اللہ کا پرچم
اللہ کی ذات کا کیا بیان بھلا مگر ہم تو اللہ سے محبت کرنے میں اس کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
رب العالمین نے اپنی گفتگو میں جو تمثیلات بیان فرمائی ہیں وہ جلیل القدر نبیوں کے بارے میں ان کی اطاعت، تفصیلی ارشاد خداوندی کے اخلاص اور اس کے سبب تکالیف ظاہری کا ذکر کیا ہے اور ان تکالیف کا سبب بننے والے بادشاہوں کا ذکر کیا ہے۔
موسیٰؑ اور فرعون کا قصہ اور ہارون کا دور اور ان کی ناکامی اور موسیٰؑ کی واپسی اور پھر موسیٰؑ کا صورتحال کو Normal کرنا، خضرؑ اور موسیٰؑ کا سفر اور دانائی اور حکمت کا بیان اور موسیٰؑ کا اس سفر میں ناکام ہوجانا، یعقوبؑ اور یوسف کا معاملہ اور اس میں یوسفؑ کے بھائیوں کا کریکٹر زلیخا کا کردار، اور فرعون مصرکا واقعہ، یہ چند میں نے سامنے رکھے ہیں حالانکہ ذکریاؑ کا بھی معاملہ بہت کمال کا ہے اور یونسؑ کا معاملہ بھی بہت دلچسپ۔
ان تمام سچے معاملات یا سچے واقعات میں کہ راوی خود خدا ہے ایک بات بہت عجیب ہے کہ نبی کے دور میں بادشاہ ضرور تھے، حضرت سلیمانؑ تو خود بادشاہ تھے اور ان کے علاوہ حضرت یوسفؑ بھی بادشاہ بنے۔ باقی نبی اپنے Followers کو ریاست کے ظلم سے بچانے کی کوشش کرتے رہے اور حضرت عیسیٰ کو تو عام روایت کے مطابق مصلوب کردیا گیا۔
تو یہ قصہ کیا ہے؟ وہ تو ہمیشہ سے قادر مطلق تھا، ہے اور رہے گا تو پھر یہ سب کیا، اس نے وہ کردار کیوں تخلیق کیے جو اس کے نبیوں کو اذیت دینے والے تھے اور ان کو تمام دنیاوی طاقت بھی دے دی کہ وہ ایسا کرسکیں اور اپنے نبیوں کو صراط مستقیم پر رہنے اور اپنی قوم کو رکھنے کا حکم دیا۔
کیونکہ یہ کتاب جو اللہ تعالیٰ کی گفتگو ہے باقی رہنے والی ہے آخر تک تو اس میں موجود باتیں بھی پرانے قصے کہانیاں نہیں ہیں بلکہ جہاں تک میں سمجھا ہوں یہ Refrences ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ جب بھی تحقیق میں کوئی دشوار مرحلہ آتا ہے تو تلاش Refrences کی ہوتی ہے۔دین مکمل کردیا اعلان کردیا گیا۔ گواہی بھی رسولؐ نے موجود لوگوں کی لے لی کہ میں نے وہ سارا پیغام تم تک پہنچادیا۔ لوگوں نے تصدیق کردی۔ رسول واپس چلے گئے ظاہری صورت کے اعتبار سے جو آیا تھا وہ گیا تھا۔ مگر یہ آخری نبی تھے ان پر رسالت مکمل ہوگئی تھی ۔
اور ان کے بعد ان کے اہل بیت یا اصحاب ہیں جو یقینا دوسروں سے ممتاز حیثیتیں ہیں۔ اگر امت مسلمہ کے اس دورکو دیکھا جائے یہ بات تو اس سلسلے کے ختم نبوت کے طور پر درمیان میں آگئی۔ لوگ تو آج بھی نعوذ باللہ بزعم خود خدا بنے بیٹھے ہیں ، ہمارا مقصد تو خدا کی دلچسپ حکمت کو زیر بیان لانا ہے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ ہم اور ہمارا ذہن اس ضمن میں ناقص ہیں، مگر جس سے محبت ہوتی ہے تو اس محبت میں حکمت کو تو ضرور دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ خوشی کا مقام ہوتا ہے۔
