تھری ڈی پرنٹنگ اور گلوبلائزیشن

پرنٹر کیا یہ ایک ایسی مشین ہے جو کسی بھی چیز کو مطلوبہ سانچے میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

shaikhjabir@gmail.com

ستاروں سے در و دیوار کو اپنے سجائوں گا

دریچہ وا کروں گا، آسماں کمرے میں لائوں گا

بہت ہی تھوڑے سے عرصے میں ہم میکنیکل سے ڈیجیٹل دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ کمپیوٹر سے انٹرنیٹ اور اب انٹرنیٹ سے جدید ٹیکنالوجی تھری ڈی پرنٹنگ۔ یہ تمام سفر نہایت سُرعت سے طے ہوا ہے۔ تھری ڈی پرنٹنگ کیا ہے؟ یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک ایسا چھوٹا سا کارخانہ ہے جو قریباً کوئی بھی چیز تیار کر سکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک عظیم ایجاد ہے۔ انٹر نیٹ سے بھی بڑی۔ ہمارے بہت سے گھروں میں آج بھی کمپیوٹر سے پرنٹر منسلک ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ مستقبل قریب میں آپ کے گھر میں ایسے پرنٹر ہوں گے جو آپ کے کمپیوٹر میں موجود تصاویر کو حقیقی اشیاء کا روپ دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔

آپ اپنے کھلونے، اپنے موبائل، روز مرہ کے استعمال کی اشیاء یہاں تک کہ بعض حالات میں کار تک خود تیار کر سکیں گے۔ پرنٹر کیا یہ ایک ایسی مشین ہے جو کسی بھی چیز کو مطلوبہ سانچے میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یقین جانیے یہ ''اسٹار ٹریک'' طرز کے کسی خلائی ٹی وی ڈرامے کی باتیں نہیں ہیں۔ یہ آج کی حقیقتیں ہیں۔ وقت کا سفر اور انسان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ براہ راست منتقلی یقینا آج بھی ایک خواب ہی ہے۔ لیکن کمپیوٹر میں موجود تصاویر کا واقعہ بننا تھری ڈی پرنٹنگ ہے۔ چھوٹی موٹی گھریلو اشیاء کو تو جانے ہی دیں، ''اکنامسٹ'' کہتا ہے کہ برسلز کے نزدیک فٖلٹن کے مقام پر جہاں برطانوی سپر سانک کنکارڈ کے فِلیٹ fleet تیار ہوتے ہیں۔

ٹائی ٹینم سے بنا لینڈنگ گیر کا بریکٹ درکار تھا۔ یہ ایک پیچیدہ پُرزہ ہوتا ہے۔ یہ پُرزہ ایک بڑے دھاتی ٹکڑے سے بڑی باریکی اور نفاست سے بنایا جاتا ہے۔ یہ دقت طلب کام فِلٹن میں موجود ماہرین نے تھری ڈی پرنٹر سے نہایت آسانی سے لے لیا۔ ماہرین کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ جہازوں کے پورے پورے پُرزے بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چھوٹے سائز کے بغیر پائلٹ کے جہاز (ڈرون) بنانے کا کامیاب تجربہ کچھ عرصہ قبل بڑی کامیابی سے کیا جا چکا ہے۔ یہ ایک ایسا جہاز تھا جس نے 100میل فی گھنٹہ کے حساب سے اُڑان بھری تھی۔ یہ تمام کا صرف ایک کمپیوٹر اور تھری ڈی پرنٹر سے لیا گیا تھا۔

انجینئر اور ڈیزائنر گزشتہ دہائی سے تھری ڈی پرنٹر استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ استعمال محدود پیمانے پر تھا۔ پہلے اس ٹیکنالوجی کا استعمال عملی تجربے سے قبل ایک ملتی جُلتی آگہی کے لیے کیا جاتا تھا۔ آج تھری ڈی پرنٹرز بہت آگے نکل گئے ہیں۔ یہ نہ صرف یہ کہ صنعتی پلاسٹک بلکہ دھاتوں کو بھی اجسام میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج کے تھری ڈی پرنٹرز نقل یا کھلونے نہیں بنا رہے بلکہ اصل اشیاء بنا رہے ہیں۔ ایسی اشیاء جنھیں عام زندگی میں برتا جا سکتا ہے۔ آپ نے اپنے کمپیوٹر پر ایک کار تیار کی۔ کمپیوٹر اسکرین پر اسے چلا پھرا کر دیکھا۔

ہر آزمائش سے گزارنے کے بعد آپ نے اپنے کمپیوٹر سے منسلک پرنٹر کو پرنٹ کا آرڈر دیا۔ کار تیار ہے۔ ہے نا حیرت انگیز۔ ''یوربی۔ٹو'' کے ماہر ڈیزائنر جم کور نے اِسی طریقے سے ایک کار تیار کی ہے۔ پلاسٹک کی کار۔ جس کا پلاسٹک اسٹیل ہی کی طرح فولاد ہے۔ مضبوط لیکن ہلکی پھلکی۔ صرف 544 کلو گرام وزن کی، تین پہیوں کی اس کار کو اگر باقاعدہ کار نہ بھی تسلیم کیا جائے، تب بھی یہ ایک عمدہ موٹر سائیکل تو ہے ہی۔ جم کور کا کہنا ہے کہ ہم جلد ہی اسے ایک عام کار سے بھی زیادہ مضبوط کار بنا دیں گے۔


