حکومت حلقہ بندی بل مفادات کونسل میں لانے سے گھبرا رہی ہےخورشید شاہ
حلقہ بندیوں میں ترمیم کے لیئے مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری آئینی تقاضا ہے، اپوزیشن لیڈر
LONDON:
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس اچانک ختم کرنا پارلیمنٹ سے مذاق ہے اور حکومت نئی حلقہ بندیوں کا بل مشترکہ مفادات کونسل میں لانے سے کیوں گھبرا رہی ہے۔
پارلیمانی رہنماؤں كا اہم اجلاس اسپیكر قومی اسمبلی كی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں پارلیمانی قائدین نے حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم كے حوالے سے تفصیلی جائزہ لیا، اجلاس میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، بیرسٹر ظفراللہ، عبدالقادر بلوچ، مولانا امیر زمان، سید نوید قمر، غلام احمد بلور، شیخ رشید احمد، اعجازالحق، وزارت قانون، الیكشن كمیشن اور وزارت شماریات سمیت دیگر متعلقہ محكموں كے حكام شریك ہوئے۔
اجلاس میں نئی حلقہ بندیوں كے حوالے سے قانون سازی سے متعلق اسپیكر قومی اسمبلی ایاز صادق كا كہنا تھا كہ پہلے دو اجلاسوں میں بعض اختلافی نقاط كے باوجود قانون سازی پر اتفاق ہوا تھا لیكن اب اپوزیشن اپنے اتفاق سے پیچھے ہٹ رہی ہے جب کہ مردم شماری كے عبوری نتائج كے مطابق نئی حلقہ بندیوں پر آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہوا تھا۔
ذرائع كے مطابق اجلاس میں اٹارنی جنرل آف پاكستان اشتر اوصاف نے كمیٹی كو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا كہ اگر حكومت اور اپوزیشن مل كر ترمیم كرلیں تو سپریم كورٹ جانے كی ضرورت نہیں پڑے گی، ورنہ سپریم كورٹ لازماً جانا پڑے گا۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما خورشید شاہ نے پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں الیکشن نہ پہلے ہوں نہ بعد میں بلکہ اپنے وقت پر ہوں، حلقہ بندیوں میں ترمیم کے لیئے مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری آئینی تقاضا ہے لیکن معلوم نہیں حکومت حلقہ بندیوں کامعاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانے سے کیوں گھبرا رہی ہے۔
پی پی پی رہنما کہنا تھا کہ کل طے تھا قومی اسمبلی اجلاس اگلی منگل تک چلے گا، لیکن پھر حکومت نے پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت کے بغیر اچانک کہا کہ منگل کو اجلاس نہیں ہو گا اور بعد میں بلا لیں گے، حکومت کا اس طرح اجلاس ختم کرنا پارلیمنٹ کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت منگل کو اجلاس کرنے سے ہچکچا رہی تھی کیونکہ سینیٹ سے منظور الیکشن ترمیمی بل اجلاس میں پیش ہونا تھا۔
اس موقع پر نوید قمر کا کہنا تھا کہ حکومت غلط بیانی کر رہی ہے کہ موجودہ صورتحال میں پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن نہیں ہو سکتے، جب تک نئی مردم شماری کے نتائج جاری نہیں ہوتے تب تک پرانی حلقہ بندیاں مؤثر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئینی تقاضا ہے کہ مردم شماری کے نتائج جاری ہونے کے بعد نئی حلقہ بندیاں کی جائیں۔
تحریك انصاف كے پارلیمانی لیڈر مخدوم شاہ محمود قریشی نے كہا كہ پی ٹی آئی جمہوریت كا تسلسل اور بروقت انتخابات چاہتی ہے، جب حكومت كی كاركردگی ختم ہو جائے تو قبل از وقت انتخابات كا تقاضا آئینی ہوتا ہے۔ انہوں نے كہا كہ اجلاس میں ہم نے اسپیكر سے پوچھا كہ آپ نے قومی اسمبلی كا اجلاس كیوں ملتوی كیا تو انہوں نے جواب دیا كہ یہ حكومت نے ملتوی كیا، مسلم لیگ(ن)كا ایك گروپ نااہل شخص كو پارٹی صدر بنانے پر بھی متفق نہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاكستان كے سربراہ ڈاكٹر فاروق ستار نے اس موقع پر كہا كہ عام انتخابات میں تاخیر كی ذمہ داری مسلم لیگ(ن)پر عائد ہو گی كیونكہ اس نے مردم شماری میں بہت دیر كردی۔اگر اعداد و شمار لیں تو معلوم ہو گا كہ كراچی كی آبادی دو كروڑ تک ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس اچانک ختم کرنا پارلیمنٹ سے مذاق ہے اور حکومت نئی حلقہ بندیوں کا بل مشترکہ مفادات کونسل میں لانے سے کیوں گھبرا رہی ہے۔