اللہ کی ذات کا کیا بیان بھلا مگر ہم تو اللہ سے محبت کرنے میں اس کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس نے کہا بھی ہے کہ جاؤ تلاش کرو تو لگتا یہ ہے اللہ ہم سب کا ایمان سلامت رکھے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے یہ تمام تمثیلات اس لیے بیان فرمائیں کہ یہ ہمارے کام آئیں۔ کیونکہ اللہ چاہتا تو کہتا ہے کہ بس ایک ہی نبی اور پیغمبر ہے اور آپ کو اسے ہی ماننا ہے تو ہم کیا بھلا انکار کردیتے؟ کیونکہ آخری نبی نے وہ کردار معاشرے میں پیش کیا تھا کہ سب یک زبان تھے کہ وہ صادق اور امین تھے اور بہترین انسان بھی دوسرے معمولات کی بنا پر۔ کائنات کتنے دنوں میں بنی؟ وجہ تخلیق کائنات کیا ہے؟ ان پر علما نے سیر حاصل گفتگو کی ہے اور قیامت تک گفتگو جاری رہے گی اور نت نئے جواز اور اسباب دریافت ہوتے رہیں گے۔
ہر دور میں نبی پر ظلم ضرور ہوا اور نبی کے ذمے یہ کام رہا کہ وہ حکمران کی بھی اصلاح کرے اور عوام کا تحفظ بھی۔ ان کو ان کے حقوق دلوائے چند ایک کے علاوہ کے وہ معاملات صبر، درگزر وغیرہ سے عبارت تھے۔ صبر ایوبؑ، جمال یوسفؑ، یدِ بیضا، یعنی پاکیزگی کردار اور شفا منجانب اللہ کا معجزہ۔
تو جیساکہ میں عرض کر رہا تھا اور میری ناقص رائے ہے کہ تمام ادوار مربوط بھی ہیں اور الگ الگ بھی کہ ہر نبی کا دور الگ ہے۔ مربوط یوں کہ ہر آنے والا اپنے سے پہلے کی تصدیق کرتا رہا اس طرح یہ تصدیق ہم تک پہنچی اور ہمارے ایمان کا ایک رکن بنی۔
تو ہر نبی کا ایک روحانی مرتبہ ہے اور ایک دنیاوی مرتبہ اور اس دنیاوی مرتبے کے لیے یہ ساری بساط بچھائی گئی، بساط کو مثبت معنوں میں لیجیے گا تو بہتر رہے گا اور اس کے کردار تھے اور وہ اپنا اپنا کام کر رہے تھے مگر ایک بات کے فرق کے ساتھ کہ ان کو بھی عقل و شعور دیا گیا تھا جو ہر اچھی بات سے انکاری تھے اور وہ بھی آزاد تھے کہ جو چاہے راہ اختیار کریں دنیا کا عیش و آرام دینے کا مقصد یہ تھا کہ مجبوری کی تسلیم و رضا نہ ہو بلکہ سب کچھ ہوتے ہوئے تسلیم و رضا کا راستہ اور درست عمل اختیار کیا جائے اگر وہ اس پر راضی ہے تو ورنہ اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے وہ بے نیاز ہے۔یہ کتاب قیامت تک ہے ہم اس کے وارث کہلاتے ہیں مسلم ہیں۔ تسلیم کرنے والے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کتاب بند رکھی جائے تو ٹھیک ہے یا کھولی جائے تو ٹھیک ہے؟
افسوس سے کہوں گا ان لوگوں کے لیے جو سیاست کے میدان میں ہیں کہ جنھوں نے اسے کھولا ہے ان میں سے ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب نے اس کی تجارت کی ہے، آپ خوب اچھی طرح جانتے ہیں نام لینا ضروری نہیں ہے، کس کس پہلو سے کیا کیا بیچا گیا ہے یہ بھی آپ جانتے ہیں۔ باقی نے یہ کتاب بند کرکے طاق میں رکھ دی ہے اور ان کا عمل انھی نافرمانوں جیسا ہے کہ جنھوں نے حق کے بجائے فائدے کو پسند کیا ہے، یہ سیاستدانوں کے بارے میں عرض کیا ہے یہ بھی حق کی طرف آسکتے ہیں، کاش آجائیں حُر کی طرح جس نے ایک رات میں وہ فیصلہ کیا کہ نبی کے خاندان میں شریک ہوگیا۔ اے اللہ ان کو بھی ایک ایسی رات دے کہ ان کی دنیا بھی پلٹ جائے اور پاکستان میں تیرا پرچم اور بلند ہو جائے۔ (آمین)
