صارفین بجلی کے مسائل
حکومت نے سستی بجلی کی فراہمی کی بجائے بجلی مہنگی سے مہنگی کرنے پر زور رکھا
SHABQADAR/MARDAN:
عوام 2018 کا شدت سے انتظار کررہے ہیں جب مسلم لیگ ن کی حکومت کا ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کردینے کا وعدہ پورا ہوگا اور عوام کو دس بارہ برس سے جاری بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات ملے گی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تو سال رواں نومبر میں ہی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا بھی بیان دیا تھا جب ملک میں سردی شروع ہونے کی وجہ سے بجلی کی کھپت کم ہوجائے گی تو موجودہ صورتحال میں یقینی طور پر مزید بہتری آجائے گی۔
پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی مانے نہ مانے مگر یہ حقیقت تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ 6جون 2013 کو اقتدار سنبھالنے والی مسلم لیگی حکومت نے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اپنی ترجیح بنایا تھا جس کے بعد بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع ہوئے اور حکومت کی خصوصی توجہ سے ملک میں بجلی کی پیداوار شروع ہوئی اور بعض منصوبے مقررہ مدت سے قبل ہی مکمل ہوئے جس پر حکومتی اقدامات کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی اور مسلم لیگ کو 2018 کے انتخابات میں عوام وہ سزا نہیں دیں گے جو انھوں نے سندھ کے علاوہ ملک بھر میں پیپلزپارٹی کو مسترد کرکے دی تھی۔
دنیا بھر میں اصول ہے کہ جو چیز زیادہ مقدار میں خریدی جائے وہ سستی پڑتی ہے مگر پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے جہاں بجلی کے کم استعمال پر نرخ کم اور زیادہ استعمال پر زیادہ ہیں اورکم سے کم ایک سو یونٹ استعمال کرنے والوں کو بجلی کے کبھی کم ہونے والے نرخوں پر رعایت نہیں ملتی جب کہ دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کراچی وبلوچستان کے بعض علاقوں کو بجلی فراہم کرنے والی کے الیکٹرک پر بجلی کی قیمت کم ہونے کا اطلاق نہیں کرایا جاتا کیونکہ کراچی میں وفاقی اور سندھ حکومت بھی کے الیکٹرک کی من مانیوں کے آگے بے بس اور مجبور ہیں اور کراچی کے لاکھوں صارفین کو کے الیکٹرک کی طرف سے ملنے والے عذاب پرکوئی توجہ نہیں دی گئی اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں ملا اور وفاقی ادارے بھی کے الیکٹرک سے اپنے فیصلوں پر عمل کرانے کی طاقت نہیں رکھتے کیونکہ ہمارے اپنے ہی مہربانوں کے باعث کے الیکٹرک کے غیر ملکی ٹھیکیداروں نے کراچی میں اپنی ریاست بنا رکھی ہے جو مکمل طور پر خود مختار اور آزاد ہے جس کی ریاست میں کوئی پر نہیں مار سکتا۔
ملک بھر میں پہلے بجلی کی فراہمی کی ذمے داری واپڈا کی ہوتی تھی جس کا چیئرمین ایک اعلیٰ تجربے کار افسر ہوا کرتا تھا اور چیئرمین واپڈا کے مشورے سے ڈیموں کی تعمیر، آبی اور برقی مسائل کے حل کے فیصلے ہوتے تھے اور ملک بھر میں واپڈا کے ملازمین کی ایک مضبوط اور موثر یونین ہوتی تھی جس کے ملک بھر میں یونٹ تھے جن کے اکثر عہدیداروں کا کام صرف لیڈری اور ملک بھر کے دورے کرنا ہوتا تھا۔ اس دور میں بھی بجلی کی چوری عام اور کرپشن عروج پر تھی جس کی سرپرستی نچلی سطح کے یونین عہدیدارکرتے تھے۔
کراچی میں کے ای ایس سی کی حالت بھی واپڈا سے مختلف نہیں تھی اور کے ای ایس سی کے با اثر ملازمین نے کچی آبادی اورگوٹھوں میں پلاٹوں پر قبضہ کر رکھا تھا جہاں انھوں نے بجلی کے قانونی اور غیر قانونی کنکشن دلا رکھے تھے جس کی وجہ سے بجلی کی چوری مسلسل بڑھتی رہی اور واپڈا کی طرح کے الیکٹرک کی جگہ کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کے ای ایس سی نے بھی اپنے ادارے کو تباہ کرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ پورے ملک میں بجلی چوری اورکرپشن کے سد باب کے لیے ملک بھر میںمہم چلائی گئی تھی جو زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئی۔
