ حاصل کرلیا تو ان کے والد نے انھیں دہلی سے فون کرکے بتایا تھا کہ ہم نے حاصل کرلیا۔ دینا نے کبھی پاکستان میں اپنا گھر نہیں بنایا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کا شہر بمبئی ہے۔
اگرچہ انھوں نے طویل عرصہ لندن اور نیویارک میں گزارا۔ وہ 1948 میں اپنے والد کے جنازے میں شرکت کرنے پاکستان آئی تھیں، اور اس کے علاوہ 2 بار اپنی پھوپھی فاطمہ جناح سے ملاقات کرنے پاکستان آئیں۔ لیکن فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد 1967 کے بعد دینا نے 2004 میں کراچی کا دورہ کیا، جہاں وہ اپنے والد کے مزار پر گئیں اور اس کے ساتھ کرکٹ ڈپلومیسی میں حصہ لیا۔ خیال رہے کہ دینا واڈیا کے بارے میں یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ وہ صرف ایک بار پاکستان آئیں جو کہ درست نہیں ہے۔
دینا واڈیا کا بی بی سی کے نمایندے سے مزید کہنا تھا کہ انھیں بے نظیر بھٹو اور دیگر پاکستانی رہنماؤں کی جانب سے متعدد بار پاکستان آنے کی دعوت ملی لیکن انھوں نے مستقل مزاجی سے انکار کیا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ انھیں نشانی یا علامت کے طور پر استعمال کیا جائے۔ انھوں نے اس کے ساتھ شکایت کی کہ رہنماؤں نے ملک کو لوٹا تھا اور خبردار کیا کہ کسی مسلمان ملک میں جمہوریت پروان نہیں چڑھی۔
دینا واڈیا نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مخصوص شخصیات پاک بھارت دوستانہ تعلقات کے نام پر امن کے سفیر بن کر دورے کررہی تھیں اور دوروں کو دونوں ممالک کی حکومتوں کی سرپرستی حاصل تھی، جن کا مرکزی خیال معاشی ترقی، امن و سلامتی تھا۔ مگر حقیقت میں تمام صورت حال خطے میں امریکی مفادات کو فروغ دینا تھا، جس کے لیے تاریخ کو بھی مسخ کرنے سے دریغ نہیں کیا جارہا تھا۔ پاک بھارت امن سفیروں میں ایک نام دینا واڈیا کا بھی شامل ہوگیا تھا، جنھوں نے منگل 23 مارچ 2004 کو اپنی بہو، بیٹے نوسلی واڈیا، نواسے نسلی واڈیا، دو پوتوں ینس واڈیا اور جہانگیر کے ہمراہ ایک بار پھر لاہور میں قدم رکھا تھا۔
دینا واڈیا لاہور میں بدھ 24 مارچ 2004 کو پاکستان اور بھارت کے مابین ون ڈے سیریز کا میچ دیکھنے آئی ہوئی تھیں۔ اس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے قذافی اسٹیڈیم میں دینا واڈیا اور ان کے اہل خانہ کے ہمراہ یہ میچ دیکھا تھا۔ دینا واڈیا کو پاکستان آمد پر بمع خاندان اس وقت کی حکومت پاکستان کی جانب سے وی وی آئی پی اسٹیٹس مہمان کی حیثیت حاصل رہی تھی، یعنی ایک سربراہ مملکت کی حیثیت۔ ان کا یہ دورہ خالصتاً نجی دورہ قرار پایا تھا۔ اس دورے کی تمام تر تفصیلات اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں، جس میں 26 مارچ دن 2 بجے سے لے کر اسی رات کے 8 بج کر 40 منٹ تک کا دورہ کراچی کی روداد بھی شامل تھا۔
دینا واڈیا نے اپنے طور پر بھرپور کوشش کی کہ وہ میڈیا سے دور رہ کر اپنے دورے کو نجی رہنے دیں، ان کی اس بات کو لوگوں نے ایک اصول قرار دیا اور اسے قائداعظم کے اصول سے تعبیر کیا کہ بیٹی دینا واڈیا بھی اپنے والد قائداعظم محمد علی جناح کی طرح اصول پرست ہیں، مگر ہمارے حکمران اور ہماری قوم جو اٹھتے بیٹھتے قائداعظم کے سنہرے اصولوں کی باتیں کرتے ہیں وہ عملی طور پر کس قدر قائداعظم کے اصولوں کو پامال کرتے رہے ہیں، یہ کوئی راز نہیں ہے۔ جن جذبوں کے ساتھ ہم نے دینا واڈیا کی میزبانی کی تھی، وہ ایک اعلیٰ اخلاقی مظاہر تو تھا لیکن اس موقع کو بابائے قوم کے اصولوں سے موازنہ کیا جاتا تو اندازہ ہوتا تھا کہ ہم قائداعظم محمد علی جناح کے نقش قدم پر چلنے کو ہرگز ہرگز تیار نہیں تھے۔
ذرا سوچئے! غور و فکر کریں کہ قائداعظم انگریز سامراج کے سامنے برصغیر ہند کے مسلمانوں کا مقدمہ یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ مسلم ایک الگ جدا قوم ہے، اس کی اپنی جداگانہ تہذیب و ثقافت ہے، یہ دوسری قوم کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ ذرا توجہ دیجیے! اسی اثناء میں قائداعظم کی اکلوتی بیٹی دینا جناح، ایک غیر مسلم شخص سے شادی کرنے کی بات کرتی ہے۔ یہ وہ منظر تھا کہ ایک طرف مسلم قوم کا مفاد ہے تو دوسری طرف ایک چہیتی بیٹی کی خواہش۔ اگر بیٹی کی خواہش پر خوشی کا اظہار کیا جائے تو دشمنان اسلام و پاکستان یہ پرو پیگنڈہ کرسکتے ہیں کہ ایک طرف محمد علی جناح مسلم قوم کی حیثیت منوانے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں تو دوسری طرف وہ اپنی بیٹی کی شادی ایک پارسی بزنس مین سے کرکے سیکولر ازم کا پرچار کررہے ہیں۔
اس لیے قائداعظم نے اس شادی پر اعتراض کیا۔ بیٹی نے اس اعتراض کو رد کردیا۔ باپ نے ایک بیٹی کی محبت کو کروڑوں مسلم بیٹیوں کے روشن مستقبل پر قربان کردیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دینا واڈیا کی شکل میں قائداعظم کا رنگ و روپ دیکھ کر ہم اپنے جذبات قابو نہ کرسکے تھے، قائداعظم کے اصول کو توڑتے ہوئے ہم نے برملا کہا تھا کہ دینا واڈیا بانی پاکستان قائداعظم کی اصل جانشین ہیں، جو کہ قائداعظم کے اصول کے برخلاف بات تھی۔ دینا واڈیا مزار قائد پر حاضری دینے کے بعد مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات درج کرتی ہیں کہ: آج کا دن میرے لیے انتہائی دکھ اور حیرت انگیز دن ہے ، خدا کرے قائداعظم نے پاکستان کے لیے جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر ہو۔