موسیٰؑ اور فرعون کا قصہ اور ہارون کا دور اور ان کی ناکامی اور موسیٰؑ کی واپسی اور پھر موسیٰؑ کا صورتحال کو Normal کرنا، خضرؑ اور موسیٰؑ کا سفر اور دانائی اور حکمت کا بیان اور موسیٰؑ کا اس سفر میں ناکام ہوجانا، یعقوبؑ اور یوسف کا معاملہ اور اس میں یوسفؑ کے بھائیوں کا کریکٹر زلیخا کا کردار، اور فرعون مصرکا واقعہ، یہ چند میں نے سامنے رکھے ہیں حالانکہ ذکریاؑ کا بھی معاملہ بہت کمال کا ہے اور یونسؑ کا معاملہ بھی بہت دلچسپ۔
ان تمام سچے معاملات یا سچے واقعات میں کہ راوی خود خدا ہے ایک بات بہت عجیب ہے کہ نبی کے دور میں بادشاہ ضرور تھے، حضرت سلیمانؑ تو خود بادشاہ تھے اور ان کے علاوہ حضرت یوسفؑ بھی بادشاہ بنے۔ باقی نبی اپنے Followers کو ریاست کے ظلم سے بچانے کی کوشش کرتے رہے اور حضرت عیسیٰ کو تو عام روایت کے مطابق مصلوب کردیا گیا۔
تو یہ قصہ کیا ہے؟ وہ تو ہمیشہ سے قادر مطلق تھا، ہے اور رہے گا تو پھر یہ سب کیا، اس نے وہ کردار کیوں تخلیق کیے جو اس کے نبیوں کو اذیت دینے والے تھے اور ان کو تمام دنیاوی طاقت بھی دے دی کہ وہ ایسا کرسکیں اور اپنے نبیوں کو صراط مستقیم پر رہنے اور اپنی قوم کو رکھنے کا حکم دیا۔
کیونکہ یہ کتاب جو اللہ تعالیٰ کی گفتگو ہے باقی رہنے والی ہے آخر تک تو اس میں موجود باتیں بھی پرانے قصے کہانیاں نہیں ہیں بلکہ جہاں تک میں سمجھا ہوں یہ Refrences ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ جب بھی تحقیق میں کوئی دشوار مرحلہ آتا ہے تو تلاش Refrences کی ہوتی ہے۔دین مکمل کردیا اعلان کردیا گیا۔ گواہی بھی رسولؐ نے موجود لوگوں کی لے لی کہ میں نے وہ سارا پیغام تم تک پہنچادیا۔ لوگوں نے تصدیق کردی۔ رسول واپس چلے گئے ظاہری صورت کے اعتبار سے جو آیا تھا وہ گیا تھا۔ مگر یہ آخری نبی تھے ان پر رسالت مکمل ہوگئی تھی ۔
اور ان کے بعد ان کے اہل بیت یا اصحاب ہیں جو یقینا دوسروں سے ممتاز حیثیتیں ہیں۔ اگر امت مسلمہ کے اس دورکو دیکھا جائے یہ بات تو اس سلسلے کے ختم نبوت کے طور پر درمیان میں آگئی۔ لوگ تو آج بھی نعوذ باللہ بزعم خود خدا بنے بیٹھے ہیں ، ہمارا مقصد تو خدا کی دلچسپ حکمت کو زیر بیان لانا ہے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ ہم اور ہمارا ذہن اس ضمن میں ناقص ہیں، مگر جس سے محبت ہوتی ہے تو اس محبت میں حکمت کو تو ضرور دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ خوشی کا مقام ہوتا ہے۔
