پاکستانی ماہرین نے گہرے زخم بھرنے والی مصنوعی جلد تیار کرلی
نینوذرات پر مشتمل ہائیڈروجیل پیوند خون کی نئی رگوں کی افزائش کرکے زخم تیزی سے مندمل کرسکتے ہیں۔
پاکستانی سائنسدانوں نے نینو ذرات پر مشتمل مصنوعی جلد تیار کی ہے جو تیزی سے خون کی نئی رگیں اگا کر جھلسی ہوئی جلد اور گہرے زخموں کو مندمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
لاہور میں واقع کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی (سی آئی آئی ٹی) کے ذیلی ادارے 'انٹر ڈسپلنری ریسرچ سینٹران بایومیڈیکل مٹیریلز (آئی آر سی بی ایم) کے ڈاکٹر محمد یار اور ان کے رفقائے تحقیق نے ہائیڈروجل میں زنک آکسائیڈ اور زنک پرآکسائیڈ نینو ذرات شامل کرکے اسے تجربہ گاہ میں آزمایا ہے۔ واضح رہے کہ ہائیڈروجل دو قدرتی پالیمرز کے تانے بانے سے تیار کیا گیا ہےجو فطرت میں عام پائے جاتے ہیں۔
اس متبادل جلد کے ذریعے پہلے سے موجود رگیں بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں اور ان میں خون کا بہاؤ شروع ہوجاتا ہے۔ جب خون اور دیگر غذائی اجزا آگے پہنچتے ہیں تو زخم بھرنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح گہرے زخموں تک آکسیجن پہنچتی ہیں اور جلد و ٹشوز بننا شروع ہوجاتے ہیں۔ نئی رگیں بننے کا یہ عمل سائنسی زبان میں 'اینجیوجنیسِس' کہلاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد یار اور ان کی ٹیم نے ہائیڈروجل پر مبنی مصنوعی جلد کو مرغی کے ایسے بارآور (فرٹیلائزڈ) انڈوں پر آزمایا جنہیں آٹھ روز تک انکیوبیٹر میں رکھا گیا تھا۔ اس کے لیے انڈے کے بیرونی چھلکے کو احتیاط سے کاٹا گیا اور اندر بنتے ہوئے چوزوں کی ایک نفوذ پذیر جھلی پر ہائیڈروجل لگائے گئے ۔ یہ جھلی کوریوایلنٹوئک میمبرین کہلاتی ہے جو مصنوعی جلد کی افادیت ناپنے کا ایک مسلمہ طریقہ ہے۔ یہ طریقہ سی اے ایم ماڈل بھی کہلاتا ہے جو دنیا بھر میں استعمال ہوتا ہے۔ جھلی لگانے کے بعد احتیاط سے انڈوں کو بند کردیا گیا اور انہیں 37 درجے سینٹی گریڈ اور 55 فیصد نمی والے ماحول میں رکھا گیا۔ اس کے بعد جب انڈوں کو دوبارہ دیکھا گیا تو اس میں خون کی رگیں بننے لگی تھیں۔
واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں کھال کے متبادل پیوند بہت کمیاب ہیں اور ان کی قیمت بہت ذیادہ ہے۔ اکثر اوقات یہ اپنی کارکردگی میں ناکام ہوجاتے ہیں ۔ ایسے پیوند کو عام حالات میں رکھا نہیں جاسکتا اور وہ بسا اوقات نئی رگیں بنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ لیکن پاکستانی ماہرین کی یہ نئی کاوش ایک جانب تو کم خرچ اور جدید ہے جبکہ دستیاب خام مال سے انہیں تیار کیا جاسکتا ہے اور یہ خون کی نئی رگیں بناسکتےہیں۔
حیرت انگیز ہائیڈروجلز
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا کہ تھری ڈی ہائیڈروجل بایوپالیمرز کی مچان (میٹرکس) اور نینوپارٹیکلز سے تیار کیے گئے ہیں۔ جیلی جیسے ہائیڈروجل اپنے اندر پانی کی بڑی مقدار سموسکتے ہیں۔ واضح رہے پالیمر پودوں سے حاصل کیا گیا ہے جو غیر مضر اور کم خرچ ہے۔ جبکہ دوسرا بایوپالیمر سمندری جانوروں کے خول سے اخذ کردہ ہے جنہیں پاکستان میں بے کار سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ پالیمرز سے ہائیڈروجل بناکر اس میں نینو ذرات بھرے گئے ہیں اور یوں پیوند مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد پیوند کو کئی حیاتیاتی اور کیمیائی ٹیسٹ سے بھی گزارا گیا تاکہ اس کی افادیت کو جانچا جاسکے۔