تھری ڈی پرنٹنگ کا یہ صرف ایک انداز ہے۔ آپ اس جدید ٹیکنالوجی سے ان گنت میدانوں میں کام لے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر طب کے میدان میں۔ اس پرنٹر سے آپ نہ صرف یہ کہ دانتوں کے عمدہ کرائون بنا سکتے ہیں بلکہ مصنوعی ہڈیاں اور جوڑ بھی تیار کیے جا سکتے ہیں۔ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کچھ ہی دنوں میں جب یہ پرنٹرز اور ٹشو ریپئیر ٹیکنالوجی کچھ اور ترقی کر لے گی تو اس پرنٹر کے ذریعے مصنوعی اعضاء بھی بنائے جا سکیں گے۔ یعنی مصنوعی گردے وغیرہ۔ واللہُ اعلم۔ خیال ہے کہ مستقبل قریب میں عمارتی تعمیرات میں استعمال ہونے والے سامان سے لے کر بڑے بڑے پُلوں میں استعمال ہونے والے دھاتی پرزے تک بڑی نفاست اور مضبوطی سے بنائے جا سکیں گے۔

ماہرین کی یہ بھی رائے ہے کہ عام ہونے پر یہ ٹیکنالوجی گلوبلائزیشن کا خاتمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ صارف کے لیے آسان ہو گا کہ وہ اپنی ضرورت یا پسند کی اشیاء افراد یا کارپو ریشنز سے خریدنے کے بجائے گھر ہی پر تیار کر لے۔ آج جب کہ تھری ڈی پرنٹنگ گھٹنوں کے بل چلنا شروع ہوئی ہے، ایک تھری ڈی پرنٹر ایک ہزار ڈالر کا بھی مل جاتا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ مزید بہتر اور مزید سستا ہو گا۔ خیال ہے کہ جس قیمت میں مارکیٹ سے جوتوں کا ایک جوڑا لیا جا سکے گا اسی قیمت میں ایک پرنٹر مل جایا کرے گا۔ اس پرنٹر کو کمپیوٹر سے منسلک کیا، پسند کا پروگرام ڈائون لوڈ کیا، پرنٹ کا آپشن پریس کیا، چیز تیار۔ کھلونے، برتن، جوتے یہاں تک کہ کپڑے بھی۔

مستقبل میں مصنوعات کی تیاری کے لیے کارخانوں اور مزدوروں کی ضرورت نہیں پڑنے والی۔ ہر فرد اپنی مرضی کی اشیاء گھر ہی پر تیار کر لیا کرے گا۔ گزشتہ صدی میں ہم نے عالم گیریت کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس میں بڑی بڑی کمپنیاں ایسے ملکوں اور ایسے شہروں میں اپنا سامان تیار کرواتی تھیں جہاں مزدوری کم ہو۔ تا کہ تیاری کی لاگت کم سے کم آئے اور انھیں چیز سستی پڑے۔ عام طور پر یہ مقامات مقامِ صرف سے بہت دور ہوا کرتے تھے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ تھری ڈی پرنٹنگ اس تمام عمل کو کم یا ختم کر دینے والی ثابت ہو گی۔

معروف رسالے ''فوربس'' کا کہنا ہے کہ 2016 تک یہ نئی ٹیکنالوجی 3 ارب ڈالر سے بڑی صنعت ہو گی۔ 2020 تک اس کا حجم 5 ارب ڈالر تک ہونے کی توقعات ہیں۔

جہاں اس ٹیکنالوجی کے حیرت آفریں و مثبت استعمالات سامنے آ رہے ہیں۔ وہیں اس کے منفی استعمالات، احتمالات اور مسائل بھی کچھ کم نہ ہوں گے۔ مثال کے طور پر گھر بیٹھے کوئی بھی فرد خودکار ہتھیار بنا سکے گا۔ اس پرنٹر سے تیار کیے گئے خودکار ہتھیاروں کے کامیاب تجربے کیے جا چکے ہیں۔ اگرچہ اس طرح تیار ہونے والا اسلحہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل ہی میں ہے اور اصل سے مہنگا پڑتا ہے۔ مگر کب تک ، ابھی تو ابتداء ہے۔ دوسرا شدید خطرہ ماحولیاتی ہے۔

صنعتی انقلاب نے اس سیارے کو طرح طرح کی زہر ناکیوں سے بھر دیا ہے۔ صنعتی فُضلے کے علاوہ جدید تہذیب کا شاہ کار ہمارے شہر روزانہ اتنا کچرا اگلتے ہیں کہ اسے ٹھکانے لگانا بجائے خود ایک لاینحل مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ایک صارف معاشرے کی کچرا پیدا کرنے کی صلاحیت حیرت انگیز حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ ان حالات میں اگر صارفین کے ہاتھ ایسے پرنٹر لگ جائیں جو، ان کی مرضی کے موافق انھیں چیزیں بنا بنا کر دیے چلے جائیں تو اندازہ کیجیے کہ آلودگیاں، صنعتی فضلہ اور شہری کچرا مزید کتنا بڑھ جائے گا۔

تھری ڈی پرنٹنگ آپ کے خواب و خیال کی ورچوئل دنیا کو حقیقت میں بدلنے کا نام ہے۔ لیکن اس طلسمِ خیال سے اسلحے، صنعتی فُضلے اور ماحولیاتی آلودگی و زہر ناکی کی تلخ حقیقت بھی وابستہ ہے۔
Load Next Story