حکومت نے ملک بھر میں واپڈا کو مختلف زونز میں تقسیم کرکے لیسکو، حیسکو، ریسکو، فیسکو، میسکو، پیسکو، سیسکو کے نام پر مختلف ادارے بنادیے تھے مگر وہاں واپڈا دور کی یونین موجود تھی، جب کہ کے ای ایس سی کو بعد میں نجی ادارے کی تحویل میں دے کر حکمرانوں نے اپنے دوستوں کو ایسا نوازا کہ کے الیکٹرک کی کراچی میں اپنی ریاست قائم ہوگئی اور اس نے حکومت سے کیے گئے اپنے معاہدے پر عمل نہیں کیا۔ بجلی کی پیداوار پر توجہ نہیں دی گئی، کراچی میں لگی مضبوط کاپر وائر اترواکر مہنگی فروخت کرائی اور اس کی جگہ ہلکی تار استعمال ہوئی جس سے آئے دن فالٹ معمول بن کر رہ گئے ہیں اور شہری عذاب میں مبتلا ہیں۔
شہر کی تین سیاسی قوتوں ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور اے این پی کو خاموش رہنے کے لیے کے ای ایس سی میں تینوں کے کارکنوں پر بھاری تنخواہیں دے کر احسان کیا گیا جس پر تینوں جماعتوں نے صارفین بجلی سے آنکھیں بند کرلیں اور کبھی کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج کیا نہ میڈیا میں آواز اٹھائی اور تینوں کے منہ بند کردیے گئے تھے۔ کراچی میں کے الیکٹرک نے یونینوں کو بے اثرکردیا اور وہ اپنے ممبران کے حق میں کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں تو صارفین بجلی کو ملے ہوئے عذاب ختم کرانے کے لیے کیسے آواز اٹھاتیں۔ ملک بھر میں باقی جگہوں پر واپڈا یونین اب تک موثر ہیں اور وہاں سرکاری کمپنیاں وہ کچھ نہ کرسکیں جو کراچی میں کے الیکٹرک نے کر دکھایا ہے۔
ملک بھر میں بجلی کی چوری روکی نہ جاسکی تو لائن لاسز ان صارفین سے پورے کیے جارہے ہیں جو بجلی کے بل باقاعدگی سے ادا کرتے آرہے ہیں اور ان ہی صارفین پر بجلی چوری کا جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے اور ان ہی سے لائن لاسز کا خسارہ پورا کیا جارہاہے۔
حکومت نے کے الیکٹرک سمیت تمام بجلی کمپنیوں کے اوپر نیپرا کا ادارہ قائم کر رکھا ہے جو کمپنیوں کے کہنے پر بجلی کے نرخوں میں رد و بدل کرتا ہے اور پرانی تاریخوں سے اس پر عمل کراتا ہے۔ نیپرا کے الیکٹرک پر سب سے زیادہ مہربان ہے اور کبھی کے الیکٹرک کا نقصان ہونے نہیں دیتا بلکہ فائدہ پہنچاتا آرہا ہے۔ نیپرا کے چیئرمین جب کے ای ایس سی کے سربراہ تھے تو ان کا موقف تھا کہ بجلی مہنگی کرنے سے بجلی کی چوری کبھی نہیں روکی جاسکتی اور بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ خود بجلی چوری کی سب سے اہم وجہ ہیں۔
حکومت نے سستی بجلی کی فراہمی کی بجائے بجلی مہنگی سے مہنگی کرنے پر زور رکھا جس کی وجہ سے بجلی کی چوری کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے اور بجلی کمپنی کے افسروں اور کرپٹ اہلکاروں کی وجہ سے بجلی کی چوری نہیں رک رہی بلکہ بڑھ رہی ہے بجلی چوروں کے خلاف اس لیے کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ بجلی چوری میں عوام کا نہیں بلکہ متعلقہ اہلکاروں کا مفاد ہے۔ بجلی چوری جان بوجھ کر نہیں روکی جاتی اور بجلی ادا کرنے والے چور بنادیے جاتے ہیں۔
کراچی میں کے الیکٹرک کے خلاف وفاقی محتسب کے پاس روزانہ ہزاروں درخواستیں آتی ہیں جن میں کے الیکٹرک پر اضافی بلنگ کا الزام معمول ہے جن کے فیصلے صارفین کے حق میں زیادہ ہورہے ہیں مگر فیصلوں کے احکامات اسلام آباد سے جاری ہوتے ہیں جن پر عمل بالکل نہیں ہورہا اور وفاقی ادارے بھی ایک سال میں کے الیکٹرک سے اپنے فیصلوں پر عمل کرانے سے قاصر ہوچکے ہیں جب کہ اندرون ملک اضافی بلوں کی شکایت کا تدارک کسی حد تک ہوجاتا ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی صارفین بجلی کے حق میں مسلسل آواز اٹھارہی ہے مگر گورنر اور وزیراعلیٰ کچھ نہیں کررہے ہیں۔