زنک آکسائیڈ اور زنک پرآکسائیڈ نینو ذرات جسامت میں چند نینو میٹرز تک رکھی گئی ہے۔ اسے یوں سمجھئے کہ اگر ایک میٹر دھاگے کے ایک ارب برابر ٹکڑے کئے جائیں تو ہر ٹکڑا ایک نینومیٹر کہلائے گا یعنی ایک نینومیٹر لمبا ہوگا۔ اس کے باوجود یہ حیاتیاتی سرگرمی اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں اور ان کا سطحی رقبہ بھی ذیادہ ہوتا ہے۔
دونوں اقسام کے ذرات دھاتی آکسائیڈز پر مشتمل ہیں اور پہلے ہی ادویہ اور کارخانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ زنک آکسائیڈزبیکٹیریا کے خلاف مؤثر پائے گئے ہیں اور انہیں آلودہ اور خراب زخموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کی افادیت جاننے کا ایک طریقہ سی اے ایم ایسے کہلاتا ہے جس کا اوپر تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔
اس کے بعد ہائیڈروجل پیوند کی افادیت اور انجیوجنیسس کو جاننے کے لیے خاص طرح کی اسکیننگ ٹننلگ مائیکروسکوپ اور دیگر طریقے استعمال کیے گئے۔ ماہرین کے لیے یہ خوشی کا لمحہ تھا جب اس نے تیزی سے زخم بھرے ۔ تاہم زنک آکسائیڈ نینوذرات کے مقابلے میں زنک پرآکسائیڈ نینو ذرات نے بہتر کارکردگی دکھائی اور خون کی نالیوں کی افزائش میں مددگار ثابت ہوئے ۔ اس لحاظ سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی دریافت بھی ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ٹشوانجینیئرنگ کے تحت بنائے جانے والے پیوند میں تین خواص کا ہونا لازمی ہے۔ اول وہ خون کی رگیں بناسکیں، وقت پر ازخود گھل کر ختم ہوسکے اور سوم کسی قسم کے زہریلے اثرات اس میں نہ پائے جاتے ہوں۔ آئی آر سی بی ایم کے پیوند میں یہ تینوں خاصیتیں ہیں جو جلنے کے بعد گہرے زخموں والے مریضوں کے لیے امید کی ایک کرن بن سکتی ہے۔
تجربہ گاہ سے مریض تک
اگلے مرحلے میں ہائیڈروجل کو براہِ راست انسانوں پر آزمایا جائے گا جس کی کامیابی کے بعد اسے تجارتی سطح پر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ ڈاکٹر محمد یار نے بتایا کہ ' میری اس تحقیق کا سب سے مشکل کام ایسے کم خرچ اور مصنوعی جلد کی تیاری تھا جس سے پاکستان میں جھلسے ہوئے مریض فائدہ اٹھاسکیں۔ یہ صرف اسی صورت ممکن تھا کہ ملکی خام مال کو استعمال کرتےہوئے مصنوعی جلد بنائی جاسکے۔'
ڈاکٹر محمد یار نے بتایا کہ اس تحقیق میں پاکستان کے ممتاز پلاسٹک سرجن سے قریبی روابط ہیں تاکہ وہ اس کے نتائج کا بغور جائزہ لے سکیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سال 2016 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں ہرسال 265,000 افراد جھلس کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں 50 فیصد جلد جھلسنے والے مریضوں کی 98 فیصد تعداد ہلاک ہوجاتی ہے۔ اسی لیے پاکستانی آبادی کو مصنوعی جلد کی اشد ضرورت ہے تاکہ کم خرچ مصنوعی پیوند کے ذریعے ان کی جان بچائی جاسکے۔
میو ہسپتال لاہور میں پلاسٹک اور برن یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر مستحسن بشیر کہتے ہیں کہ مصنوعی جلد کی تحقیقات ایک مستند بین الاقوامی جریدے میں شائع ہوئی ہیں جو اس کی افادیت ظاہر کرنے کی ایک سند ہے۔ تاہم ضرورت ہے کہ انسانوں پر آزمائش سے قبل اسے جانوروں پر مزید آزمانے کی ضرورت ہے۔