پارلیمانی رہنماؤں كا اہم اجلاس اسپیكر قومی اسمبلی كی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں پارلیمانی قائدین نے حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم كے حوالے سے تفصیلی جائزہ لیا، اجلاس میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، بیرسٹر ظفراللہ، عبدالقادر بلوچ، مولانا امیر زمان، سید نوید قمر، غلام احمد بلور، شیخ رشید احمد، اعجازالحق، وزارت قانون، الیكشن كمیشن اور وزارت شماریات سمیت دیگر متعلقہ محكموں كے حكام شریك ہوئے۔
اجلاس میں نئی حلقہ بندیوں كے حوالے سے قانون سازی سے متعلق اسپیكر قومی اسمبلی ایاز صادق كا كہنا تھا كہ پہلے دو اجلاسوں میں بعض اختلافی نقاط كے باوجود قانون سازی پر اتفاق ہوا تھا لیكن اب اپوزیشن اپنے اتفاق سے پیچھے ہٹ رہی ہے جب کہ مردم شماری كے عبوری نتائج كے مطابق نئی حلقہ بندیوں پر آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہوا تھا۔
ذرائع كے مطابق اجلاس میں اٹارنی جنرل آف پاكستان اشتر اوصاف نے كمیٹی كو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا كہ اگر حكومت اور اپوزیشن مل كر ترمیم كرلیں تو سپریم كورٹ جانے كی ضرورت نہیں پڑے گی، ورنہ سپریم كورٹ لازماً جانا پڑے گا۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما خورشید شاہ نے پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں الیکشن نہ پہلے ہوں نہ بعد میں بلکہ اپنے وقت پر ہوں، حلقہ بندیوں میں ترمیم کے لیئے مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری آئینی تقاضا ہے لیکن معلوم نہیں حکومت حلقہ بندیوں کامعاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانے سے کیوں گھبرا رہی ہے۔
پی پی پی رہنما کہنا تھا کہ کل طے تھا قومی اسمبلی اجلاس اگلی منگل تک چلے گا، لیکن پھر حکومت نے پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت کے بغیر اچانک کہا کہ منگل کو اجلاس نہیں ہو گا اور بعد میں بلا لیں گے، حکومت کا اس طرح اجلاس ختم کرنا پارلیمنٹ کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت منگل کو اجلاس کرنے سے ہچکچا رہی تھی کیونکہ سینیٹ سے منظور الیکشن ترمیمی بل اجلاس میں پیش ہونا تھا۔
اس موقع پر نوید قمر کا کہنا تھا کہ حکومت غلط بیانی کر رہی ہے کہ موجودہ صورتحال میں پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن نہیں ہو سکتے، جب تک نئی مردم شماری کے نتائج جاری نہیں ہوتے تب تک پرانی حلقہ بندیاں مؤثر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئینی تقاضا ہے کہ مردم شماری کے نتائج جاری ہونے کے بعد نئی حلقہ بندیاں کی جائیں۔
تحریك انصاف كے پارلیمانی لیڈر مخدوم شاہ محمود قریشی نے كہا كہ پی ٹی آئی جمہوریت كا تسلسل اور بروقت انتخابات چاہتی ہے، جب حكومت كی كاركردگی ختم ہو جائے تو قبل از وقت انتخابات كا تقاضا آئینی ہوتا ہے۔ انہوں نے كہا كہ اجلاس میں ہم نے اسپیكر سے پوچھا كہ آپ نے قومی اسمبلی كا اجلاس كیوں ملتوی كیا تو انہوں نے جواب دیا كہ یہ حكومت نے ملتوی كیا، مسلم لیگ(ن)كا ایك گروپ نااہل شخص كو پارٹی صدر بنانے پر بھی متفق نہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاكستان كے سربراہ ڈاكٹر فاروق ستار نے اس موقع پر كہا كہ عام انتخابات میں تاخیر كی ذمہ داری مسلم لیگ(ن)پر عائد ہو گی كیونكہ اس نے مردم شماری میں بہت دیر كردی۔اگر اعداد و شمار لیں تو معلوم ہو گا كہ كراچی كی آبادی دو كروڑ تک ہے۔