عہد جدید کی سفاکی
الٹراساؤنڈ ایک کثیر النوع فائدے والی مشین ہے جس کے ذریعے بیماری کی تشخیص بہت جلد اور یقینی ہو جاتی ہے۔
سوائے ان چند استثنائی چیزوں کے جو سرا سر اور فی نفسہ یا تو خیر ہوتی ہیں یا پھر شر ... دنیا میں زیادہ تر ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک اچھا اور ایک برا ... آج سائنسی دور ہے اور روز کسی نہ کسی شعبے سے متعلق کوئی نئی ایجاد اور ٹیکنالوجی سامنے آ جاتی ہے۔ یہ ایجادات بھی اپنے استعمال کے اعتبار سے ہر دو پہلو رکھتی ہیں یعنی اگر ان کا استعمال مثبت اور تعمیری ہو اور ان سے بنی نوع انسان کو فائدہ ہو رہا ہو تو یہ خیر کا باعث ہیں اور اگر ان کا استعمال منفی اور تخریبی ہو اور ان کے زیادہ تر استعمال سے بجائے فائدے کے انسانوں کو نقصان پہنچ رہا ہو تو پھر ان پر شر کا پہلو غالب آ جاتا ہے۔
شاید میڈیکل کا شعبہ وہ واحد شعبہ ہے جس کی تاریخ میں اب تک جتنی بھی تحقیقات ہوئی ہیں ان کا غلط استعمال بہت کم ہوا ہے لیکن انسانی جسم میں جھانکنے والی الٹرا ساؤنڈ مشین کے حوالے سے پچھلے برسوں میں جو رپورٹس سامنے آئی ہیں انھیں دیکھ سن کر یقین نہیں آتا کہ انسان اتنا بے رحم بھی ہو سکتا ہے؟
الٹراساؤنڈ ایک کثیر النوع فائدے والی مشین ہے جس کے ذریعے بیماری کی تشخیص بہت جلد اور یقینی ہو جاتی ہے۔ پہلے اس کا استعمال بہت محدود تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا استعمال طب کے کئی شعبوں میں بڑھتا چلا گیا، خصوصاً حمل کے بعد گائنی ڈاکٹر حاملہ کا الٹرا ساؤنڈ کروانے لگے۔ مقصد یہ تھا کہ رحم میں موجود بچے کی پوزیشن اور دوسری رپورٹس وغیرہ دیکھ کر پیدائش کے وقت اور پیدائش کے بعد کی پیچیدگیوں کا اندازہ کر کے، ان سے بچے اور ماں کو بچایا جا سکے۔
اور واقعی اس مقصد کے لیے الٹراساؤنڈ کا استعمال بہت فائدہ مند رہا مگر اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر حضرات کی طرف سے حمل کی حالت میں غیر ضروری الٹراساؤنڈ کروانے سے بچنے کی ہدایات بھی تھیں کیوں کہ الٹرا ساؤنڈ ریز سے نوزائیدہ کو نقصان بھی پہنچ سکتا تھا، پھر اچانک حمل کی حالت میں الٹراساؤنڈ کروانے کا ایک بڑا منفی پہلو سامنے آیا جو درحقیقت ایک بہت پرانے اخلاقی مسئلے سے وابستہ تھا، وہ یہ کہ حمل کی حالت میں الٹرا ساؤنڈ کروانے سے جہاں اور بہت سی معلومات حاصل ہوتیں، وہاں بچے کی جنس کے بارے میں بھی معلوم ہو جاتا تھا اور چونکہ آج کے بظاہر روشنی کے دور میں بھی بچیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔
اس لیے ہونے والے بچے کی جنس کی شناخت کو پتھر دل لوگوں نے غنیمت جانا اور رحمِ مادر میں اگر تو اللہ کی رحمت، صنف نازک ہے تو اس کی کسی طرح رحم میں ہی ختم کر دیا جانے لگا۔ یہ بھیانک صورت حال زیادہ دیر چھپی نہ رہ سکی اور میڈیا پر آ گئی۔ سلیم الفطرت لوگ یہ خبر پڑھ کر دل تھام گئے کہ اس خبر میں کوئی اور نہیں ماں باپ (جو ایسے رشتے ہیں کہ وقت پڑنے پر بچوں پر جان وار دیتے ہیں) ملوث تھے۔ پھر کہنے والوں نے کہا کہ لیبارٹریز اور ڈاکٹر حضرات کو پابند کیا جائے کہ وہ کسی صورت بچے کی جنس کسی کو نہ بتائیں۔ مگر یہ بات صرف کہنے کی حد تک رہی کیوں کہ اب بھی اس سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے انڈیا کے بارے میں یہ بہیمانہ رپورٹ آئی تھی کہ وہاں کے ایک اسپتال سے کھدائی کے دوران تقریباً تین سو نو زائیدہ بچیوں کی ہڈیاں برآمد ہوئی ہیں۔ جب تحقیق ہوئی تو یہ بھیانک بات سامنے آئی کہ جدید ٹیکنا لوجی کے ذریعے قبل از پیدائش بچوں کی جنس معلوم کروا کر' اگر بچی ہے تو والدین اور اسپتال کے عملے کی ملی بھگت سے پیدا ہونے سے پہلے ہی بچوں کو قتل کر دیا جاتا تھا، اور ان کی باقیات کو وہیں دفن کر دیا جاتا تھا۔ اس درندگی کے سامنے آنے کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے خصوصی حکم میں بچے کی جنس جاننے کے لیے کروائے جانے والے الٹراساؤنڈ کو غیر قانونی اور قابل سزا گردانا ہے۔