کامسیٹس میں آئی آر سی بی ایم کے سربراہ ڈاکٹر عاکف انور چوہدری کے مطابق ان کے ادارے میں 20 سے زائد ایسے ماہرین کام کررہے ہیں جنہوں نے بین الاقوامی ممالک سے ڈاکٹریٹ کی ہے ۔ نوجوان سائنسدانوں کی یہ ٹیم کئی اہم شعبوں پر کام کررہی ہے جن میں ہڈیوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ ٹشوز کی دوبارہ افزائش (ری جنریشن)، دانتوں کے مٹیریلز اورطب کے لیے بایوسینسرز کی تیاری جیسے اہم امور شامل ہیں۔ مزید اشتراک و تعاون اور مالی معاونت سے ہی یہ تحقیق مریض کی رسائی تک پہنچ سکتی ہے۔
اس وقت بازار میں ایف ڈی اے سے منظور شدہ واحد مصنوعی جلد انٹیگرا استعمال ہورہی ہے جس کے چار مربع سینٹی میٹر پیوند کی قیمت قریباً 80 ہزار روپے ہے جو امیر ترین افراد کی بھی دسترس سے باہر ہے۔ اگر مصنوعی جلد کا کوئی کم خرچ متبادل سامنے آتا ہے تو یہ ایک بہت اہم سنگِ میل ہوگا۔
بین الاقوامی پیٹنٹ
اس سے قبل ڈاکٹر محمد یار کی ٹیم نے اپنی ایجاد پر ملکی اور امریکی پیٹنٹ حاصل کی ہے جس کے تحت زخموں کو مندمل کرنے کا ایک اور پیوند بنایا گیا تھا جو خون کی نالیوں کی افزائش کرکے زخموں کو تیزی سے مندمل کرنےکی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پیوند کو تجربہ گاہ میں چوہوں پر آزمایا گیا تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ اب اس کی انسانوں پر آزمائش کی کوشش کی جارہی ہے اور اس ضمن میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) سے ایک کروڑ چالیس لاکھ کی گرانٹ بھی مل چکی ہے۔ یہ فنڈ ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ فنڈ کےتحت جاری کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر یارمحمد کی مصنوعی جلد کی مزید تفصیل اس تحقیقی مقالے میں دیکھی جاسکتی ہے۔
لاہور میں واقع کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی (سی آئی آئی ٹی) کے ذیلی ادارے 'انٹر ڈسپلنری ریسرچ سینٹران بایومیڈیکل مٹیریلز (آئی آر سی بی ایم) کے ڈاکٹر محمد یار اور ان کے رفقائے تحقیق نے ہائیڈروجل میں زنک آکسائیڈ اور زنک پرآکسائیڈ نینو ذرات شامل کرکے اسے تجربہ گاہ میں آزمایا ہے۔ واضح رہے کہ ہائیڈروجل دو قدرتی پالیمرز کے تانے بانے سے تیار کیا گیا ہےجو فطرت میں عام پائے جاتے ہیں۔
اس متبادل جلد کے ذریعے پہلے سے موجود رگیں بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں اور ان میں خون کا بہاؤ شروع ہوجاتا ہے۔ جب خون اور دیگر غذائی اجزا آگے پہنچتے ہیں تو زخم بھرنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح گہرے زخموں تک آکسیجن پہنچتی ہیں اور جلد و ٹشوز بننا شروع ہوجاتے ہیں۔ نئی رگیں بننے کا یہ عمل سائنسی زبان میں 'اینجیوجنیسِس' کہلاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد یار اور ان کی ٹیم نے ہائیڈروجل پر مبنی مصنوعی جلد کو مرغی کے ایسے بارآور (فرٹیلائزڈ) انڈوں پر آزمایا جنہیں آٹھ روز تک انکیوبیٹر میں رکھا گیا تھا۔ اس کے لیے انڈے کے بیرونی چھلکے کو احتیاط سے کاٹا گیا اور اندر بنتے ہوئے چوزوں کی ایک نفوذ پذیر جھلی پر ہائیڈروجل لگائے گئے ۔ یہ جھلی کوریوایلنٹوئک میمبرین کہلاتی ہے جو مصنوعی جلد کی افادیت ناپنے کا ایک مسلمہ طریقہ ہے۔ یہ طریقہ سی اے ایم ماڈل بھی کہلاتا ہے جو دنیا بھر میں استعمال ہوتا ہے۔ جھلی لگانے کے بعد احتیاط سے انڈوں کو بند کردیا گیا اور انہیں 37 درجے سینٹی گریڈ اور 55 فیصد نمی والے ماحول میں رکھا گیا۔ اس کے بعد جب انڈوں کو دوبارہ دیکھا گیا تو اس میں خون کی رگیں بننے لگی تھیں۔
واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں کھال کے متبادل پیوند بہت کمیاب ہیں اور ان کی قیمت بہت ذیادہ ہے۔ اکثر اوقات یہ اپنی کارکردگی میں ناکام ہوجاتے ہیں ۔ ایسے پیوند کو عام حالات میں رکھا نہیں جاسکتا اور وہ بسا اوقات نئی رگیں بنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ لیکن پاکستانی ماہرین کی یہ نئی کاوش ایک جانب تو کم خرچ اور جدید ہے جبکہ دستیاب خام مال سے انہیں تیار کیا جاسکتا ہے اور یہ خون کی نئی رگیں بناسکتےہیں۔
حیرت انگیز ہائیڈروجلز
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا کہ تھری ڈی ہائیڈروجل بایوپالیمرز کی مچان (میٹرکس) اور نینوپارٹیکلز سے تیار کیے گئے ہیں۔ جیلی جیسے ہائیڈروجل اپنے اندر پانی کی بڑی مقدار سموسکتے ہیں۔ واضح رہے پالیمر پودوں سے حاصل کیا گیا ہے جو غیر مضر اور کم خرچ ہے۔ جبکہ دوسرا بایوپالیمر سمندری جانوروں کے خول سے اخذ کردہ ہے جنہیں پاکستان میں بے کار سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ پالیمرز سے ہائیڈروجل بناکر اس میں نینو ذرات بھرے گئے ہیں اور یوں پیوند مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد پیوند کو کئی حیاتیاتی اور کیمیائی ٹیسٹ سے بھی گزارا گیا تاکہ اس کی افادیت کو جانچا جاسکے۔
زنک آکسائیڈ اور زنک پرآکسائیڈ نینو ذرات جسامت میں چند نینو میٹرز تک رکھی گئی ہے۔ اسے یوں سمجھئے کہ اگر ایک میٹر دھاگے کے ایک ارب برابر ٹکڑے کئے جائیں تو ہر ٹکڑا ایک نینومیٹر کہلائے گا یعنی ایک نینومیٹر لمبا ہوگا۔ اس کے باوجود یہ حیاتیاتی سرگرمی اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں اور ان کا سطحی رقبہ بھی ذیادہ ہوتا ہے۔
دونوں اقسام کے ذرات دھاتی آکسائیڈز پر مشتمل ہیں اور پہلے ہی ادویہ اور کارخانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ زنک آکسائیڈزبیکٹیریا کے خلاف مؤثر پائے گئے ہیں اور انہیں آلودہ اور خراب زخموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کی افادیت جاننے کا ایک طریقہ سی اے ایم ایسے کہلاتا ہے جس کا اوپر تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔
اس کے بعد ہائیڈروجل پیوند کی افادیت اور انجیوجنیسس کو جاننے کے لیے خاص طرح کی اسکیننگ ٹننلگ مائیکروسکوپ اور دیگر طریقے استعمال کیے گئے۔ ماہرین کے لیے یہ خوشی کا لمحہ تھا جب اس نے تیزی سے زخم بھرے ۔ تاہم زنک آکسائیڈ نینوذرات کے مقابلے میں زنک پرآکسائیڈ نینو ذرات نے بہتر کارکردگی دکھائی اور خون کی نالیوں کی افزائش میں مددگار ثابت ہوئے ۔ اس لحاظ سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی دریافت بھی ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ٹشوانجینیئرنگ کے تحت بنائے جانے والے پیوند میں تین خواص کا ہونا لازمی ہے۔ اول وہ خون کی رگیں بناسکیں، وقت پر ازخود گھل کر ختم ہوسکے اور سوم کسی قسم کے زہریلے اثرات اس میں نہ پائے جاتے ہوں۔ آئی آر سی بی ایم کے پیوند میں یہ تینوں خاصیتیں ہیں جو جلنے کے بعد گہرے زخموں والے مریضوں کے لیے امید کی ایک کرن بن سکتی ہے۔
