سیاسی جماعتیں ہوشیار رہیں
پھانسیاں، جیل، کوڑے، جلا وطن اور سیاسی پابندیوں کے ساتھ ساتھ خود ان کی سیاسی جماعتوں پر برا وقت آجاتا ہے
ISLAMABAD:
پاکستان کی سیاسی تاریخ جمہوریت اور آمریت کے درمیان کشمکش کا نام ہے۔ جب بھی وطن عزیز پر آمریت مسلط کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے تو پاکستان کے محب وطن اور جمہوریت پسند عوام اپنی عظیم الشان سیاسی جدوجہد سے عوام کی حکمرانی بحال کرالیتے ہیں، مگر اس دوران سیاسی قائدین اور ان کی سیاسی جماعتوں کو بے مثال قربانی دینی پڑتی ہے۔ پھانسیاں، جیل، کوڑے، جلا وطن اور سیاسی پابندیوں کے ساتھ ساتھ خود ان کی سیاسی جماعتوں پر برا وقت آجاتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب قیادت اقتدار سے علیحدہ ہوجاتی ہے تو پارٹی میں کئی گروپ بن جاتے ہیں۔
ماضی میں پیپلز پارٹی کی مثال ہمارے سامنے ہے، حال ہی میں اے این پی اور ایم کیو ایم کی مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں دھڑے بندی کبھی کبھی ازخود ہوتی ہے اورکبھی بعض نادیدہ قوتوں کی کوششوں سے پارٹی کا شیرازہ بکھیرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں، لیکن ایسی قوتوں کو ہر بارکامیابی نصیب نہیں ہوتی۔کرشماتی سیاست کرنے والے لیڈر اپنی زندگی میں بھی عوام کے محبوب رہنما تصورکیے جاتے ہیں اور بعد از مرگ بھی وہ امر ہو جاتے ہیں، جس کی بہترین مثال ذوالفقارعلی بھٹو ہیں ۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب مسلم لیگ ن میں دھڑے بندی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی مسلم لیگ ن کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی اور کافی ارکان کو توڑ کرکنگز پارٹی تشکیل دی گئی جو آمرکی سرپرستی میں برسراقتدار بھی رہی لیکن عوام نے اگلے جنرل الیکشن میں جو سن دوہزار تیرہ میں ہوئے کنگز پارٹی کا صفایا کردیا ۔
قارئین ! ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ الیکشن ہونے جارہے ہیں تو کیا حکومت نے وہ وعدے پورے کیے ہیں جو اس نے عوام سے کیے تھے یا نہیں ؟ اپنے حالیہ چار سالہ دور میں موجودہ حکومت نے امن و امان کا قیام ، توانائی کے بحران پر قابو پانا، زوال پذیر معیشت کی برتری، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ، معیشت کو دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت میں شامل کرنے، موٹر وے اور ہائی ویز کا جال بچھانے اور سب سے بڑھ کر سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو حقیقت کے روپ میں تبدیل کرنے کی کوشش کرکے ثابت کیا ہے کہ اس کے کاموں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یقینا ملک میں جمہوریت پہلے کی نسبت مستحکم ہوئی ہے۔
لہذا یہ انتہائی اہم سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا کوئی پارٹی مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک توڑ سکتی ہے یا نہیں۔ پارٹی کی عوامی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ہے۔ جمہوری عوام اپنا سفر جاری رکھیں گے۔امید ہے کہ کوئی بھی مائنس ون فارمولہ نہ پہلے کامیاب ہوا ہے اور نہ اب کامیاب ہوگا۔
حالیہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے ، افواہوں کا ایک بازار گرم ہے ، روزانہ الیکٹرانک میڈیا پر ہر ٹاک شو ریٹنگ کے بھنور میں ایسا پھنسا ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ پہلے تو ایک لابی اپنے تبصروں اور تجزیوں کے ذریعے مسلم لیگ ن کے سربراہ اور شہباز شریف کے درمیان اختلافات پیدا کرکے قیادت کے مسائل کو ابھارنا چاہتی تھیں ۔ لیکن یہ محض افواہیں اور قیاس آرائیاں ہی ثابت ہوئیں ۔ افواہ ساز لابی نے جب یہ دیکھا کہ اس کا تیر نشانے پر نہیں لگا تو اس نے مریم نواز اور حمزہ شہباز کا کارڈ کھیلا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان اختلافات کی افواہیں پھیلانا شروع کردیں، وہ خبریں بھی دم توڑ گئیں اور ن لیگی قیادت کے متحد ہونے کا تاثرگہرا ہوگیا ۔
یہ درست ہے کہ کسی مسئلے پر آرا متضاد ہوسکتی ہیں لیکن یہ واضح ہوگیا کہ ذاتی اختلافات یا گروپ بندی کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ قیاس آرائی بھی کی گئی کہ ن لیگ کے اراکین اسمبلی کا ایک گروپ پارٹی سے الگ ہونے والا ہے اور ایک نیا دھڑا سامنے آئے گا۔ مگر یہ قیاس آرائی بھی محض ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہی ثابت ہوئی۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہا گیا لیکن امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب چوہدری نثار علی خان نے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنا کوئی سیاسی گروپ نہیں بنارہے اور وہ پارٹی کے ساتھ ہیں۔
اختلافات جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں لیکن اختلافات اور دھڑے بندی میں فرق کیا جانا چاہیے۔ جب یہ ساری قیاس آرائیاں دم توڑنے لگیں تو بعض عناصر نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے بھی افواہیں پھیلانی شروع کردیں۔ لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک بار پھر واضح کردیاکہ وہ پارٹی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔ یعنی تمام ترکوششوں کے اور بلند بانگ دعوؤں اور تجزیوں کے باوجود ابھی تک مسلم لیگ ن ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہے ۔
قارئین ! شاید آپ سمجھیں گے میں اپنے اس تجزیے میں مسلم لیگ ن کی حمایت کررہا ہوں،ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس صورتحال جو انتہائی اہم ہے ، میں اس کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ اصل چیز جمہوریت ہے جو ملک کی ترقی وخوشحالی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا اپنا اپنا منشور ہے ، ان میں اختلافات بھی ہیں ،لیکن ان کی منزل ایک ہے یعنی ملک میں جمہوریت کا عمل جاری رہے ۔ لہذا ذاتی اختلافات کو اس حد تک لے جانے سے گریز کیا جانا چاہیے جہاں کسی تیسری قوت کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ملک پر دوبارہ آمریت مسلط کردی جائے ۔
پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اسے جمہور نے ووٹ کی طاقت سے بنایا تھا اور یہ عوام کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ نمایندوں کے چناؤ ہر پانچ سال بعدکریں ، انھیں اس حق سے محروم کرنے کے بھیانک نجات ہم ماضی قریب میں بنگلہ دیش کی صورت میں بھگت چکے ہیں ۔ جمہوری عمل ہر صورت میں جاری رہنا چاہیے ، ہر پارٹی کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ مخالفت میں اس حد تک نہ جائیں کہ جمہوریت کو نقصان پہنچے ، سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ آنے والے الیکشن کی بھرپور تیاری کریں، جلسے ، جلوس کریں ، ووٹرز سے رابطہ کریں ، اور اپنی اپنی پارٹی کو کامیاب کروائیں۔
یہ وقت ہے سیاسی قیادت کے فہم وفراست اور تدبر کے امتحان کا ۔ یقینا الیکشن ہوں گے اور تمام پارٹیاں اس میں بھرپور حصہ لیں اور وہ نادیدہ قوتیں ناکام ہوں گی جو ہر سیاسی میںپارٹی میں دھڑے بندی کی سازشیں کرتی رہتی ہیں ۔ جمہوریت کے تسلسل میں ہی ملک کی بقا ہے۔