چین کے بارے میں بھی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے کہ چین میں ایک بچے کی ولادت کی اجازت کے فلسفے نے صرف پچیس برسوں میں چین کی آبادی پر خطرناک منفی اثرات مرتب کیے ہیں، جس کے نتیجے میں عورتوں مردوں کے تناسب میں حیرت انگیز کمی ہوئی۔ وہاں بھی الٹراساؤنڈ کے ذریعے قبل از وقت ولادت بچے کی جنس معلوم کر لی جاتی اور چوں کہ ایک ہی بچے کی اجازت تھی، اس لیے لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کو ترجیح دی گئی ۔ اس طرح لڑکیوں کی تعداد میں اس قدر کمی ہو گئی کہ چینی لڑکوں کو شریک حیات بنانے کے لیے دوسرے ممالک کی لڑکیوں کو چننا پڑ رہا ہے۔ کچھ یہی صورت حال ویت نام کے ساتھ درپیش ہے۔
ویت نام میں صرف دو بچوں کو پیدا کرنے کی اجازت تھی، لہٰذا شادی شدہ جوڑوں نے لڑکوں کو ترجیح دی۔ ویت نام میں اسقاط حمل کی قانونی اجازت اور الٹراساؤنڈ کے ذریعے ابتدائی طور پر بچے کی جنس معلوم کرنے کی سہولت کے باعث آغوشِ مادر اور گہوارے میں غیر طبعی موت کی بجائے اب بچوں کو رحم مادر میں ہی غیر طبعی موت سے ہم کنار کر دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ویت نامی آبادی میں بھی لڑکیوں کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہو گئی ہے۔ 123 لڑکوں کے لیے صرف 100 لڑکیاں ہیں جس کے باعث معاشرتی زندگی بحرانوں کا شکار ہو رہی ہے۔
چین اور ویت نام نے ایک اور دو بچوں کی پابندی کی شرائط عائد کرتے ہوئے اس بات پر غور نہیں کیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے باعث من پسند جنس حاصل کرنے کی سہولت ان جدید معاشروں کے لیے بھیانک خطرات اور بھیانک جرائم کی سوغات لے کر آئے گی۔ بھارت، چین، یورپ، امریکا، جاپان، دنیا کے جدیدیت پسند اور مہذب ترین ملک سمجھے جاتے ہیں مگر ان مہذب سولائزڈ ملکوں کے بڑے بڑے مہذب لوگ جن میں عورتیں اور مرد یکساں طور پر شامل ہیں، اسقاط حمل کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے روزانہ ہزاروں بچیوں کے قتل عام کا کھلم کھلا ارتکاب کرتے ہیں۔ لیکن ان قاتلوں کو نہ کوئی قاتل کہتا ہے نہ خونی مجرموں کے لیے قانون میں کوئی سزا ہے۔ قاتل عموماً غیروں اجنبیوں کو قتل کرتا ہے مگر عہدِ جدید نے ایسے سفاک وحشی درندے پیدا کیے ہیں جو مقتول کے لیے اجنبی نامانوس اور غیر نہیں بلکہ اس کے سگے ماں باپ ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں اکیس تہذیبیں موجود رہی ہیں مگر کہیں کسی تہذیب کے ماں باپ اتنے ذلیل سفاک اور محبت سے خالی نہیں تھے جس طرز کے سفاک انسان ماں باپ کی شکل میں موجودہ تہذیب نے پیدا کیے ہیں۔ دورِ جہالت میں چند عرب قبائل میں بچیوں کو زندہ درگور کرنے کی جو رسم تھی وہ ایک علاقائی اور چند قبائل تک محدود تھی اور وہ بھی انفرادی حیثیت تک تھی۔ پھر اس صورت حال میں سب سے زیادہ ظلم عورت ذات پر ہوا ہے۔ الٹراساؤنڈ کے ذریعے بچے کی جنس کا قبل از وقت پتہ کروایا جاتا ہے، پھر اگر بچی ہے تو اکثر کیسوں میں ماں کو اس کا خاوند اور سسرال والے مجبور کرتے ہیں کہ وہ اسقاط کرا دے، اس طرح معصوم بچی کو قبل از وقت پیدائش ہی بڑی بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، اس ماں اور بچی کے لیے کوئی خواتین کے حقوق کی ذمے دار تنظیم آواز کیوں نہیں اٹھاتی!!... اسقاط کروانے کی وجہ سے ماں بننے والی عورتوں کی صحت بھی غیر متوازن ہو گئی ہے، اور اس وجہ سے عورتوں میں بے شمار وہ بیماریاں پیدا ہو گئی ہیں جن کا پوری انسانی تاریخ میں سرا غ نہیں ملتا۔
اس لیے اس حوالے سے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے کہ تمام الٹراساؤنڈ لیبارٹریز اور ڈاکٹرز کو سختی سے اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ حاملہ کے الٹرا ساؤنڈ کرنے پر کسی بھی صورت میں کسی بھی شخص کو بچے کی جنس کے بارے میں نہیں بتائیں گے' چاہے وہ بچے کے والدین ہی کیوں نہ ہوں، تا کہ کسی غلط ارادے کو راستہ ہی نہ ملے۔ ورنہ یقین جانیے کہ پاکستان میں بھی بھارت، چین اور ویت نام کی طرح کی صورت حال بنتے زیادہ دیر نہیں لگے گی، اور شاید پاک و ہند میں یہ مسئلہ چین اور دوسرے ممالک سے زیادہ سنگین صورت حال اختیار کر جائے، کیوں کہ یہاں جاری خود ساختہ رسم و رواج میں ایک رسمِ خبیث جہیز بھی ہے جس کی وجہ سے یہ اللہ کی رحمت چہکتی، کھلکھلاتی معصوم پریاں یہاں کے پچاس فیصد والدین کی نگاہ میں بوجھ ہیں۔