تجربہ گاہ سے مریض تک
اگلے مرحلے میں ہائیڈروجل کو براہِ راست انسانوں پر آزمایا جائے گا جس کی کامیابی کے بعد اسے تجارتی سطح پر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ ڈاکٹر محمد یار نے بتایا کہ ' میری اس تحقیق کا سب سے مشکل کام ایسے کم خرچ اور مصنوعی جلد کی تیاری تھا جس سے پاکستان میں جھلسے ہوئے مریض فائدہ اٹھاسکیں۔ یہ صرف اسی صورت ممکن تھا کہ ملکی خام مال کو استعمال کرتےہوئے مصنوعی جلد بنائی جاسکے۔'
ڈاکٹر محمد یار نے بتایا کہ اس تحقیق میں پاکستان کے ممتاز پلاسٹک سرجن سے قریبی روابط ہیں تاکہ وہ اس کے نتائج کا بغور جائزہ لے سکیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سال 2016 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں ہرسال 265,000 افراد جھلس کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں 50 فیصد جلد جھلسنے والے مریضوں کی 98 فیصد تعداد ہلاک ہوجاتی ہے۔ اسی لیے پاکستانی آبادی کو مصنوعی جلد کی اشد ضرورت ہے تاکہ کم خرچ مصنوعی پیوند کے ذریعے ان کی جان بچائی جاسکے۔
میو ہسپتال لاہور میں پلاسٹک اور برن یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر مستحسن بشیر کہتے ہیں کہ مصنوعی جلد کی تحقیقات ایک مستند بین الاقوامی جریدے میں شائع ہوئی ہیں جو اس کی افادیت ظاہر کرنے کی ایک سند ہے۔ تاہم ضرورت ہے کہ انسانوں پر آزمائش سے قبل اسے جانوروں پر مزید آزمانے کی ضرورت ہے۔
کامسیٹس میں آئی آر سی بی ایم کے سربراہ ڈاکٹر عاکف انور چوہدری کے مطابق ان کے ادارے میں 20 سے زائد ایسے ماہرین کام کررہے ہیں جنہوں نے بین الاقوامی ممالک سے ڈاکٹریٹ کی ہے ۔ نوجوان سائنسدانوں کی یہ ٹیم کئی اہم شعبوں پر کام کررہی ہے جن میں ہڈیوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ ٹشوز کی دوبارہ افزائش (ری جنریشن)، دانتوں کے مٹیریلز اورطب کے لیے بایوسینسرز کی تیاری جیسے اہم امور شامل ہیں۔ مزید اشتراک و تعاون اور مالی معاونت سے ہی یہ تحقیق مریض کی رسائی تک پہنچ سکتی ہے۔
اس وقت بازار میں ایف ڈی اے سے منظور شدہ واحد مصنوعی جلد انٹیگرا استعمال ہورہی ہے جس کے چار مربع سینٹی میٹر پیوند کی قیمت قریباً 80 ہزار روپے ہے جو امیر ترین افراد کی بھی دسترس سے باہر ہے۔ اگر مصنوعی جلد کا کوئی کم خرچ متبادل سامنے آتا ہے تو یہ ایک بہت اہم سنگِ میل ہوگا۔
بین الاقوامی پیٹنٹ
اس سے قبل ڈاکٹر محمد یار کی ٹیم نے اپنی ایجاد پر ملکی اور امریکی پیٹنٹ حاصل کی ہے جس کے تحت زخموں کو مندمل کرنے کا ایک اور پیوند بنایا گیا تھا جو خون کی نالیوں کی افزائش کرکے زخموں کو تیزی سے مندمل کرنےکی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پیوند کو تجربہ گاہ میں چوہوں پر آزمایا گیا تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ اب اس کی انسانوں پر آزمائش کی کوشش کی جارہی ہے اور اس ضمن میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) سے ایک کروڑ چالیس لاکھ کی گرانٹ بھی مل چکی ہے۔ یہ فنڈ ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ فنڈ کےتحت جاری کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر یارمحمد کی مصنوعی جلد کی مزید تفصیل اس تحقیقی مقالے میں دیکھی جاسکتی ہے۔