اللہ کی ذات کا کیا بیان بھلا مگر ہم تو اللہ سے محبت کرنے میں اس کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس نے کہا بھی ہے کہ جاؤ تلاش کرو تو لگتا یہ ہے اللہ ہم سب کا ایمان سلامت رکھے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے یہ تمام تمثیلات اس لیے بیان فرمائیں کہ یہ ہمارے کام آئیں۔ کیونکہ اللہ چاہتا تو کہتا ہے کہ بس ایک ہی نبی اور پیغمبر ہے اور آپ کو اسے ہی ماننا ہے تو ہم کیا بھلا انکار کردیتے؟ کیونکہ آخری نبی نے وہ کردار معاشرے میں پیش کیا تھا کہ سب یک زبان تھے کہ وہ صادق اور امین تھے اور بہترین انسان بھی دوسرے معمولات کی بنا پر۔ کائنات کتنے دنوں میں بنی؟ وجہ تخلیق کائنات کیا ہے؟ ان پر علما نے سیر حاصل گفتگو کی ہے اور قیامت تک گفتگو جاری رہے گی اور نت نئے جواز اور اسباب دریافت ہوتے رہیں گے۔
ہر دور میں نبی پر ظلم ضرور ہوا اور نبی کے ذمے یہ کام رہا کہ وہ حکمران کی بھی اصلاح کرے اور عوام کا تحفظ بھی۔ ان کو ان کے حقوق دلوائے چند ایک کے علاوہ کے وہ معاملات صبر، درگزر وغیرہ سے عبارت تھے۔ صبر ایوبؑ، جمال یوسفؑ، یدِ بیضا، یعنی پاکیزگی کردار اور شفا منجانب اللہ کا معجزہ۔
تو جیساکہ میں عرض کر رہا تھا اور میری ناقص رائے ہے کہ تمام ادوار مربوط بھی ہیں اور الگ الگ بھی کہ ہر نبی کا دور الگ ہے۔ مربوط یوں کہ ہر آنے والا اپنے سے پہلے کی تصدیق کرتا رہا اس طرح یہ تصدیق ہم تک پہنچی اور ہمارے ایمان کا ایک رکن بنی۔
تو ہر نبی کا ایک روحانی مرتبہ ہے اور ایک دنیاوی مرتبہ اور اس دنیاوی مرتبے کے لیے یہ ساری بساط بچھائی گئی، بساط کو مثبت معنوں میں لیجیے گا تو بہتر رہے گا اور اس کے کردار تھے اور وہ اپنا اپنا کام کر رہے تھے مگر ایک بات کے فرق کے ساتھ کہ ان کو بھی عقل و شعور دیا گیا تھا جو ہر اچھی بات سے انکاری تھے اور وہ بھی آزاد تھے کہ جو چاہے راہ اختیار کریں دنیا کا عیش و آرام دینے کا مقصد یہ تھا کہ مجبوری کی تسلیم و رضا نہ ہو بلکہ سب کچھ ہوتے ہوئے تسلیم و رضا کا راستہ اور درست عمل اختیار کیا جائے اگر وہ اس پر راضی ہے تو ورنہ اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے وہ بے نیاز ہے۔یہ کتاب قیامت تک ہے ہم اس کے وارث کہلاتے ہیں مسلم ہیں۔ تسلیم کرنے والے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کتاب بند رکھی جائے تو ٹھیک ہے یا کھولی جائے تو ٹھیک ہے؟
افسوس سے کہوں گا ان لوگوں کے لیے جو سیاست کے میدان میں ہیں کہ جنھوں نے اسے کھولا ہے ان میں سے ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب نے اس کی تجارت کی ہے، آپ خوب اچھی طرح جانتے ہیں نام لینا ضروری نہیں ہے، کس کس پہلو سے کیا کیا بیچا گیا ہے یہ بھی آپ جانتے ہیں۔ باقی نے یہ کتاب بند کرکے طاق میں رکھ دی ہے اور ان کا عمل انھی نافرمانوں جیسا ہے کہ جنھوں نے حق کے بجائے فائدے کو پسند کیا ہے، یہ سیاستدانوں کے بارے میں عرض کیا ہے یہ بھی حق کی طرف آسکتے ہیں، کاش آجائیں حُر کی طرح جس نے ایک رات میں وہ فیصلہ کیا کہ نبی کے خاندان میں شریک ہوگیا۔ اے اللہ ان کو بھی ایک ایسی رات دے کہ ان کی دنیا بھی پلٹ جائے اور پاکستان میں تیرا پرچم اور بلند ہو جائے۔ (آمین)