عوام 2018 کا شدت سے انتظار کررہے ہیں جب مسلم لیگ ن کی حکومت کا ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کردینے کا وعدہ پورا ہوگا اور عوام کو دس بارہ برس سے جاری بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات ملے گی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تو سال رواں نومبر میں ہی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا بھی بیان دیا تھا جب ملک میں سردی شروع ہونے کی وجہ سے بجلی کی کھپت کم ہوجائے گی تو موجودہ صورتحال میں یقینی طور پر مزید بہتری آجائے گی۔
پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی مانے نہ مانے مگر یہ حقیقت تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ 6جون 2013 کو اقتدار سنبھالنے والی مسلم لیگی حکومت نے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اپنی ترجیح بنایا تھا جس کے بعد بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع ہوئے اور حکومت کی خصوصی توجہ سے ملک میں بجلی کی پیداوار شروع ہوئی اور بعض منصوبے مقررہ مدت سے قبل ہی مکمل ہوئے جس پر حکومتی اقدامات کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی اور مسلم لیگ کو 2018 کے انتخابات میں عوام وہ سزا نہیں دیں گے جو انھوں نے سندھ کے علاوہ ملک بھر میں پیپلزپارٹی کو مسترد کرکے دی تھی۔
دنیا بھر میں اصول ہے کہ جو چیز زیادہ مقدار میں خریدی جائے وہ سستی پڑتی ہے مگر پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے جہاں بجلی کے کم استعمال پر نرخ کم اور زیادہ استعمال پر زیادہ ہیں اورکم سے کم ایک سو یونٹ استعمال کرنے والوں کو بجلی کے کبھی کم ہونے والے نرخوں پر رعایت نہیں ملتی جب کہ دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کراچی وبلوچستان کے بعض علاقوں کو بجلی فراہم کرنے والی کے الیکٹرک پر بجلی کی قیمت کم ہونے کا اطلاق نہیں کرایا جاتا کیونکہ کراچی میں وفاقی اور سندھ حکومت بھی کے الیکٹرک کی من مانیوں کے آگے بے بس اور مجبور ہیں اور کراچی کے لاکھوں صارفین کو کے الیکٹرک کی طرف سے ملنے والے عذاب پرکوئی توجہ نہیں دی گئی اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں ملا اور وفاقی ادارے بھی کے الیکٹرک سے اپنے فیصلوں پر عمل کرانے کی طاقت نہیں رکھتے کیونکہ ہمارے اپنے ہی مہربانوں کے باعث کے الیکٹرک کے غیر ملکی ٹھیکیداروں نے کراچی میں اپنی ریاست بنا رکھی ہے جو مکمل طور پر خود مختار اور آزاد ہے جس کی ریاست میں کوئی پر نہیں مار سکتا۔
ملک بھر میں پہلے بجلی کی فراہمی کی ذمے داری واپڈا کی ہوتی تھی جس کا چیئرمین ایک اعلیٰ تجربے کار افسر ہوا کرتا تھا اور چیئرمین واپڈا کے مشورے سے ڈیموں کی تعمیر، آبی اور برقی مسائل کے حل کے فیصلے ہوتے تھے اور ملک بھر میں واپڈا کے ملازمین کی ایک مضبوط اور موثر یونین ہوتی تھی جس کے ملک بھر میں یونٹ تھے جن کے اکثر عہدیداروں کا کام صرف لیڈری اور ملک بھر کے دورے کرنا ہوتا تھا۔ اس دور میں بھی بجلی کی چوری عام اور کرپشن عروج پر تھی جس کی سرپرستی نچلی سطح کے یونین عہدیدارکرتے تھے۔
کراچی میں کے ای ایس سی کی حالت بھی واپڈا سے مختلف نہیں تھی اور کے ای ایس سی کے با اثر ملازمین نے کچی آبادی اورگوٹھوں میں پلاٹوں پر قبضہ کر رکھا تھا جہاں انھوں نے بجلی کے قانونی اور غیر قانونی کنکشن دلا رکھے تھے جس کی وجہ سے بجلی کی چوری مسلسل بڑھتی رہی اور واپڈا کی طرح کے الیکٹرک کی جگہ کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کے ای ایس سی نے بھی اپنے ادارے کو تباہ کرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ پورے ملک میں بجلی چوری اورکرپشن کے سد باب کے لیے ملک بھر میںمہم چلائی گئی تھی جو زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئی۔
حکومت نے ملک بھر میں واپڈا کو مختلف زونز میں تقسیم کرکے لیسکو، حیسکو، ریسکو، فیسکو، میسکو، پیسکو، سیسکو کے نام پر مختلف ادارے بنادیے تھے مگر وہاں واپڈا دور کی یونین موجود تھی، جب کہ کے ای ایس سی کو بعد میں نجی ادارے کی تحویل میں دے کر حکمرانوں نے اپنے دوستوں کو ایسا نوازا کہ کے الیکٹرک کی کراچی میں اپنی ریاست قائم ہوگئی اور اس نے حکومت سے کیے گئے اپنے معاہدے پر عمل نہیں کیا۔ بجلی کی پیداوار پر توجہ نہیں دی گئی، کراچی میں لگی مضبوط کاپر وائر اترواکر مہنگی فروخت کرائی اور اس کی جگہ ہلکی تار استعمال ہوئی جس سے آئے دن فالٹ معمول بن کر رہ گئے ہیں اور شہری عذاب میں مبتلا ہیں۔
شہر کی تین سیاسی قوتوں ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور اے این پی کو خاموش رہنے کے لیے کے ای ایس سی میں تینوں کے کارکنوں پر بھاری تنخواہیں دے کر احسان کیا گیا جس پر تینوں جماعتوں نے صارفین بجلی سے آنکھیں بند کرلیں اور کبھی کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج کیا نہ میڈیا میں آواز اٹھائی اور تینوں کے منہ بند کردیے گئے تھے۔ کراچی میں کے الیکٹرک نے یونینوں کو بے اثرکردیا اور وہ اپنے ممبران کے حق میں کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں تو صارفین بجلی کو ملے ہوئے عذاب ختم کرانے کے لیے کیسے آواز اٹھاتیں۔ ملک بھر میں باقی جگہوں پر واپڈا یونین اب تک موثر ہیں اور وہاں سرکاری کمپنیاں وہ کچھ نہ کرسکیں جو کراچی میں کے الیکٹرک نے کر دکھایا ہے۔
ملک بھر میں بجلی کی چوری روکی نہ جاسکی تو لائن لاسز ان صارفین سے پورے کیے جارہے ہیں جو بجلی کے بل باقاعدگی سے ادا کرتے آرہے ہیں اور ان ہی صارفین پر بجلی چوری کا جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے اور ان ہی سے لائن لاسز کا خسارہ پورا کیا جارہاہے۔
حکومت نے کے الیکٹرک سمیت تمام بجلی کمپنیوں کے اوپر نیپرا کا ادارہ قائم کر رکھا ہے جو کمپنیوں کے کہنے پر بجلی کے نرخوں میں رد و بدل کرتا ہے اور پرانی تاریخوں سے اس پر عمل کراتا ہے۔ نیپرا کے الیکٹرک پر سب سے زیادہ مہربان ہے اور کبھی کے الیکٹرک کا نقصان ہونے نہیں دیتا بلکہ فائدہ پہنچاتا آرہا ہے۔ نیپرا کے چیئرمین جب کے ای ایس سی کے سربراہ تھے تو ان کا موقف تھا کہ بجلی مہنگی کرنے سے بجلی کی چوری کبھی نہیں روکی جاسکتی اور بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ خود بجلی چوری کی سب سے اہم وجہ ہیں۔
حکومت نے سستی بجلی کی فراہمی کی بجائے بجلی مہنگی سے مہنگی کرنے پر زور رکھا جس کی وجہ سے بجلی کی چوری کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے اور بجلی کمپنی کے افسروں اور کرپٹ اہلکاروں کی وجہ سے بجلی کی چوری نہیں رک رہی بلکہ بڑھ رہی ہے بجلی چوروں کے خلاف اس لیے کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ بجلی چوری میں عوام کا نہیں بلکہ متعلقہ اہلکاروں کا مفاد ہے۔ بجلی چوری جان بوجھ کر نہیں روکی جاتی اور بجلی ادا کرنے والے چور بنادیے جاتے ہیں۔
کراچی میں کے الیکٹرک کے خلاف وفاقی محتسب کے پاس روزانہ ہزاروں درخواستیں آتی ہیں جن میں کے الیکٹرک پر اضافی بلنگ کا الزام معمول ہے جن کے فیصلے صارفین کے حق میں زیادہ ہورہے ہیں مگر فیصلوں کے احکامات اسلام آباد سے جاری ہوتے ہیں جن پر عمل بالکل نہیں ہورہا اور وفاقی ادارے بھی ایک سال میں کے الیکٹرک سے اپنے فیصلوں پر عمل کرانے سے قاصر ہوچکے ہیں جب کہ اندرون ملک اضافی بلوں کی شکایت کا تدارک کسی حد تک ہوجاتا ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی صارفین بجلی کے حق میں مسلسل آواز اٹھارہی ہے مگر گورنر اور وزیراعلیٰ کچھ نہیں کررہے ہیں۔